خفیہ منظوری-ناول(Secret Sanction) باب اوّل،حصّہ اوّل-مترجم/جیسمین محمد

فورٹ براگ (کیلیفورنیا) کا شہر اگست کے مہینے میں انتہائی خوفناک ہو جاتا ہے، آپ اس کی ہوا میں موجود سلفر کی بدبو سونگھ سکتے ہیں حالانکہ حقیقت میں یہ سلفر نہیں ہے۔ یہ اٹھانوے فیصد نمی ہے، جس میں جنوبی کیرولینا کی دھول مٹی گُھلی ملی ہوئی ہے اور تقریباً30 ہزار مردو زن کے جسموں کی بدبو رچی بسی ہوئی ہے جو بِنا نہائے اپنی آدھی زندگیاں تیز  روی سے جنگلوں میں گھومتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔

جہاز سے اترتے سمے، میرے اندر شدید خواہش بیدار ہوئی کہ میں پیچھے پینٹاگون میں موجود اپنے افسران کو فون کروں اور ان سے التجا کروں کہ وہ اس معاملے پر نظرثانی کریں۔ بہر حال ایسا کرنا بے سود ہوتا۔

فوج یہ کہنا اور سمجھنا پسند کرتی ہے کہ ڈکشنری میں ہمدردی، پاخانے اور آتشک کے درمیان پائی جاتی ہے۔

میں اپنا گول تھیلا(جَھولا) اور عام سائز سے بڑا لیگل بریف کیس اٹھا کر ٹیکسی سٹینڈ کی طرف بڑھ گیا۔

بے شک یہ پوپ ایئر فورس بیس تھی جو کہ فورٹ براگ سے ملحقہ تھی اور اس الحاق نے اس سب کو ایک بڑی اور کامیاب فوجی تنصیب بنا دیا تھا۔ اس ایئر بیس پر کسی بھی ٹیکسی سٹینڈ کا نام و نشان نہیں تھا اور مجھے اس بابت اپنی لاعلمی پر شرم آنی چاہیے۔

چنانچہ میں نے اپنے قدم سیدھے ایک پے فون(سِکّوں کے ذریعے کام کرنے والے عوامی فون) کی جانب بڑھا دیے اور بیاسویں ایئر بورن ڈویژن کے ڈیوٹی سارجنٹ کو کال ملائی۔
ڈیوٹی سارجنٹس وہی مرد و زن ہیں جو اپنی روزی روٹی اس طرح کماتے ہیں کہ خود کو ہوائی جہازوں سے باہر پھینکتے ہوئے دعا مانگتے ہیں کہ ان کے کمزور جسموں کے پھٹنے سے پہلے ان کے حکومتی جاری شدہ پیرا شوٹ کھل جائیں۔ ان کی دعائیں عموماً کام کر جاتی ہیں، بعض اوقات نہیں بھی کرتی ہیں۔

“بیاسویں ایئر بورن کے ہیڈ کوارٹر سے سارجنٹ میر کور” ایک سخت آواز نے جواب دیا۔
“میجر شان ڈرم مَنڈ” میں نے ایک بدمزاج، ناگوار بدمعاش کی عمدہ ترین نقالی کرتے ہوئے ہانک لگائی جو کہ برسبیل تذکرہ، میں ہمیشہ کافی اچھے انداز سے کرتا ہوں۔

” جناب! میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟”
” آپ میری کیا مدد کر سکتے ہیں”؟ میں نے سوال کیا۔

“معذرت جناب! میں سمجھ نہیں پایا ”
” یہ اچھی خاصی واضح بات ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ ۔ ڈیوٹی جیپ ایئرپورٹ پر میری منتظر کیوں نہیں تھی؟ میں ایک ہی جگہ پر بے کار کھڑا رہ کر اپنا وقت کیوں ضائع کر رہا ہوں؟ ”

” جناب! ہم اہلکاروں حتیٰ کہ افسران کو لینے کے لئے بھی جیپیں ایئر پورٹ پر نہیں بھیجتے ”
” اے سارجنٹ! کیا آپ مجھے بے وقوف خیال کرتے ہیں؟ ”

میں نے اس سوال کو ایک لمحے کے لیے رہنے دیا اور آپ تقریباً اس کو سن سکتے تھے کہ وہ خود کو جواب دینے سے روکنے کے لیے دانت پیس رہا تھا۔
پھر میں نے ذرا دوستانہ انداز اپناتے ہوئے کہا” دیکھیں، میں نہیں جانتا کہ آیا آپ کو اس بارے میں مناسب انداز میں ہدایت نہیں دی گئی ہے یا آپ بس بھول گئے، میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ آپ کی عمارت کی اوپری منزل میں کام کرنے والے جنرل نے وعدہ کیا تھا کہ جب میں ائیر فورس بیس پہنچوں گا تو ایک جیپ میری منتظر ہو گی۔اب ایسا ہے کہ اگر یہ جیپ بیس منٹ کے اندر اندر یہاں پہنچ گئی،پھر تو ہم اسے صرف ایک دقت کے طور پر لکھ دیں گے ورنہ۔۔۔”

اس بار دوسری جانب کافی طویل وقفہ رہا۔ آرمی سارجنٹس کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ ان میں بقا کی ناقابل یقین جبلت پائی جاتی ہے۔ یہ ان کے لیے ضروری ہے۔ انہیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی افسران کے ماتحت رہ کر گزارنا پڑتی ہے جن میں سے کچھ کافی اچھے ہوتے ہیں لیکن اکثر اچھے نہیں ہوتے اور ان دونوں طرح کے افسران کے ساتھ مکمل طور پر مساوی رویہ اپنانے کے لئے ایک آدمی کو اچھی خاصی فنکاری سے کام لینا آنا چاہیے۔

“جناب! میں۔۔ ۔۔ اوہ۔ ۔۔۔ یہ واقعی بے قاعدہ ہے۔ میں قسم کھاتا ہوں، کسی نے بھی مجھے آپ کی طرف جیپ بھیجنے کا نہیں کہا تھا۔”

یقیناً کسی نے بھی اس سے نہیں کہا تھا کہ وہ ایئر پورٹ پر میرے لیے جیپ بھجوائے۔ میں یہ بات جانتا تھا اور وہ بھی یہ بات جان گیا تھا لیکن ان دونوں حقائق کے درمیان امید کی ایک کرن تھی۔
” سنیں سارجنٹ، سارجنٹ میر کور، رائٹ؟ ”
ابھی رات کے ساڑھے دس بج رہے ہیں اور ہر گزرتے منٹ کے ساتھ میرا صبر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب کیا ہو گا؟”
” ٹھیک ہے، میجر! ڈیوٹی ڈرائیور تقریباً بیس منٹ میں وہاں پہنچ جائے گا۔ بہر حال مجھے دھوکہ دینے کی کوشش مت کیجیے گا ۔ میں یہ ڈیوٹی لاگ میں درج کرنے جا رہا ہوں، کرنل صاحب صبح دیکھ لیں گے ”
اس نے آخری بیان دھمکی آمیز لہجے میں جاری کیا۔

” بیس منٹ” میں نے رابطہ منقطع کرنے سے قبل کہا۔ میں اپنے گول تھیلے پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ مجھے برا محسوس کرنا چاہیے تھا کہ میں نے جیپ اور جنرل کے بارے جھوٹ بولا لیکن اس وقت میرے ضمیر کی آواز اس حوالے سے قوی نہیں تھی۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ میں تھکا ہوا تھا اور دوسری بات یہ تھی کہ میں ناقابل یقین حد تک غصے میں تھا۔
علاوہ ازیں ، میری جیب میں احکامات کا ایک مجموعہ تھا جس میں درج تھا کہ مجھے ایک خصوصی تفتیش کرنے کے لیے تفویض کیا گیا تھا۔ میری رائے میں ، اس حکم نے مجھے کم از کم ایک یا دو خصوصی مراعات کا حقدار بنا دیا تھا۔

جاری ہے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ناول کا ہیرو کس شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہے اور اس کو کس قسم کی تحقیقات کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
کیا سارجنٹ میر کور، ہیرو کے لیے جیپ بھیج دے گا یا پھر ٹیکسی سٹینڈ کی عدم موجودگی میں ہیرو ایئر پورٹ پر ہی بیٹھا رہے گا؟
جاننے کے لیے انتظار کیجیے باب اوّل کے حصّہ دوئم کا۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply