مارکسزم اور لینن ازم کو مسخ کرنے کی کوشش۔۔شاداب مرتضٰی

عظیم اینگلز کہتا ہے:”  مساوی قدر کی بنیاد پر محنت کے بدلے محنت کا تبادلہ’, اگر اس بات کا کوئی مطلب ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ مساوی سماجی محنت سے بننے والی چیزوں کی باہمی تبادلے کی صلاحیت،یعنی قدر کا قانون (Law of Value)، جو اجناس کی پیداوار کا، اور اسی لیے اجناس کی پیداوار کی اعلیٰ  ترین شکل کا، یعنی سرمایہ دارانہ پیداوار کا، بنیادی قانون ہے۔” (فریڈرک اینگلز، ‘قاطع ڈیورنگ’)

قدر کا قانون یا جسے مساوی تبادلے کا قانون بھی کہا جاتا ہے وہ سوشلسٹ معیشت کا قانون نہیں ہے بلکہ سرمایہ دارانہ معیشت کا قانون ہے۔

اینگلز مزید کہتا ہے: ” وہ (یوجین ڈیورنگ) موجود سماج کو قائم رکھنا چاہتا ہے مگر اس کی خرابیوں کے بغیر۔ چنانچہ وہ پرودھون کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ اس کی طرح وہ بھی ان ناانصافیوں کو ختم کرنا چاہتا ہے جو اجناس کی پیداوار کے سرمایہ دارانہ پیداوار میں ڈھل جانے سے پیدا ہوئی ہیں اور اس کے لیے وہ ان پر اجناس کی پیداوار کے اسی بنیادی قانون کا اطلاق کرنا چاہتا ہے جو ان ناانصافیوں کا سبب ہے۔ پرودھون کی طرح ہی وہ قدر کے قانون کے حقیقی نتائج کو تصوراتی نتائج کے ذریعے ختم کردینا چاہتا ہے۔” (فریڈرک اینگلز، ‘قاطع ڈیورنگ’)

ہمیں “چینی سوشلزم” کی تعریف میں بتایا جاتا ہے کہ چین میں چیزوں کی قیمت حکومت طے کرتی ہے۔ سرمایہ دار (پرائیوٹ سیکٹر) بھی حکومت کی طے کردہ قیمتوں کی پابندی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں  کہ چین کا معاشی نظام کسی قسم کی منصوبہ بند یعنی شاید سوشلسٹ معیشت ہے۔ لیکن اس کے برعکس چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کا چیزوں کی قیمت طے کرنے کا قانون کہتا ہے:
ریاست قیمتوں کے اس میکنزم پر عمل کرتی ہے اور بتدریج اسے مکمل بناتی ہے جسے بنیادی طور پر میکرو اکنامک قواعد اور کنٹرول کے ذریعے مارکیٹ تشکیل دیتی ہے۔ قیمتوں کا تعین قدر کے قانون (Law of Value) کے مطابق ہو گا۔ “

” اکثر چیزوں اور خدمات (سروسز) کی قیمت مارکیٹ کی طے کردہ قیمتوں کے مطابق ہو گی اور بہت ہی کم تعداد میں چیزوں اور خدمات کی قیمتوں کو حکومت کی رہنمائی میں حکومت کی جانب سے طے کیا جائے گا۔ “

” مارکیٹ کی نگرانی میں طے ہونے والی قیمتوں کا مطلب وہ قیمتیں ہیں جنہیں آپریٹرز آزادانہ طور پر طے کرتے ہیں اور جو مارکیٹ میں مقابلے بازی (کمپٹیشن) سے تشکیل پاتی ہیں۔ “

” اس قانون میں آپریٹرز سے مراد وہ قانونی اشخاص، دوسری تنظیمیں اور افراد ہیں جو اجناس (کموڈٹی) کی پروڈکشن اور مینجمنٹ میں یا خدمات کی فراہمی میں مصروف ہیں۔ ” (آرٹیکل 3)

” پروڈکشن اور مینجمنٹ کی لاگت اور طلب و رسد کی صورتحال وہ بنیادی عنصر ہوں گے جن کی بنیاد پر آپریٹرز قیمت طے کریں گے۔” (آرٹیکل)

سو، چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کے قانون کے مطابق چین میں چیزوں کی قیمت قدر کے قانون، یعنی سرمایہ دارانہ معاشی قانون کے تحت، مارکیٹ کے ذریعے طے ہوتی ہے، یعنی اسے سرمایہ دار طے کرتے ہیں۔ حکومت بہت ہی کم چیزوں کی قیمت طے کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور اس اختیار کو بھی قدر کے قانون کے تحت، یعنی سرمایہ دارانہ معاشی قانون کے تحت استعمال کرتی ہے۔ سو، جو بات مارکس اور اینگلز نے پیٹی بورژوا پرودھون اور ڈیورنگ کی “معیشت” کے بارے میں کہی تھی یعنی یہ کہ وہ موجودہ سماج کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں مگر اس کی ناانصافیوں کے بغیر اور اس کے لیے وہ جو طریقہ اختیار کرتے ہیں وہ وہی ہے جس کی وجہ سے وہ سماجی ناانصافیاں پیدا ہوئی ہیں جنہیں وہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔  وہی بات چینی سوشلزم پر صادق آتی ہے۔

سائنسی سوشلزم  کے مطابق ایسا سوشلزم یا ایسی کمیونسٹ حکومت جو سوشلزم کی دعویدار ہو مگر اس کی معیشت قدر کے قانون پر استوار ہو وہ پیٹی بورژوا، مڈل کلاس طبقے، یعنی، بالآخر، سرمایہ دار طبقے کے معاشی مفاد کی ہی نمائندگی کرتی ہے مزدور طبقے کے مفاد کی نہیں۔ چینی “کمیونسٹ” بھی کیپٹلزم برقرار رکھنا چاہتے ہیں مگر ان خرابیوں کے بغیر جن کی موجودگی کیپٹلزم میں لازمی ہے اور اسی لیے چین میں یہ ساری خرابیاں (طبقاتی تقسیم، استحصال، نابرابری، اجرتی محنت، غربت، بیروزگاری وغیرہ) مستقل موجود ہیں۔

ویتنام میں بھی انقلاب کے 70 سال بعد یہی معاملہ ہے جو چین میں ہے۔ دونوں جگہ سرمایہ داری سے سوشلزم کی جانب پیش قدمی کے بجائے الٹا ہوا یہ ہے کہ معیشت مکمل طور پر سرمایہ دارانہ معاشی قانون کے، یعنی قدر کے قانون کے تابع ہو چکی ہے۔

سوویت یونین سمیت جہاں بھی سوشلزم پسپا ہوا اور سرمایہ دارانہ نظام بحال ہوا وہاں معیشت میں قدر کے قانون کو بحال کیا گیا۔ سوشلسٹ معیشت کو سرمایہ دارانہ معیشت میں بدلنے کے لیے قدر کے قانون کی بحالی لازمی، بنیادی عنصر ہے۔ اس کی بحالی سے پیداواری رشتے سرمایہ دارانہ ہوجاتے ہیں، نجی ملکیت پیدا ہوجاتی ہے اور ذرائع پیداوار مزدوروں اور کسانوں کے ہاتھوں سے نکل کر سرمایہ داروں کی نجی ملکیت بن جاتے ہیں۔

جہاں جہاں سوشلزم پسپا ہوا اور سرمایہ دارانہ نظام بحال ہوا وہاں سوشلزم کی سیاسی معیشت کے بارے میں اسٹالن کے نقطہ نظر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، اسے غلط، خراب، عقیدہ پرستانہ اور غیر مارکسی نقطہ نظر قرار دیا گیا اور اس کے مقابل معیشت کو مکمل طور پر قدر کے قانون کے تابع کرنے کا دفاع کیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ “سوشلسٹ” جو ہمیں چین، ویتنام یا نیپال میں سوشلزم کی امد اور اس کی پیش قدمی کی کہانیاں سناتے ہیں یا تو حقائق سے ناواقف ہیں اور اپنی امنگوں کی رو میں بہک کر خیالی، فرضی باتیں کر رہے ہیں یا پھر وہ کسی مخصوص ذاتی مفاد کی تکمیل میں لوگوں کو مارکسزم اور سوشلزم کے نام پر بیوقوف بنا رہے ہیں۔ دونوں میں سے معاملہ جو بھی ہو لیکن ایک بات طے ہے۔ ان لوگوں کا مؤقف مزدور طبقے کا انقلابی سوشلسٹ مؤقف نہیں بلکہ مڈل کلاس، پیٹی بورژوا موقع پرستی کا، یعنی چھوٹے سرمایہ داروں کا اور اس لیے بالآخر سرمایہ دار طبقے کا ہی مؤقف ہے۔ یہ سوشلسٹ تحریک میں ترمیم پسندی کے رجحان کی یعنی مارکسزم-لینن ازم کو مسخ کرنے اور اسے کیپٹلزم سے بدل دینے کے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply