کون جیتا ، ہار کس کی ہوئی۔۔ مظہر اقبال کھوکھر

17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کے ایسے منفرد انتخابات تھے ۔ جن میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں نے قومی انتخابات کی طرح انتخابی مہم چلائی۔ کیونکہ ان ضمنی انتخابات کے نتائج کے ساتھ حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ ، پنجاب حکومت اور قومی حکومت کا مستقبل جڑا ہوا تھا ۔ یہی وجہ ہے ضمنی انتخابات کے نتائج نے نا صرف تمام سیاسی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا بلکہ پی ڈی ایم اتحاد اور مركزی و پنجاب کی صوبائی حکومتوں کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ 11 جماعتی اتحاد پی ڈی ایم کے مقابلے میں اکیلے انتخابات میں حصہ لینے والی پاکستان تحریک انصاف نے 20 میں 15 سیٹیں حاصل کر لیں۔ ایک سیٹ پر آزاد امیدوار کامیاب ہوا جبکہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن محض 4 سیٹیں حاصل کر سکی۔ یہاں تک کہ پاکستان مسلم لیگ اپنے گھر لاہور سے بھی بُری طرح ہار گئی۔ اب پنجاب میں پارٹی پوزیشن کچھ یوں ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد کے پاس 179 سیٹیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی 178 ، اتحادی قاف لیگ کی 10 ملا کر 188 سیٹیں بنتی ہیں۔ جس سے پی ٹی آئی اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر وزیر اعلیٰ بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا انتخاب 22 جولائی کو ہونا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں حکومتیں ووٹوں کے بعد ضرور بنتی ہیں مگر ووٹوں سے نہیں بنتیں۔ بلکہ حکومتیں بنانے اور بگاڑنے والی قوتیں ہمیشہ عوامی رائے کو اپنے مفادات کے  پاؤں تلے روند کر ایسے فیصلے کرتی ہیں جن کے نتائج ہمیشہ نقصان ده ہوتے ہیں۔ انہی خواہشات اور مفادات کا نتیجہ ہے کہ پاکستان پچھلے کئی ماہ سے سیاسی بحران کی زد میں ہے، جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

اور پھر اس کے نتیجے  میں جنم لینے والا معاشی بحران مسلسل شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح 226 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ ہر گزرتا دن ایک نئی غیر یقینی صورتحال  اور تشویش کا باعث بن رہا ہے۔ دور دور تک امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ بات تو واضح ہے حکمران اتحاد کی طرف سے تحریک عدم اتحاد کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ اور پھر اقتدار سنبھالنا گلے کی ایک ایسی ہڈی بن چکی ہے جسے اب وہ نہ تو نگل سکتے ہیں اور نہ ہی اُگل سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے حکمرانوں کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ طاقت کا اصل سر چشمہ عوام ہیں۔ بیساكھیاں نہ تو ماضی کے حکمرانوں کے کام آئیں اور نہ ہی آئندہ کسی کو بچا پائیں گی۔ مگر بدقسمتی سے نہ تو ماضی میں حکمرانوں نے کوئی سبق سیکھا اور نہ ہی آئندہ سیکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف کے گھر ہونے والے پی ڈی ایم کے اتحاد نے عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے پنجاب کی وزارت اعلیٰ پی ٹی آئی کو دینے کے بجائے کہا کہ حمزہ شہباز ہی مدت پوری کریں گے۔ جبکہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللّه نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہوسکتا ہے کہ 22 تاریخ کو ووٹنگ والے دن تحریک انصاف کے پانچ اراکین صوبائی اسمبلی غیر حاضر ہوں۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکمران اتحاد آسانی کے ساتھ انتقال اقتدار کرنے کو تیار نہیں جس سے سیاسی بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ ایسی صورتحال ضمنی انتخابات کے موقع پر مریم نواز اور مسلم لیگ کے دیگر لوگوں کی طرف سے نتائج کو تسلیم کرنے کے بیانات کی روشنی میں امید کی جو کرن پیدا ہوئی تھی وہ بھی دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ مگر اس کے نتائج کسی بھی طرح حکمرانوں کے لیے سود مند نہیں ہوسکتے جس کی ایک جھلک ضمنی انتخابات میں بھی نظر آچکی ہے۔

غور طلب پہلو یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے اقتدار کے دوران 20 سے زائد ضمنی انتخابات میں حصہ لیا جن میں سے اکثریت میں پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن جو تحریک انصاف کی حکومت کے دوران مسلسل کامیابی حاصل کرتی رہی اپنے دورِ حکومت میں شکست فاش سے دو چار ہوگئی۔ اس کے پس منظر پر غور کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے  کہ صورتحال بدل رہی ہے۔ سیاست اب ڈرائنگ رومز سے نکل کر ایک بار پھر گلی محلوں ، کوچوں ، تھڑوں  ، گاؤں ، گوٹھوں اور چھپڑ ہوٹلوں تک پہنچ گئی ہے۔ کسی سے بھی بات کر کے دیکھ لیں لوگ سب جانتے ہیں۔ کون کس کے ساتھ ہے ، کون کس کی پشت پناہی کر رہا ہے ، کون کیا ڈیل کر رہا ہے ، کون بِک رہا ہے ، کون خرید رہا ہے ، کون لانے والے ہیں ، کون نکالنے والے ہیں کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں ۔ وہ دن گئے جب رات کے اندھیرے میں فیصلے ہوتے اور دن بدلتے ہی سب کچھ بدل جاتا تھا ۔ اب تو حالت یہ ہے کسی ٹھیلے والے سے بات کر لیں یا کسی کدال اٹھاۓ محنت کش سے پوچھ لیں ہر بندہ کھل کر بتا دیتا ہے کہ کس کے سر پر کس کا ہاتھ ہے اور کس کے شکنجے میں کس کی گردن ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ماضی میں کیا کرتی رہی اور آج کس پوزیشن میں ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ مصلحت اور مفاہمت کے نام پر قومی مفادات کو رگیدنے کی المناک تاریخ اس قدر سیاہ ہو چکی ہے کہ ورک الٹتے ہی ہاتھ منہ کالے ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ  ہے کہ قوم اب مزید ہاتھ منہ کالے کرنے کے لیے تیار نہیں، عمران خان کا بیانیہ غلط تھا یا ٹھیک ، امریکی سازش میں حقیقت تھی یا سازش کا رنگ ، مذہب سے ہمدردی تھی یا محض ٹچ اور پھر اس سے پہلے عمران خان کی اپنے اقتدار کے دوران کیا کارکردگی تھی ، عوام کو کیا ریلیف دیا، انتخابی وعدوں پر کہاں تک عمل کیا، لوگوں نے سب کچھ بھلا دیا صرف عمران خان کی مزاحمت کی سیاست کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ لوگ نکلے اور انہوں نے ووٹ دیا۔ کل تک جب مسلم لیگ مزاحمت کی سیاست کر رہی تھی تو لوگوں نے اسے بھی ووٹ دیا مگر جیسے  ہی وہ مک مکا کر کے اقتدار میں آگئی اور عمران خان نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا تو لوگ عمران کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس میں کوئی شک نہیں کہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ہاری اور تحریک انصاف جیتی مگر حقیقت میں مصلحت ، مفادات ، مک مکا ، بیساکھیوں ، مداخلت اور محلاتی سازشوں کو شکست ہوئی اور ان سب کے مقابلے میں مزاحمت اور صرف مزاحمت کی جیت ہوئی۔ اس لیے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ سیاست کی بساط پر بادشاہ ، وزیر ، بیادوں اور مہروں سمیت سب کو اپنی اپنی حد میں رہنا ہوگا اور حد سے رہنا ہوگا۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply