انسان کا خاتمہ؟(2)۔۔ادریس آزاد

اگر آپ گوگل میں ’’Transhumanism‘‘ کا لفظ ٹائپ کریں تو آپ کو دولاکھ پچاس ہزار نیٹ پیجز نظر آئینگے جو ٹرانس ہیومن ازم کے لیے وقف ہیں۔ لیکن اگر آپ گوگل میں ’’Genetic Engineering Laboratories‘‘ کے الفاظ ٹائپ کریں تو آپ چوبیس ملیَن ویب سائیٹس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ سب لوگ تقریباً اسی مشن پر لگے ہوئے ہیں۔
امریکہ میں جارج ڈبلیو بش نے 2006 میں سٹیٹ آف دہ یونین کے ایڈریس میں ایک قانون کی منظوری کے لیے سفارش کی جس کے بعد انسانوں اور جانورں کے درمیان ’’ٹرانس جینک‘‘ سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔ یہی بات لمحہ ٔ فکریہ ے۔ امریکہ جیسے ملک کا صدر آخر کسی ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر بند کرنے کے لیے آن دی ریکارڈ اجلاس میں تقریر کیوں کریگا؟ یقیناً خطرہ بہت بڑا تھا۔ لیکن خوش قسمتی یا بدقسمتی سے صدر اوبامہ نے جو پہلا کام کیا وہ یہی تھا کہ اُس نے صدر بُش کی طرف سے ٹرانس جینک ریسرچ پر لگائی گئی تمام پابندیاں یکسر اُٹھادیں۔ اور اس طرح سب سے بڑا مرحلہ یہ طے ہوگیا کہ سرکاری رقوم کا راستہ ٹرانس جینک ریسرچ کی طرف کھل گیا۔ اور یوں امریکہ کی ٹیکس پیئر رقوم کا مہیب ریلا اس عظیم اور محیرالعقول ریسرچ کی طرف بہہ نکلا۔ یہ پیسہ ہزاروں لیبارٹریز کو جارہا ہے۔ جوبات دنیا کے کسی بھی انسان کو بےپناہ پریشان کرسکتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکی ریسرچ کا یہ پیسہ ایک بڑی مقدار میں جس ٹیکنالوجی پر صرف ہونا شروع ہوگیا ہے، اسے سائنس کی زبان میں،
ہیومن اینمل کائمیرا Human Animal Chimera
کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے انسان اور جانوروں کے ملاپ سے پیدا کی جان والی نئی نئی انواع۔ یعنی ایسا جاندار جو ہیومن اینمل ہائی برڈ ہوگا۔ آدھا انسان اور آدھا کوئی اور جانور۔ اگرچہ ظاہراً ایسا کچھ نہیں ہے اور ہیومین اینمل کائیمرا پیدا کرنے سے فقط مراد انسانی بہبود اور نیک مقاصد ہیں۔ مثلاً آج ہم ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے دل بدلوا سکتے ہیں لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوسکتاہے جب کوئی ’’دل دینے والا‘‘ بھی موجود ہو۔ اگر کسی نے بروقت دِل نہ دیا تو ہم مرجائینگے۔ کیونکہ ہمارا دل خراب ہوچکاہے۔ لیکن ہیومین اینمل کائمیرا کی شکل میں ہم ایسا جانور پیدا کرواسکتے ہیں جس میں ہمارے لیے ایک عدد دل پیدا کیا جائے گا۔ وہ کوئی جانور ہوگا۔ ایسا جانور جیسے جانور ہم عموماً ذبح کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً وہ گائے، بکری یا بھیڑ ہوسکتی ہے جس کے سینے میں ہمارا دل ہوگا۔ ہم اس جانور کو ذبح کرکے اپنا دل لے لینگے اور یوں ہارٹ ٹرانسپلاٹیشن کے لیے ڈونیشن کے مسئلہ سے جان چھوٹ جائے گی۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ظاہری طور پر تو ہیومین اینمل کائمیرا کی پیداوار ایک مثبت اقدام ہے لیکن اس کے سائیڈ ایفیکٹس کا اندازہ لگانا ممکنات سے باہر ہے۔امریکہ کی ایک ریاست میں باقاعدہ ایک فارم ہے جہاں ایسے سؤر پیدا کیے جارہے ہیں جو تھوڑے سے انسان اور باقی سؤر ہیں۔ تھوڑے سے انسان اس طرح کہ ان سؤروں میں انسانی اعضأ پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ آرگن ٹرانسپلانٹیشن انڈسٹری کو حتمی مدد دی جاسکے۔ ایک سؤر کے اندر انسانی ڈی این اے کا پھلنا پھولنا عجیب و غریب مظہر ِ فطرت ہے ۔ ایٹم بم کی ایجاد نے ہیروشیما اور ناگاساکی کی جان لی تھی لیکن معلوم نہیں یہ ٹرانس جینک پروڈکٹس کیا گل کھلائینگی؟ بظاہر اُمید ہی اچھی چیز ہے اور اچھی اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ بالآخر ٹرانس جینک پروڈکٹس انسان کی بھلائی کا ہی موجب بنینگی۔
2006 میں امریکہ کے سب سے بڑے ڈیپارٹمنٹ ، ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ نے 773,000 ڈالرز محض صرف ایک مقصد کے لیے دیا کہ دو سال کے اندر اندر اس بات کا جائزہ لے کر بتایا جائے کہ ٹرانس جینک ریسرچ کی اخلاقی پوزیشن کیاہے؟ اس ریسرچ کی اہمیت اس لیے زیادہ تھی کہ اس میں انسانی سبجیکٹ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ یعنی براہ ِ راست انسانوں کو تجربات میں شامل کرکے بالآخر حکومت کو یہ بتایا جائے کہ اگر جینٹک انجنئرنگ اُن اھداف تک پہنچ جاتی ہے جن سے انسانیت خوفزدہ ہورہی ہے تو انسان اور غیر ِ انسان میں فرق کرنے کے لیے کیا اخلاقی قدریں مقرر کی جاسکینگی؟ میکس میہل مین Max Mehlman اس پراجیکٹ کا سربراہ تھا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ دوسال کا عرصہ پورا ہونے کے بعد کوئی رپورٹ شائع نہ کی گئی اور ریسرچ کے نتائج کو چھپا لیا گیا البتہ کچھ ہی عرصہ بعد ریسرچ لیڈر ’’میکس میہل مین‘‘ نے امریکہ کی ایک ایک یونیورسٹی میں جاکر ’’ڈائریکٹڈ ایوولیوشن‘‘ اور ’’ٹرانس ہیومن ازم اور جمہوریت‘‘ کے عنوان سے لیکچرز کا سلسلہ شروع کردیا۔ ڈائریکٹڈ ایوولیوشن سے معنوی طور پر یہی مراد ہے کہ انسان کی ہدایت پر چلنے والا ارتقأ ۔ کیونکہ اس سے پہلے ارتقأ، فطرت کی ہدایات پر چل رہا تھا۔ میکس کے لیکچرز کے عنوانات سے مترشح ہے کہ لیبارٹری میں نتائج توقعات سے کہیں زیادہ پریشان کن برآمد ہوئے تھے۔
صرف ایک ملک، امریکہ میں ہی اتنے بڑے بڑے حکومتی ادارے خود ٹرانس جینک ریسرچ کو بڑی بڑی رقوم دے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہت جلد نسل ِ انسانی اپنی موجودہ ساخت سے کچھ اور بننے والی ہے۔
ہم نے اب تک جتنی گفتگو کی اس سے فقط اتنا تاثر ملتا ہے کہ چلو! یہ لوگ جب کچھ پیدا کرینگے تو دیکھ لینگے! لیکن یہ بات ہم بھول رہے ہیں کہ جینٹکلی انجنئرڈ خوراک بھی اتنی ہی تبدیلی کنندہ ہے جتنا کہ نئی نوع کو پیدا کردینے والے عناصر۔ جیسا کہ پولیو کی ویکسین کے ذریعے روئے زمین سے پولیو کا خاتمہ کرنے کی مہم محض قطرے پلا کر چلائی گئی ہے اور اب تقریباً پولیو فنا ہونے ہی والا ہے بالکل اسی طرح محض قطرے پلا کر بھی ہمیں جینٹکلی تبدیل کیا جاسکتاہے۔ یہ ہے اصل فکرمندی کا مقام۔
اسی طرح امریکن ملٹری کے ادارہ ’’ڈارپا‘‘ کا میں نے پہلے ذکر کیا۔ ڈارپا بلیَنز آف ڈالرز صرف کررہا ہے اور اس کے کئی پروجیکٹس پر بیک وقت کام جاری ہے۔ جن میں سے ایک پروجیکٹ کا نام ہے ، ’’ایکسٹینڈڈ پرفارمینس وار فائٹر‘‘۔ نام سے ہی اندازہ ہورہا ہے کہ یہ عام سپاہیوں کو جینٹکلی ڈیزائن کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس پروگرام کے ارویجنل ڈاکومینٹس نیٹ پر دستیاب ہیں جن میں واضح لکھا ہے کہ سولجرز کے ڈی این اے میں تبدیلی کرنا اس پروگرام میں شامل ہے۔ امریکی عوام نے اسے ’’سپر سولجر ٹیکنالوجی‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ ابھی 2011 میں ڈارپا نے ملیَنز آف ڈالرز کا بجٹ پھر منظور کیا ہے اور جس پروگرام کے لیے منظور کیا ہے اس کا نام ہے، ’’بائیو ڈیزائن‘‘۔ بائیو ڈیزائن حقیقت میں فقط ایک آؤٹ لائن ہے تاکہ بجٹ منظور کیا جاسکے ورنہ فی الحقیقت یہ پراجیکٹ ’’لافانیت‘‘ کے نام سے شہرت پکڑرہا ہے کیونکہ اس پراجیکٹ کے تحت انسانی عمر بڑھانے کے لیے ٹرانس جینک ریسرچ کی جارہی ہے۔ اس پراجیکٹ کے ابتدائی مقاصد میں سیل کی تخریب و تعمیر کا اس نقطہ نگاہ سے مطالعہ مقصود ہے کہ آخر انسانی سیل ختم ہونا اور مرنا کیوں شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسا کیوں نہیں ہے کہ ہم عمر کے ایک حصہ کے بعد جسم کے تمام سیلز کی دوبارہ پیدائش کے قابل ہوسکیں۔اس عمل کی وضاحت کے لیے ’’ڈارپا‘‘ خود جو اصطلاح استعمال کررہا ہے وہ ہے، ’’کری ایٹنگ اِمّارٹل آرگانزم‘‘ Creating Immortal Organisms……….. لیکن یہ نام بھی اس کی حدود کی ٹھیک سے وضاحت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ ملٹری دراصل اس پراجیکٹ کے ذریعے اپنے فوجیوں میں ایک ’’ایسی لیتھل فورس‘‘ پیدا کردے گی جو تباہ کن ہوگی۔ اس طرح ان کے فوجی حد سے زیادہ طاقتور اور باصلاحیت ہوجائینگے ۔
قابل ِ غور بات یہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی فقط امریکہ تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ آسٹریلیا، چائنہ، برطانیہ سمیت پوری دنیا میں ہزارہا لیبارٹریز ہیں جہاں جینٹک انجنئرنگ پر دن رات تیزی سے کام ہورہا ہے۔ گزشتہ دنوں برطانیہ میں یہ بحث زور پکڑ گئی تھی کہ ’’ہیومین اینمل کائمیرا ‘‘ یا ’’ہیومن اینمل ہائی برڈ‘‘ پیدا کرنا اخلاقی طور پر کس حد تک درست یا غلط ہے۔ دراصل برطانوی حکومت نے اس بحث کو عوام کے سامنے جان بوجھ کر رکھا۔ برطانیہ کے سائنس دان یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کے عوام انہیں اس تحقیق میں کس تک آگے جانے دینا چاہتے ہیں۔ کئی مباحث اور سیمینار منعقد کیے گئے۔ اسی طرح کے ایک بڑے سیمینار میں ویٹیکن کے دو بڑے بسشپس بھی شریک ہوئے۔ انہوں نے اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ فرض کریں ایک عورت ٹرانس جینک پروڈکشن میں حصہ لیتی ہے اور اس کے انڈے سے ایک ایسا بچہ پیدا کیا جاتاہے جو کچھ انسان اور اس کا باقی حصہ کوئی اور جانور ہے اورپھر وہ عورت بعد میں اپنے فیصلے پر پچھتاتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس کا بچہ ختم کردیا جائے کیونکہ وہ اپنے بچے کو اس حال میں نہیں دیکھنا چاہتی تو پھر اسے اس کے بچے کو ختم کردینے کا اختیار دینا بھی اخلاقی طور پر فرض ہوجائیگا۔ایسے مباحث میں ایک بات کھل کر سامنے آگئی کہ ہیومین اینمل کائمیرا میں یہ طے کرنا ایک مستقل سوالیہ نشان ہے کہ ’’کتنا انسان اور کتنا حیوان؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کوئی بھی کائمیرا جو بظاہر دیکھنے میں محض ایک سؤر ہے ، آخر کس حد تک انسان ہے۔ اس کے جسم میں کون کون سے اعضأ انسانی ہیں اور اسے کتنے فیصد انسان مانتے ہوئے اس پر انسانی حقوق لاگو کیے جاسکتے ہیں ؟ ایک بات جس سے دنیا کے عوام ابھی تک بے خبر ہیں وہ یہ ہے کہ انسان اور حیوان کے درمیان کی جانے والی یہ اینٹیگریشن ۔۔۔۔۔۔۔ فیصدی۔۔۔۔۔۔۔۔میں کیا ہے؟ یعنی کیا واقعی ایسا ہے کہ دل گردے یا پھیپھڑوں کی حد تک انسان اور باقی ماندہ جانور ملا کر نئی انواع پیدا کی جارہی ہیں یا انسان اس مقدار سے زیادہ ان میں شامل ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سائنسدان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ففٹی پرسینٹ اینٹیگریشن کررہے ہیں۔ یعنی پچاس فیصد انسان اور پچاس فیصد دوسرے حیوانات کو ملایا جارہا ہے اور یہ ایک نہایت توجہ کھینچنے والا امر ہے۔
اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس کام کو روکا جائے یا چلتے رہنے دیا جائے۔ اس پر پیسہ خرچ کیا جائے یا پیسہ بچا لیا جائے۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کام کو اب روکا ہی نہیں جاسکتا۔ کسی بھی قیمت پر ، کوئی بھی طاقت ایسی نہیں جو جینٹک انجنئرنگ کے خوفناک نتائج سے انسانوں کو باز رکھ سکے۔ کیونکہ یہ ایٹم بم بنانے جتنا مشکل کام نہیں ہے کہ پوری صدی گزرنے کے بعد بھی چند ممالک کے پاس وہ صلاحیت ہوگی، یعنی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت۔ بلکہ جینٹک انجنئرنگ کی لیبارٹری تو آپ اپنے مکان کے گیراج میں بھی کھول سکتے ہیں۔ چنانچہ انسانوں اور جانوروں کے پیش آمدہ ’’قلمی‘‘ تعلق کو روکنا ممکن ہی نہیں۔ اور اس لیے امریکہ سمیت اب تمام اقوام کی یہ سوچ ہے کہ پھر کیوں نہ وہ سب سے پہلے اس ٹیکنالوجی کا استعمال کریں اور خود کو ٹرانس ہیومینز میں تبدیل کرلیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر ان کے دشمنوں نے خود کو اُن سے پہلے ٹرانس ہیومنز بنا لیا تو وہ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں غیر ارتقأ یافتہ مخلوق کے طور پر کمزور رہ جائینگے۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply