چھوٹا خاندان،زندگی آسان۔ ۔محمد ہاشم

زندگی جینا اور زندگی جھیلنا دو الگ اصطلاحات ہیں۔ رزق اللہ تعالیٰ جھگی میں رہنے والے بے گھر غریب کو بھی دیتا ہے اور بسا اوقات وہ ہم سے بہتر کھا کے سوتے ہیں،لیکن ان بیچاروں کی سوچ اپنے اور معاشرے کے مستقبل کی بجائے اپنی دو وقت کی روٹی تک ہوتی ہے۔

ہمارا معاشرہ اس وقت ایک ہنگامی بحران سے گزر رہا ہے اور وہ ہے آبادی کا بے ہنگم اضافہ۔ آبادی کے اس خطرناک اضافے میں اہم کردار لوور مڈل کلاس اور غریب طبقے کا ہے جن میں شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔ ناخواندگی کا شکار یہ طبقہ گلوبل ہنگر انڈکس، فی کس آمدنی، غزائی قلت سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور گنجان آبادی کے نقصانات سے ناآشنا ہیں۔
آبادی کے اس خطرناک اضافے سے کئی مسائل جنم لے رہے ہیں جس میں ایک اہم ترین مسئلہ نئی نسل کی اچھی تعلیم و تربیت کا فقدان ہے۔ اگر ہم دو گھرانوں کی مثال لیں تو ایک گھر میں دو یا تین بچے ہوں اور ایک میں چھ، سات ہوں تو دونوں اطرف کی طرز زندگی میں واضح فرق نظر آئے گا۔ دونوں اطراف کے بچوں کے مواقع یکسر مختلف ہوں گے۔

کم بچوں والے گھرانوں میں والدین اپنے بچوں کو معیاری تعلیمی مواقع دینے کے ساتھ بھرپور توجہ سے ان کی تربیت بھی کر پاتے ہیں۔ ان کو معلوم ہوتا ہے کس بچے میں کیا صلاحیت ہے اور کس میں کیا کمزوری۔ ان کو اپنے بچوں کے ٹیلنٹ اور انٹرسٹ معلوم ہوتے ہیں۔ آمدن کم ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے بچوں کے اچھے  مستقبل اور معیاری تعلیم کے لئے بچت کرتے ہیں۔ یہ بچت اگرچہ تھوڑی بھی ہو تو کافی ہوتی ہے کیونکہ خرچوں کا سرکل چھوٹا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاکہ وہ بڑے سپنے دیکھیں اور ان کے حصول کی کوشش کریں۔ بچوں کو جب معلوم ہوتا ہے کہ میرے خواب میرے والدین کی کوششوں سے پورے ہو سکتے ہیں تو بچوں میں آگے بڑھنے، بڑا سوچنے اور محنت کرنے کی پیاس بڑھتی ہے۔

اس کے برعکس جن گھروں میں بچوں کی بہتات ہو وہاں کے بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ بچہ جب دیکھتا ہے کہ والد ہماری روٹی پوری کرنے کے لئے سارا دن محنت کرتا ہے اور والدہ صبح سے شام تک گھر کا کام کر کے چڑچڑی ہو گئی ہے تو اس میں بڑا سوچنے اور بڑے سپنے دیکھنے کا رجحان ڈگمگانے لگتا ہے۔ والد جو سارا دن گھر سے باہر محنت کرتا ہے اس کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کونسا بچہ دن میں  کیا کرتا ہے۔ بعض والدین کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا کونسا بچہ کونسی کلاس میں پڑھتا ہے چہ جائیکہ وہ ان کی صلاحیتوں اور کمزوریوں کو بھانپنے کی کوشش کریں ۔ والدہ کو صرف اتنی فکر ہوتی ہے کہ کونسے بچے نے کھانا کھایا ہے اور کونسا غائب ہے۔ ایسے حالات میں بیچاری نیم خواندہ ماں سات بچوں کے نام ہی گڈ مڈ کر دیتی ہے۔

ایسے گھرانوں میں نفسیاتی مسائل کی بہتات ہوتی ہے۔ تنگدستی نے سب کو چڑ چڑا بنا دیا ہوتا ہے اور آئے دن لڑائی رہتی ہے۔ ماں بیچاری اپنی نفسیاتی بیماریوں کا حل تعویز گنڈوں میں اور جعلی عاملوں میں ڈھونڈتی ہے اور سارے دن کا تھکا ہارا اور ٹھوکریں  کھایا باپ گھر آکے اپنا غصہ اور سٹریس بیوی بچوں پر نکالتا ہے۔

ایسے گھرانے میں بڑے  ہونے والے بچے سے آئن سٹائن بننے کی توقع آج کے دور میں قریب ناممکن ہے۔ یہ بچے یا تو غلط رستے لگ کے نشہ اور مجرمانہ سرگرمیوں میں پناہ لیتے ہیں، یا اوائل عمری میں گھر کے حالات سے مجبور ہو کر غم ِ روزگار میں لگ جاتے ہیں۔

انسان پیدائشی حسّاس ہوتا ہے۔ بچہ جب ہوش سنبھالتا ہے تو سپنے دیکھنے لگ جاتا ہے۔ بچپن کے سپنے بہت بڑے ہوتے ہیں۔ عمر بڑھتے ان سپنوں کا تناور درخت بننے یا مرجھانے میں والدین، معاشرے  اور ماحول کا اہم ترین اثر ہوتا ہے۔ اگر بچے کو اچھا اور محفوظ ماحول ملے تو وہ اپنے بچپن کے بڑے سپنوں کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور اگر بد قسمتی سے اس کو ویسا ماحول نہیں ملتا تو اس کے سپنوں کا گراف گرنے لگتا ہے اور آخر کار جوانی تک اس کی تخلیقی صلاحیتیں مرجھا جاتی ہیں۔

نہ جانے کتنے تخلیقی ذہن اس معاشرے کی ستم ظریفی اور حالت کے تھپیڑوں سے الجھ کے بانجھ ہوگئے اور کتنے اس معاشرتی تناؤ سے روز لڑ رہے ہیں اور تھک ہار کے شکست کھا جاتے ہیں۔

بنی نوع انسان نے جس قدر ترقی کی ہے، معاشرے میں اس قدر تغیر اور تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ آج کے بچے کو اگر بادشاہ اکبر کی خواب گاہ میں سلا دیں جہاں مور کے پنکھ سے ہوا دی جائے اور ہاتھیوں اور شاہی گھوڑوں  پر سفر کرنے کو کہیں تو وہ اس کو مشقت سمجھے گا کیونکہ آج کا بچہ چلر اور ایئر کنڈیشنڈ نہیں تو پنکھا تو رکھتا ہی ہے اور گاڑی ہوائی جہاز میں سفر کرنے والے کو اکبر کے پُرتعیش ہاتھی کا سفر مشقت لگے گا۔ ہر گزرتے دور کے ساتھ سہولیات ضروریات میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ آپ اپنے بچوں کو اپنے پچپن کی مثالیں دے کر مطمئن نہیں کر سکتے کہ آپ کتنا پیدل چل کے سکول جاتے تھے ،کیسے  آپ کا کپڑا، جوتا اور کھانا تھا۔ آپ ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں مقابلہ سخت ہے اور پیچھے رہ جانا ناکامی سے زیادہ جرم بن جاتا ہے۔ دنیا ایک ریس ہے اور ہر انسان اس ریس کا کھلاڑی ہے۔ ہم نے جب تک زندہ رہنا ہے، دوڑنا ہے اور ہر گزرتی نسل کی ذمہ داری ہے کہ اگلی نسل کو بہتر دوڑنے اور مقابلہ کرنے کی سہولیات اور مواقع مہیا کرے۔

بڑھتی آبادی کے اس جن کو قابو کرنے کے لئے اپنے آپ سے اور اپنے گھر سے کوشش کریں۔ فیملی چھوٹی رکھیں بچوں کو صرف اللہ کی رضا کہہ کر روٹی پوری کرنے کے لئے پیدا نہ کریں بلکہ جدید دور کے مطابق سہولیات  اور مواقع بھی دیں۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ کی آمدن آپ کے خاندان کے اخراجات سے زیادہ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور اختیار بھی دیا ہے تاکہ وہ اس کا اپنے لئے اور معاشرے کے لئے بہتر استعمال کرے تاکہ ہماری ہر آنے والی نسل گزری ہوئی نسل سے بہتر زندگی گزارے۔ یہی انسانیت ہے اور زندگی جینا اسی کا نام ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply