ناصر کاظمی نے کہا تھا
؎شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں ی ہَوا کھینچ کے لائی مجھ کو
کسی اور کا جملہ ہے
؎دنیا دی گل ہور اے ، لاہور فیر وی لاہور اے
یوں تو ہر مشہور شہر کا تذکرہ کسی معروف یا غیر معروف ادیب نے کسی ناول ، مضمون یا خودنوشت میں کر رکھا ہے لیکن یہ اعزاز لاہور کو ہی حاصل ہے کہ اُس پر درجنوں کُتب لکھی گئیں اور ہر اعتبار سے لکھی گئیں تاریخی ، توصیفی ، اساطیری ، ادبی اور ناسٹیلجک حتیٰ کہ یہ اعزاز تو صرف ہے ہی لاہور کا کہ ایک پورا ادبی رسالہ نقوش خاص نمبر لاہور شائع کرتا ہے ۔
کوئی دو تین سال پہلے کی بات ہے محمد عامر ہاشم خاکوانی صاحب نے اپنے کسی کالم میں ذکر کیا تھا کہ جمہوری پبلیکیشنز بہت معیاری کتب شائع کرتے ہیں ۔ اُن کی نظر تعداد پر نہیں ، مواد پر ہوتی ہے ۔ اور فی الحقیقت ایسا ہی ہے اب تک جتنی بھی کتب اس ادارے کی نظر سے گزریں سب ہی قابلِ تعریف اور لائقِ تحسین تھیں۔
پرانا شہر لاہور بارہ دروازوں اور تیرہویں موری کے اندر بسنے والے شہر کو کہا جاتا ہے اور مصنف اسی پرانے شہر کے بارہ دروازوں کے اندر ، بڑی مشہور حویلی کابلی مل میں پیدا ہوا جو کشمیری دروازے اور موتی بازار کے راستے سے ملی ہوئی تھی ۔
کتاب ناسٹیلجیا کے انداز میں لکھی گئی ہے لیکن بارہ دروازوں کے اندر بسے ہوئے لاہور اور اس کے باسیوں کے رہن سہن ، بودوباش ، بول چال و عادات ، رسوم و رواج اور صبح و شام کے معمولات کو اِس سحر آگیں پیرائے میں بیان کیا گیا ہے کہ قاری لمحہ موجود میں خود کو اُسی افسانوی اور قصۂ پارینہ ہوئے ماحول کا فرد سمجھنے لگتا ہے ، تصویری فلم آنکھوں کے سامنے چلنے لگتی ہے۔ مصنف نے قلم کی باگ یوں تھامے رکھی ہے کہ ہر باب کو وہ الف لیلی کی شہر زاد کے سے انداز میں ختم کرتا ہے جہاں پر قاری اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہوئے بے اختیار اگلے باب کے اور ورق اُلٹتا ہے۔ داستان در داستان ، قِصّہ در قِصّہ ۔
یوں تو لاہور پر ڈھیروں تاریخی کُتب موجود ہیں لیکن لاہور کے بارہ دروازوں کا ایسا شاندار ، مفصّل اور اندرون بینی والا حال لکھنے کا حق کوئی ایسا ہی شخص کر سکتا تھا جس نے اُس افسانوی ماحول اور پُرفسوں فضا میں آنکھ کھولی ہو۔
لاہور کے بارہ دروازے
انار کلی کے سامنے سے مسلم مسجد سے شروع ہوتے ہوئے ۔ لوہاری دروازہ ، موری دروازہ ، بھاٹی دروازہ ، ٹکسالی دروازہ ، روشنائی دروازہ ، مستی دروازہ ، شیرانوالہ دروازہ ، یکی دروازہ ، دہلی دروازہ ، اکبری دروازہ ، موچی دروازہ اور شاہ عالمی دروازہ ۔ اُس زمانے میں ان کے چاروں طرف پھل دار باغ ہوتے تھے اور بیچوں بیچ نہر بہتی تھی ۔
اس کتاب کے اندر اندرونِ لاہور کی زندگی جیتی جاگتی محسوس ہونے لگتی ہے۔ لاہور کے لوگوں کی زندہ دلی ، سیاسی بصیرت اور ہندو مسلم سکھ سب کا ایک ساتھ مل کر رہنا۔
“ میں اس دور کی زندگی سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو یوں لگتا ہے، جیسے اندرون شہر میں زندگی نہ تو مسلمان تھی نہ ہندو تھی ۔ بس ایک ایسی زندگی تھی جو اندر اور باہر سے جکڑی ہوی تھی ۔ لوگ خواہ ہندو تھے یا مسلمان ، صدیوں پرانی بے خبری میں گم تھے۔ ہر محلے اور ہرگلی میں کوئی فرق نہیں تھا”۔
اندرون شہر کی زندگی میں نشہ کی لہر بڑی طاقت ور تھی ۔
“ اندرون شہر میں پیدا ہونے والے ۹۰ فیصد بچوں کو رات کو سلانے کے لیے مائیں افیون کھلاتی تھیں”۔
پہلوانوں کے قصے ، نورا کشتی نام کیسے پڑا ، مشہور پہلوان اور پہلوانی کا کلچر ۔ اندرونِ شہر میں عورتوں کی زندگی ، حویلی کابلی مل کی زندگی ، محبتیں اور خواب ، سماجی المیوں کے عنوان سے اندرون شہر کی زندگی کے تاریک پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ، لاہور کی چیلسی بھاٹی دروازہ ، لاہور کے ساون ، عیدیں ، شبرات ، محرم ، بسنت بہار ، دیوالی ، دسہرہ ، ہولی ، تیج تیوہار اور لاہور کے میلے تو اتنے مشہور تھے کہ یہ فقرہ زبان زدِ عام ہو گیا
سَت دن تے اَٹھ میلے
کَم کراں میں کیہڑے ویلے
مسلمانوں کے تہوار ہوں یا ہندوؤں سکھوں کے تہوار تینوں ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے۔
لاہور کے محرم میں شیعہ، سُنّی ، ہندو سِکھ سب ہی شریک ہوتے متاخر الذکر سبیلیں لگا کر اور چندہ دے کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ۔ یکم محرم سے لے کا چالیسویں تک نہ ہی مسلمان کوئی خوشی کی تقریب مناتے تھے اور نہ ہی ہندو ۔ شادیاں چہلم تک ملتوی ہوتی تھیں۔
اندرون لاہور کا “ تھڑا کلچر “ تو باقاعدہ اوپن یونیورسٹی کا درجہ رکھتا تھا ۔ اندرون شہر میں پیدا ہونے والے ہر بچے کی پہلی درسگاہ تھڑا ہوتی تھی۔ گھروں کی اندرونی باتوں سے لے کر عالمی خبروں تک ، لطائف و تجربات تک سب باتیں یہاں شیئر ہوتیں ۔ اور جیسا کہ انتظار حسین صاحب نے لکھا ہے کہ گالیاں بھی تو ثقافت کا جزو ہوتی ہیں ۔ ایسے ہی تھڑا کلچر کی ایک خاص بات گالیاں میں طاق ہونا بھی تھا ۔
“ ایک اور خاص بات تھڑ ا کلچر میں یہ ہے کہ تھڑوں پر بیٹھنے والے گالیوں میں ماسٹر ہوتے تھے ۔ لاہور میں گالیوں کی بہت بڑی یونیورسٹی یہ تھڑے تھے اور لاہوریئے اپنی گالی کے انداز اور اسلوب میں بڑے یکتا تھے ۔ گالیوں میں قافیہ ردیف اور باقاعدہ ردھم ہوتا تھا کبھی بھی تھڑوں پر گالیوں کا مقابلہ شروع ہو جا تا تھا اور بڑی بڑی کلاسیکل گالیاں سننے میں آتی تھیں اور بعض اوقات گالیاں کھانے میں ہارنے والے ایسے بدمزہ ہوتے تھے کہ ایک دوسرے سے گھتم گتھا ہو جاتے تھے۔ عبدالرحمٰن جسے عام طور پر ڈشکرا کہا جاتا تھا۔ گالیوں کے مقابلے اکثر جیت جا تا تھا اور اسے دوسرے محلوں میں مہمان خصوصی کے طور پر لے جایا جاتا تھا۔ ویسے بھی گالیاں محلہ بہ محلہ اور کوچہ بہ کوچہ سفر کرتی تھیں ۔ بعض اوقات ایک گالی کافی عرصہ تک استعمال ہوتی تھی اور ضرب المثل بن جاتی تھی، بچوں تک یہ گالیاں تھڑا بازاروں کے ذریعے پہنچتی تھیں “ ۔
اور محلے ککے زئیاں کی خواتین کی گالیوں کی تخلیقی اُپج تو ضرب المثل کا درجہ رکھتی تھی۔
“ عورتوں کی لڑائی میں چوک پرانی کوتوالی اور مسجد وزیر خاں کے علاقہ کا محلہ ککے زئیاں بہت شہرت رکھتا تھا اور ہر محلے میں موجود لڑاکا عورت کو اس گلی کی عورت سے تشبیہ دی جاتی تھی ۔ یہ لڑائی کئی کئی گھنٹے جاری رہتی تھی ۔حتی کہ رات مردوں کے گھر آجانے کی وجہ سے فائر بندی ہو جاتی تھی لیکن دوسرے روز مردوں کے گھروں سے باہر جانے کے بعد لڑائی دوبارہ شروع ہو جاتی تھی جس میں مردانہ گالیوں کا تخلیقی اظہار اور نیا پن بے حد دلچسپی کا باعث تھا”۔
ایسی رواں اور دلچسپ کتاب کے جسے ایک بار پڑھنا شروع کیا تو پھر اس سے دوری شاق گزرتی تھی۔ یہ داستان ہے اُن وقتوں کی جو اب صرف کاغذوں میں ملیں گے کیونکہ تبدیلی تو تاریخ کا جبر ہے ۔ جو کل تھا آج نہیں ہے ، جو آج ہے کل نہیں ہو گا ۔ رہے نام اللہ کا۔۔
“ میرے شہر کے لوگ اور میرا شہر لاہور اِس دھرتی کی تاریخ کا ہراول دستہ ہیں اور میرا تجزیہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے شہروں کا ارتقاء رک چکا ہے ۔ اور دنیا میں لاہور کا ارتقاء جاری و ساری ہے “۔
“ فصیلوں کے اندر آباد بند شہر کے لوگوں کی نفسیات بھی بند ہی ہوتی ہے اور وہ تبدیلی سےگریزاں اور خوف زدہ ہوتے ہیں لیکن صدیوں کے میل جول اور آبادی کے مسلسل تبادلہ سے یہاں گریز کا طلسم ٹوٹتا رہا ہے اور یہ شہر صدیوں کے سفر کے بعد بھی اپنے اندر بڑی گہرائی رکھتا ہے زمانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مزاج اور رجحانات بدل گئے ہیں لیکن اس کی مٹی میں بڑی پر جوش تاثیر ہے اس کی کشش میں کوئی کمی نہیں آئی، بیتے زمانوں کی ثقافت کے نقوش بڑے گہرے ہیں اور یہ لا ہور جو صدیوں کے سفر میں جان لیوا مرحلوں سے گزرا ہے اس دھرتی کی اپنی بو باس اور رنگوں کی دنیا ہے اور ہرقسم کی تہذیبی ، ساجی اور ثقافتی تبدیلیوں کے باوجود یہ شہر زندہ ہے اور زندہ رہے گا ۔اور اس کے اُچّے برجوں کے تذکرے اس کے دروازوں کے حوالے سے اس دھرتی کے ہونٹوں پر جاری رہیں گے “۔
ناشر :جمہوری پبلیکیشنز
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں