بدن (68) ۔ دمہ/وہاراامبارا

فرانسیسی ناول نگار مارسل پروسٹ 1871 میں پیدا ہوئے۔ انہوں دمے کی بیماری تھی۔ انہیں پہلی بار دمہ کا اٹیک نو سال کی عمر میں ہوا اور اپنی بیماری کے غلام رہے۔ اپنی علاج کی کوشش کے لئے بے شمار قسم کے جلاب لئے۔ مارفین، افیون، کیفین، ویلارین وغیرہ سے کوشش کی۔ سگریٹ پئے۔ کلوفارم اور کریوسوٹ سونگھ کر دیکھی۔ ایک سو سے زائد بار ناک کے آپریشن کروائے۔ صرف دودھ کی غذا پر چلے گئے۔ گھر میں گیس بند کروا دی۔ تازہ ہوا کے لئے پہاڑی مقامات اور دیہات میں رہ کر وقت گزارا۔ کسی چیز نے کام نہیں کیا۔ ان کی وفات 51 سال کی عمر میں نمونیا سے ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔
پروسٹ کے وقت میں دمہ نایاب بیماری تھی جس کی بالکل سمجھ نہیں تھی۔ آج یہ عام بیماری ہے جس کی کچھ خاص سمجھ نہیں ہے۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف سے اس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور خاص طور پر مغربی ممالک میں۔ اور اس اضافے کی وجہ نامعلوم ہے۔ اس وقت دنیا میں تیس کروڑ لوگ دمے کا شکار ہیں۔ جن ممالک میں ان اعداد و شمار کی پیمائش احتیاط سے کی جاتی ہے، وہاں پر پانچ فیصد بالغ اور پندرہ فیصد بچوں میں یہ موجود ہے۔ اور اس میں مختلف علاقوں اور شہروں میں بہت فرق ہے۔
چین میں گوانگ ژو کا صنعتی شہر بہت آلودہ ہے جبکہ ہانگ کانگ کا شہر اس سے ٹرین پر ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے اور مقابلتاً صاف ہے کیونکہ یہاں صنعت نہیں اور سمندر کی وجہ سے تازہ ہوا ہے۔ صاف ہانگ کانگ میں دمہ پندرہ فیصد آبادی میں ہے جبکہ آلودہ گوانگ ژو میں یہ صرف تین فیصد میں! یہ توقع کے بالکل برعکس ہے۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ ایسا کیوں ہے۔
عالمی سطح پر بلوغت سے قبل یہ لڑکوں میں لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ ہے جبکہ اس کے بعد یہ لڑیوں میں زیادہ ہو جاتا ہے۔ زیادہ تر علاقوں میں (تمام میں نہیں) یہ سیاہ فام آبادی میں زیادہ ہے۔ شہروں میں دیہاتوں سے زیادہ ہے۔ بچوں میں یہ نارمل سے زیادہ وزن اور نارمل سے کم وزن ۔۔۔ دونوں طرح کے بچوں میں زیادہ ہے۔ فربہ بچوں میں یہ زیادہ تناسب میں ہوتا ہے جبکہ کم وزن کے بچوں میں زیادہ شدت سے ہوتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ تناسب برطانیہ میں ہے جہاں یہ تیس فیصد آبادی میں ہے جبکہ سب سے کم روس، چین، جارجیا اور رومانیہ میں ہے جہاں یہ تین فیصد ہے۔
اس کا کوئی علاج نہیں۔ تین چوتھائی بچوں میں یہ بلوغت تک خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اس کا بھی معلوم نہیں کہ کیوں اور کیسے یہ ٹھیک ہوتا ہے اور کس کے لئے یہ ٹھیک نہیں ہوتا۔
دمہ نہ صرف زیادہ ہو گیا ہے بلکہ یہ زیادہ خطرناک بھی ہو گیا ہے۔ ہسپتال میں داخل ہونے والوں اور مرنے والوں کی شرح زیادہ ہو گئی ہے۔ برطانیہ میں بچوں کی اموات کی چوتھی سب سے بڑی وجہ دمہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ ایسا ہر جگہ ہوا ہے لیکن کسی وجہ سے جاپان میں نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر نیل پیرس کہتے ہیں، “آپ سمجھتے ہوں گے کہ اس کا تعلق گرد کی مائیٹ سے یا بلیوں سے یا کیمیکلز سے یا سگریٹ کے دھویں اور فضائی آلودگی سے ہو گا۔ میں نے تیس سال اس کی تحقیق میں گزارے ہیں۔ اور ابھی تک مجھے جو کامیابی ہوئی ہے، وہ یہ کہ عام طور پر اس کی جو وجوہات سمجھی جاتی ہیں، ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔ ایسا ضرور ہے کہ اگر آپ کو پہلے سے دمہ ہو تو یہ اشیا اٹیک کا باعث بن سکتی ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کے ہونے کی وجہ نہیں۔ ہمیں کچھ اندازہ نہیں کہ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے۔ اور ہم اس کو بچانے کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
بہت عرصے تک ڈوگما یہ رہا کہ دمہ نیورولوجیکل عارضہ ہے۔ اعصابی نظام پھیپھڑوں کو جو سگنل بھیجتا ہے، اس میں خرابی ہے۔ پھر 1950 اور 1960 کی دہائی میں خیال آیا کہ یہ الرجی کا ری ایکشن ہے۔ ابھی تک کئی نصابی کتابوں میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ دمے کی وجہ ابتدائی زندگی میں الرجن کا ایکسپوژر ہے۔ یہ اب واضح ہے کہ بات اتنی سادہ نہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ دنیا میں ہونے والے کیسز میں نصف کا تعلق الرجی سے نکلتا ہے جبکہ نصف کا نان الرجک میکانزم سے۔ ہمیں ان کے بارے میں معلوم نہیں ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دمہ کا شکار ہونے والوں میں سے کئی کے لئے سردی، ہوا، سٹریس، ورزش یا دوسرے عوامل اسے چھیڑ دیتے ہیں۔ اور ان کا تعلق الرجن یا فضا میں پائی جانے والی کسی شے سے نہیں ہوتا۔
پئیرس کہتے ہیں “ڈوگما یہ ہے کہ الرجی اور نان الرجی والے دمے کا تعلق پھیپھڑے کی سوزش سے ہے۔ لیکن کئی دمہ والوں کے پیر اگر یخ بستہ پانی میں ڈالے جائیں تو وہ فوری طور پر ان کا سانس اکھڑ جاتا ہے۔ اتنی جلدی پھیپھڑوں پر اثر نہیں ہو سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا تعلق اعصابی نظام سے ہی ہونا چاہیے۔ اس کے ایک جزوی جواب کیلئے ہم واپس پرانے خیال پر چلے گئے ہیں”۔
دمہ پھیپھڑے کی دوسری بیماریوں سے مختلف ہے کیونکہ یہ کسی کسی وقت ہی آتا ہے۔ “دمے والے کے پھیپھڑے اگر ٹیسٹ کئے جائیں تو یہ مکمل طور پر نارمل ہوں گے۔ صرف اس وقت جب دمے کا اٹیک ہوتا ہے، تب اس میں خرابی نظر آتی ہے۔ کسی بھی بیماری کے لئے یہ بہت انوکھا ہے۔ جب کسی بیماری کی کوئی بھی علامات نہ ہوں تو بھی اس کا پتا خون یا بلغم کے ٹیسٹ سے چل جاتا ہے لیکن دمے میں یہ بیماری بالکل غائب ہو کر بے نشان ہو جاتی ہے”۔
دمے کے اٹیک کے وقت سانس کی نالی تنگ ہو جاتی ہے اور ہوا اندر لے جانے اور باہر نکالنے میں دشواری ہوتی ہے۔ خاص طور پر باہر نکالنے میں۔ جن میں یہ زیادہ شدت سے نہیں ہوتا، ان پر سٹیرائیڈ اس کو کنٹرول رکھنے میں موثر ہوتی ہیں جبکہ زیادہ شدت والے دمہ میں ان کا اثر کم ہی ہوتا ہے۔
پئیرس کہتے ہیں، “جدید دنیا کے طرزِ زندگی میں کچھ ایسا ہے جو امیون سسٹم کو اس طرح سیٹ کر دیتا ہے کہ دمے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہ کیا ہے۔ ایک تجویز ہائی جین ہائپوتھیسس کی ہے۔ کہ ابتدائی عمر میں جراثیم سے سامنا الرجی اور دمے کو کم کر دیتا ہے لیکن یہ بھی ٹھیک فٹ نہیں بیٹھتا۔ مثال کے طور پر برازیل میں دمے کا تناسب زیادہ ہے اور انفیکشن کا بھی”۔
دمہ عام طور پر چھوٹی عمر میں سامنے آ جاتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں۔ کئی بار بالغ ہونے کے بعد بھی پہلی بار یہ سامنے آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
دیہات میں جانوروں کے ساتھ رہنا اس کا امکان کم کرتا ہے اور شہر میں جانا زیادہ کر دیتا ہے لیکن اس لنک کی وجہ کی بھی سمجھ نہیں ہے۔
ایک تھیوری تھامس پلاٹزمل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کا گھر سے باہر بھاگ دوڑ نہ کرنا اس کی شرح بڑھا رہا ہے۔ ٹی وی یا موبائل کے سامنے بیٹھ کر طویل وقت گزارنے کا مطلب یہ ہے کہ پھیپھڑوں کو ورزش کا موقع نہیں ملتا۔ سکرین کے آگے بیٹھنا گہرے اور لمبے سانس کا موقع ختم کر دیتا ہے۔
کچھ اور محققین کا خیال ہے کہ دمے کے پیچھے کچھ وائرس ہیں جن کا ہاتھ ہے۔ برٹش کولمبیا یونیورسٹی کی 2015 کی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ چھوٹے بچوں کی آنتوں میں چار جراثیم کی غیرموجودگی (Lachnospiria, Veillonela, Faecalibacterium, Rothia) کا ابتدائی برسوں میں دمے سے تعلق ہے۔ لیکن ابھی یہ سب اچھے اندازے کہے جا سکتے ہیں۔
پیئرس اپنی بات سمیٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ “خلاصہ یہ ہے کہ ابھی اس کی وجہ نامعلوم ہے”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply