کچھ تشدد کے بارے میں:ڈاکٹر اختر علی سید

 

سوشل میڈیا کی قباحتیں اپنی جگہ پر مگر اس کا یہ فائدہ کیا کم ہے کہ گاہے گاہے اس پر ان موضوعات پر گفتگو چھڑجاتی ہے جن پر ہمارے تعلیمی اداروں  اور مین سٹریم میڈیا نے کبھی نظر ہی نہیں ڈالی۔ ایسے کئی موضوعات سوشل میڈیا یا پھر مختلف ویب سائٹس پر نظر آتے ہیں۔ انہی میں سے ایک موضوع جو گزشتہ دنوں زیر بحث رہا وہ تشدد کی سیاسی جدوجھد میں  افادیت کے بارے میں تھا۔ گو یہ بحث اس موضوع سے ہٹ کر چے گویرا پر مرکوز ہوگئی۔ اس موضوع کے ذیل میں کئی اور نام بھی آسکتے تھے تاہم چے گویرا کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی نے گفتگو کو اصل موضوع سے پرے دھکیل دیا ۔

یہ 2010 کی بات ہے گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ نفسیات نے تشدد کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ میں اس وقت دنیا بھر میں ہونے والے خودکش حملوں کی تفصیلات اکھٹا اور ان سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس وقت تک کی معلومات کے مطابق پاکستان میں ہونے والے خودکش حملے ایک نئے رجحان کی نشاندہی کر رہے تھے جو دنیا نے اس سے پہلے کہیں نہیں دیکھے تھے۔ اس کانفرنس میں میری گفتگو کا موضوع تھا۔: Pakistan setting new trends in suicide attacks. کانفرنس میں میری گفتگو سے قطع نظر آپ اگر آج دنیا میں ہونے والے خود کش حملوں سے حاصل ہونے والے نتائج کا جائزہ لیں تو آپ باآسانی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سوائے حزب اللہ کے کوئی اور تحریک اپنی اس حکمت عملی سے مطلوبہ سیاسی نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ میں ان مختلف تحریکوں کی پرتشدد کارروائیوں کا فرداً فرداً جائزہ لے کر یہ بات عرض کر سکتا ہوں کہ ہر تحریک کو اس خطے میں مصروف استعماری طاقتوں نے کامیابی سے انجام تک پہنچایا نہ صرف یہ بلکہ ہر وہ خطہ ہے جہاں ان تحریکوں نے پرتشدد کاروائیاں انجام دیں ان تحریکوں کے خاتمے کے بعد وہ تمام خطے بری طرح سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوئے۔استعماری طاقتوں اور ان تحریکوں کی کارروائیوں کی وجہ سے صورتحال اتنی گمبیر ہوئی کہ آج تک ان خطوں سے خیر کی کوئی خبر نہیں آتی۔ مجھے معلوم ہے بعض خوش گمان تجزیہ نگار استعماری پسپائی کی ظاہری صورت کو ان پر تشدد تحریکوں کی کامیابی سمجھتے ہیں مگر ایسے تجزیہ نگار استعماری طاقتوں کی ترجیحات کو صرف فوجی کامیابیوں کے حوالے سے دیکھنے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ان کو دیگر استعماری مقاصد دکھائی نہیں دیتے۔
جو بات اس وقت پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ تشدد ( یعنی دہشت گردی گوریلا وار فیئر وغیرہ) کسی بھی سیاسی تحریک کی کامیابی کے لیے آج اپنی افادیت کھوچکا ہے اور اس کے چند اسباب تو انگلیوں پر گنی جا سکتے ہیں۔
1. پوری دنیا میں سکیورٹی کے ایسے انتظام وجود میں آچکے ہیں کہ اب خفیہ سرگرمیوں کے امکانات معدوم سے معدوم تر کر دیے گئے ہیں۔ ہمارے ملک میں مقبول اسرائیلی مصنف نوح ہراری نے کووڈ وبا کے آغاز  میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں اس جانب اشارہ کیا تھا۔
2. سب سے بڑی بڑی استعماری طاقت ریاستہائے متحدہ امریکہ نے اپنے ملک اور کسی بھی خطے میں اپنے مفادات کی نگرانی اور اس کے دشمنوں کی سرکوبی کے جو انتظامات تشکیل دیے ہیں وہ آج سے قبل انسانی تاریخ میں نہیں دیکھے گئے۔ صرف اسرائیل کے راڈار سسٹم پر اخباری اطلاعات کا جائزہ لیں۔ فلسطینی چھاپہ ماروں کی جانب سے فائر کیے جانے والے میزائل اب اسرائیلی باشندوں اور فوجیوں کو تو درکنار وہاں کے حشرات الارض کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
3. مزاحمتی تحریکوں کو رقوم اور اسلحے فراہم کرنے والے ممالک اور معاشرے اس وقت جن مشکلات کا شکار ہیں اس کا اندازہ پاکستان میں رہنے والوں سے زیادہ کون لگا سکتا ہے۔ مجھے ایک فلسطینی خاتون نے ابھی حال ہی میں بتایا کہ عرب باشندے جو رقوم فلسطین بھجوایا کرتے تھے گزشتہ چند سالوں سے اس میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک جس طرح اسرائیل کے قریب آئے ہیں ہیں اس نے فلسطینی گروہوں کی کمر اور حوصلہ توڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسرائیل کو ان فلسطینی گروہوں سے اب کوئی بہت بڑا خطرہ لاحق نہیں رہا۔
4. استعماری طاقتوں اور قابض ممالک کے خلاف لڑنے والے گروہوں میں جس طرح کامیابی سے پھوٹ ڈالی گئی ہے اس کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر پہلے فلسطینی جدوجہد کو مذہب کے ساتھ مخصوص کردیا گیا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں ہونے والی ایک بحث میں بینجمن نیتن یاہو پر حماس تخلیق کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ  حماس نے فلسطینی جدوجہد کو مسلمانوں کے ساتھ مخصوص کردیا تھا۔ جس کے نتیجے میں پی ایل او جس میں ہر مذہب اور مسلک کے لوگ شامل تھے اپنی طاقت کھو بیٹھی۔ حماس اور پی ایل او کے مابین تنازعات کے نتیجے میں دیگر کئی فلسطینی گروہ وجود میں آئے۔ ان کے تنازعات پر تشدد صورت اختیار کرگئے اور جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
5. اس دور میں استعمار نے کارپوریٹ میڈیا کو جس طرح مزاحمت کاروں کے خلاف استعمال کیا ہے یہ استعمال بھی گہرے مطالعے کا متقاضی ہے۔ ہندوستان کی نامور مصنفہ اروندھتی رائے نے ماؤسٹ مزاحمت کاروں پر اپنی ایک تحریر میں اس دور میں ہونے والی مزاحمت اور میڈیا کے درمیان موجود تعلق پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن یہاں چند اور پہلو بھی دیکھیے۔
– ارون دھتی رائے نے یہ واضح کیا ہے کہ کارپوریٹ میڈیا ان مزاحمت کاروں پر روا رکھے گئے مظالم اور ان کے پیچھے چھپے اقتصادی اور فوجی مقاصد تو بیان نہیں کرتا لیکن ان گروہوں کی کارروائیوں کو دہشتگردی کا نام دے کر خوب نمک مرچ لگا کر دنیا کو دکھاتا ہے۔ جو تصویر یہ میڈیا عام لوگوں کے سامنے رکھتا ہے اس میں یہ مزاحمت کار وہ پاگل جارح نظر آتے ہیں جو پرسکون انسانی بستیوں کے امن کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
– ان مزاحمت کاروں کے نقطہ نظر کی مین سٹریم میڈیا یعنی عام پبلک تک رسائی ناممکن بنادی گئی ہے۔۔۔۔ ہو سکتا ہے آپ کو یاد ہو کہ 2006 کی اسرائیل لبنان جنگ کے حوالے سے سکائی نیوز، سی این این اور دیگر چینلز صرف ان دو اسرائیلی فوجیوں کی مظلومیت کا رونا روتے رہے جن کو حزب اللہ نے اغوا کر لیا تھا۔ ان چینلز کی بیان کردہ تفصیلات میں کہیں اس بات کا ذکر تک نہیں تھا کہ یہ اسرائیلی فوجی لبنان کے علاقے میں کیا کر رہے تھے جہاں سے انہیں اغوا کیا گیا تھا۔  اسی طرح ہندوستانی حکومت کے کن اقدامات نے ماواسٹ کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا اس کا مکمل بیان ان کے نقطہء نظر سے پہلی مرتبہ ارون دھتی رائے کی تحریر میں پڑھنے کو ملا تھا۔ ہندوستان کے مین سٹریم میڈیا نے بظاہر ملنے والی آزادی کے باوجود  ان کے اقدامات کو عام آدمی کے سامنے نہیں رکھا۔
– نظریاتی سطح پر ان مزاحمت کاروں کی کوشش کو غیر اخلاقی، غیر انسانی، اور غیر منطقی ثابت کرنے کے لئے دانشوروں اور صحافیوں کو جس طرح استعمال کیا گیا ہے یہ روش بھی گہرا مطالعہ مانگتی ہے۔ یہ دانشور اور صحافی جس طرح حقائق کو توڑتے مروڑتے ہیں۔ تاریخ کے ساتھ جس طرح کھلواڑ کرتے ہیں وہ جاننے کے لئے آپ کو کہیں اور نہیں جانا پڑے گا۔ زیادہ نہیں صرف افغانستان جنگ کے اسباب پر لکھی جانے والی تحریریں دیکھئے۔ آج کی تاریخ میں بھی آپ کو پاکستانی صحافیوں کی وہ تحریریں پڑھنے کو مل جائیگی جن میں افغانستان جنگ کا سبب گرم پانیوں تک روس کی رسائی کی خواہش بتایا جاتا ہے۔  یہ وہ دانشور ہیں جو واقعات کو ان کے درست تاریخی پس منظر سے کاٹ کر عوام کے لیے بیان کرتے اور دوہراتے رہتے ہیں۔
6. سب سے اہم کام جو استعمار نے ان مزاحمت کاروں سے نمٹنے کے لیے کیا ہے جو ظاہر ہے نیا نہیں ہے وہ یہ ہے کہ مزاحمتی تحریکوں کو کچلنے کے لئے استعماری نظریہ سازوں کی ایک ٹیم تشکیل دی جاتی ہے۔ یہ نظریہ ساز طاقت ور کو حق ثابت کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ماضی میں جو کام جان اسٹورٹ مل جیسے دانشور کرتے تھے وہی کام اب نائل فرگوسن جیسے لوگ کرتے ہیں۔ پاکستان میں پاور سنٹرز کا جھنڈا ہاتھ میں لے کر لکھنے والوں کا تو نام لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ چیف آف ارمی سٹاف کے لئے سپہ سالار کا لقب کیوں اور کس قماش کے لوگوں نے استعمال کیا۔
اولاً یہ دانشور استعماری طاقتوں اور پاور سینٹرز کے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیئے تاویلات گھڑتے ہیں۔ دوسرے پاور سنٹرز کے مخالفین کو  القابات سے نوازتے ہیں۔ ان پر گھسے پٹے اور نہ ثابت ہو سکے والے الزامات عائد کرتے ہیں۔ جملے تراشتے ہیں۔ کسی کو طنزاً فخر ایشیا اور کسی کو نیلسن منڈیلا اور کسی کو قائداعظم ثانی کہہ کر بلاتے ہیں۔ اور تیسرے یہ حضرات شور کی ثقافت تشکیل دیتے ہیں۔ ایک ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ میں تمیز اور تفریق ممکن نہ رہے۔ اس شور کی ثقافت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو سنیں وہ سچ لگتا ہے۔ ایسے میں عام آدمی صرف اپنے ہی سچ کے ساتھ جڑ جاتا ہے اور دوسرے کے سچ کو مکمل طور پر رد کر دیتا ہے اور اس کے لازمی دو نتیجے نکلتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ سچ مکالمے کا موضوع نہیں رہتا یعنی مکالمے کے ذریعے کسی حقیقت تک رسائی ناممکن بنا دی جاتی ہے۔ دو مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کا مکالمہ کے ذریعے کسی متفقہ نقطہ تک پہنچنا ناممکن کر دیا جاتا ہے۔ ہر کسی کا سچ حتمی قرار پاتا ہے جس میں سے تبدیلی اور لچک کے امکانات ختم کر دیے جاتے ہیں۔ دوسرے یہ صورتحال معاشرے میں انتہا پسندی کا رجحان پیدا کرتی ہے جہاں اختلافات کا ختم ہونا تو ایک طرف ایک دوسرے کو اختلاف کی آزادی دینا بھی محال ہو جاتا ہے۔ مخالف کے ساتھ تہزغ اور شائستگی کے ساتھ معاملہ اور مکلالمہ کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اختلاف ختم کرنے کی صرف ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ مخالف کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔
اب ایک تو میری کم علمی اور ناقص ابلاغ اور اس پر اختصار۔۔۔۔ مجھے علم ہے کہ میں اس صورتحال کا کماحقہٗ احاطہ نہیں کر سکا جو آج کے دور کے محکومین کو درپیش ہے۔ اور یہ بھی پوری طرح بیان نہیں کر سکا کہ استعماری طاقتوں اور پاور سینیٹرز نے محکومین کی ممکنہ مزاحمت کو کچلنے کے لیے کیا کیا نظریاتی، ذہنی، عملی اور فوجی اقدامات کر رکھے ہیں۔ اس لیے گزارش ہے کہ اس ناقص خلاصے پر اکتفا فرمائیے اور دوبارہ اس بات کا جائزہ لیجئے کہ آج کے اوپر بیان کردہ مخصوص حالات میں محکومین کی کامیابی کے امکانات کیا ہیں۔ ظاہر ہے اس پر طویل گفتگو ہو سکتی ہے لیکن میں اپنی ناقص رائے میں یہ تو بہرطور کہہ سکتا ہوں کہ کامیابی کے امکانات جو بھی ہوں اس تک پہنچنے کا طریقہ تشدد کسی بھی قیمت پر نہیں ہے۔ پر تشدد تحریکوں کی ناکامیوں کی مثالیں ہمارے آس پاس بکھری ہوئی ہیں تاہم سیاسی حل ڈھونڈنے والوں کی کامیابیاں بھی کچھ ایسی متاثر کن نہیں ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ عراق، افغانستان، سری لنکا اور فلسطین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یمن کی لڑائی کے موجودہ نتائج کبھی نہ نکلتے اگر بین الاقوامی طاقتیں حوثی باغیوں کی مدد نہ کرتیں۔ اس کامیابی کو حوثی باغیوں کی اس سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ بھی کہا جا سکتا ہے جو انہوں نے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے استعمال کی۔ یعنی سوچی سمجھی فوجی حکمت عملی کے ساتھ سیاسی طور طریقوں نے مل کر حوثی باغیوں کی جدوجہدد کو اس مقام پر پہنچایا ہے جہاں اسے کسی بھی طور ایک کامیاب اور مکمل فتح نہیں کہا جا سکتا۔ میں عرض کر چکا کہ اسی طرح کی ایک نامکمل فتح حزب اللہ نے انیس سو اسی کی دہائی میں حاصل کی تھی۔ انہوں نے خود کش حملہ آوروں کو ایک محدود مدت میں ایک خاص مقصد کے لئے استعمال کیا۔ اس مقصد کے حاصل ہوتے ہی انہوں نے خود کش حملوں کو نہ صرف موقوف کر دیا بلکہ آئندہ استعمال نہ کرنے کا اعلان بھی کیا۔
چے گویرا کی چھاپہ مار کارروائیوں پر بہت گفتگو ہو چکی ہے لیکن ایک پہلو گفتگو میں نہ آسکا اور وہ ان کا انقلاب برپا کرنے کے لئے صرف ایک حکمت عملی یعنی چھاپہ مار کارروائیوں پر اصرار تھا۔ وہ چھاپا مار جنگ جو چے گویرا نے فیڈل کاسترو کے ساتھ مل کر کیوبا کے انقلاب کے لئے لڑی تھی اس کی ایک خاصیت تشدد کا ایک بہت ہی سوچا سمجھا اور محدود استعمال تھا۔ مثال کے طور پر ایک بڑا جانی نقصان اٹھانے کے بعد جب کاسترو اور چے کے ساتھیوں نے ایک فوجی چیک پوسٹ پر حملہ اور قبضہ کرنے کے بعد حکومت کے فوجی پکڑ لیے تو سوائے ایک مقامی رہنما کے انہوں نے تمام زخمی سپاہیوں کا علاج کیا۔  اس لیڈر کو قتل کردیا گیا۔ صرف اس لیے نہیں کہ اس نے کاسترو کے کئی جانثاروں کو قتل کروایا تھا بلکہ اس لیے بھی کہ وہ مقامی کسانوں پر بہت ظلم ڈھاتا تھا اور ان کسانوں کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ تھا۔ اس کے قتل کے بعد وہ سارے مقامی کسان کاسترو کے ساتھ جا ملے۔ کیوبا میں کامیابی کے بعد کاسترو نے چے گویرا کو کئی اہم حکومتی عہدوں پر فائز کیا مگر ایک نئی بننے والی حکومت کو مستحکم بنانے کی کوششوں میں ہاتھ بٹانے کی بجائے چے نے چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھنے پر اصرار کیا اور کیوبا چھوڑ دیا۔ کانگو میں اس کی کوششیں رائیگاں گئیں اور بالآخر گرفتار ہوا اور قتل کر دیا گیا۔ چے گویرا کی جدوجہد، اس کے اخلاص، اس کے کردار اور انقلاب کے ساتھ اس کی گہری وابستگی پر کس کو شک ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کی کوشش اور حکمت عملی کی افادیت پر گفتگو نہ صرف یہ کہ ہو سکتی ہے بلکہ آج دنیا بھر کے محکوموں کے لیے لازم ہے کہ وہ ماضی کی جدوجہد کو معروضی طور پر دیکھیں اور اور ان کے ذریعے حاصل ہونے والی کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لیں۔ چے گوئرا سے محبت اور عقیدت اپنی جگہ پر لیکن فیصلہ کیجئے کہ ایک مستحکم انقلابی حکومت دیگر ملکوں میں چلنے والی انقلابی تحریکوں کو بہتر مدد فراہم کرسکتی ہے یا پہلے دن سے اپنی قسمت میں لکھی ناکامی کے ساتھ کی جانے والی چھاپا مار جدوجھد ؟میں یہ سمجھتا ہوں کہ چے گویرا کی اس حکمت عملی کا آج پچاس سال بعد آج کے حالات میں تجزیہ کیا جانا چاہیے۔
تشدد کے حوالے سے مختلف حضرات کی تحریروں میں فرانز فینون کا ذکر بھی آیا۔ اس نے اپنی مشہور ترین کتاب “افتادگان خاک” کے پہلے باب میں ترک استعماریت کے لیے تشدد کی افادیت پر گفتگو کی ہے۔ اس باب کے آغاز ہی میں اس نے اپنی اپنی رائے دو ٹوک الفاظ میں بیان کر دی ہے۔ اس کے مطابق ترک استعماریت decolonisation ہمیشہ پرتشدد ہوتی ہے۔ ہم تشدد کے بارے میں اس کے نظریات کا اس طرح سے خلاصہ کر سکتے ہیں۔
استعماریت صرف اور صرف تشدد کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے
ترک استعماریت اسی لیے تشدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
کیونکہ استعمار تشدد کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں سمجھتا۔
تشدد کے سبب محکوم اس غصے اور بے بسی کے احساس سے نجات حاصل کرتے ہیں جو استعماریت جنم دیتی ہے۔
تشدد کے بغیر محکومین کی تخلیق نو ممکن نہیں ہے۔ محکومین کی اپنے بارے میں نئی تفہیم اور تخلیق نو ہی ترک استعماریت کے بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں۔
فینون کے ان سارے نکات کو اس تاریخ کے مطالعے کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا جس کے پس منظر میں الجیریا کی آزادی کی جنگ لڑی گئی۔ فرانس نے الجیریا پر 1830 میں قبضہ کیا تھا اس قبضے کو شروع ہی سے فوجی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس فوجی مزاحمت کے ایک قائد وحدت الوجودی صوفی امیر عبد القادر الجزائری بھی تھے۔ یہ مزاحمت کامیابیوں اور ناکامیوں کے ایک سو تیس سالہ طویل دور سے گزرنے کے بعد انیس سو باسٹھ میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ فینون نے الجیریا کی آزادی کی خوشخبری اپنی دوسری کتاب “قریب المرگ استعماریت” میں سنا دی تھی۔ انیس سو باسٹھ میں پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں ملنے والی آزادی کو تشدد کی حمایت کے لیے جواز سمجھنے والے نہ تو الجیریا کے ان واقعات کو دیکھتے ہیں جو وہاں آزادی کے بعد رونما ہوئے اور نہ ہی فینون کی اسی کتاب (افتادگان خاک) کے دیگر ابواب پر نظر ڈالتے ہیں جن میں اس نے بعد از آزادی الجیریائی معاشرے کے خدوخال کے بارے میں پیشگوئی کی ہے۔ وہی این ایل ایف جو الجیریا کی آزادی کے لئے لڑی تھی الجیریا کی خانہ جنگی میں بھی پیش پیش تھی۔ تشدد کی حکمت عملی پر قایل گروہوں کے لیے ایک مرتبہ اس کو اختیار کرنے کے بعد اس کو ترک کرنا اگر ناممکن نہ بھی ہو تو کم ازکم انتہائی مشکل ضرور ہو جاتا ہے اور تاریخ نے یہ بات کئی مرتبہ ثابت کی ہے۔
نفسیات کے ایک طالب علم کے طور پر پرتشدد کارروائیوں کی حمایت میں دیے جانے والے دلائل میں سے یہ دلیل شاید یہ سب سے زیادہ اہم اور قابل غور ہے جو فینون نے دی ہے کہ تشدد محکومین کے غصہ کو سمت دیتا ہے۔ محکومین کو بے بسی کے احساس سے نکالتا ہے اور محکومین کی تفہیم نو اور تخلیق نو میں ان کی مدد کرتا ہے۔ میں اس پر ایک مفصل تبصرہ کر چکا ہوں اس لیے یہاں اتنا کہنا کافی ہے کہ اگر تشدد بغیر ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے، بغیر ایک مضبوط اور دانا قیادت کے جہاں جہاں استعمال ہوا ہے اس نے ردانقلاب کا سامان کیا ہے۔ خود فینون نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ استعمار محکومین کے غصے کو محکومین ہی کے دوسرے گروہوں کی جانب سے کس طرح کامیابی سے موڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ محکومین کا استعماریت کے سبب جنم لینے والا غصہ محکومین ہی کے کمزور گروہوں کی جانب موڑ دیا جاتا ہے۔ الجیریا میں ایسا ہی ہوا۔ الجیریا ہی پر کیا موقوف ہے دنیا بھر میں استعماریت سے نجات پانے والے معاشروں کی اکثریت میں یہ رجحان بہت آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے پاکستان کی گلیوں سڑکوں پر بہنے والا 80 ہزار افراد کا خون استعمار کی اس صلاحیت کا سرخ رنگ سے لکھا ہوا ثبوت ہے۔ عراق میں میں 20 لاکھ افراد اس طرح جان سے گئے کہ آج تک یہ پتا نہیں چل سکا  کہ یہ افتادگان خاک استعمار کے ہاتھوں قتل ہوئے یا اپنے ہی بھائی بندوں کے۔ موصل سے بھاگنے والے اربیل کے پناہ گزینوں کے کیمپوں میں قیام پذیر اپنے پیاروں اور معصومیت کھونے کے بعد خالی آنکھوں سے علاج کرنے والے ماہر نفسیات سے یہ سوال کرتے پائے گئے
بای ذنب قتلت
ہمیں کس نے اور کیوں قتل کیا؟
ان کو کیسے یہ بتایا جائے کہ ان کے پیاروں کو استعمار نے قتل کیا یا استعمار کے خلاف لڑنے والوں نے۔۔۔
فرانز فینون اگر حیات ہوتے تو ان سے پوچھا جا سکتا تھا کہ عراق میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے معصوم اپنے غصے اور بے بسی کے احساس سے نجات پانے کیلئے تشدد کا نشانہ کس کو بناییں۔

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply