• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستانی علماء کی کابل آمد اور امن کی امید۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستانی علماء کی کابل آمد اور امن کی امید۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

تحریک طالبان پاکستان اور ریاست پاکستان کے درمیان کابل پر افغان طالبان کے قبضے کے ساتھ ہی سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا فیصلہ کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ انہی طالبان نے ہزاروں نہتے پاکستانیوں کو شہید کیا ہے اور سینکڑوں فوجی جوان انہی کے خلاف آپریشنز میں شہید ہوئے ہیں۔ آرمی بطور ادارہ ان سے نقصان اٹھا چکی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کی تباہی سب کے سامنے ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں اور دفاعی اداروں نے طویل سوچ و بچار کے بعد ملک میں امن و امان کی خاطر اس مسئلے کو مذاکرات سے حل کرنے کا فیصلہ کیا، جو کہ درست اقدام ہے۔ اگر یہ قتل و غارت جاری رہے تو اس سے دشمن کو ہی فائدہ ہوگا، ہمارا فائدہ تو امن قائم ہونے میں ہے۔ یہ مذاکرات کئی سطح پر ہو رہے ہیں، اس میں قبائلی رہنما بھی شامل ہیں، جن کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں۔ کچھ بڑے معاملات پر ڈیڈ لاک ہوچکا ہے، جن میں دو معاملات زیادہ اہم ہیں۔

ایک تو طالبان کہہ رہے ہیں کہ فاٹا کو کے پی کے میں منضم کرنا غلط تھا، اس کی سابقہ آزاد حیثیت کو بحال کیا جائے اور دوسرا یہ پورا علاقہ آزاد ہو، جس میں ہم اسلحے کے ساتھ رہیں گے۔ دونوں معاملات بڑے پیچیدہ ہیں، کیونکہ سیاسی جماعتیں فاٹا کی علیحدگی کو تسلیم نہیں کریں گی اور اسلحہ لے کر بندوبستی علاقے میں آنے کی اجازت بھی نہیں ہوسکتی۔ طالبان اسے اپنے لیے سرخ لکیر قرار دے رہے ہیں کہ ایسا ہر صورت میں ہونا چاہیئے۔ طالبان کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ شکست خوردہ گروہ کی حیثیت سے گھروں کو واپس آنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اسی لیے وہ اسلحے کے ساتھ واپسی چاہتے ہیں۔ اس ڈیڈلاک کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کے دیوبندی علماء کا ایک اعلیٰ سطحی وفد اس وقت کابل گیا ہوا ہے۔ علماء کے وفد میں مفتی تقی عثمانی، مختار الدین شاہ کربوغہ، حنیف جالندھری، مولانا محمد طیب پنج پیر، مولوی انوار الحق، شیخ ادریس اور مفتی غلام الرحمٰن شامل ہیں۔

طالبان کے وفد کی قیادت مفتی نور ولی محسود کر رہے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی اکثریت پنج پیر کے مولانا محمد طیب اور جامعہ حقانیہ کے مولانا انوار الحق کی شاگرد ہے۔ اسی لیے تحریک طالبان پاکستان نے اپنے اساتذہ کی ملاقات کے لیے آمد پر ان کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس وفد کی کیمسٹری دیکھی جائے تو یہ سب کے سب وہ لوگ ہیں، جو درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور ان کا سیاسی تجربہ نہیں ہے، جو ایسے مذاکرات میں بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔ دوسرا یہ علماء پیغام پاکستان پر دستخط کرچکے ہیں، جس کے مطابق تحریک طالبان کی سرگرمیاں غیر شرعی ہیں۔ طالبان 2007ء کے ایک فتوے کا حوالہ دیتے ہیں، جس کی بنیاد پر وہ پاکستان میں اپنی فوجی سرگرمیاں سر انجام دیتے ہیں۔ بہرحال نظریاتی طور پر ہر دو مقابل بالخصوص پاکستان میں قتل و غارت کے حوالے سے متضاد موقف رکھتے ہیں۔

کیا علمائے کرام کا یہ وفد ہی بہترین آپشن ہے یا اس میں مزید بہتر ہوسکتی تھی۔؟ اس حوالے سے معروف لکھاری اور ہمارے دوست محترم عامر ہزاروی صاحب نے لکھا کہ وفد میں جو لوگ مذاکرات کے لیے گئے ہیں، ان کا پس منظر خالص علمی ہے، یہ سیاسی میدان کے لوگ نہیں۔ میری رائے میں یہ لوگ پاکستانی طالب، ان کو قائل نہیں کرسکیں گے۔ ماضی میں تحریک سے وابستہ لوگ انہی اکابرین کو چیلنج کرتے رہے، انہیں مناظروں کی دعوت دیتے رہے۔ وہ کہتے رہے کہ فکری لحاظ سے ہم غلط ہیں تو ہمیں بتائیں، ورنہ ہماری مخالفت چھوڑ دیں۔ ماضی کے فتاویٰ جات آج ہمارے پاؤں کی زنجیر بنے ہوئے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ وفد میں سیاسی علمائے کرام کو بھی شامل کیا جاتا، وہ علماء جو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بھی بات کرسکتے ہوں، جو لوگ وفد میں شامل ہیں، ان کے بارے میں یہ رائے ہے کہ یہ لوگ اداروں کے پیرول پر ہیں، اداروں کے علماء پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

دیوبندی مکتب فکر میں سے مولانا فضل الرحمن واحد عالم ہیں، جن کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ مسلح لوگوں کو امن کی طرف راغب کرسکتے ہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں، جو کسی اور وقت لکھوں گا۔ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو بہت ہی اعلیٰ ہوگا۔ افغان طالبان بھی ان دیوبندی علماء کی بہت قدر کرتے ہیں اور انہیں اپنے اساتذہ کا درجہ دیتے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ تمام تر تقدس کے باوجود مفادات اور بیانیوں کا تضاد کامیابی کے امکان کو اگر ختم نہیں کرتا تو مشکل ضرور بنا دیتا ہے۔ افغان طالبان کا ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے ایک موقف ہے، جس میں انہیں یہاں آزاد علاقہ مفاد کے قریب لگتا ہے۔ اگر آج تحریک طالبان پاکستان کے لوگ ان علماء کی مان کر پاکستان لوٹ آتے ہیں تو طالبان کے پاس مذاکرات اور پاکستان پر دباو کا ایک بڑا پتہ چلا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی لیے ٹی ٹی پی مسلسل فاٹا کی بحالی اور اسلحہ رکھنے کو ایک سرخ لکیر کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ ٹی ٹی پی کے لوگ اسلحہ جمع کرا دیتے ہیں تو ان کا وجود ہی کچھ عرصے میں قصہ پارینہ بن جائے گا۔ جب سے مذاکرات شروع ہوئے ہیں وہ لوگ جنہوں نے طالبان کے خلاف کاروائیوں میں حصہ لیا، وہ علاقہ چھوڑ کر جا رہے ہیں، کیونکہ ٹی ٹی پی کے لوگ ان سے ذاتی دشمنی رکھتے ہیں، جب یہ لوگ واپس آئیں گے تو یقیناً مقامی دشمنوں کو نقصان پہنچائیں گے۔ مذاکرات کی ناکامی پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات میں بھی دراڑیں ڈالے گی، جیسا کہ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اس کے بعد پاکستان بارڈر کو بھرپور منظم کرے گا اور ٹی ٹی پی کے خلاف شدید کارروائیاں کی جائیں گی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply