مختلف سیاسی زاویہ۔۔حسان عالمگیر عباسی

چیزوں کو زاویہ بدل کر دیکھنے کی ضرورت کون کون محسوس کر رہا ہے؟ سیاسی تناظر میں بات ہو رہی ہے۔ خان صاحب کی ایک ویڈیو نظر سے گزری۔ وہ تقریر پھینکنے کے بعد اپنے رستے نکل رہے تھے۔ ایک بچے نے خاردار لوہے والی سائیڈ سے وہاں کی جانب ہاتھ بڑھایا اور لوہے کی   سیڑھیوں سے اُترتے خان نے اسے رسپانڈ کیا اور رسپانس بھی ایسا تھا کہ سوشل میڈیا صارفین کو اچھا لگا اور اس کا ثبوت اس ویڈیو کے ویوز ہیں۔

کارکن کارکن ہوتا ہے۔ ہر کوئی ارسطو نہیں ہوتا۔ اسے قائد سے محبت ہوتی ہے اور وہ اس کے لیے دن رات ایک کرتا ہے۔ یہ بچہ خان صاحب سے سیاسی حوالے سے کم لیکن کھلاڑی اور ایک کھڑاک سپیکر اور کرشمات کے اعتبار سے زیادہ واقفیت رکھتا ہے۔ یہ کارکنان ایسا کبھی بھی نہیں سمجھ سکتے کہ جس مکان میں کتابیں نہ ہوں وہ اس پھول کی طرح ہے جو خوشبو سے محروم ہوتا ہے۔ لیکن یہ ایک اچھے منتظم ہو سکتے ہیں۔ قائد کی بات پہ لبیک کہنے والے بھی تو درکار ہیں۔ تقسیم کو توڑنے اور اہل سیاست کو پینگیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حزب اختلاف اور حزب اقتدار کی تقسیم سے فرق نہیں پڑتا اگر دونوں اختلاف کرتے ہیں بدتمیزی نہیں کرتے۔ یہ تحریر صرف کارکنان یعنی عوامی انداز بارے ہے۔ یہ حسن ہے۔ یہ جمہوریت ہے۔ ہر کوئی دوسرے کا خواب بھلے جیے لیکن یہ لازم ہو چکا ہے ہر بندہ مختلف اعتباروں سے اہم ہے اور یہ کوئی وہم نہیں ہے۔ انفرادیت پسندی اور آزاد  خیالی بھی عین وقت کی ضرورت ہے جس کا لازمی مطلب ہے کہ سپیس دینا بنتی ہے۔ نو مینز نو، اچھا ٹھیک ہے مطلب اچھا ٹھیک ہے، کیوں نہیں مطلب کیوں نہیں، اور آؤ نا یار مطلب آؤ تو ہے۔ ہر فرد ملت کا مقدر ہے۔ عقل مندوں کو کام لینا آنا چاہیے اور جس سے کام لیا جارہا ہے اس کا ہی بھلا ہے۔ تکیے سے کان لگانا اب بے معنی ہے اور کچھ نہ کچھ اے نوجوانان وطن کرتے رہو ہی سب کچھ ہے جیسے یہ بچہ خوش ہوا جتنا اسے آیا اتنا ہی مزہ مجھے بھی آیا۔ ایک وقت آئے گا جب یہ شاہین بھی بن جائے گا۔ اسے چھیڑنے اور سمجھانے سے زیادہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں اسے وقت خود ہی بتا دے گا لیکن شرط یہ ہے کہ اسے خود سیڑھیاں چڑھنے دیا جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply