ملحدین کےایک پیج پرایک طنزیہ پوسٹ ڈالی گئی کہ “لبرلزکے ہاں سیکس سے پہلے نہانا ضروری ہے جبکہ اسلام میں سیکس کے بعد”۔ گویا یہ ثابت کرنا تھاکہ اسلام بڑاغیرمنطقی دین ہے۔
چونکہ ہم ہراس بات کو سنجیدہ لیتے ہیں جس بات سےاسلام پہ بات آتی ہو،لہذا اس موضوع پرمسلم سیکولرزاپناموقف مندرجہ ذیل دس نکات میں پیش کرتے ہیں:
1۔ “جنابت”اور”جنبی”کسےکہتے ہیں؟۔
کسی نےپریکٹکلی سیکس کیا ہواہویا شہوت کی وجہ سےاسکی منی نکلی ہو(جاگتے میں یا سوتے میں)تواس حال کو”حالتِ جنابت” کہا جاتا ہےاورایسے شخص کو”جنبی” کہا جاتا ہے۔ جیسےقرآن نےیہ نہیں بتایا کہ کھانا کھانے سے پہلے یا بعدمیں ہاتھ دھونا ضروری ہیں(انسان کی فطرت میں صفائی داخل ہے۔ ہاتھوں پہ گندگی لگی ہوتوایک نارمل انسان، ہاتھ صاف کئے بغیرکیسے کھانا کھاسکتا ہے؟)۔ویسے ہی اسلام نے یہ بھی نہیں بتایاکہ سیکس کرنے سے پہلےیا بعدمیں نہاناضروری ہے(جس کواپنا بدن گندہ محسوس ہوتووہ فوراً نہا لےورنہ نہیں)۔اسلام نے صرف یہ بتایاہےکہ “جنبی” مسلمان،ایسی حالت میں نماز یا قرآن کی طرف نہیں آسکتا جب تک “طہارت” نہ کرلے۔
2۔ “طہارت”اور”صفائی “میں کیا فرق ہے؟۔
قرآن میں صفائی کا نہیں بلکہ”طہارت” کا حکم ہے(اوریہ ایک مذہبی حکم ہے)۔اس حکم کےتحت، آپ نےاگرنماز پڑھنی ہے یا قرآن کو ہاتھ لگانا ہےتواسکےلئے”پاکیزگی” کی شرط ہے۔یعنی اگرکوئی بندہ شیمپو سےنہائے دھوئے بیٹھاہےمگراسکاوضونہیں ہے تووہ نمازیا قرآن کےقریب نہیں جاسکتا۔اسی طرح،اگرکوئی حالتِ جنابت میں ہوتوچاہےاسکا بدن بالکل صاف ہو(اورکوئی بدبووغیرہ بھی نہ ہو)تب بھی وہ نمازوقرآن نہیں پڑھ سکتاجب تک”غسل ِ جنابت” نہ کرلے۔
3۔ قرآنی طہارت کا ایک مخصوص مطلب ہے۔
نمازوقرآن کیلئےجو”طہارت” درکارہے،اس سےمقصود بدنی صفائی نہیں ہےبلکہ”روحانی پاکیزگی”مراد ہے۔ مثلاً اگرکوئی شخص حالت ِ جنابت میں ہو(اورگندہ بھی ہو)مگرپانی دستیاب نہ ہو تووہ مٹی سے تیمم کرنے سے بھی”پاک “ہوجاتا ہے(اورنمازقرآن کرسکتا ہے)۔ ملحدین” پاکیزگی”اور”صفائی ” میں فرق نہیں کرپارہےورنہ صفائی کے فطری تقاضے کوتواسلام نے ڈسکس ہی نہیں کیا(کیونکہ وہ معروف چیز ہے)۔
4۔کوئی حالتِ جنابت میں پھررہاہوتووہ “پلید”نہیں ہوتا۔
کسی بھی وجہ سے بندہ حالت جنابت میں پھررہا ہو(یعنی غسل نہ کیا ہو) تووہ”پلید” نہیں ہوتا۔ ویسےبدن کوصاف رکھناایک فطری ضرورت ہےمگرواضح ہوکہ”جنبی”کا ہاتھ سے ٹچ کرنا توکجا،اسکے بدن سے نکلا پسینہ بھی پاک ہی ہوتا ہے بھائی ۔ حالتِ جنابت میں انسان صرف نمازوقرآن کیلئےروحانی طورپرناپاک ہوتا ہے ورنہ بحیثیت”وجودانسانی”وہ ناپاک نہیں ہوتا۔چنانچہ، سیکس کےفوراً بعد نہاناہے یاکچھ دیربعد، یہ ہرایک کی اپنی چوائس ہے۔ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ جب نماز کوآؤتونہاکرآؤ۔
5۔احتلام زدہ کپڑے کا دھونا شرعاً واجب نہیں ہے۔
بدن پہ منی لگی ہواورکپڑے پربھی منی لگی ہوتوبدن کی پاکی کیلئےاسلام نےغسل کا حکم دیا ہےمگرکپڑے کودھوناشرط نہیں بتایا(صفائی کیلئےدھونا الگ بات ہے)۔اسکی ایک دلیل تویہ ہے کہ قرآن نےاس بارے کوئی حکم نہیں دیا۔ قرآن میں ہےکہ پانی نہ ملنےکی صورت میں”جنبی” کو چاہیےکہ مٹی سےمنہ اورہاتھ کا مسح کرلےتووہ پاک ہوجائے گا۔ ظاہرہےکہ اس وقت اسکے کپڑے پربھی تومنی لگی ہوگی توکیا کپڑوں کوبھی مٹی سےرگڑےگا؟۔ غورفرمایئے کہ صحابہ کے پاس ایک ہی کپڑا ہوتا تھا توحالت سفرمیں،پانی کی عدم دستیابی کے بعد،وہ تیمم کرکے نمازکیاانہی اَن دُھلےکپڑوں میں نہیں پڑھتے تھے؟۔ دوسری دلیل یہ ہےکہ اگرکپڑےپرپیشاب لگ جائےتواسکادھونا ضروری ہےکیونکہ پیشاب کےحرام ہونےپرتمام مسلمان متفق ہیں جبکہ”مادہ منویہ” کےحرام ہونےپرتمام فقہاء متفق نہیں ہیں۔ان دلائل کی بنا پرہماراموقف یہ ہےکہ کپڑے پرلگی منی کو دھونا شرعی تلازمہ نہیں ہے(البتہ احتیاطی طورپردھولینا چاہیے)۔
6۔ حالتِ جنابت میں قرآن کوچھونا منع ہے۔
نمازاداکرنااورقرآن کوچھونا،ان دوامورکےلئےقرآن نے”طہارت”کی شرط لگائی ہے۔(عام حالت میں طہارت کامطلب باوضوہونا ہوتا ہے۔”جنبی”کیلئےطہارت کامطلب غسل ہوتا ہے)۔ قرآن کو”چھونے”سےمراد”ہارڈکاپی”پہ لکھےٹیکسٹ کوچھوناہے۔موبائل سےسافٹ ٹیکسٹ میں دیکھ کرقرآن پڑھاجاسکتا ہے۔ برسبیل تذکرہ،دیوبندی علما کا فتویٰ یہ ہے کہ حالت ِ جنابت میں زبانی بھی قرآن نہیں پڑھ سکتے۔سائل نےاگلا سوال کیا کہ حالت ِ جنابت میں اگرقرآن کےمعلم کوقرآن کادرس دیناپڑےتو؟۔ اس پرفتویٰ دیا گیا کہ قرآن کے کلمات کواگروقفہ وقفہ دیکرپڑھائےتوپھرجائزہے۔(مسلم سیکولرز،ایسےداؤپیچ لگانے کی بجائےصاف بات کرتے ہیں کہ قرآن کےعربی ہارڈ ٹیکسٹ کوچھونے کی ممانعت ہےاوربس)۔
7۔بغیرشہوت کےاحتلام پرغسل ضروری نہیں۔
نیندکی حالت میں احتلام ہوگیامگریوں کہ نہ تواس نےکوئی شہوت انگیزخواب دیکھا اورنہ ہی منی کےجھٹکےسےاسکی آنکھ کھلی توہمارےنزدیک اس پرغسل واجب نہیں ہوتا۔مولوی صاحبان اس پریہ فرماتے ہیں کہ بندہ اپنےکپڑے چیک کرلے۔ اگرکپڑاسخت ہوگیا تواسکامطلب ہےکہ منی نکلی(اورنہاناواجب ہے)۔کپڑاسخت نہیں ہوا(صرف نشان ہے)تواسکا مطلب ہےکہ مزی نکلی ہے(پس وضوکرنا کافی ہے)۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بغیرشہوت اوربغیرجانکاری کےمنی نکلے یا مزی، یہ کسی وقتی مرض کی وجہ سے ہوتاہے(جیسا کہ معدہ میں گیس ہوجانا) اورشہوت کے بغیرمنی نکلنے پہ غسل واجب نہیں ہوتا۔
8۔ ہرپوزیشن میں سیکس کرنا جائز ہے۔
عورت ومردکوخدانےایک دوسرے سےلذت کشیدکرنے کاذریعہ بنایا ہے۔ یہی جنسی لذت کا حصول ہی اصل مطلوب ہے اوریہی اصل نعمت ہے( اولادوغیرہ کاحصول ضمنی باتیں ہیں۔ جنت میں اس فعل کامطلب ،اولاد کا نہیں بلکہ لذت کا حصول ہوگا)۔ چنانچہ،مسلم سیکولرزکےنزدیک، سیکس کرتے ہوئےہروہ آسن جائزہےجس پرفریقین بخوشی رضامند ہوں اوردونوں کی صحت وسلامتی کو خطرہ نہ ہو۔اگرشرمگاہوں کا دخول ہوگیا توغسل دونوں پرواجب ہوگا مگراسکےعلاوہ کسی ایسے آسن میں، جس میں ایک فریق کی منی خارج ہوئی ہوتوصرف اسی فریق پرغسل واجب ہوگا۔
9۔ مسافرپرغسل جنابت واجب نہیں۔
مسلم سیکولرزکے نزدیک،مسافر”جنبی” پرغسل واجب نہیں ہوتا( یعنی کوئی دوسرے شہرگیا ہواوروہاں احتلام ہوجائےتواس پرغسل واجب نہیں ہوتا)۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جیسےرمضان کاروزہ،مریض اورمسافر کیلئےمعاف ہیں ویسے ہی غسل جنابت بھی مریض اورمسافرکیلئے اصلاً معاف ہے۔ ہاں، مریض اورمسافر،خوداپنااندازہ کرلےاورآسان لگے توضرور روزہ رکھے، ویسے ہی اسکو آسان لگےتو ضرورغسل جنابت کرے، ورنہ معاف ہے۔
یہ ذرا ٹیکنیکل مسئلہ ہےتواسکی مزیدتشریح کرتے ہیں۔
سورہ مائدہ آیت 6 میں اللہ نے بیان فرمایا”اگرتم حالت جنابت میں ہوتونہا لو،اوراگرتم بیمارہویا سفرپرہو یاکوئی تم میں سےرفع حاجت(بڑاپیشاب) سے آیا ہویاعورتوں کے پاس گئے ہوپھرتم پانی نہ پاؤ توپاک مٹی سےتیمم کرلواوراسےاپنے چہرےاورہاتھوں پرمل لو”۔
اس آیت میں چارحالتیں بیان کی ہیں(بیمار،مسافر، پاخانہ والا، سیکس کرنےوالا)اوراسکےمعاً بعدفرمایا کہ اگرتم پانی نہ پاؤتوتیمم کرو۔علما حضرات ان سب حالتوں کوپانی کی عدم دستیابی سےجوڑتے ہیں۔ہمارے اس پرتین ملاحظات ہیں۔
ملاحظہ اوّل: مریض کوتیمم کی اجازت،کیا پانی کی عدم دستیابی کی بنا پرہے یامرض کی بنا پر؟۔ ظاہرہےکہ پانی موجود ہوتب بھی مریض کو تیمم کی اجازت ہے۔ یعنی اصلاًمریض کو”بربنائےمرض”،غسل کی بجائے تیمم کی اجازت ہے نہ کہ پانی کی عدم دستیابی کی بِنا پر۔
ملاحظہ دوم:مسافرکوتیمم کی اجازت،کیاپانی کی عدم دستیابی کی بناپرہے یا سفرکی بناپر؟۔ اگرکسی مقیم کوپانی دستیاب نہ ہو توکیااسکوتیمم کی اجازت نہیں؟۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ پانی کی عدم دستیابی تومقیم ومسافردونوں کودرپیش ہوسکتی ہے(شہرمیں بھی پانی کا کال پڑسکتا ہے) تویہاں تیمم کی اجازت”بربنائے سفر”ہے نہ کہ پانی کی عدم دستیابی کی بناپر۔
ملاحظہ سوم: پاخانہ کرنےکےبعد توکسی پرغسل واجب ہوتا ہی نہیں(اورجب غسل واجب ہی نہیں توتیمم بھی واجب نہیں) پس پاخانہ والی حالت کوغسل جنابت کےساتھ منسلک کرنے کی کیامنطق بنتی ہے؟۔ ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ پاخانہ کرنے کےبعد فطری طورپرہرانسان ضروراپنی مقعد کودھوتا ہے۔ پرانےزمانے میں جب مٹی کے ڈھیلوں سے پیشاب وپاخانہ خشک کیا جاتا تھا، تب بھی پاخانہ والےبعد میں دھوتےضرورتھے۔ جب انسان نےپاخانہ کیا ہواوردھونے کوپانی دستیاب نہ ہوتوچاہےٹشوپیپرسےخود کوصاف بھی کرلے،مگرایک کراہت باقی رہتی ہے(جسکی بنا پرنمازمیں ارتکازنہیں رہ سکتا)۔ پس ایسی حالت میں اسکونفسیاتی (روحانی) پاکیزگی پانےکیلئے،تیمم کامشورہ دیا گیا۔
چنانچہ،مسلم سیکولرز،ان چاروں حالات کوالگ الگ پس منظرمیں لیتے ہیں۔ یعنی مریض اورمسافر”جنبی” ہوتواس پرغسل واجب نہیں بلکہ وہ تیمم سے پاک ہوسکتے ہیں(چاہے پانی ملے یا نہ ملے)۔عورت کےساتھ سیکس کرنے والے کوغسل جنابت کیلئے پانی میسرنہ ہوتووہ تیمم سے پاک ہوجائے۔ پاخانہ کرنے والےکومقعد دھونے کیلئے پانی نہ ملے توتیمم کرکے نماز پڑھ سکتا ہے۔
بالکل یہی آیت کا ٹکڑا،سورہ نساءآیت 43 میں بھی دہرایاگیا۔اس ٹکڑے سے پہلے،وہاں پرجوبات کی گئی اسکاترجمہ دیکھیے۔”اے ایمان والو! جب تم نشےمیں ہونمازکے قریب بھی نہ جاؤ، جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگواورجنابت کی حالت میں جب تک کہ غسل نہ کرلوہاں اگرمسافرہوتواوربات ہے”۔
اس ٹکڑے میں دوباتیں فرمائی گئی ہیں۔
1۔ نشہ میں ہوتوجب تک نشہ اترنہ جائے،نماز نہیں پڑھنا۔
2۔ جنابت کی حالت میں ہوتوجب تک غسل نہ کرلو، نمازنہیں پڑھنا۔اسکےساتھ ہی استثناء لگادیا کہ مسافرکیلئےغسل نہیں ہے۔
اب ہمارے مفسرین، یہاں”مسافر”کامعنی یہ لیتے ہیں کہ جن صحابہ کے گھروں کےدروازے مسجدمیں کھلتے تھے،انکوحالت جنابت میں مسجد سےگذرنے کی اجازت دی گئی ہےکیونکہ انکاکوئی اورراستہ نہیں تھا۔
عجیب بات ہے بھئ۔ پوری گفتگونمازبارے چل رہی ہے۔ مسجد کا توکوئی ذکرہی نہیں ہواتومسجد کیسےاس میں گھسادی؟۔ پھرکتنےصحابہ کےگھروں کےدروازےمسجدمیں کھلتے تھےکہ یہ خصوصی حکم دیا؟ کیاانکےگھرکا کوئی اوردروازہ نہیں ہوتا تھا؟(حالانکہ خودرسول کےگھروں کےدروازے باہربھی کھلتے تھے)اوراگرچند صحابہ کےگھروں کاایک ہی دروازہ تھا اوروہ بھی مسجدمیں کھلتا تھا توپھریہ مسجد کا صحن تو نہ ہوابلکہ یہ بھی ایک مشترکہ راستہ ہی ہوگیا۔(حالانکہ ایک حدیث میں بھی”عابری السبیل”کامطلب پردیسی مسافرہی لیا گیا ہےنہ صحن ٹاپنےوالابندہ)۔
پس سورہ نساء کی آیت 43 سے بھی ہمارے موقف کی تائیدہوتی ہےکہ “مسافرجنبی”کیلئےغسل کی چھوٹ دی گئی ہے،وہ وضوکرکےنمازپڑھ سکتا۔
10۔ غسل جنابت کے مسئلےمیں اپنے مسلک کے مولوی کوفالوکیجئے۔
خدانے اسی سورہ مائدہ ،آیت 6میں وضواورغسل کےاحکام بیان کرنے کےبعدآگےیہ فرمایا کہ” اللہ تم پرتنگی نہیں کرنا چاہتا”۔ خداکی اسی منشاء کے تحت، مسلم سیکولرز،مسلمانوں کیلئے تنگی نہیں پیدا کرناچاہتے۔ لیکن کسی کوخود ہی پہلوانی دکھانےکا شوق ہوتوجان لے کہ خدا کو کوئی تھکانہیں سکتا،خودتھک جائےگا۔غسل جنابت ایسے ہی ہوتا ہے جیسا کہ عام طورپرلوگ نہایا کرتے ہیں۔ غرغرے کرنا، ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا(کہ مرچی لگے)،ناف میں پانی پہنچانااوربدن کے ہرسوراخ کے اندر تک پانی پہنچانا وغیرہ جیسی شرائط جن لوگوں نے تجویزکی ہوئی ہیں،ہم انکی مجبوری کوسمجھتے ہیں۔ اس لئےہم تاکیداً عرض کرتے ہیں کہ اپنے مذہبی معاملات میں اپنے مسلک کے مولوی صاحبان کوفالوکریں۔ یہ اس لئے بھی کہ وضو،غسل وغیرہ ایسے فردی مذہبی مسائل ہیں جومسلم سیکولرزکےسکوپ میں نہیں آتے۔
یہ مضمون اصلاًملحدین کی پوسٹ کے جواب میں لکھاگیااورجب بات چل ہی پڑی تومناسب سمجھا کہ قرآن کی روشنی میں پورےمسئلہ کوواضح کردیا جائے۔ والسلام
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں