• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • امریکی صدر اور مشرق وسطیٰ کی تبدیل ہوتی صورتحال۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

امریکی صدر اور مشرق وسطیٰ کی تبدیل ہوتی صورتحال۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

امریکی صدر جیو بائیڈن مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں۔ یہ ان کا بطور صدر مشرق وسطیٰ کا پہلا دورہ ہے، مگر وہ خطے میں امریکی پالیسی بنانے والے لوگوں میں سے ہیں، جو چالیس سال سے اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں۔یہ ہر اس آواز کی مخالفت اپنا فریضہ سمجھتے ہیں، جس میں اسرائیلی ریاست کے انسانیت کے خلاف جرائم کو بے نقاب کیا گیا ہو۔ کچھ عرصہ پہلے امریکی سینیٹر الہام عمر، رشیدہ طلیب اور کچھ دیگر سینیٹرز نے اسرائیل پر تنقید کی، امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا تو جیو بائیڈن خود سامنے آئے اور کہا کہ اسرائیل ایک جمہوری اور اتحادی ملک ہے اور ان ترقی پسند سینیٹرز کی ہی مذمت کر دی۔ یعنی جو امریکہ کا اتحادی ہے، اسے انسانوں پر جبر سمیت نہتے لوگوں کا قتل عام بھی معاف ہو جاتا ہے۔؟ویسے یہ ایک تبدیلی آئی ہے کہ پہلے امریکی سیاستدان یہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے اسرائیل کے مخالف کوئی بیان دے دیا تو ہمارا الیکشن جیتنا ناممکن ہو جائے گا اور اسرائیلی لابی متحرک ہو جائے گی، مگر اب کچھ عرصے سے اس میں تبدیلی آئی ہے، کچھ ایسے سینیٹرز منتخب ہوئے ہیں، جو اسرائیل پر تنقید کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے، اس کے باوجود وہ منتخب ہوگئے۔

امریکی صدر اس دورے میں بارہ ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتیں کریں گے۔ اس دورے کا بنیادی مقصد تو ٹرمپ کے شروع کیے گئے منصوبے کو آگے بڑھانا ہے اور خطے میں اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ امریکی صدر کے دورہ سعودی عرب کے شروع ہونے سے پہلے ہی سعودی عرب نے اسرائیلی جہازوں کو براہ راست اسرائیل سے سعودی عرب پروازوں کی اجازت دے دی ہے۔ ویسے کچھ عرصہ پہلے بھی یہ اجازت دی تھی، مگر اس وقت وہ صرف فضا کے استعمال کی تھی، اب وہ سعودی ائرپورٹس پر براہ راست لینڈینگ بھی کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ امریکی صدر کے دورہ سعودی عرب میں اسرائیل اور سعودی عرب میں در پردہ قائم تعلقات کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے۔ اس سال خطبہ حج کے لیے جس شخصیت کا انتخاب کیا گیا، وہ بھی کافی معنی خیز ہے اور اپنے اندر کافی پیغامات  کا حامل ہے۔ یہ صیہونیوں کی تنظیموں کی میزبانی میں پروگراموں میں شریک ہوچکے ہیں۔ کئی لوگوں نے اسی وقت ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ ان کا سامنے لانا بتا رہا ہے کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔

اس کا پتہ تو جلد چل جائے گا اور ویسے بھی سعودی عرب کی عوام اور وہاں کے علماء کا ردعمل یقیناً سعودی عرب کو ایسا کرنے سے مانع ہوگا، مگر جس تیزی سے سعودی عرب میں معاشرتی تبدیلیاں نافذ کی گئی ہیں، ان کی ذہنی تربیت اس طرح کر دی گئی ہے کہ کچھ بھی حساس نہیں رہا۔ امریکی صدر جیو بائیڈن کی اسرائیل نوازی کوئی نئی بات نہیں ہے، وہ حد سے بڑھ کر اسرائیل کی حمایت کرنے والے ہیں۔ان کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے، اپریل 2015ء میں اسرائیل کے یومِ آزادی پر ایک اجتماع سے جو بائیڈن نے خطاب کیا۔ یہودی آفیشل، ان کے حمایتی سپوٹر لابی ایسٹ اور عام یہودیوں کے اس اجتماع سے بات کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ “آپ سب مجھے جانتے ہیں، آپ نے مجھے بنتے دیکھا ہے، آپ نے مجھے بنایا ہے، مجھے پڑھایا ہے، میں نے آپ میں سے بہت سوں کے ساتھ 40 سال کام کیا ہے۔ صیہونی ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں اور میں ایک صیہونی ہوں۔” جو شخص خود صیہونی ہونے کا اعلان کرے، وہ اہل فلسطین کے لیے خاک ہمدردی رکھتے گا؟

یقیناً اس کی پالیسی یک طرفہ ہوگی اور وہ اسرائیل کی حد سے بڑھ کر حمایت کرے گا۔ جس انداز میں بائیڈن حکومت نے پرنس محمد بن سلمان پر دباو بڑھایا ہے، وہ سب مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی شعوری کوشش ہے، جس میں مقابل کو ذہنی طور پر اپنے دفاع پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اسرائیلی رہنماء ہزاروں نہتے فلسطینیوں کو قتل کرکے بھی زیر سوال نہیں آئے بلکہ وہ ایک جمہوری ملک کی سند پاتا ہے اور دوسری جگہ دباو میں لانے کے لیے ایک قتل پر طوفان کھڑا کر لیا جاتا ہے۔ اس دورے پر ہی آئی ٹو یو ٹو (I2U2) ورچوئیل اجلاس ہونا ہے۔ 2 آئی یعنی اسرائیل اور انڈیا اور 2 یو یعنی یو ایس اور یو اے ای ایک اتحاد بنانے جا رہے ہیں۔ یہ خطے میں پاکستان اور ایران کو مائنس کیا گیا ہے، ورنہ انڈیا سے مشرق وسطیٰ تک تمام ممالک اس میں شامل ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ہماری خارجہ پالیسی کا بھی امتحان ہے کہ خطہ تبدیلیوں کی زد میں ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ پاکستان پر تمام طرح کا دباو ڈال کر دیکھ لیا ہے، مگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پاکستان کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے۔ وہ وقت جب ہم نے اپنی اہمیت منوانی تھی، ہم سیاسی عدم استحکام کا شکار کر دیئے گئے اور ساتھ ہی اقتصادی بحران نے رہی سہی کسر نکال دی۔ بائیڈن نے اسرائیلی وزیرِاعظم سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ ایران کو نیوکلیئر ہتھیار بنانے سے روکا جائے گا۔ ایسا ہونے سے روکنے کے لیے آخری آپشن طاقت کا استعمال ہوگا۔ اس پر ایران کے وزیر خارجہ نے ٹویٹ کیا کہ ہم عظیم ایرانی قوم کے مفادات کا ہر جگہ تحفظ کریں گے۔ جیوبائیڈن کا یہ دورہ خطے میں بڑی تبدیلیوں کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے، مگر ہر چیز ان کے اختیار میں نہیں ہوتی، اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: “پھر بنی اسرائیل (مسیح کے خلاف) خفیہ تدبیریں کرنے لگے، جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے۔”

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply