روداد سفر(حصہ 43)عقائد میں پھنسا اسلام/شاکر ظہیر

وی پی این ( VPN ) سے ایک یہ فائدہ ہوا کہ یوٹیوب پر میں نے اسلام کے حوالے سے مواد دیکھنا شروع کیا ۔ سب سے پہلے جن سے واسطہ پڑا وہ شیخ احمد دیدات ، ڈاکٹر ذاکر نائک اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب تھے ۔ احمد دیدات اور ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب کا شعبہ تقابل ادیان تھا ۔ یعنی وہ اسلام اور مسیحیت ، اسلام اور ہندو ازم میں تقابل کر رہے تھے ۔ دوسرے لفظوں میں شیخ احمد دیدات جو اسلام اور عیسائیت میں تقابل کر رہے تھے اور یہ دونوں ہی ابراہیمی مذاہب تھے جو اپنی ایک جیسی مشترکہ بنیاد رکھتے تھے اور اپنا رشتہ آسمان سے جوڑ رہے تھے اس لیے یہ تقابل میرے کسی کام کا نہیں تھا کیونکہ دونوں کا منبع ایک ہی تھا اور دونوں ایک ہی خالق کو مانتے تھے ۔ دونوں بالکل اگر یہودیت کو بھی ساتھ ہی شامل کر لیا جائے تو تینوں مذہب کی تعریف پر پورے اترے تھے کہ یہ تینوں اپنا رشتہ آسمان سے جوڑ رہے تھے یعنی اس دنیا سے ماورائی دنیا سے ۔ دوسروں لفظوں میں یہ انسانی فلسفہ نہیں تھا بلکہ کسی بیرونی ہستی کا پیش کردہ تھا۔

ڈاکٹر ذاکر نائک ہندو ازم اور اسلام میں تقابل کر رہے تھے اور ہندوازم کی کتابوں سے بھی ایک خدا کے تصور کو ثابت کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ اس مذہب میں ہونے والی تبدیلیوں پر بھی روشنی ڈال رہے تھے ۔ یعنی وہ بھی ہندو ازم کا رشتہ کسی حد تک آسمان سے جوڑ رہے تھے ۔ یہ بھی میرے کام کا نہیں تھا کیونکہ میرے سامنے الحاد تھا یا ایک اور روایت کھڑی تھی جو اپنی بنیاد فلسفے پر رکھے ہوئے  تھی ، کنفیوشس ازم ، تاؤ ازم ، بدھ ازم ۔ اوریہ تینوں اخلاقی بنیادیں دین فطرت سے لے رہی تھیں اور باقی باتیں انسان کے صدیوں کے تجربات سے اخذ کر رہی تھیں ۔ یہ خالق کے تصور پر اس طرح بحث ہی نہیں کرتی تھی اس لیے یوں کہا جاسکتا ہے کہ بنیاد میں الحاد ہی تھا ۔

ڈاکٹر اسرار احمد کا موضوع ہی اسلامی انقلاب تھا جسے وہ انقلاب نبوی کہتے تھے ۔ یہ بھی الگ ہی موضوع تھا ۔

یہاں مجھے سب سے پہلے خدا کو ثابت کرنا تھا نبی اور انقلاب نبی تو بہت ہی بعد کی بات تھی ۔ اس لیے یہ بھی میرے کام کے نہیں تھے ۔ یعنی ان کو سننے کے بعد بھی میں وہیں کا وہیں کھڑا تھا ۔
( یہاں کسی کی ذاتی زندگی ڈسکس نہیں ہو رہی جو کچھ ان لوگوں نے پیش کیا ،  ان نظریات کا تقابل میں اپنے مسائل سے کر رہا ہوں ۔ تینوں کا حوالہ Peace TV ہے جس کی کئی ویڈیوز اس وقت یوٹیوب پر موجود تھیں )

پھر اس کے بعد روایات حدیث کے حوالے سے مولانا اسحاق فیصل آبادی کو کچھ سنا لیکن وہ بھی اطمینان نہ دلا سکے کہ وہ بھی سلف کی روایت کے اندر کھڑے ہو کر حدیث کا دفاع کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ تاویلات کر رہے تھے ۔ یعنی سب کو راضی کرنے کی کوشش میں مصروف ۔ میرے مقابل میں اگر روایتی مسلمان ہوں تو یہ کام میں بھی کر سکتا تھا لیکن یہاں مقابل میں الحاد ہی سمجھ لیں اس نے کسی سلف کی بات کو کیا اہمیت دینی وہ تو اپنے سلف کو اٹھا کر پھینک چکا تھا ۔ اس نے میری تاویلات کے تو پرخچے اڑا دینے تھے ۔ اسے کیا لگے کسی کو مرے ہزار سال ہو گئے ہیں اور وہ بزرگ بہت اہمیت کا حامل ہے اس لیے اس کی بات رد نہیں کی جا سکتی ۔ اس نے تو عقلی دلیل کا جائزہ لینا اور اسی پر بات کو پرکھنا تھا ۔ اس لیے مولانا اسحاق صاحب بھی میرے کسی کام کے نہیں تھے ۔

ایک دن ہمارے گھر میں میری بیوی کی سہیلی آئی جس کا شوہر یمن سے تھا اور وہ طلاق کے موضوع کو ڈسکس کرنے لگیں ۔ اور بات تین طلاق ایک ہی دفعہ اور تین طلاق تین طہر میں پھنس گئی ۔ میں نے مداخلت تو نہیں کی لیکن موضوع تو واقعی بہت اہم تھا کہ اس سے ایک گھر کا یونٹ ختم ہو رہا تھا اور ختم کرنے میں دو منٹ لگانے تھے یا تین چار ماہ کا وقت دونوں کو سوچنے سمجھنے کےلیے دینا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی ” حلالہ ” ڈسکس ہونا شروع ہوا تو میں نے عدنان بھائی سے ملنے کا بہانہ کیا اور گھر سے نکل آیا ۔

یہ وقتی فرار ہی تھا ۔ کیونکہ جو بات ایک بار سامنے آ گئی اب اس نے آج نہیں تو کل ڈسکس تو ہونا ہے اور پھر اس کی تفصیلات مجھے کیا دینی ہیں ۔ ظاہر ہے میری بیوی نے جب سہیلی کی گفتگو سے نتائج اخذ کرنے ہیں تو ان نتائج کو میرے ساتھ ڈسکس بھی کرنا ہے ۔

عدنان بھائی کے دفتر میں جا کر میں ایک سائیڈ پر بیٹھ گیا اور یوٹیوب پر اس موضوع کو سرچ کرنے لگا ۔ مختلف لوگوں کے بیانات اپنے اپنے فرقے کے حوالے سے ہی تھے ۔ اور پھر جب ایک ڈاکومنٹری جو شاید بی بی سی ( BBC ) نے انگلینڈ میں ” حلالہ بزنس ” کے نام سے بنائی تھے اسے دیکھ کر تو میرے بھی ہوش اڑ گئے ۔ یہ میں کیسے اپنی بیوی کو بتاؤں گا کہ یہ کیا ہے کہ مذہب کے نام پر اس کے نمائندے ایسا کاروبار بھی کرتے ہیں ، یہ تو انسانیت کی تذلیل ہے، اور حیاء باختہ عمل ۔ کیسے کوئی اس عمل کے بعد دوبارہ گھر بسا سکتا ہے اور ایک گھر میں پھر میاں بیوی کی حیثیت سے سکون اور اطمینان اور ایک دوسرے پر اعتماد کر کے زندگی گزار سکتا ہے ۔ میری کیا کسی کی عقل بھی یہ بات ماننے کےلیے تیار نہیں ہو سکتی ۔ پھر جب طلاق مرد نے دی تو ” حلالہ ” عورت کیوں کرے وہ کیوں اپنی حیا کا جنازہ نکالے اور پھر ساری زندگی اپنے شوہر ، اس کے خاندان اور معاشرے کے سامنے نظریں بھی نیچی رکھے اور اپنے ہی شوہر کو جسے وہ پچھلا گھر چھوڑ کر اپنا سب کچھ سمجھتی ہے اس کےلیے اپنے دل میں کوئی عزت اور اعتماد محسوس نہ کرے ۔ اس کے مقابل میں خود انسانوں نے جو اپنے تجربات سے نتائج اخذ کر کے ایک قانون شادی اور طلاق کا بنایا تھا وہ بھی موجود تھا ۔ آپ نے شادی کرنی ہے دونوں شادی آفس جائیں اور سامنے پیش ہو کر شرائط لکھیں اور نکاح نامہ یا میرج بک حکومت اپنی گارنٹی پر آپ کو بنا کر دیتی ہے اس کے بعد آپ جا کر اپنے عزیز و اقارب کی دعوت کر کے اس شادی کا اعلان کریں ۔ طلاق دینی ہے ، اپنے کاغذات کے ساتھ دونوں فریق دفتر میں حاضر ہوں اپنے مسئلہ کو ڈسکس کرنا چاہتے ہیں تو کریں ورنہ شرائط طے  کر کے لکھیں یعنی جائیداد بچوں کے مسائل کو لکھیں ،ضمانت حکومت دے گی اور اپنی اپنی راہ لیں ۔ اور ایک یہ جیسے کچھ لوگ ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر تین دفعہ کہنے سے لاگو کر رہے تھے ۔ اور دوسرے یہ انسانی بنایا قانون جو ہر معاملے کو واضح اور صاف کر رہا ہے کہ کوئی ابہام باقی نہ رہے اور فریقین میں کوئی نزاع پیدا نہ ہو ، معاشرے میں معاملات خوش اسلوبی سے چلتے رہیں ۔ یہاں صرف اس خدا حکم کو سمجھنے کی تھی کہ اس کا اطلاق کیسے کیا جائے گا ۔

میری بیوی کی ایک نو مسلم سہیلی لی لی ( lily ) بھی تھی جس کا تعلق سانشی ( shanxi ) صوبے سے تھا اور لی لی ( lily ) کے شوہر عبدالرحمن کا تعلق  تیونس سے دونوں بہت ہنس مکھ تھے ۔ عبد الرحمن اپنی تیونس کی خاص ڈش ” کش کش ” پکاتے تو ہم دونوں میاں بیوی کو ضرور بلاتے تھے ۔ اللہ نے انہیں دو بیٹوں سے نوازا اور اب وہ تیونس ہی میں رہائش رکھے ہوئے ہیں ۔ ایک دفعہ ہم ان کی دعوت پر ان کے گھر گئے تو ان کی بیوی نے میری بیوی سے ایک عجیب بات چھیڑ دی جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی اور نہ پہلے کبھی سنی تھی ۔ وہ یہ کہ تیونس مراکش کے مسلمان اونٹ کا پیشاب پیتے ہیں اور یہ بیماریوں کا علاج ہے ۔ دوسرا اس کا حدیث میں بھی ذکر ہے ۔ یا اللہ یہ پیشاب کا شمار خبائث میں ہوتا ہے یہ تو انسانی فطرت جانتی ہے اس کےلیے مذہب کی بھی کسی دلیل کی ضرورت نہیں اور یہاں یہ حدیث پیش کر رہے ہیں ۔ پیشاب کا استعمال تو ان کیمونسٹوں میں بھی کوئی نہیں کرتا کہ اسے انسانی استعمال کی چیز سمجھا ہی نہیں جاتا اور نجس ہی سمجھا جاتا ہے اور یہ تیونس اور مراکش والے اونٹ کے پیشاب کے استعمال کےلیے حدیث سے دلیل دے رہے ہیں ۔ واپس آ کر میں نے اس کے بارے میں انٹرنیٹ پر سرچ کی تو اس کی بات واقعی درست تھی ۔ بلکہ وہ تو باقاعدہ ٹن پیک میں مراکش تنونس میں دستیاب ہے ۔
سوالوں کا ہجوم مجھے گھیرے ہوئے تھا ۔ مجھے کیا سب ہی کو گھیرے ہوئے تھے شاید صرف میں ان کے جوابات کی تلاش میں تھا باقی شاید جو ہے جیسا ہے پر عمل کر رہے تھے ۔ مسئلہ سب کے ساتھ تھا ۔ نوے کی دہائی انٹرنیٹ عام لوگوں کی پہنچ میں آنے کے بعد اس دہائی میں پیدا ہونے والی نسل جوان ہو کر سوال لے کر سامنے کھڑی تھی اور دینی مدراس والے جو دین کے نمائندہ کہلاتے تھے وہ باہر کی دنیا سے نا آشناء بس غاروں میں اپنی دنیا بسا کر بیٹھے تھے ۔ سوالوں کے جواب میں فتوے ہی ان کےلیے جان چھڑانے کا آسان حل تھا ۔ انہیں شاید معلوم نہیں تھا کہ یہ ان کی بقاء کی جنگ ہے ۔ اگر ان سوالات کے تسلی بخش جوابات وہ معاشرے کو نہ دے سکے تو ان کی اہمیت چلے ہوئے کارتوس جتنی بھی نہیں ہوگی اور یہی ہوا ہے ۔

کچھ ہی عرصہ میں پاکستان کے مختلف علما کو مختلف مسائل پر سننے کے بعد مجھے یہ یقین ہو گیا کہ ان کے پاس وہی فضول قسم کی بحثیں ہیں جن سے مجھے کوئی لینا دینا نہیں۔ میرے سوالوں یا آج کی نسل کے سوالات کا جواب وہی دے سکتا ہے جس کا تعلق پاکستان سے باہر ہو یا وہ وہاں اس مخلوط معاشرے میں رہ رہا ہو اور وہاں اس کا سامنے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے ہوتا ہو ۔ وہ دوسرے مذاہب کی تفصیلات جانتا ہو اور پر بنیاد کے اصولی مباحث کر سکتا ہوں ۔ دلائل کی بنیاد عقل انسان پر رکھنا جانتا ہو اور سب سے اہم عقیدت کو ایک طرف رکھ کر بات کرنا جانتا ہو ۔ کیونکہ آپ کی کسی شخصیت یا نظریہ کےلیے عقیدت دوسرے کےلیے دلیل نہیں بن سکتی بلکہ وہ صرف آپ ہی کو اطمینان دلا سکتی ہے ۔

تلاش میں نے بھی جاری رکھی تو معلوم نہیں کیسے میرے پاس کسی کی ٹیگ کی ہوئی پوسٹ ” سنت اور حدیث ” سامنے آئی ۔ میں نے پڑھنا شروع کیا تو یہ تو الگ ہی دنیا تھی جہاں سنت کو حدیث سے الگ کیا جا رہا ہے ۔ یہ محترم قاری صاحب کی پوسٹ تھی جن کی رہائش پاکستان سے باہر تھی اور جو بیرون کی دنیا سے جڑے ہوئے تھے ۔ جیسے جیسے پڑھتا گیا دلائل ملتے چلے گئے ۔

پھر کچھ اور رہنما ملتے گئے ۔ طلاق کے مسئلے کو تمنا عمادی صاحب کی ” الطلاق مرتان ” نے کافی حد تک واضح کر دیا ۔ یا یوں کہیں کہ یہ سمجھا دیا کہ اس مسئلہ پر بحث ہو سکتی ہے ، یہ کوئی حتمی ، اٹل بات نہیں ہے ، اس پر کئی طرح کی قانون سازی ہو سکتی ہے ۔ ویسے بھی جب سنت کو حدیث سے الگ کیا اور سنت کو دین کہا اور حدیث کو تاریخ سمجھا تو گھتیاں سلجھتی گئیں ۔ بہرحال یہ تو دین کے اندر کھڑے ہو کر بات سلجھ رہی تھی ، دین سے باہر کھڑے ہو کر بہت سے سوالات ویسے ہی کھڑے تھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے اضطراب کو بھی رب نے دیکھا اور راہ دکھانا شروع کر دی ۔ یہ سچ ہے کہ جسے حق کی تلاش ہوتی ہے اسے رب اکیلا نہیں چھوڑتا ۔ یہ دروازہ اندر سے کھلتا ہے اور خود کھولنا پڑتا ہے اپنی مرضی سے ، باہر والا صرف دستک ہی دے سکتا ہے ۔ حق بہت قیمتی چیز ہے خدا دیتا ہے جو اس کی خود خواہش رکھتا ہے ۔ یہی قرآن کے کہنے کا مدعا ہے خدا جسے چاہتا ہے یعنی جو خود ہدایت کی طلب رکھتا ہے اسے ہدایت دیتا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply