مطالعہ مسیحیت بہت ابتدائی عمر سے دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ ان دنوں چارلس ٹیلر کی کتاب کی تلخیص کے سلسلے میں دوبارہ بہت سی چیزیں دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ ایک اہم سوال پر مسلمان متکلمین یا مناظرین کے موقف پر عدم اطمینان اب اتنا واضح ہو چکا ہے کہ اسے اہل علم کے سامنے پیش کر دینے میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔
یہ سوال، بنی اسرائیل سے باہر مسیحیت کی تبلیغ واشاعت سے متعلق ہے۔ انجیل اور قرآن دونوں سے یہ واضح ہے کہ حضرت مسیح کی بعثت اصلا بنی اسرائیل میں ہوئی تھی۔ تاہم ان پر دعوت ایمان کو بنی اسرائیل تک محدود رکھنا مقصود تھا یا دیگر اقوام تک بھی اس کی توسیع کا راستہ کھلا رکھا گیا تھا؟ انجیل میں اس حوالے سے حضرت مسیح کے دو متضاد بیان نقل ہوئے ہیں۔ ایک کے مطابق انھوں نے شاگردوں کو بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے علاوہ کسی کے پاس جانے سے منع کیا، جبکہ ایک دوسرے بیان کے مطابق شاگردوں سے آخری ملاقات میں انھیں ساری اقوام تک اس دعوت کو پھیلانے کی ہدایت فرمائی۔
ہمارے علماء کا ایک عمومی اعتراض یہ رہا ہے کہ مسیحیوں کی غیر بنی اسرائیل میں دعوتی سرگرمیاں حضرت مسیح کی ہدایات کے خلاف ہیں۔ تاہم قرآن مجید سے ہمیں اس اعتراض کی تائید نہیں ملتی۔ قرآن واضح طور پر بنی اسرائیل کے علاوہ نصاریٰ کو بھی اہل الکتاب اور حضرت مسیح کے متبعین شمار کرتا ہے اور ان کو انجیل پر عمل کرنے اور اسے قائم رکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ کہیں بھی اس کا اشارہ تک نہیں کہ اسرائیلی نسل سے باہر کے لوگوں کے، اس دائرے میں شامل ہونے یا اس کی طرف نسبت کرنے پر قرآن کو کوئی اعتراض ہے یا وہ ان کی ذمہ داریوں کے لحاظ سے انھیں بنی اسرائیل کے مقابلے میں کوئی ثانوی حیثیت دیتا ہے۔ قرآن میں حضرت مسیح کے متبعین کو منکرین پر غالب کرنے کے جس وعدے کا ذکر ہوا ہے، وہ بھی تاریخ میں غیر بنی اسرائیل کے ذریعے سے عمل میں آیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دائرہ دعوت کی یہ توسیع تکوینی طور پر خود اللہ تعالیٰ کے پیش نظر بھی تھی۔
البتہ یہ سوال اہم ہے کہ حضرت مسیح کے رفع کے بعد شاگردوں نے توسیع دعوت کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا؟ آیا یہ کوئی دینی حکم تھا یا ایک اجتہادی فیصلہ تھا جو شاگردوں نے اپنی بصیرت کی بنیاد پر کیا؟
حضرت مسیح کی طرف سے شاگردوں کو کیا ہدایت کی گئی تھی، اس کے متعلق تو جیسے عرض کیا، انجیل کے بیانات متضاد ہیں۔ تاہم کتاب اعمال میں شاگردوں کی سرگرمیوں کی جو روداد نقل ہوئی ہے، اس سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ در پیش صورت حال کے لحاظ سے باہمی مشاورت سے کیا جانے والا ایک اجتہادی فیصلہ تھا اور بالکل صائب تھا۔ در پیش صورت حال یہ تھی کہ بنی اسرائیل نے بحیثیت قوم حضرت مسیح کی دعوت کو رد کر دیا تھا اور گنتی کے چند شاگردوں اور عام لوگوں کے علاوہ یہودی اشرافیہ میں سے کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا۔ یہودی علماء نے منظم طور پر دعوت مسیح کی مخالفت کی جس کے نتیجے میں بنی اسرائیل میں قومی سطح پر اس کی پذیرائی کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے اور یہ شاگردوں کو صاف نظر آ رہا تھا۔
اس تناظر میں پولوس نے، جو خود یہودی پس منظر سے تھا، مسیحیت قبول کی تو مسیحی دعوتی سرگرمیوں کا رخ بنیادی طور پر غیر قوموں کی طرف موڑ دینے کو اپنا بنیادی مشن قرار دیا اور شاگردوں کے ساتھ مل کر اس تحریک کو منظم کیا۔ شاگردوں میں ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد، پولوس کے نقطہ نظر سے اتفاق پیدا ہوتا چلا گیا اور ممتاز شاگردوں نے پولوس کے ساتھ مل کر رومی سلطنت کے مختلف علاقوں میں جا کر تبلیغ کے فرائض انجام دیے۔ اس اتفاق رائے کے پیچھے بنیادی طور پر اس صورت حال کا ادراک کارفرما تھا کہ بنی اسرائیل تک اس دعوت کو محدود رکھنے کا آخری نتیجہ اس دعوت کے، تاریخ میں گم ہو جانے کی صورت میں نکلے گا یا حضرت مسیح کے چند بکھرے ہوئے نام لیوا مسلسل یہودیوں یا رومی سلطنت کی ایذا رسانی کا شکار ہوتے رہیں گے۔
البتہ اس فیصلے کے نتیجے میں ایک اہم اختلاف شاگردوں اور پولوس کے مابین سامنے آیا جو بعض مخصوص شرعی پابندیوں مثلا ختنہ کروانے کو غیر قوموں پر لازم قرار دینے سے متعلق تھا۔
غیر قوموں کے مسیحیت میں داخلے کی دینی شرائط، خاص طور پر شریعت کی پابندیوں کا مسئلہ بنیادی طور پر ختنے کے وجوب اور کھانے پینے میں حلال وحرام جانوروں کی تفریق کے حوالے سے زیر بحث آیا۔ شاگردان مسیح اور پولوس کے مابین اس موضوع پر خاصا شدید اختلاف سامنے آیا اور ایک قسم کی گروپ بندی بھی وجود میں آ گئی۔ بنیادی طور پر ہمیں تین طرح کے نقطہ ہائے نظر کا سراغ ملتا ہے۔
شاگردوں کے ایک گروہ کا موقف یہ تھا کہ تورات میں جو شرعی پابندیاں مذکور ہیں اور جن پر سیدنا مسیح سمیت شاگرد بھی عمل پیرا ہیں (سوائے ان کے جن کی باقاعدہ تنسیخ کر دی گئی)، وہی پابندیاں مسیحیت قبول کرنے والے سب لوگوں پر عائد ہوتی ہیں اور نومسلموں کو بھی مثلا ختنہ وغیرہ کی پابندی قبول کرنی پڑے گی۔
ایک دوسرے گروہ نے دعوتی مصلحت اور عملی حکمت کے تحت ان پابندیوں کو غیر بنی اسرائیل کے لیے ایک لازمی شرط قرار دینے پر اصرار کرنے کو مناسب نہیں سمجھا اور عملا پولوس کے اس موقف سے اتفاق کر لیا کہ ان شرائط کو دعوت کا حصہ نہیں بنانا چاہیے۔
تاہم پولوس نے اس بات کو حکمت عملی تک محدود رکھنے کے بجائے شریعت موسوی کی مطلق تنسیخ کو ایک اصولی اور کلامی موقف کے طور پر پیش کیا اور سیدنا مسیح کی آمد کی بنیادی معنویت ہی اس نکتے کو قرار دیا کہ وہ انسانیت کو شریعت کی جکڑ بندیوں سے، جو انسانوں پر ان کے گناہوں کی پاداش میں عائد کی گئی تھیں، نجات دیں اور خدا کے فضل سے دنیا کو متعارف کروائیں۔ مسیحی کلامیات میں، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، اسی موقف کو قبول عام حاصل ہوا اور اس کے نتیجے میں بنیادی اخلاقیات اور محدود قانونی پابندیوں کے علاوہ تورات میں مذکور ضابطہ شرائع کو منسوخ قرار دے دیا گیا۔
شاگردان مسیح کے دوسرے گروہ اور مقدس پولوس کے اختلاف کی یہ تشریح اگر درست ہے کہ شاگرد، نومسلموں کو بعض شرائع کی پابندی سے ایک وقتی مصلحت کے تحت مستثنی قرار دینے پر راضی تھے جبکہ پولوس شریعت کو مستقلا منسوخ قرار دینا چاہ رہا تھا تو اول وہلہ میں شاگردوں کا موقف زیادہ متوازن اور درست دکھائی دیتا ہے، لیکن ہمارے خیال میں معاملے کا ایک اور اہم پہلو پولوس کے موقف کو بھی اتنا ہی قابل غور بناتا ہے۔ وہ یہ کہ اگر مسیحی مذہب کا مستقبل اب بنی اسرائیل سے نہیں، بلکہ غیر قوموں سے وابستہ نظر آ رہا تھا تو وہ شریعت جو اصلا بنی اسرائیل کے لیے دی گئی اور انھی پر اس کی پابندی لازم تھی، غیر قوموں پر اسے کیونکر لازم کیا جا سکتا تھا؟
اگر تو خود سیدنا مسیح کی طرف سے، اللہ کے حکم سے، اپنی دعوت کو تمام قوموں تک پھیلانے کا حکم دیا گیا ہوتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ لیکن مفروضہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ شاگردوں اور پولوس نے صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اجتہاد کیا۔ ایسی صورت میں شریعت موسوی کی پابندی کو غیر اسرائیلی اقوام پر لازم کرنے کی بنیاد کیا ہوتی؟ بآسانی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ پولوس اس پورے تناظر کو اور کسی بھی فیصلے کے دور رس نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا کہ تورات کی مخصوص شرعی پابندیوں کو ایک عالمگیر مسیحی دعوت کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا، اور اسی نتیجے کو فلسفیانہ اور الہیاتی بنیادیں فراہم کرتے ہوئے اس نے شریعت کی تنسیخ کا نظریہ پیش کر دیا۔
ہمارے علماء میں سے علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اس سوال کو موضوع بنایا اور یہ رائے پیش کی ہے کہ انبیائے سابقین کی بعثت توحید کے باب میں تو عام ہوتی تھی، یعنی وہ دنیا کے ہر آدمی یا قوم کو توحید کی دعوت دے سکتے تھے، لیکن شریعت کی پابندی کے لحاظ سے ان کی بعثت اپنی قوم کے لیے خاص ہوتی تھی۔ دوسری قوموں کو توحید کے علاوہ اپنی شریعت پر عمل کی دعوت دینا ان کے لیے اختیاری تھا، لازم نہیں تھا۔
ہماری رائے میں پولوس نے جو نظریہ پیش کیا، وہ اس کلامی موقف کے بہت قریب ہے۔ پولوس کی پوزیشن کو اگر اس زاویے سے سمجھا جائے تو وہ بہت قابل فہم بنتی ہے کہ حضرت مسیح پر ایمان کو تو ایک عالمگیر دعوت کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے، لیکن بنی اسرائیل کی شریعت چونکہ ان غیر قوموں کے لیے اصلا وضع ہی نہیں کی گئی جبکہ اس دعوت کا مستقبل اب بنی اسرائیل کے ساتھ وابستہ بھی نہیں، اس لیے شریعت موسوی اب عملا گویا منسوخ ہے۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں