سیکس ایجوکیشن: ہائپو ایکٹو سیکشول ڈیزائر ڈس آرڈر۔۔تنویر سجیل

ازدواجی تعلقات میں تناؤ پیدا ہونے کے اسباب اور تناؤ کو ختم کرنے کے اسباب میں سب سے بڑا عنصر جنسی ضرورت کے پورے ہونے سے جڑا ہوا ہے اس بات سے انکار کرنا ایک غیر فطری بات ہو گی کہ جنس عمل صرف ایک جنسی لذت کا عمل ہے بلکہ یہ قربت، پیار اور دونوں پارٹنرز کے درمیان تعلقات کی مضبوطی اور تسکین کا بھی ذریعہ ہے جنسی ضرورت یا جنسی عمل کی خواہش کا ہونا مرد و عورت دونوں کے لیے انتہائی ضروری ہے اگر کسی وجہ سے دونوں میں جنسی سرگرمی کی خواہش کی کمی ہو جاۓ تو یہ ان کے تعلقات پر برے اثرات مرتب کرنے کی بہت بڑی وجہ بن سکتی ہے
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جنسی عمل کی پہل ہمیشہ مرد سے ہوتی ہے اور جب شوہر کو جنسی خواہش ہو تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اپنی بیوی کی جنسی خواہش کا بھی خیال کرے جو کہ ایک غیر حقیقی خیال ہے جس کی وجہ سے اکثر مرد حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی عورت کو جب بھی وہ جنسی عمل کے لیے رغبت کا اظہار کریں گے تو وہ فوری مباشرت کے لیے نہ صرف رضا مند ہو گی بلکہ اس کے ذہن اور جذبات بھی جنسی عمل کے خیال سے آمادہ ہوں گے اور وہ اپنی بھرپور شرکت کو یقینی بنائیں گی
جبکہ حقیقت میں ایسا سب ممکن نہیں ہوتا اور جنسی عمل میں بھرپور شرکت کے لیے بہت ضروری ہے کہ عورت کو بھی جنسی رغبت ہو جو کہ بالکل ایک فطری جذبہ ہے تاکہ دونوں پارٹنرز اپنی قربت کے لمحات کو اپنی جنسی تسکین کا ذریعہ بنا سکیں لیکن سوچ کے یہ سب ڈھانچے اکثر لاعلمی اور کم علمی کی بنیادوں پر کھڑے ہوتے ہیں جن کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مناسب سیکس ایجوکیشن حاصل کی ہو تاکہ غلط فہمی پر مشتمل نظریات کو جانچا جا سکے اور حقیقت حال کو مدنظر رکھ کے اس کے مطابق جنسی عمل میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کیا جائے
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ جنسی عمل میں صرف مرد کو پرفارم کرنے کے لیے ضروری صحت اور طاقت کی ضرورت ہے اور مرد کے جنسی عضو کی ایستادگی یا سختی اور اس کے ساتھ ساتھ اتنا پرفارمنس ٹائم ضروری ہے کہ عورت لذت سے بھرپور انزال یا آرگیزم سے لطف اندوز ہو سکے یہ خیال کسی حد تک درست تو ہے مگر اس خیال کی درستگی تب کسی کام کی نہیں رہ جاتی جب عورت جنسی سرگرمی کے لیے تحریک ہی نہ محسوس کرے اور اگر ایسی صورتحال ہو تو اس کو مرد حضرات اکثر ایک عام انکار سمجھ کر غصہ بھی ہو جاتے ہیں اور ان کا رویہ نفرت زدہ ہونے لگتا ہے
مگر غصہ کرنے اور برے رویے کا اظہار کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ عورت کے جنسی عمل کے انکار کو علمی انداز میں سمجھا جائے اور اس بارے آگاہی لی جائےکہ عورت اور مرد کے جنسی خواہش، اظہار اور تحریک میں ایک نمایاں صنفی فرق ہے جس کو سمجھنے کے لیے علم کی ضرورت ہے اور جیسا کہ یہ بات پہلے ہی واضح کر دی گئی ہے کہ لاعلمی اور کم علمی دراصل ایک ایسی صورت کو جنم دیتی ہیں جو جہالت کا دروازہ کھولتی ہے
اس لیے اگر شادی سے قبل مرد و عورت دونوں ہی انسانی جنسی عمل کے حوالے سے ضروری معلومات اور تعلیم سے آشنا ہوں تو وہ کسی بھی غلط فہمی کا شکار ہو کر ایک دوسرے کو اذیت اور تکلیف کا موقع نہیں دے سکیں گے بلکہ وہ ایک دوسرے کے جنسی عمل کے حوالے سے فطری طور پر موجود تفریق اور ممکنہ مسائل کے حل کی صحیح معنوں میں ایک دوسرے کی مدد کر سکیں گے
عورت کا جنسی سرگرمی کے لیے آمادہ نہ ہونا دراصل ایک نفسیاتی جنسی مسئلہ ہے جس کو باقاعدہ طور پر نفسیاتی امراض کی لسٹ میں شامل کیا گیا ہے جس کو ہائپو ایکٹو سیکشول ڈیزائر ڈس آرڈر کے طور پرجانا جاتا ہے جس کی تعریف کچھ خاص علامات پر مخصوص ہے جن میں واضح طور جنسی سرگرمی کے خیالات کا نہ ہونا، جنسی رغبت کی کمی، جنسی سرگرمی کے لیے ذہنی اور جذباتی طور پر تیارنہ ہوپانا شامل ہے جس سے عورت میں ذہنی تناؤ بڑھتا ہے طبی لحاظ سےہائپو ایکٹو سیکشول ڈیزائر ڈس آرڈرکے تناؤ میں اداسی،غم کا احساس، اور نااہلی، نقصان اور مایوسی کے جذبات شامل ہو سکتے ہیں چہ جائیکہ پارٹنر کی طرف سے اس کو ایسے رغبت بھرے اشارے اور تحریک بھی مل رہی ہو
ایسی خواتین کو جو اس مرض سے گزر رہی ہوتی ہیں وہ خود بھی اس بارے علم نہیں رکھتیں کہ ایسا ان کے ساتھ کیوں ہو رہا ہے اور ان کے پارٹنرز بھی اس غلط فہمی کو پال لیتے ہیں کہ ان کی بیوی ان سے پیار نہیں کرتی اور وہ جان بوجھ کر انکار کر کے اپنے خاوند کو سزا دینے کا بندوبست کر رہی ہے جبکہ یہ محض کم علمی ہی ہے کہ خاوند اپنی بیوی کے جنسی سرگرمی کے انکار کو کسی جذباتی انداز سے دیکھے یا اس پر کوئی منفی جذباتی ردعمل کا اظہار کرتے ہوۓ اس کو رنج، تضحیک اور ایسے ہی کسی غلط رویے سے اس سے انتقام لے
ماہرین کے مطابق ہائپو ایکٹو سیکشول ڈیزائر ڈس آرڈرکی وجوہات کو صحیح معنوں میں بتانا ذرا مشکل ہے البتہ بہت سی ایسی وجوہات کا تعین ضرور کیا ہے جو اس نفسیاتی جنسی مرض کی وجہ بن سکتے ہیں جیسا کہ سب سے پہلے اس بات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ عورت کی زندگی کا سب سے بڑا ریگولیٹر اس کا ہارمونل سسٹم ہے جو اس کے موڈ، رویوں اور خواہشات کا کنٹرول سنبھالتا ہے مگر درحقیقت اس کنٹرول کا بھی کنٹرول عورت کے بیرونی ماحول میں موجود عناصر کے کنٹرول میں ہے مثال کے طور پر اگر عورت کو ایسا ماحول فراہم کیا جا رہا ہے جو کہ ذہنی دباؤ، تھکان، نیند کی کمی اور سسرال اور شوہر سے تعلقات کی کشیدگی پر مبنی ہو تو اس کا ہارمونل سسٹم ایسے موڈ اور رویے کو پیدا کرتاہے جو اس کی جنسی خواہشات کو کم کرنے میں اس کی مدد کرتے ہیں
ازداوجی جوڑوں کو جب ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ لاعلمی کی وجہ سے اس کا علاج بھی ایسے پروفیشنلز سے کروانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان نفسیاتی جنسی معاملات اور سیکس تھراپی پر کوئی عبور نہیں رکھتے کیونکہ ہمارے ہاں یہ عام رجحان ہے کہ اگر خاوند کو کوئی جنسی مسئلہ لاحق ہے تو وہ حکیم یا ڈاکٹر کے پاس ہی جائےگا اور ایسے ہی خواتین بھی اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہیں کہ شادی کے بعد ان کے تمام جنسی مسائل کا حل صرف گائناکالوجسٹ کے پاس ہی ہیں مگر ہائپو ایکٹو سیکشول ڈیزائر ڈس آرڈرچونکہ ایک نفسیاتی جنسی مسئلہ ہے جس کے لیے ماہر نفسیات سے رجوع کرنا ہی زیادہ موثر ہو سکتا ہےکیونکہ ماہر نفسیات اس مسئلے کے ساتھ جڑے مختلف عناصر اور ان کے اثرات سے پیدا شدہ مسائل کو بھی بہتر اندا ز میں حل کر سکتا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply