• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہم جنس پرستی کی رغبت ۔ پیدائشی رجحان یا ایک عارضہ؟۔۔ڈاکٹر عزیر سرویا

ہم جنس پرستی کی رغبت ۔ پیدائشی رجحان یا ایک عارضہ؟۔۔ڈاکٹر عزیر سرویا

بہت سے بھولے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب نے ہم جنس پرستی کے موضوع پر اپنے یہاں جو گُنجائش دے رکھی ہے وہ اس لیے ہے کہ یہ ایک “نارمل” بائیولوجیکل رویہ ہے۔ ایک  دوست  کہہ رہا تھا کہ 500 کے لگ بھگ جاندار ایسے ہیں جن میں اس رویے کا مشاہدہ سائنسدانوں نے کر رکھا ہے۔
پہلی چیز تو یہ سمجھ لیں کہ “نارمل” یا “فطری” کوئی ٹھوس اصطلاحات نہیں جن پر سب متفق ہوتے ہوں۔ ان کی تعریف کلچر، سماج اور افکار کے ساتھ مسلسل بدلتی رہتی ہے۔
آپ 500 جانداروں کے ہم جنس پرستی میں ملوث ہونے سے اس رویے کا انسانی آبادی میں جواز لانے لگیں گے تو کوئی دوسرا اٹھ کے ان ہی جانداروں میں سے مثالیں لے آئے گا کہ جنسی استفادے کے لیے بائیولوجیکل ماں، بہن بیٹی وغیرہ کی تمیز بھی ان میں نہیں پائی جاتی۔ پھر آپ کو اِنسیسٹ کو بھی فطری، نارمل وغیرہ ماننا پڑے گا تو آپ خواہ مخواہ پریشان ہوں گے۔
پھر کچھ لوگ کہتے ہیں چونکہ یہ رویہ پیدائش سے ہی انسان کے جِینز میں موجود ہوتا ہے (اس دعوے کا سائنسی رد ہو چکا ہے لیکن اب بھی کچھ لوگ اس پر بضد ہیں) اس لیے اسے بیرونی و اندرونی نفسیاتی عوامل   کے اثر کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے اور فطری سمجھ کر قبول کرنا چاہیے۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کے “پیدائشی رجحان” ہونے کے ثبوتوں سے کہیں زیادہ سائنسی شواہد اس بات کے موجود ہیں کہ جو جوان سنگین جرائم (قتل، تشدد وغیرہ) کا ارتکاب کرتے ہیں ان میں پیدائشی طور پر کچھ عوامل اس کے موجود ہوتے ہیں۔ پھر مزید یہ ہے کہ اگر ہم جنس پرستی پیدائشی ہے اور اسی بنیاد پر اسے قبول کیا جانا لازم ٹھہرتا ہے تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اسے بس چھوٹے بچوں سے جنسی کشش محسوس ہوتی ہے اور یہ رویہ بھی پیدائشی ہے جس پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں۔ ایسے میں آپ کوپھر پریشانی لاحق ہو جائے گی کہ “نارمل” ہونے کا معیار اگر پیدائشی میلانات ہیں تو متشدد افراد اور بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں کا کیا کرنا ہے؟

مسئلے کا حل یہ ہے کہ پہلے آپ اچھی طرح سمجھ لیں کہ مغرب، جو کہ اس وقت ترقی پسندوں اور یونیورسٹی لیول طلباء کا “نظریاتی قبلہ” ہے، نے ہم جنس پرستی کو اس لیے قبول نہیں کر رکھا کہ وہ اسے مذکورہ بالا بنیادوں پر “فطری” یا “نارمل” سمجھتے ہیں۔ بلکہ انہوں نے اسے شخصی آزادی کے ایک طاقتور اظہار کے طور پر اپنا رکھا ہے۔ وہ شخصی آزادی کا یہ تخیلاتی اور روز بروز بڑا چھوٹا ہونے والا دائرہ وہاں تک کھینچتے ہیں جہاں تک کسی دوسرے کی آزادی یا حقوق میں رکاوٹ نہ پڑے۔ ایسے میں کسی کے اندر قتل یا بچے بازی کے “جینز” موجود ہوں بھی تو وہ اسے جبراً ان سرگرمیوں سے روکیں گے کیونکہ معاشرت کی تشکیل میں ترجیح کسی بھی عمل کے “فطری” یا “پیدائشی” ہونے کو نہیں بلکہ “آزادی/دو طرفہ کانسینٹ” اور “انفرادی حقوق” سے موافق ہونے کو حاصل ہے۔

ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان میں سے وہ افراد جو کھل کر سماج میں برائی پھیلانے کا سبب نہیں بن رہے (“ایکٹیوسٹ” بن کر) وہ مجرم نہیں بلکہ ایک طرح سے مظلوم ہیں جن کی مدد ہمیں ہر حال میں کرنی چاہیے۔ اگر کوئی شخص اپنی کمزوری یا سماج و سوشل سسٹم کی بے اعتنائی و ٹوٹ پھوٹ کے سبب ہم سے جدا ہو گیا ہے تو اسے واپس لانا ہمارے ذمے ہے۔ خصوصاً اس وقت جب کہ وہ ڈھٹائی سے اپنے “متبادل نظام زندگی” پر اترانے یا فخر کرنے یا اس کی ترویج کرنے کا مرتکب بھی نہ ہو رہا ہو۔

یہ نکتہ سمجھ لینے کے بعد چند مزے کی باتیں سنیے: کوئی شخص اپنی سگی ماں، بہن یا بیٹی کے ساتھ برضا و رغبت جنسی تعلق قائم کر کے قانونی طور پر بچے پیدا کرنا چاہے تو مغرب کے زیادہ تر ممالک میں یہ قانوناً جرم ہے۔ ان ہی کے آزادی و کانسینٹ والے فارمولے کے تحت دو افراد کا آپسی تعلق ہے جس سے کسی تیسرے کے مفاد پر بظاہر آنچ نہیں آتی، لیکن جرم ٹھہرایا گیا ہے! کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ ان تعلقات سے پیدا ہونے والے بچوں میں موروثی بیماریوں و دیگر امراض کے بڑھے ہوئے امکانات ہیں، اور آنے والے بچے کے حقوق کی ممکنہ پامالی کے سبب اس پر پابندی ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ بہت سے وہ ممالک جہاں محرم رشتوں سے تعلق پر پابندی ہے (پیدا ہونے واکے بچوں کے ممکنہ نقصان کے سبب) ان ہی ممالک میں ابارشن پر کوئی پابندی نہیں! اس بظاہر احمقانہ تضاد پر آپ ان سے گفتگو کریں تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ جو پیدا ہی نہ ہوا اس کی جان کوئی کیا لے، اس لیے ابارشن جائز ہے کہ عورت کا جسم ہے سو اس کی مرضی ہونی چاہیے!

اب تک کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ “نارمل”، “فطری” اور”پیدائشی” انتہائی غیر واضح و غیر متعین اصطلاحات ہیں۔ اگر کسی جگہ پر اکثریت کو لگے کہ ماں کے پیٹ میں ٹھہرنے والا حمل “زندہ” شے نہیں ہے اور اس پر “حقوق” لاگو نہیں ہونے چاہئیں، جبکہ جس عورت کے جسم میں وہ پل رہا ہے رکھنے یا ضائع کرنے کا تمام حق بھی اسی کا ہو گا، تو وہاں ابارشن “نارمل” کہلانے لگتا ہے؛ اگر اکثریت یہ سمجھے کہ محرم رشتوں کے جنسی تعلق سے اگلی نسلوں کو نقصان کا اندیشہ ہے بھلے کانسینٹ و آزادی سے معاملہ چل رہا ہو تو انسیسٹ “غیر فطری و غیر قانونی” تصور ہو جاتا ہے بھلے جتنے مرض جانداروں میں یہ ہوتا ہو۔ اگر کوئی کہے کہ انسیسٹ سے آنے والے بچوں کو ممکنہ جسمانی نقصان کے سبب انسیسٹ غیر قانونی ٹھہرانا چاہیے، اور جواباً آپ یہ پوچھ لیں کہ انسیسٹ سے بچے ٹھیک پیدا نہ ہونے کا پرابلم ہے تو ایک ایسا تعلق جس سے بچے پیدا ہی نہ ہو سکتے ہوں (یعنی ہم جنس پرستی) وہ انسانیت یا ملک کے لیے فائدہ مند کیسے ہو سکتا ہے؟ تو اس پر آپ کی منطق کی کوئی اہمیت نہ ہو گی کیونکہ “فائدہ نقصان” کی تعریف بھی جمہور کے دین نے اپنی خواہشات کے مطابق طے کرنا ہوتی ہے!

آپ آخر میں یہ سوال خود سے اور مغرب زدہ دوستوں سے لازمی پوچھیں کہ ایسے لوگ جن کا خود پے کنٹرول نہیں اور وہ بچوں سے جنسی حِظ کشید کرنے کے عادی ہو چکے ہیں (یعنی پِیڈوفائل) یا تشدد کا رجحان رکھتے ہیں اور جرائم کر سکتے ہیں (اپنے منفی ڈی این اے کے سبب)، تو عوام کی اکثریت ان کے اس رویے کو سماج کے مشترکہ مفاد کے خلاف سمجھتے ہوئے “نفسیاتی تھیراپی” وغیرہ کے ذریعے ان لوگوں کو “تبدیل” کرنے کی کوشش کر سکتی ہے، تو کوئی دوسرا سماج “ہم جنس پرستی” کو سماج کے مشترکہ مفاد سے متصادم سمجھتے ہوئے ایسے لوگوں کو “تبدیل” کرنے کی غرض سے “نفسیاتی تھراپی” یا دیگر ذرائع کیوں بروئے کار نہ لائے؟
———————————
ابھی تک زندگی میں جتنے ہم جنس پرست و جینڈر بارے کنفیوز لوگوں سے ملا ہوں اور انہیں جانا ہے، جو چیزیں مشترک دیکھیں وہ یہ ہیں:-
٭بچپن ہی سے ایک خراب گھریلو ماحول، جس میں والدین کی غیر موجودگی، بے توجہی، مار پیٹ (آپسی بھی بچے کے ساتھ بھی)، غیروں کے رحم و کرم پے چھوڑنا
٭بچپن میں بدفعلی کا شکار بننا (قریبی رشتوں کی طرف سے) اور بعد ازاں اسی تکلیف دہ عمل میں سے بیمار قسم کا حِظ کشید کرنے کی عادت پڑ جانا
٭ ایک اچھے مخلص سپورٹ سسٹم (دوست، خیرخواہ، سمجھانے والے) کی عدم موجودگی
٭کلچرل اسلام (جو توبہ توبہ اللہ معافی تک رہتا ہے لیکن مشکلات کے حل تک پہنچنے میں کوئی رہنمائی نہیں کرتا) سے شناسائی لیکن اسلام کی اصل (یعنی اندورنی و بیرونی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری الوہی ہدایات) تک پہنچنے کے ذرائع سے محرومی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان میں سے وہ افراد جو کھل کر سماج میں برائی پھیلانے کا سبب نہیں بن رہے (“ایکٹیوسٹ” بن کر) وہ مجرم نہیں بلکہ ایک طرح سے مظلوم ہیں جن کی مدد ہمیں ہر حال میں کرنی چاہیے۔ اگر کوئی شخص اپنی کمزوری یا سماج و سوشل سسٹم کی بے اعتنائی و ٹوٹ پھوٹ کے سبب ہم سے جدا ہو گیا ہے تو اسے واپس لانا ہمارے ذمے ہے۔ خصوصاً اس وقت جب کہ وہ ڈھٹائی سے اپنے “متبادل نظام زندگی” پر اترانے یا فخر کرنے یا اس کی ترویج کرنے کا مرتکب بھی نہ ہو رہا ہو۔
اس کام کے لیے سر جوڑنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مغرب تو شخصی آزادی کا چورن بیچ رہا ہے (جو موجودہ ظالمانہ سودی سرمایہ داری نظام چلتا رکھنے کے لیے ضروری ہے)؛ لیکن اللہ نے ہم (مسلمانوں پر) یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ پوری انسانیت کو ایک بہتر راستے کی طرف لے کر آئیں۔ تاریکی سے دور روشنی کی طرف بلانے کے عمل کا پہلا سٹیپ یہ ہے کہ دلائل و حکمت کو ٹھوس مگر لہجوں کو بالعموم نرم اور میٹھا رکھیں۔ اگر لوگوں کو ڈھیٹ کر کے دور بھیجیں گے تو اگلی نسلیں اس بیمار سماج و معاشرت کو بھگتنے پر مجبور ہوتی چلی جائیں گی۔
———————————
ڈاکٹر عزیر سرویا ایک طبی معالج ہیں اور جناح اسپتال لاہور میں خدمات انجام دیتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply