درد اِک نقاش۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

درد ، اک نقاش
اس کے جسم پر
تصویر سازی کے عمل میں
پھیلتا رکتا، تڑپتا، سرسراتا
جونک سا
مکڑی کے جالے کی طرح
تن سا گیا ہے!
کسمساتا، درد سے بے حال، وہ اک بے زباں
نادر نمونہ بن گیا ہے
کرب کا
یا کرب میں ڈوبے ہوئے فن کی زباں کا ۔۔۔۔
فن ، مگر فنکار کا
ڈالی کا یا پبلو پکاسو کا کوئی شہکار
ناکافی ہے، کمتر ہے
بناوٹ کا نمونہ ہے
فقط اک کارسازی، منجمد، مردو حقیقت  !
درد کےنقاش کا فن
کرب کا وہ ایک لمحہ
زیست کا ۔۔۔۔ نوزائیدہ بچے کی پہلی چیخ
بیٹ ھوون(Beethoven) کی یا موزارٹ (Mozart ) کی اک سمفنی
ہم جنس ہو سکتی ہے کب قدرت کے اس شہکار کا
جو بے بدل ہے؟
یہ سگ ِ مجبور میری گود میں اُلٹا پڑا
اک آنکھ آدھی کھولتا ہے
مجھ کو جیسے اک شکایت کی نظر سے دیکھتا ہے
اور پھراس بے زباں کے جسم پر
مکڑی کے جالے کی طرح
تنتا،   تڑپتا، سرسراتا درد
بھی اک آخری سسکی سی جیسے چھوڑ کر
خاموش ہو جاتا ہے ۔۔۔پل بھر میں!
۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
صبح سیر کر نے جاتے ہوئے ، میری آنکھوں نے جو دیکھا اور میرے ہاتھوں نے جومحسوس کیا وہ گھر سے بے گھر ہوئے ، راستہ بھولے ہوئے ایک پالتو کتے کا کار کے نیچے دب کر مر جانے کا منظر نامہ تھا۔ جسے میں نے نظم کیا۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply