نفرت اور جنون نے اس معاشرے کا کیا حال کر دیا ہے، آئیے میں آپ کو تین کہانیاں سناتا ہوں۔
یہ صاحب پروفیسر ہیں۔ فارن کوالیفائڈ ہیں۔ پی ایچ ڈی ہیں بلکہ شاید پوسٹ ڈاکٹریٹ بھی کر رکھا ہے۔ ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ان سے ایک تعلق استوار ہوا جو فیس بک ہی کی حد تک رہا مگر قریب دس سال پر محیط رہا۔ بادی النظر میں تعلق خاطر تھا۔ احترام کا رشتہ تھا۔ بے تکلفی نہ تھی۔ کچھ یاد کروں تو زیادہ نہیں تو درجن بھر کالم ایسے ہوں گے جن میں انہوں نے تحسین کے کلمات بھیجے ہوں گے اور یہ بتایا ہو گا کہ انہیں تحریر پسند آئی ہے۔ اگلے روز یہ ہوا کہ ان کی ای میل آئی ۔ کھولی تو لکھا تھا۔۔
’’آج آپ کے کالم سے معلوم ہوا کہ صحافیوں کو لفافہ ایسے ہی نہیں کہا جاتا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر آدمی کی ایک قیمت ہے جہاں وہ بک جاتا ہے اور ضمیر کا سودا کر لیتا ہے‘‘۔
جس آدمی سے آپ کا ایک عشرے کا تعلق خاطر ہو اور وہ بظاہر ایک مہذب اور تعلیم یافتہ انسان بھی ہو اس کی طرف سے ایسا پیغام ، ظاہر ہے کہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ میں کسی کالم میں ان کے کسی پسندیدہ سیاست دان پر تنقید کا جرم کر بیٹھا ۔ یہ وہ جرم تھا جس پر کوئی امان نہیں۔ انہوں نے ایک عشرے کے تعلق کو ایک لمحے میں روند دیا اور اس تلخ لہجے میں مخاطب ہوئے جس میں کوئی شریف آدمی تو کجا،کوئی جاہل بھی گفتگو نہ کرے۔ میں کتنی ہی دیر بیٹھا سوچتارہا کہ یہ صاحب مجھے اچھی طرح نہیں تو اتنا ضرور جانتے ہیں کہ میں اب تک کیا لکھتا آیا ہوں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو، دربار سے اپنا کبھی کوئی رشتہ نہیں رہا۔ کتنے ہی کالموں کی وہ خود تحسین کر چکے ۔ لیکن اب ان کے رہنما پر کہیں تنقید ہو گئی تو وہ ہتھے سے اکھڑ گئے اور فورا ًاس نتیجے پر پہنچ گئے کہ ان کے قائد چونکہ معلوم انسانی تاریخ کے آخری مسیحا اور عالی مرتبت ہستی ہیں جو اس زمین پر اتاری گئی ہے اور پاکستان کو عطا کی گئی ہے اس لیے ان پر تنقید کرنے والا لازم ہے کہ ضمیر فروش ہے۔ اختلاف تھا تو اس کا اظہار وہ اچھے پیرائے میں بھی کر سکتے تھے ۔ دلیل سے میری بات کو رد کر سکتے تھے اور بغیر کسی دلیل کے بھی کر سکتے تھے۔ بس اتنا سا تکلف کرنا تھا کہ گالی دیے بغیر بات کرنا تھی۔ لیکن اگر وہ گالی نہ دیتے تو بات کیسے کرتے ۔ دوسروں کو بے ایمان اور ضمیر فروش قرار دیے بغیر قافلہ انقلاب شاہراہ انقلاب پر سفر کیسے جاری رکھ سکتا ہے کہ گالی تو اب زاد راہ بن چکی۔مجھے اپنازمانہ طالب علمی یاد آیا ، ایک دوست کی ایسی ہی بد زبانی پر ایک دوست نے کہا تھا : تنہا ہو جاؤ تو طوطا پال لو پر کسی نظریاتی انسان سے دوستی نہ کرنا ، یہ ایک لمحے میں آنکھیں ماتھے پر رکھ لے گا۔ وہ مگر جوانی کا زمانہ تھا ، اس زمانے میں کوئی زباں بکف ہو توو ہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے لیکن، اب یہ عالم ہے کہ نئے انقلاب نے بوڑھوں اور عمر رسیدہ انقلابیوں کی زبان سے بھی نرمی اور ملائمت چھین لی ہے۔نہ تعلق کا پاس رہا ہے نہ رشتوں کا۔ سر سے پائوں تک لوگ انقلابی ہوئے پڑے ہیں۔
دوسری کہانی ایک قریبی عزیز کی ہے۔انہیں بھی بہت زور کا انقلاب آیا ہوا ہے۔ وہ اکثر ایک خیر خواہ کے طور پر خبر دیتے ہیں کہ آج ایک بار پھر ان کے دوستوں کی محفل میں ایک دوست نے کہا کہ آصف محمود جو کچھ لکھ رہا ہے لگتا ہے اس نے ضمیر بیچ دیا ہے۔لگتاہے وہ بڑا مال بنا رہا ہے ۔ لگتا ہے ضمیر فروشی نے اسے مالا مال کر دیا ہے۔ پھر وہ میرے اوپر احسان جتاتے ہیں کہ جناب میں نے ان دوستوں سے کہا کہ چلو میں آصف صاحب کو خبر کر دیتا ہوں کہ ان کی عزت خاک میں ملتی جا رہی ہے وہ احتیاط کیا کریں۔ اس کے بعد وہ مفت مشورہ دیتے ہیں کہ دیکھو آصف صاحب آپ ایسا نہ لکھا کریں کہ آپ کو لوگ قلم فروشوں میں شمار کر لیں۔ ایک روز میں نے عرض کہ صاحب اگر آپ اپنے دوستوں کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ مجھے اور میرے معاملات سے واقف ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ میں قلم فروش نہیں ہوں تو ان دوستوں کا یہ زہر مجھ تک پہنچانے کا یہ انقلابی فریضہ بھی آپ ادا نہ کیا کریں۔ کیوں کہ میں نے اپنی سوچ کے مطابق جو درست ہے وہ لکھنا ہے ، آپ کے زبان دراز اور بد گمان دوستوں کو نیک چلنی کا سرٹیفکیٹ دینے کے لیے نہیں لکھنا ۔ نہ ہی مجھے کسی ایسے انقلابی سے دیانت کے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے جس کے خیال میں اس کے قافلہ انقلاب کے علاوہ ہر آدمی کرپٹ ہے بے ایمان ہے اور ضمیر فروش ہے۔
تیسری کہانی اس سے بھی دلچسپ اور تکلیف دہ ہے۔ لیکن خیر پھر کبھی سہی۔ یہ دو کہانیاں لکھتے لکھتے یادوں نے ہجوم کیا ہے اور دل کو کئی بھولی بسری کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئی ہیں۔ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ رہا ہے کہ ہمارے سر پر ہر دور میں ایک آدھ انقلاب اور انقلابی سوار رہے ہیں جو خود کو حرف حق اور باقی سب کو باطل قرار دیتے رہے ہیں۔ان سب میں ایک جیسی فسطائیت تھی۔ جس جتھے کو جتنی طاقت اور جتنی مقبولیت ملی اس کی فسطائیت بھی اسی درجے میں سامنے آئی۔زمانہ طالب علمی کی بات ہے میں نے کچھ لکھا تو ایک مذہبی سیاسی جماعت کے ایک رہنما نے پیغام بھجوایا ہم تو آپ کو اچھا مسلمان سمجھتے تھے لیکن آپ تو لادین نکلے۔ یعنی ان کے خیال میں ان کی جماعت پر تنقید کرنے والے کا اچھا مسلمان ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔ اسلام دوستی کے جملہ حقوق ان کے نام محفوظ تھے۔ کسی کے خیال میں حب الوطنی پر صرف اس کا اجارہ ہے۔ کسی کا دعوی ہے جمہوریت اس کی باندی ہے اور جو اس پر تنقید کرتا ہے اس کی جمہوریت دوستی مشکوک ہے۔ کسی کو زعم ہے کہ اس ملک میں مائیں صرف کرپٹ بے ایمان چور اچکے اور ڈاکو پیدا کرتی ہیں اور اچھے ، نیک ، پاک اور صاف لوگ وہی ہیں جو ان کے قافلہ انقلاب کا حصہ ہوں۔جو اس قافلہ انقلاب کا ساتھ نہیںدیتے وہ بے ضمیر ہیں، جو اس پر تنقید کرتے ہیں انہوں نے ضمیر کا سوداکر لیا ہے۔ سیاست کا کام معاشرے کی فالٹ لائن کو بھرنا اور بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت نظم اجتماعی کو مرتب کرنا ہے ۔ یہ اصل میں اس قتل عام کا متبادل ہے جو تخت کے حصول کے لیے ہوا کرتا تھا۔ اب اگر اس میں بھی وہی وحشت لوٹ آئی ہے اور کارکردگی اور دلیل کی جگہ نفرت اور غیض و غضب نے لے لی ہے تو یہ ایک سیاسی ہی نہیں سماجی المیہ بھی ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم سب اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اس کی سنگینی کا ہمیں کوئی احساس نہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں