میرے وطن کی سیاست کا نہ پوچھ۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

وطن عزیز میں کچھ چیزیں بہت ہی عام ہیں۔ جب کوئی عام آدمی کوئی سیاسی پارٹی جوائن کرتا ہے یا کوئی سیاستدان سیاست کی گاڑی بدلتے ہوئے نئی جماعت میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو اس کے نزدیک نئی جماعت، جس کا وہ حاضر سروس کارکن یا حاضر سروس رہنما ہے، وہ خیر مطلق ہے اور جس کے وہ خلاف ہے، وہ شر مطلق ہے۔ پہلے ذرا کم تھا، اب زیادہ ہوگیا کہ ہر سیاستدان کے معرکہ کو معرکہ کربلا بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ خود حسین ؑ اور دوسرے یزید بن جاتے ہیں اور اس بار تو کچھ سیاسی کارکنوں نے امام زمانہ (ع) کی ذات کو بھی اپنی پارٹی قیادت کے لیے بطور تمثیل بیان کیا۔ یہ بہت ہی عجیب بات ہے، جب سیاستدانوں کا دامن کارکردگی سے خالی ہوتا ہے تو وہ مذہب فروشی اور وطن فروشی کو بطور پالیسی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس سے وہ دوسروں کو دین دشمن اور وطن دشمن بنا دیتے ہیں اور خود کو واحد محب وطن اور مذہب پرست آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

ویسے عام آدمی کے سامنے ساری جماعتیں بڑی بے نقاب ہوئی ہیں۔ قدرت کا نظام ہے کہ کل تک پی ٹی آئی یہ کہتی رہی کہ عدالت کو ڈپٹی سپیکر کے فیصلے کے خلاف سماعت اور فیصلے کا اختیار نہیں ہے، مسلم لیگ نون کہتی تھی کہ عدالت سن سکتی ہے۔ آج صورتحال اس کے برعکس ہوگئی، مسلم لیگ دہائیاں دے رہی ہے کہ عدالت کو سننے کا اختیار نہیں ہے اور پی ٹی آئی عدالت میں دلیلیں دے رہی ہے کہ عدالت سن سکتی ہے اور عدالت سن رہی ہے۔ا ب مسلم لیگ نون اس سے اگلے موقف پر چلی گئی ہے کہ ہر سیاسی فیصلہ یہی تین ججز نہیں کرسکتے بلکہ فل کورٹ بنایا جائے، جو اس مقدمے کو سنے۔ پہلے پی ٹی آئی سیاسی شہادت کا علم اٹھائے ہوئے ہے، اب ماہرین کے مطابق یہی کام مسلم لیگ کرنے والی ہے اور اس نے پچھلے دو دنوں میں جتنی میڈیا ٹاکس کی ہیں، اتنی شائد وہ ایک مہینے میں کیا کرتے تھے۔ مسلم لیگ کا بیک فٹ پر چلا جانے والا کارکن بھی سر نکال رہا ہے۔

اصل میں پاکستان میں جارحانہ سیاست ہی کارکن کو متحرک کرتی ہے۔ عمران خان صاحب کے دور حکومت میں مہنگائی اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر پی ٹی آئی کا کارکن بیک فٹ پر چلا گیا تھا، مگر جیسے ہی عمران خان نے مزاحمتی بیانیہ اختیار کیا، پنجاب میں ہر الیکشن ہارنی والی جماعت مسلم لیگ کی حکومت ہونے کے باوجود پنجاب سے تقریباً کلین سویپ کر گئی۔ مقامی وجوہات سے ہٹ کر اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی عوام امریکہ اور اس کی پالیسیوں سے کس قدر نفرت کرتے ہیں۔ ہر وہ لیڈر جو امریکی مداخلت اور اس کی من پسندی کے خلاف عوام میں جائے گا، عوام اسے مایوس نہیں کرے گی۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ امریکی مخالفت پر ووٹ لینے والی جماعت کے آزاد کشمیر کے وزیراعظم نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات چھوڑی، جس پر اگرچہ بروقت وضاحت آگئی، مگر کہیں تو کچھ ہے، جس پر ایسی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔

اب کھیل بھی بڑا عجیب صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ہمارے طاقتور حلقے یہ چاہتے تھے کہ ہم تیل کو مہنگا کرنے سے لے کر بجلی کو مہنگا کرنے تک سارے کام نون لیگ سے کرا لیں اور جیسے ہی آئی ایم ایف سے ڈالروں کے بکسے پاکستان روانہ ہوں تو دوسرا چہرا آگے کرکے عمران خان کی خواہش کے مطابق نون لیگ کو الیکشن پر مجبو رکر دیا جائے۔ا س بار نون لیگ نے بھی پتہ اپنے پاس ہی رکھا ہے اور اس نے مہنگائی کی ذمہ داری لے لی اور اس کی قیمت بھی پنجاب الیکشن میں ادا کر دی، مگر اس نے آئی ایم ایف سے معاہدے کو فائنل نہیں کیا بلکہ اسے آگے اگست تک لے گئے ہیں۔ مسلم لیگ یہ چاہتی ہے کہ مقتدرہ سے بارگیننگ کے لیے ان کے ہاتھ میں کچھ تو ہو۔ مقتدرہ عمران اور نواز لیگ ہر دو طرف وعدے وعید کر رہی ہے۔ عمران خان بلا شبہ اپنی شہرت اور مقبولیت کے عروج پر ہیں، اگر ابھی الیکشن ہوتے ہیں تو وہ لازمی طورپر جیت جائیں گے۔

نون لیگ چاہتی ہے کہ ایک سال کا وقت ملے، تاکہ عمران خان کے بیانیے سے بھی ہوا نکل جائے اور ایک سال میں یہ کچھ کارکردگی لے کر میدان میں اتریں۔ اب مقتدرہ کو ایک طرف اختیار کرنا ہوگی، ورنہ نون لیگ نے اپنا دوسرا چہرہ دکھانا شروع کر دیا ہے۔ جس طرح پرسوں سے مریم نواز گرج رہی ہیں، ان کا نشانہ عدلیہ اور اس کے ماضی کے فیصلے ہیں، جس میں نون لیگ کو شدید نقصان پہنچا ہے، مگر جیسے ہی تھوڑا وقت اور گزرے گا، مریم کا نشانہ دوبارہ عدلیہ سے مقتدرہ ہو جائے گی۔ الیکشن کے لیے برابر میدان مانگا جا رہا ہے کہ یا تو نواز شریف کو بھی بری کرو یا فارن فنڈنگ میں عمران خان کو بھی سزا دو، تاکہ الیکشن میں گیم برابر کی ہو۔ فارن فنڈنگ کیس بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیے پھندے کی حیثیت رکھتا ہے، جس سے اسے کافی عرصے بلیک میل کیا جا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ظاہراً اس میں سزا تو لازمی ہوگی، اب اس کی نوعیت کیا ہوگی؟ اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے۔ اب نون لیگ اس ایشو کو بہت اٹھا رہی ہے کہ ہمارے خلاف فیصلے دنوں میں آجاتے ہیں اور فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آٹھ سال سے نہیں ہوا۔ اس ساری صورتحال میں ایک بات تو بہت ہی واضح ہوگئی کہ اخلاقی اور نظریاتی بنیادوں پر کوئی جماعت بھی کام نہیں کر رہی۔ ہر جماعت کا مقصد ہر صورت میں اقتدار سے چمٹے رہنا ہے، اقدار تباہ ہوتی ہیں تو ہو جائیں، اس سے سیاستدانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پی ٹی آئی اور نون لیگ آپس میں لڑ رہی ہیں اور فیصلے کا اختیار انہی کے پاس ہے، جن کے خلاف یہ جماعتیں مجھے کیوں نکالا کا نعرہ لگاتی رہی ہیں۔ بس وطن کی سیاست کا نہ پوچھیے عجب تماشہ لگا ہوا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply