سندھ میں حالیہ کشیدگی کا پس منظر۔۔محمد احمد

کچھ روز پہلے حیدر آباد میں ہوٹل پر ایک تنازع میں بلال نامی شخص قتل ہوا، خبروں کے مطابق تنازع بل کی ادائیگی نہ کرنے پر ہوا ہے. جس کو ناعاقبت اندیش اور سندھ دشمن لوگوں نے لسانی رنگ دینے کی کوشش کی ،ایک ذاتی جھگڑے کو قبائلی جنگ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی،اس بنیاد پر سندھی پختون آپس میں لڑنے لگے، سندھ میں پختونوں کے کاروبار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔

نوجوان قتل ہوا، بہت قابل مذمت عمل ہے، کیوں ہوا، وجہ کیا تھی، حکومت کی ذمہ داری تھی کہ تحقیقات کرتی، جنہوں نے قتل کیا، ان کو گرفتار کرتی، جن سندھیوں نے فساد کیا ان سے سختی سے نمٹتے، لیکن حکومت اس پورے معاملے میں فسادیوں کی مددگار رہی، کہیں کوئی قانون حرکت میں نہیں آیا، گرفتاریاں عمل میں نہیں آئیں،جلتی پر تیل کا کام سوشل میڈیا پر بیٹھے طرفین سے شیطانی ٹولے  نے کیا، جو لسانی اور عصبیت کے بدبودار نعرے کی بنیاد پر ایک دوسرے کو پکارتے رہے، جو کچھ ہوا ہے، اس شیطانی ٹولے کی وجہ سے ہوا ہے۔
کچھ شرپسندوں نے رواداری اور محبت کی دھرتی سندھ کو نفرت کی آماجگاہ بنانے کی کوشش کی، جس کی سندھ بھر سے مذمت ہوئی، ہمارے کچھ لوگ عملاً بھی ان لوگوں کے خلاف کھڑے ہوئے کہ اگر کسی نے پختونوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو ہم سختی سے پیش آئیں گے، سرکردہ قوم پرست رہنماؤں، سندھی صحافیوں نے باوجود اس کے کہ وہ سندھ میں پختونوں کے کاروبار کے حق میں نہیں، اگرچہ ان کا یہ موقف غلط اور غیر قانونی ہے، لیکن پھر بھی انہوں نے اس عمل کی مذمت کی اور لوگوں کو امن وامان اور بھائی چارے کے ساتھ رہنے کی تلقین کی۔

اس پورے عمل میں سب سے زیادہ افسوس ناک اور قابل مذمت رویہ حکومت سندھ اور پیپلز پارٹی کا ہے، جو مکمل خاموش تماشائی بنے رہے، اپنی کوئی ذمہ داری پوری نہیں کی۔
یہ کچھ حقائق تھے، لیکن دور بیٹھے لوگوں نے بھی بغیر کسی تفتیش اور معلومات کے ہوا میں  تِیر چلانے شروع کیے اور اس معاملے کو طول دینے کی کوشش کی،اللہ تعالیٰ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں ہر طرح کی عصبیت اور لسانیت سے بچائے، آمین

مولانا راشد محمود سومرو کا بیان اور ہنگامہ:
سندھ کی حالیہ کشیدگی پر مولانا راشد محمود سومرو  نے بیان کیا دیا،ہر بندہ ان کے پیچھے پڑگیا،ان کی عزت پر حملے کیے گئے، جملے کسے گئے، کچھ جاہلوں نے ان کے شہید والد کو بھی معاف نہیں کیا.ہم نے دس منٹ کی پوری ویڈیو سنی،جس میں انہوں نے سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری بیان دیا، لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے سے روکا،اپنے کارکنان کو آگ بجھانے کا حکم دیا، بار بار پُر امن رہنے کی اپیل کی، کسی طرح بھی ہونے والے فسادات کی حمایت نہیں کی۔
آپ کی مرضی آپ ان کے موقف سے اتفاق کریں یا نہ کریں، لیکن ان پر اپنی طرف سے تہمت اور بہتان تو مت گھڑیں، ان کے بیان کی اپنی طرف سے من چاہی تشریح مت کیجئے۔
اب تو مولانا سومرو صاحب نے اپنے بیان کی تفصیلی وضاحت پیش بھی کردی ہے، لیکن میں نہ مانوں کی گردان کرنے  والوں کو کون سمجھائے گا،کچھ گذارشات ان دوستوں کے لیے ہیں، جو سوجھ بوجھ اور ٹھنڈا سینہ رکھتے ہیں،وہ دوبارہ اگر اپنے موقف کا جائزہ لیں،انصاف پر مبنی موقف اختیار کریں، کسی پر اس طرح لٹھ لے کر کھڑے ہوجانا، حدود سے تجاوز ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

1.مولانا راشد محمود سومرو کی جس بات کو لے کر ہمارے دوست اچھل رہے ہیں کہ انہوں نے غیر قانونی مقیم پناہ گیروں کے خلاف بات کیوں کی ہے، راشد محمود سومرو پر اعتراض سے پہلے ملکی قانون میں ترمیم کریں، جس میں درج ہے کہ کسی غیر ملکی کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں ٹھہرنے کی اجازت نہیں۔
2.راشد محمود سومرو نے قوم پرست رہنماؤں سے بات کیوں کی، ارے بھائیو! قوم پرست سندھ میں ایک حقیقت ہیں، اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، دوسری بات انہی کے لوگ ان فسادات میں کار فرما تھے، اب قوم پرستوں سے بات نہ کرتے تو کس سے کرتے؟
3.اگر قتل کی تحقیقات کا مطالبہ جرم ہے تو بتادیں، باقی مولانا راشد محمود سومرو کو شہید کہنے اور مظلوم کا فیصلہ کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے تھی، جب تلک واضح عدالتی فیصلہ  نہ ہوجائے۔
4.دانشوران ملت کہتے ہیں کہ راشد محمود سومرو کی گفتگو میں سندھی اور سندھ کا ذکر کثرت ہے، لہذا یہ قوم پرستی ہے۔عجیب بات ہے یارو! فسادات سندھ میں ہورہے ہیں، کاروبار کو نقصان پہنچانے میں ملوث سندھی ہیں تو نام بھی ان کا لے کر مخاطب کیا جائے گا کہ رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کریں یا پھر نام پنجاب اور پنجابیوں کا لیا جاتا؟
راشد محمود سومرو نے اپنی قوم سے فسادات کی روک تھام کا بھرپور مطالبہ اور پُر امن رہنے کی بھی تلقین  کی ہے۔
ان کے بیان کو لے کر جس طرح طوفان بدتمیزی بپا کیا گیا، جن جن لوگوں نے لکھا ہے کہ راشد محمود سومرو صاحب نے قوم پرستی اور لسانیت کی بات کی ہے، ان کی خدمت عالیہ میں عاجزانہ التماس ہے کہ آپ دلیل سے ہمیں سمجھا دیں،تاکہ ہم بھی مذمت کرسکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply