فہمیدہ ریاض: تانیثیت سے رد ِنوآبادیات تک/ڈاکٹر اشرف لون

تانیثیت ایک وسیع اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح یا موضوع پر سیکڑوں کتابیں اور مضامین لکھے گئے ہیں۔ تانیثیت دراصل عورتوں کے حقوق اور ان کی عملی زندگی میں جدوجہد سے عبارت ہے۔ تانیثیت کے مطابق پدرسری سماج میں مرد نے ہمیشہ عورتوں کا استحصال کیا ہے اور ادب اور دوسرے فنون و علوم میں دوسرے درجے کی مخلوق بناکر پیش کیا اور یہ کہ تانیثیت اس رویے کے خلاف ایک احتجاج ہے۔ تانیثیت کے مطابق ایک عورت کو سماج میں تعلیمی، اقتصادی، پسند کا پیشہ چُننے او ر سیاسی معاملات میں آزادی ہونی چاہیے۔
اردو ادب میں بھی تانیثیت کے ابتدائی نقوش انیسویں صدی کے آخرمیں دکھائی دینے لگے تھے اور باقائدہ طور پر تانیثیت کے نظریات نے بیسویں صدی کی ابتداء میں راہ پائی۔ عصمت چغتائی، رشید جہاں، قراۃ العین حیدر وغیرہ نے عورتوں کے مسائل کو موضوع بنایا ۔ شاعرات میں ادا جعفری ، زہرہ نگاہ، کشور ناہید ، پروین شاکر، نسرین انجم بھٹی اور فہمیدہ ریاض کے نام قابل ذکر ہیں۔
فہمیدہ ریاض کا شمار ناصرف اردو کی بڑی شاعرات میں ہوتا ہے بلکہ دنیائے ادب میں ان کا نام بڑے احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ انہوں نے جس ہنرمندی اور فنکاری کے ساتھ عور ت بالخصوص مشرقی عورت کے مسائل کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے ۔ فہمیدہ ریاض نے نا صرف آمرانہ رویوں کے خلاف آواز اٹھائی انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے عورت کو جینے اور جدوجہد کرنے کا حوصلہ عطاکیا۔ یہ شاعری نا صرف عورت کی مجبوریوں کو سامنے لاتی ہیں بلکہ اس میں عورت کی خواہشات اور آزادی سے جینے کی آرزو بھی چھپی ہوئی ہے۔

فہمیدہ ریاض نے ترجمے بھی کیے اور چند ناول بھی لکھے لیکن ادب یادنیائے ادب میں ان کا بنیادی حوالہ نظم ہے۔ اپنی نظموں کے ذریعے انہوں نے عورت کی محرومیوں کو موضوع بنایا اورپرانی روایت سے ہٹ کر ایک نئی روایت قائم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس تصور پر سوال اٹھائے جس کے تحت عورت کے جسم کی قدر تو ہوتی ہے لیکن جب اس کے ذہن کی بات آتی ہے تو اسے طنز یا تمسخر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور یوں عورت کو تفریح کی خاطر تزئین و آرائش کا سامان بنایا جاتا ہے جو بعد میں عورت کے استحصال کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔ فہمیدہ ریاض فرسودہ رسوم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں:
میرے اور تمہارے بیچ
اس نیلی چادر کے سوا کچھ بھی تو نہیں
پھر یہ اکیلا کہرا میرے دل پر کیسے اتر رہا ہے
یہ گہرا سناٹا کیا ہے
ہر لمحہ کیوں سمٹ رہا ہے
جو کچھ میرے دل میں ہے وہ رسموں کے رشتے سے ورا ہے
رسموں کا یہ رشتہ دیواروں سے ہم کو جھانک رہا ہے
گہرا سانس نہیں لے سکتی
میں بے چین ہوئی جاتی ہوں
(نظم : میرے اور تمہارے بیچ)
اس نظم میں رسموں سے مراد مرد اور عورت کے درمیان گھٹن بھرا رشتہ بھی ہوسکتا ہے اور ان رسموں کی طرف بھی اشارہ جن کے تحت ایک عورت کو سوچنے اور اپنے بارے میں فیصلہ لینے سے روک کر رکھا گیا ہے۔
اپنی ایک نظم ‘‘ ایک عورت کی ہنسی’’ میں عورت کو آزادی اور احتجاج کی دعوت دیتی ہیں:
پتھریلے کوہسار گاتے چشموں میں
گونج رہی ہے ایک عورت کی نرم ہنسی
دولت، طاقت اور شہرت ، سب کچھ بھی نہیں
اس کے بدن میں چھپی ہے اس کی آزادی
دنیا کے معبد کے نئے بت کچھ کرلیں
سُن نہیں سکتے اس کی لذت سسکی
اس بازار میں گو، ہر مال بکاؤ ہے
کوئی خرید کے لائے تو ذرا تسکین اس کی
اک سرشاری جس سے وہ ہی واقف ہے
چاہے بھی تو اس کو بیچ نہیں سکتی
وادی کی آوارہ ہواؤ آجاؤ
آؤ اور اس کے چہرے پر بوسے دو
اپنے لمبے لمبے بال اڑاتی جائے
حوا کی بیٹی ، ساتھ ہوا کے گاتی جائے

خالدہ حسین نے فہمیدہ ریاض کی شاعری پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے:
‘‘ فہمیدہ عورت کے جسم کو اس کی سائیکی میں بنیادی اہمیت دیتی ہے کیونکہ اس کے راستے عورت کی روح اور اس کے ذہن کے دروازے کھولتے ہیں ۔ وہ جسے ہم تاریکی اور موت سمجھتے ہیں روشنی اور وجود کی سرحد ہے’’ ۵؂

نظم ‘‘زبانوں کا بوسہ’’ میں اس خیال کی بھرپور عکاسی کی گئی ہیں:
مجھے ایسا لگتا ہے
تاریکیوں کے لرزتے ہوئے پل کو
میں پار کرتی چلی جارہی ہوں
یہ پل ختم ہونے کو ہے
اور اب
اس کے آگے
کہیں روشنی ہے۔

فہمیدہ نے ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ روا رکھے گئے امتیازی سلوک اور تفریق کو تنقید کا نشان بنایا ۔ وہ عورت کو اس کا حق دلانے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے اکساتی ہیں ۔ وہ بیباک ہیں لیکن ان کے یہاں کوئی نعرے بازی نہیں بلکہ بڑے ہی دھیمے انداز میں انہوں نے اپنی نظموں میں عورت کے مسائل اور اس کے ارمانوں کی عکاسی کی ہے۔
فہمیدہ ریاض نے عورت کو اپنا وجود اور اپنی شناخت منوانے کی ترغیب دی۔ انہوں نے اپنی نظموں میں ان مسائل کو چھوا جن تک اس سے پہلے اردو شاعرات یا شاعروں کی کم ہی نظر گئی تھی۔ اور ہمیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ جس عورت کو اردو ادب میں اس سے پہلے پیش کیا جارہا تھا انہوں نے اُس تصور کو چیلنج کیا کہ باقی ادب کے مطالعے اور دنیا کی متعدد تانیسی شاعرات کا مطالعے کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچ گئی تھی کہ ہمارے ادب میں آج تک جس عورت کو پیش کیا جارہا ہے وہ مظلوم و مجبور ہے ۔ ہمیں اس رویے کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔ فاطمہ حسن نے کتاب ‘‘فیمنزم اور ہم’’ میں اس حقیقت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:
‘‘نسائی ادب کے حوالے سے فہمیدہ ریاض کی شاعری ایک نئے طرز احساس کی جانب سفرکرتی نظر آتی ہے جس میں عورت کے اپنے وجود کا بھرپور احساس نمایاں ہے۔ فہمیدہ کی عورت دوسروں کے وجود کا سایہ نہیں بلکہ مکمل شخصیت کے طور پر ابھرتی ہے۔ انھوں نے روایتی رویوں سے کنارہ کشی کی اور ایک نئی فضا میں سانس لینے کی کوشش کی ۔’’

نوآبادیات میں استعماری طاقتوں نے عورت کو جس طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنایا او ر انہیں صرف دوسرے درجے کا شہری بناکر پیش کیا گیا اس کی مثالیں دنیا کے ہر خطے میں پھیلی ہیں۔ عورت کو غلامی کے ساتھ ساتھ عصمت دری ، عصمت فروشی اور دوسرے کئی طریقوں سے اس کا استحصال کیا گیا۔ اور مشرقی عورت کی کلیشے کی حیثیت ہوکر رہ گئی اور وہ تضحیک کا نشانہ بنائی گئی۔ فرانز فینن نے بھی کتاب ‘‘مرتا ہوا نوآبادیات’’ میں اس طرف اشارہ کیا جس میں نوآبادکاروں نے الجزائر کو ایک پردہ نشین عورت سے تشبیہہ دی ہے جسے نوآبادکار بے حجاب کرنے کی دھمکی دے رہا ہواور بعد میں بقول اسد علوی ریتا فالکر نے اسے ریپ کا استعارہ قرار دیا ۔ فرانز فینن کے مطابق الجزائر کی عورت نے انقلاب کی خاطر حجاب کو چھوڑا اور فرانس کے خلاف انقلاب میں حصہ لیا۔ اور اس طرح حجاب کو ہٹانے کا یہ فیصلہ الجزائر کی جنگ میں کارآمد ثابت ہوا اور جس حجاب کو ہٹانے کو فرانس نے اپنی فتح سے تعبیر کیا تھا وہ اس کے لیے گھاٹے کا سودا ثابت ہوا۔

وہیں سابق نوآبادیاتی ممالک میں عورت کو بڑے ظلم سہنے پڑے ۔ برصغیر کی تقسیم سے دونوں حصوں کی عورتوں کی عصمت ریزیاں ہوئیں۔ عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ فہمیدہ نے حکمرانوں کے خلاف بھی آواز بلند کی جو مابعد نوآبادیاتی مملکت میں عورتوں کی سیاسی، تعلیمی، معاشی ومعاشرتی زندگی کے لیے نئے اور خود ساختہ اصول مرتب کررہے تھے اور اس میں پدرسری سماج کا بڑا دخل تھا۔

فہمیدہ ریاض نے مابعد نوآبادیاتی تانیثی تھیوری کے بارے میں پڑھا تھا ۔ وہ جانتی تھیں کہ مابعد نوآبادیاتی ریاستوں میں عورتوں کو کن مسائل و مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے سفید فام تانیثی ڈسکورس سے خود کو الگ پایا اور اپنے جذبات و احساسات ایک مشرقی عورت کے بطور پیش کیے ۔ بقول اسد علوی عالمی تانیثی تحریک کا حصہ بننے کے بعد انہوں نے رد نوآبادیات کے تحت اسلامو فیلیا اور ہندو فیلیا کی کئی شکلوں پر تنقید کی۔ گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ ء امریکہ پر حملے بعد ابھرنے والے اسلامو فوبیا پر بھی تنقید کی اور عالمی مالیاتی ادارے (IMF) اور امریکی سامراجیت پر بھی تنقید کی اور ان موضوعات پر کئی نظمیں لکھیں :

بے پناہ طاقت نے؍

اک نظام کی تجویز ؍

بے شمار کمزوروں ؍

کے لیے مرتب کی ؍

بے پناہ طاقت نے ؍

اس پہ کتنی محنت کی!
بد شعار یہ کمزور ؍

اس قدر نکمے ہیں؍

تنگ و فقر و فاقہ ہیں؍

جفتیوں کے شائق ہیں ؍

جیب میں نہیں کوڑی ؍

گیت سنتے رہتے ہیں؍
بے پناہ طاقت سے ؍

سر ہلا کے کہتے ہیں؍ واہ کیا لیاقت ہے!
کس طرح رہیں ہم لوگ؍

بس انہیں مسائل کی؍

خاک چھانتے ہیں آپ؍

آرزو کریں ہم کیا؍ ہم سے سوگنا کیا؍
خوب جانتے ہیں آپ!
بدلحاظ نا شکرے؍

گندگی میں بستے ہیں؍

بے پناہ طاقت پر؍

منہ چھپاکے ہنستے ہیں !

یہ بھی سوچ سکتے ہیں؍

کون مان سکتا ہے؍

ان کے دل میں کیا کچھ ہے؍

کون جان سکتا ہے۔
(نطم : ورلڈ بینک)

Advertisements
julia rana solicitors

فرانز فینن نے بھی اس رد نوآبادیت کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے جب انہوں نے الجیریا کی عورت کا بغاوت میں رول اور اس کو مغربی فلموں اور فکشن میں پیش کی گئی عورت سے قطعی طور پرمختلف قرار دیا اور کہا :
‘‘ یہاں پر یہ مدعا نہیں کہ کہانیوں میں بار بار پڑھا جانے والا نسوانی کردار یا کسی تخیلی کردار پر روشنی ڈالی جائے۔ یہ ایک حقیقی ریاست کی پیدائش ہے بنا کسی تمہیدی ہدایت کے۔ کوئی کردار نقل کرنے کے لیے نہیں ہے اور نہ کسی کردار کی نقل ہوئی ہے۔ اس کے برعکس یہ ایک ڈرامائی صورت حال ہے ، ایک تسلسل ہے ایک عورت اور باغی کے درمیان۔ ایک الجیریائی عورت براہ راست ٹریجیڈی کی سطح تک پہنچ جاتی ہے۔’’ ۹؂
اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ فہمیدہ نے نہ صرف مغربی سامراجیت کے خلاف آوازاٹھائی بلکہ مغربی تانیثی کے یک رخے ڈسکورس کو بھی رد کیا۔ بلکہ ان کی تانیثی فکر پر مشرقیت کی پوری چھاپ ہے۔
فہمیدہ ریاض نے نہ صرف اپنی شاعری کے ذریعے اردو ادب میں تانیثیت کو ایک نئی راہ عطا کی بلکہ ان کی غزلیں اور مضامین بھی اس سمت میں ایک اہم کارنامہ ہے۔ انہوں نے تانیثیت ، مزاحمت اور رد نوآبادیت کے موضوعات کو بڑی خوبصورتی اور ہنر مندی کے ساتھ اپنی شاعری میں برتا۔

Facebook Comments

اشرف لون
جواہرلال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی،انڈیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply