بھروسے کی چال۔۔ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

اظہر فراغ کے شعر سے آغاز جو اپنے شعر میں بھروسے کی تصویر دکھاتا ہے۔
دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا
تالوں کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا

بھروسہ وقت کی دستک کا نام ہے جس کے اثرات و ثمرات لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کثرت سے جڑے ہوتے ہیں ۔
ہر زمانے کی اپنی روداد ہوتی ہے جو اس کے تاریخی، ثقافتی ،تہذیبی ، اور سماجی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے ۔اظہر فراغ نے اپنے اس شعر میں ہماری توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے اور ماضی کے جھروکوں سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے ۔یہاں یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ ہر انسان اپنے ماضی کو کیوں یاد کرتا ہے؟ آخر اس میں کون سے اعتبار کے زاویے تھے جن پر لوگ آپ کے ساتھ بھروسے کی بنیاد رکھتے تھے۔ان کی زبان و بیان میں کس قدر مماثلت تھی جو انہیں ٹس سے مس نہیں ہونے دیتی تھی ۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ موسم اور رتیں بدلتی گئیں ۔انہی گچھوں کی گرہیں لگتی گئیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھروسے کو اندر ہی اندر دیمک چاٹنے لگی ۔ اعتبار کا موسم خزاں میں تبدیل ہونے لگا ۔وقت کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات نے جنم لے لیا ۔لوگ ایک دوسرے سے الجھنے اور بکھرنے لگے۔لیکن اس کے باوجود بھی نہ اس کی جڑیں کٹیں اور نہ سُوکھیں ۔آج بھی دنیا میں گھر ، ممالک کا لین دین ، تعمیر و ترقی ، رشتے ناطے ، بھروسے کی بنیاد پر ہی رکھے جاتے ہیں ۔لیکن بغاوت کے جراثیم کسی وقت بھی حملہ کر کے فطرت میں بگاڑ پیدا کرکے اسے آلودہ بنا سکتے ہیں ۔جو لوگ اپنے آپ کو جھوٹ کے پَر لگاتے ہیں ان کے پَر ہوا کے تیز جھونکوں سے بہت جلد ٹوٹ جاتے ہیں ۔
اس سلسلے میں شارق کیفی کا ایک شعر پڑھیں ۔
جھوٹ پر اس کے بھروسہ کر لیا
دھوپ اتنی تھی کہ سایہ کر لیا

زندگی میں کبھی ایسا وقت بھی آ جاتا ہے کہ انسان جھوٹ کو سچ سمجھ کر اس پر بھروسا کرتا ہے ۔اس کی آب و ہوا قلب و ذہن پر ایسے خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے کہ انسان اس فضا میں سانس بھی لیتا ہے ۔اور روز مرہ زندگی کے مشاغل بھی ترتیب دیتا ہے جو اسے جھوٹ کی دھوپ کا سایہ فراہم کرنے لگتی ہے ۔لیکن اگر بھروسے  کے حقیقی معنوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بھروسا زندگی کا سب سے خوبصورت اور قیمتی زیور ہے جس کی چمک کبھی ماند نہیں پڑتی ۔اس کی شروعات اپنی ذات سے ہی کرنی پڑتی ہے تاکہ دوسرے آپ کی زندگی کی حقیقت کو سمجھ پائیں کیونکہ سچ اور کھوٹ الگ الگ باٹ ہیں البتہ پلڑا بھاری سچ کا ہی ہوتا ہے ۔

بھروسا انسان کی سرشت کی پہچان کی واحد کسوٹی ہے اور اس کی قدر و قیمت مرجان جیسی ہوتی ہے ۔
یہ دراصل آفاقی صداقت ہے جس کے داخلی دروازے کبھی بند نہیں ہوتے ۔
اور جب کسی چیز کا دروازہ بند نہ ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ جب چاہیں اندر باہر آ جا سکتے ہیں ۔ یعنی آپ کو اعتماد کا ووٹ مل جاتا ہے۔ آپ کے لیے راستے کا چناؤ آسان ہو جاتا ہے نہ ٹھوکر کا ڈر اور نہ ہی دہشت کی آہٹ ۔بلکہ یہ سکون قلب کا بہترین ٹانک ہے جس سے سانسوں کی روانی بہتر رہتی ہے ۔

لیکن اس میں ایک بات توجہ خیز معاملہ ہے کہ اسے اپنی ہی ذات و عرفان میں تلاش کرنا پڑتا ہے ۔کیونکہ یہ ہمارے باطن میں چھپا موتی ہوتا ہے۔ لیکن ہماری آنکھیں اسے دیکھ نہیں پاتیں ،شاید مصنوعی چیزوں کی کشش اصل حقائق کو دیکھ نہیں پاتی ۔
یہ ایک فطری الجھن ہے جس کے پیچھے انسان بھاگ رہا ہے ۔شاید کبھی یہ راستہ انسان کو اجنبی سا معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کی قیمت ایمانداری سے چکانی پڑتی ہے اور اکثر لوگ تنگ نظری اور تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

اگر اس چیز کا فطری اور بے باکی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشکل وقت میں انسان کا سب سے پہلے ہمدرد بنتا ہے ۔ زندگی کی ہر مشکل میں یہ سب سے پہلے کھڑا ہوتا ہے ۔ اس کی پکار میں طاقت کا اتنا راز ہے کہ یہ انسان کو کبھی تنہا نہیں ہونے دیتا ۔
اس کا احساس دوسرے کی روح کو تازہ ہوا کے جھونکے جیسا معلوم ہوتا ہے جو زندگی میں بہار لے کر آتا ہے ۔ اس کی خوشبو دور فضاؤں میں زندگی کا تصور لے کر بکھرتی ہے اور دوسروں کے نتھنوں کو اپنی خوشبو کا احساس دلاتی ہے ۔

خاں آرزو سراج الدین علی کا شعر ہے ۔
جان تجھ پر کچھ اعتماد نہیں
زندگانی کا کیا بھروسا ہے

اگر زندگی کے فطری تقاضوں کو پرکھا جائے ۔تو اس کے اعتماد کی شہ رگ کٹی نظر آتی ہے ۔اور جب کسی شئے کی شہ رگ ہی کٹ جائے تو وہاں زندگی کی امید باقی نہیں رہتی ۔لیکن جب تک زندگی کی امید باقی رہتی ہے اس وقت تک انسان کی زندگی میں پھول اور کلیاں دل کو مسکاتی ہیں۔ ویسے یہ بھروسا ہمارے اعمال و کردار کو پختہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ بھروسہ اپنی ہیت و حرکت میں ایسا کمال درجہ رکھتا ہے۔

کبھی یہ انسان کو اپنا اور کبھی غیر کر دیتا ہے۔
عموماًہماری زندگی میں اندھیرا اس وقت شروع ہوتا ہے۔ جب دوسرے اپنی ذات سے بدظن ہو جائیں ، تو پھر یقیناً ہوا کا رخ بدل جاتا ہے ۔ لیکن ہواؤں کا رخ تبدیل کرنے کے لئے ایک مضبوط دیوار کی ضرورت ہوتی ہے اور اس دیوار کا نام اعتماد ہے۔ جس کو کھڑا کرنے کے لئے محنت اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن جب وہ اعتماد کی دیوار بن جاتی ہے تو اس پر خواہ آندھیاں چلیں یا طوفان آئیں پھر وہ دیوار کبھی بھی مسمار نہیں ہوتی ۔

یقین کیجئے ہماری دوستی رشتے ناطے سب بھروسے کی شہ رگ پر آکر ملتے ہیں۔ غوروخوض کیجیے بھروسے کی عمارت اپنے ہی ہاتھوں سے تعمیر کرنا پڑتی ہے۔
اگر خدانخواستہ اپنے ہاتھ آلودہ ہو جائیں تو انہیں دھونے کے لئے بیگانے کی مدد پڑ سکتی ہے ۔ اس بات کا خمیازہ بھگتنے سے بہتر ہے کہ انسان اپنی ذات و عرفان کی خود ہی تعمیر کر لے کیونکہ بھروسا ہمارے اعتماد کی شہ رگ ہوتا ہے ۔
آخر میں احمد فراز کا یہ شعر ضرور پڑھیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دل کو تری چاہت پہ بھروسا بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply