پیٹوں جگر کو میں ۔۔محمد عبداللہ

لوگ دسمبر پر شاعری کرتے ہیں، اپنے اور دوسروں کے جذبات میں طلاطم بپا کرتے ہیں۔ مگر میرے ساتھ معاملہ الٹ ہے، کیونکہ دسمبر جب بھی آتا ہے خون کے آنسو رلاتا ہے۔ اپنی بے کسی اور بے بسی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس دسمبر نے قلب مسلم پر ایسے ایسے گھاؤ لگائے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا  “روؤں دل کو، کہ پیٹوں جگر کو میں”۔ میں بہت زیادہ ماضی میں نہیں جانا چاہتا، میں اپنے سامنے اپنی تاریخ  اور حالات کھولے بیٹھا ہوں. میرے سامنے سولہ دسمبر1971 کی تصاویر اور کہانیاں ہیں. محب وطن پاکستانیوں کی ظالم مکتی باہنی اور بھارتی درندوں کے ہاتھوں کٹی پھٹی لاشیں ہیں، ارض بنگال پر مسلم بہو بیٹیوں کی لٹتی عصمتیں ہیں، جنرل نیازی کا ہتھیار اپنے دشمن کو پیش کرکے تاریخ مسلم پر دھبہ لگانا ہے، مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش کے سفر میں محب وطن پاکستانیوں  کی خون کی ندیاں ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ایسا گھاؤ ہے کہ شاید ہی کبھی بھر سکے۔

اس سے تھوڑا آگے بڑھیں تو 1992  کا دسمبر مجھے گریبان چاک کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ بابری مسجد کی یادیں رلاتی ہیں۔ وہ مسجد جو پچھلے پانچ سو سال سے مسلمان برصغیر کی شان و شوکت کا مظہر تھی، جو ہند کے مسلم کی غیرت تھی۔ جو محمد عربیﷺ کے اسلام کی عظمت کا نشان تھی، اسی دسمبر میں بابری مسجد کو شہید کردیا گیا، یہ صرف بابری مسجد کی ہی شہادت نہ تھی بلکہ یہ مسلم امہ کی مجموعی غیرت کی شہادت تھی۔

مجھے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا  دور یاد آتا ہے کہ جب جہاد کا دروازہ کھلا تھا ، جب مسلمان غیرت و حمیت والا تھا تو گرجے اور کلیسے مسجدوں میں تبدیل ہو رہے تھے مگر آج محمد عربیﷺ کے دین پر کیسا دن آیا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دشمن کتنی جرات و بہادری کے ساتھ مسجد کو شہید کر رہے تھے اور صرف اسی پر بس نہیں بلکہ مسجد کو شہید کرنے کے بعد مسلمانوں کو تہ تیغ کیا گیا، ان کو زندہ جلایا گیا۔ تین ہزار مسلمان ایسے تھے جو بابری مسجد کے ساتھ ہی شہید کردیے گئے مگر ضمیر امت سو رہا تھا شاید۔

مگر ہماری نسل نو کو تو شاید یاد ہی نہ ہو کہ بابری مسجد بھی کوئی مسجد تھی جس کو   ہندو نے شہید کردیا اور اب بی جے پی کی حکومت بہت تیزی سے وہاں رام مندر کی تعمیر کے لیے کوشاں ہے۔ اگر تھوڑا سا اور آگے چلوں دسمبر2014  کی بات کروں تو مجھے اپنے معصوم بچے نظر آتے ہیں جن کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں سروں میں گولیاں مار مار کر شہید کیا گیا تھا۔ دشمن نے میدانوں میں اپنی ہزیمت کا بدلہ ان معصوم کلیوں سے لیا تھا۔ وہ کتابوں پر بکھرا خون، وہ چیتھڑوں میں بٹی  پھولوں کی لاشیں، میرے دشمن کی بزدلی کا ثبوت دے رہی تھیں۔ دسمبر کا میرے کلیجے پر یہ گھاؤ بھی بہت گہرا تھا۔

اگر دسمبر دو ہزار سولہ کی بات کروں تو میرے سامنے حلب میں خون مسلم کی ارزانی تھی، ماؤں بہنوں کا اپنی عزت کی حفاظت کے لیے خودکشیاں کرنا تھا، میری آنکھوں کے سامنے وہ مظلوم تھے پوری دنیا کے کافروں میں جس کا دل کرتا وہ شکار کرنے شام میں جا گھستا اور جی بھر کر  قتل عام کرتا ہے،2017  کے دسمبر میں َمیں یہ سب یاد کرکے آج کے حالات دیکھتا ہوں تو میرے سامنے میرے کشمیر و عراق لہولہو ہیں، میرے برما و افغانستان میں جلتے اور کٹتے مسلمان ہیں. برما میں جلتی بستیاں اور مسلمانوں کے کٹے پھٹے لاشے میری  آنکھوں کے سامنے اندھیرا طاری کردیتے ہیں۔ اے دسمبر تو ہی بتا میں سقوط ڈھاکہ کی داستان غم سناؤں، بابری مسجد کی شہادت اور مسلمانوں کے قتل عام پر ماتم کروں یا سانحہ پشاور کا نوحہ پڑھوں؟

Advertisements
julia rana solicitors

میں سقوط حلب کا رونا روؤں یا برما کے جلتے مسلمانوں کی حالت زار بیان کروں؟ میں کشمیر کے بچوں کی بے کسی پر لکھوں یا کہ فلسطین کے شہیدی کھیل کھیلنے والے بچوں کی عکاسی کروں؟ جب میں بے بس ہو کر تھک کر گرتا ہوں تو میری نظر قرآن کی ان آیات پر پڑتی ہے “اذن للذین یقاتلون بانھم ظلمو” تو میری ہمت بندھتی ہے، میری نظر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر   پڑتی ہے تو مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پریشانیوں اور حملوں کے  دور میں میدان بدر میں نکل کر رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کو پیغام دیتے نظر آتے ہیں کہ مسلمانو! تمھارے  سارے مسائل اور سقوطوں کا حل اور اپنی گرتی مسجدوں، تڑپتے لاشوں اور شہداء کا بدلہ و قصاص جہاد فی سبیل اللہ میں ہے اور اسی میں تمھاری بقا ہے۔

Facebook Comments

Muhammad Abdullah
BS Hons Political Science from University of Gujrat Political Columnist at Monthly Akhbar e Talaba Columnist at Daily Tehreek Lahore Social Worker Rescuer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply