سُر سے پیار کریے۔۔محمد علی عباس

ایک عرصے بعد پھر ہمیں ہمارا ناسٹیلجیا چکوال شہر کی تنگ و تاریک گلیوں سے گزارتاہوا محلہ سرپاک لے آیا۔ میں ابھی پچھلے ہی ہفتے چکوال آیا تھا اور ایک ہفتے بعد اسلام آباد سے چکوال دوبارہ آنا گویا اپنی کاہلی سے دست و گریباں ہونے جیسا تھا جو بہر حال ہمیں ہونا ہی پڑا کیونکہ جشن غدیر کے سلسلے  میں ہمارے مہربان دوستوں چوہدری محسن حسن خان اور سید اسد علی شاہ نے محفل سماع کا اہتمام کر رکھا تھا۔

محفل میں شرکت اور چکوال شہر کی قدیم گلیوں میں جہاں گردی کرنے کا شوق ہمیں ہر بار اسلام آباد سے چکوال کھینچ ہی لاتا ہے۔
محفل سے ایک دن پہلے پہنچ کر رات چکوال شہر میں ہی قیام کیا۔ اگلے روز کچھ کام نمٹاۓ اور شام ہونے سےپہلے ہی خوب صورت لب و لہجے کے بہترین شاعر فیضان فیضی کے ساتھ محلہ سرپاک آ گیا۔ چونکہ گزشتہ رات یہیں اسد شاہ صاحب کے پاس قیام تھا تو ان کے گھر آ کر رات کی محفل میں شرکت کی تیاری کی۔

شام کو دربار سخی ثابت ثبوت حاضر حضور رحمتہ اللہ علیہ پر مِٹھوُ سائیں لاہور والے نے ڈھول کی تھاپ پر دھمال سے جشن کا آغاز کیا ۔ میں ابھی تک سیہون شریف نہیں گیا اور نہ کبھی نوبت بجتے اپنے سامنے دیکھی ہے گویا میرے  لیے  یہی شامِ قلندر تھی جس کا ذکر دوستوں سے سُن رکھا تھا۔ دھمال ختم ہوئی  تو دراز ہوتے ساۓ ختم ہو چکے تھے۔ میں فیضی کو ساتھ لیے سرپاک کی قدیم گلیوں میں نکل گیا، یہاں پُر شکوہ عمارتیں’ ہجر و وصال کی لاتعداد داستانیں سموۓ در و دیوار ‘ پرانے مُحلّے اور اس کے رہنے والوں کی زندگیوں کے بارے سوچتے سوچتے ہم پکی مسجد پہنچ گئے۔

یہ تاریخی مسجد تین صدی پہلے بابا گدا بیگ خان نے تعمیر کرائی  تھی۔ شہر کبھی اسی ایک محلے تک محدود ہوا کرتا تھا لیکن یہ اب ایک محلہ رہ گیا ہے اور شہر طول و عرض میں ایسا بے ہنگم پھیلا ہے کہ خدا کی پناہ۔ ایسے میں ان قدیم گلی محلوں میں رہنے والے خوش قسمت ہیں کہ برلب سڑک ہونے کی بہت سی آفتوں سے محفوظ ہیں۔ یہاں اب بھی قدیم روایات کے امین لوگ بستے ہیں کہ جنہوں نے نہ اپنے پرکھوں کے گھر چھوڑے اور نہ ہی ان کی روایات پہ کوئی  حرف آنے دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان گلیوں سے ہمارا رومانس جڑا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کچھ لوگوں کو پرانے لاہور کی گلیاں بھاتی ہیں یا پھر پرانے پنڈی کا مال روڈ اور لال کُرتی یاد آتے ہیں۔ فیضی بھی اسی رومانس کی ٹوہ لگانے ہمارے ہم قدم ہو گیا تھا، وہ بھی ان گلی کوچوں کے سحر میں جکڑ ا گیا، یہاں تک کہ محسوس ہی نہ کر سکا کہ کہاں میرے قدم تیز ہوۓ اور کس موڑ پہ لڑکھڑاۓ۔ ہم یہاں سے گزرتے ہوۓ ان گھروں کے مکینوں، ان کی زندگیوں اور ان سے پہلے یہاں رہ چُکے لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں سوچنے لگے کہ وہ کیسے لوگ ہوں اور کیسے رہتے ہوں گے؟ فیضی چونکہ شاعر ہے اور ہر چیز کو بہت عمیق نگاہ سے دیکھتا ہے تو کہنے لگا کہ ہر چیز بیان چاہتی ہے۔ یہ گلی کوُچے جو خود میں تاریخ سموۓ بیٹھے ہیں ان کو بیان کیا جانا چاہیے۔

ہم یہی باتیں کر رہی تھے کہ ایک پرانی دکان پہ نظر پڑی، جب اندر کو جھانکا تو ویڈیو گیمز کی سکرینیں جن کا رواج ختم ہوۓ بھی ایک دہائی  سے زائد  عرصہ بیت چکا ہے پڑی تھیں۔ یہ ویڈیو گیمز کبھی جوانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہوا کرتی تھیں، پھر ان کی جگہ کمپیوٹر اور سمارٹ فونز نے لے لی۔ جی تو چاہا کہ  رُک کر اس دکان کے بزرگ مالک سے پوچھیں مگر وقت تیزی سے نکل رہا تھا اور ہمیں محفل میں شریک ہونا تھا سو ہم نے اس کام کو بھی ہر کام کی طرح پھر کسی موقع پہ اٹھا رکھا اور چل دیے  ۔ سرپاک گراؤنڈ وسیع رقبہ پر پھیلا ہے۔ اس کے ارد گرد ایک سڑک طواف کرتی ہے۔ اسی سڑک  کے پاس مرکزی امام بارگاہ ہے جہاں کی آذان سننا بھی ایک مسحور کن تجربہ رہا ہے۔ ایک کونے میں اس محلے کی وجہ تسمیہ، وہ تالاب ہو جو بٹوارے سے قبل مسلمانوں کے  لیے  مختص تھا۔ تالاب کو پنجابی میں ”سر“ کہا جاتا ہے اور مسلمانوں سے نسبت کے باعث اسے پاک کہا جاتا تھا تو اس کے ارد گرد بسنے والوں نے اپنے اس  مُحلّے کا نام بھی سرپاک رکھ دیا۔ سرپاک کے رہنے والے ہمارے ایک دوست نے جب اپنا تعارف ایک کامل ہستی سے کرایا تو انہوں نے سرپاک کی وجہ تسمیع پوچھی جب ہمارے دوست نے یہی وجہ تسمیع بتاٸی تو انہوں نے سوال کیا کہ اس محلے میں کون کون سے اولیإ دفن ہیں؟ تو ہمارے دوست نے بتایا کہ یہاں سخی ثابت ثبوت حاضر حضورؒ، بابا بخاری سرکارؒ اور سخی سجاد بادشاہؒ کے مزارات ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہی وجہ جو ابھی تک ”سر“ ”پاک“ ہے۔ یہ عقل سے ماورا مگر عرفان سے بھرپور باتیں ہماری ناقص عقلوں میں کہاں سماتی ہیں؟

رات کا اندھیرا چھا چکا تھا اور ہم سرپاک گراؤنڈسے گزرتے سخی ثابت ثبوت سرکار رحمتہ اللہ علیہ کے دربار کے قریب سے گزرے تو رنگ برنگے برقی قمقموں سے درباد اور در دیوار ایک عجیب منظر پیش کر رہے تھے۔تاریخی حیثیت کے حامل محلہ کوٹ سرفراز خان میں برادرم چوہدری محسن حسن خان کے گھر پہنچے تو محفل سماع شروع تھی۔ ان محفلوں کی تاریخ اسد شاہ صاحب بتاتے ہیں کہ “جب پہلی بار اس محفل کا انعقاد کیا تھا تو چند لوگ سننے والے تھے“
مگر پھر “فقیر” کی دعا نے اپنا اثردکھایا اور سُر سے تعلق رکھنے والے ہر طرح کے فنکار یہاں آتے گئے  اور عروج پاتے گئے۔

استاد شفقت سلامت علی خان کو نہ صرف یہاں سے محبت اور عزت ملی بلکہ انہی محفلوں سے کلاسیکی موسیقی کی دم توڑتی روایت بھی اجاگر ہوئی ۔ استاد ررئیس خان نے وائلن ساری عمر بجایا لیکن جب یہاں حاضری دی تو پھر شہرت کی نئی  بلندیوں کو چھوا۔ مجھے تو کل کی طرح یاد ہے کہ جب عارف فیروز خان کو پہلی بار یہاں بلایا گیا تو انہیں بہت کم لوگ جانتے تے۔ پھر چشمِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ عارف فیروز نے دن دگنی رات چگنی ترقی کی۔

محفل میں جب ہم پہنچے تو فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ کوئی  وائلن بجا کے داد وصول کر رہا تھا تو کسی کے ہاتھ میں ستار تھا، کوٸی بانسری پہ اپنے جوہر آزما رہا تھا اور مٹھو سائیں اپنے ہمنواؤں کے ساتھ ڈھول دھمال پیش کر رہا تھا۔ کبھی جس محفل میں چند لوگ ہوتے تھے اب اس میں علاقے بھر کے سادات براجمان تھے۔ سید تقی شاہ مشہدی بل کسر، سخی عترت شاہ بادشاہ جھامرہ، سخی شفقت عباس شاہ بادشاہ جھامرہ اور خانوادہ بری امام سرکارؒ سے سید نثار عباس کاظمی سمیت اولیإ کرام کے وارثان کثیر تعداد میں محفل کو رونق بخشنے کے لیے تشریف فرما تھے۔

تلاوت بڑے خوش الحان صاحبان کی زبانی سن رکھی ہے مگر جب عارف فیروذ حمد و ثنإ کے دوران کسی آیت کی تلاوت کرتے ہیں تو مجمع پہ سحر طاری ہو جاتا ہے۔ نِصف شب تھی کہ جب عارف فیروز نے قوالی کا آغاز کیا۔ رونق دیکھنے والے گھروں کو جا چکے تھے اور اب سننے والے بیٹھے تھے۔ نصرت فتح علی خان کا خلإ تو خود نصرت کے بغیر کبھی پُر نہ ہوگا لیکن عارف فیروز کی آواز کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اب کی بار اس محفل کا ایک الگ رنگ تھا۔ جیسے جیسے رات بڑھ رہی تھی محفل اپنے عروج پر جا رہی تھی۔ فجر سے کچھ دیر قبل محفل اپنے اختتام کو پہنچی تو سب نے گھروں کی راہ لی۔

Advertisements
julia rana solicitors

کلاسیکی موسیقی اور موسیقی کی دوسری اصناف کو تباہ ہونے سے جس طرح ہمارے دوستوں چوہدری محسن حسن خان اور سید اسد علی شاہ نے بچانے کی کوشش کی ہے اس پر وہ تو داد و تحسین کے مستحق ہیں ہی لیکن سننے والوں کو بھی چاہیے   کہ سُر کو سمجھیں، اچھے برے میں فرق جانیں اور سُر سے پیار کریں۔ جی ہاں پیار جو دنیا کا سب سے عظیم جزبہ ہے۔ وہی پیار جسی فقیر تمام عمر بانٹتا ہے۔ ہر کوئی  اپنے ظرف کے مطابق سمیٹتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہی دنیا ہے اور شاید ذندگی اسی کا نام ہے کہ اپنے حصے کا پیار اگر میّسر ہو تو سمیٹیں،بانٹیں اور وقت آنے پر چلے جائیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply