قائد سے ایک سوال۔۔ڈاکٹر اے عبداللہ

یہ نظم اور اس پر ڈاکٹر اے عبداللہ کا تحریر کردہ عملی تنقید کا مضمون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کی زنجیر میں باقی ماندہ انتیس نظمیں پروئی ہوئی ہیں۔ مرحوم دوست بلراج کومل کی مرتب کردہ یہ کتاب ’’ستیہ پال آنند کی تیس نظمیں‘‘ کراچی سے BTA Publishing House, P.O.Box No. 17667, Karachi-75300 نے شائع کی ہے۔
فیصلہ اب آنے والا کل کرے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج جب ہم تمہارے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں
شرم سے آنکھیں جھکائے
مضطرب، دل سوختہ، ٹوٹے ہوئے سے
تم کھڑے ہو
اس ہزیمت اور پسپائی کے شاہد
جو تمہاری رہنمائی میں ہمیں
اک عمر تک سہنی پڑی ہے!
تم پیمبر تھے، ہمارے دیوتا تھے
ٹمٹماتے پھول
جو کل تک تمہارے لفظ تھے
اب بجھ چکے ہیں
وہ کنول سے ہاتھ
جو اُمّت کی بعیت کے امیں تھے
سُوکھ کر مرجھا گئے ہیں
اور وہ پیغام، جس کو
ہم نے دنیا بھر میں پہنچانے اپنا عہد
حتیٰ الوسع پورا کر دیا تھا
اب فقط اک کھوکھلا وعدہ سا لگتا ہے، جسے ہم
جتنی جلدی بھول جائیں، واجبی ہے!
آج بھی ہم سب تمہارے ساتھ ہیں
لیکن تھکے ہارے ہوئے، ٹوٹے ہوئے سے
کون جانے، آنے والا کل
تمہیں پہچان کر کیا فیصلہ صادر کرے گا
تم غلط تھے؟
یا تمہاری رہنمائی میں ہزیمت کی وہ بپتا
جو ہمیں اک پورے جیون کال تک سہنی پڑی ہے
نا روا تھی؟
فیصلہ اب آنے والا کل کرے گا!
(1976)ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر اے عبداللہ
قائد سے ایک سوال
یہ نظم ایک سیناریو پیش کرتی ہے۔ بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، کرسیوں پر نہیں ،نیچے زمین پر آلتی پالتی مارے ہوئے، یا تھکاوٹ سے بد حال ، نیم دراز ۔ کوئی ان کے سامنے کھڑا ہے۔۔عجیب بات یہ ہے کہ سامنے کھڑا ہوا شخص خاموش ہے، لیکن زمین پر بیٹھے ہوئے لوگ اُسے مخاطب کر رہے  ہیں۔ یہ تخاطب ایسا بھی نہیں ہے کہ بہت سے لوگ ایک ساتھ، آواز میں آواز ملا کر بول رہے ہوں یا ایک دوسرے کی بات کاٹ کر یوں بول رہے ہوں کہ ایک بے ہنگم شور پیدا ہو رہا ہو۔ نظم کا پہلا بند صرف یہی ظاہر کرتا ہے کہ ’’ہم‘‘ یعنی سامنے بیٹھے ہوئے لوگ یعنی ’’جمع متکلم‘‘ سامنے کھڑے ہوئے شخص یعنی ’’واحد غیر متکلم‘‘ کو مخاطب کر رہے ہیں۔
بیٹھے ہوئے اشخاص دل گرفتہ ہیں۔ ’’شرم سے آنکھیں جھکائے ‘‘ ہوئے ہیں۔ ’’مضطرب، دل سوختہ‘‘ ہیں۔’’ٹوٹے ہوئے سے‘‘ ہیں۔
سامنے کھڑا ہو شخص البتہ ساکت و خاموش ہے۔ یہ سطریں اس کے’’ دل سوختہ‘‘ ہونے،’’ مضطرب ‘‘ہونے یا’’ ٹوٹا ہوا‘‘ ہونے کی بابت کچھ نہیں بتاتیں۔ صرف یہ کہتی ہیں، ’’ تم کھڑے ہو!‘‘۔۔جیسے منظر نامہ برش کی تیز تیز strokes سے پینٹ کیا گیا ہو۔

تم کھڑے ہو
اس ہزیمت اور پسپائی کے شاہد
جو تمہاری رہنمائی میں ہمیں اک عمر تک سہنی پڑی ہے۔

قائد یا رہنما ’’اک عمر تک‘‘ سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کی ’’رہنمائی‘‘ کرتا رہا ہے۔ اس لیے وہی ایک شخص ہے جو عینی’’شاہد‘‘ ہے اس ہزیمت اور پسپائی کا جو اِن لوگوں کو ’’سہنی پڑی ہے‘‘۔ یہ الفاظ بہت کچھ کہتے ہیں اور بہت کچھ unsaidچھوڑ دیتے ہیں۔ ہزیمت اور پسپائی ہے، لیکن شکست خوردگی نہیں ہے۔ میدانِ جنگ سے الٹے پاؤں بھاگ آنے کی تصویر کشی ہے۔ ’’اک عمر تک سہنی پڑی ہے‘‘ دو امور کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک تو یہ کہ بیٹھے ہوئے لوگوں کی شکست خوردگی کوئی ایک دن کا قصہ نہیں ہے، عمر بھر کی داستان ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر وہ خود اپنی مرضی کے مالک ہوتے تو شاید یہ ہزیمت اور پسپائی نہ سہتے۔ ’’اک عمر‘‘ میں یہ عنصر بھی نہاں ہے کہ’’جمع متکلم‘‘ سب لوگ نوجوان نہیں ہیں، ادھیڑ عمر کے ہیں ، یا شاید بوڑھے ہیں۔ ’’سہنی پڑی ہے‘‘ میں مجبوری کا احساس نمایاں ہے۔

دوسرا بند رہنما کو ’’دیوتا‘‘ اور ’’پیمبر‘‘ کہہ کر اسے ایک مذہبی رتبہ دیتا ہے۔ رہنما سے ، جو ایک سیاسی لیڈر بھی ہو سکتا ہے اور فوجی جرنیل سے بھی ۔۔۔ان سب سے یہ رتبہ بہت بلند ہے۔ پہلی سطر میں یہ رتبہ دئیے جانے کے بعد ماضی کی داستان دہرائی جاتی ہے۔ یہ پیمبر یا دیوتا اکثر اپنے پیروکاروں کو ویاکھیان sermons دیا کرتا تھا۔ اس کے الفاظ ٹمٹماتے ہوئے پھول ہوتے تھے۔ (یہ مخلوط استعارہ اپنی مثال آپ ہے۔ پھولوں کا ٹمٹمانا، پھول اور چراغ کا ایک ہی باصری امیج میں مدغم ہونا ہے، پھر ان کو ’ الفاظ‘ سے مماثل کر کے ایک تیسری جہت پیدا کی گئی ہے!) گویا دیوتا یا پیمبر یا لیڈر یا رہنما کے الفاظ پھولوں کی طرح رنگین، معطر اور کومل تو ہوتے ہی تھے، چراغ کی طرح ٹمٹماتے ہوئے روشنی بھی دیتے تھے۔ اس شعری طرزِ تصویر کو آگے بڑھاتے ہوئے دیوتا یا رہنما کے ہاتھوں کا ذکر ہے، جو کنول کے پھول کی طرح تھے اور ’’امّت کی بعیت کے امین تھے‘‘۔ اب یہ کمل کے پھول بھی مرجھا چکے ہیں۔

یقیناً ہاتھوں پر ہی بیعت کی جاتی ہے۔ یہ ہاتھ وہ نہیں ہیں جو پہلے ہوا کرتے تھے۔ ’’سوکھ کر مرجھا گئے ہیں‘‘، اب بجھ چکے ہیں۔پیمبر یا دیوتا کے الفاظ میں ایک پیغام تھا:

اور وہ پیغام جس کو
ہم نے دنیا بھر میں پہنچانے کا اپنا عہد
حتےٰ الوسع پورا کر دیا تھا
اب فقط اک کھوکھلا وعدہ سا لگتا ہے، جسے ہم
جتنی جلدی بھول جائیں، واجبی ہے!

یہ سطریں بے حد اہم ہیں لیکن فی الحال ہم انہیں اس تجزیے کے آخری نکتے تک اُٹھا رکھتے ہیں اور براہِ راست تیسرے بند تک آ جاتے ہیں۔
تیسرا بند نظم کی نامیاتی وحدت کا ثبوت دیتے ہوئے اس داستان کو آگے بڑھاتا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے ہمیں اس بند میں پہلے بند کی باز گشت سنائی پڑتی ہے۔

آج بھی ہم سب تمہارے ساتھ ہیں
لیکن تھکے ہارے ہوئے، ٹوٹے ہوئے سے

یعنی کل سے آج تک تو قاری اس بند کی دوسری سطر سے چلتے ہوئے پہنچ گیا ہے۔ اب آگے کیا ہے، اس کا لیکھا جوکھا سامنے آتا ہے۔ متکلم لوگ یہاں بھی پیمبر سے منکر نہیں ہوتے۔ اُسے یقین دلاتے ہیں کہ ہزیمت اور پسپائی کے باوجود ان کا ایمان متزلزل نہیں ہوا، وہ آج بھی اس ایمان پر قائم ہیں لیکن ’’آج‘‘ کے بعد ایک ’’آنے والا کل‘‘ اوربھی ہے جو کسوٹی ثابت ہو گا، اس متنازعہ فیہ امر کی کہ آیا پیامبر سکہ بند طور پر غلط تھا۔ Was the prophet patently wrong? اور اس امر کی شہادت ان الفاظ میں پیش کی جاتی ہے۔

کون جانے، آنے وال کل
تمہیں پہچان کر کیا فیصلہ صادر کرے گا !

اس سطر میں دو الفاظ بہت پُر معنی ہیں۔ ’’پہچان‘‘ اور ’’فیصلہ‘‘۔ پہچان جس معنی میں یہاں استعمال کیا گیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید پیامبر در حقیقت پیامبر نہیں تھا۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وہ سچا تھا، یا کاذب۔ دوسرا لفظ ’’فیصلہ‘‘ عدلیہ کی تکنیکی زبان کے قبیل سے ہے۔ آنے والا کل ہی صحیح منصف ہے جو حتمی فیصلہ صادر کر سکتا ہے کہ پیامبر ایک بہروپیا تھا یا نہیں۔دوسرا امر جس پر آنے والا وقت فیصلہ صادر کرے گا وہ یہ ہے کہ کیا اس کی رہنمائی میں ’’ہزیمت کی وہ بپتا ؍ جو ہمیں اک پورے جیون کال تک سہنی پڑی ہے ؍ نا روا تھی‘‘ یہاں غور طلب بات ہندی الفاظ کا استعمال ہے۔ ’’بپتا‘‘ اور ’’جیون کال‘‘ اسلوبیاتی سطح پر سوائے ’’دیوتا‘‘ کے جو دوسرے بند کی پہلی سطر میں وارد ہوا ہے، اور کوئی لفظ ہندی سے نہیں لیا گیا۔ تو اب نظم کے خاتمے پر یہ دو الفاظ کیوں برتے گئے؟ جواب آسان ہے بھی اور نہیں بھی۔ آسان جواب یہ ہے کہ کہ شاعر نظم کو کسی خاص مسلک، فرقے یا مذہب سے جوڑ کر اپنے تھیسس کو واوین میں مقید نہیں رکھنا چاہتا ، circumscribeنہیں کرنا چاہتا۔ بر صغیر کے تناظر میں ہندو اور مسلم دونوں سے متعلق کرنا چاہتا ہےء اور اس سیاق و سباق میں اردو اور ہندی دونوں زبانوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔

یہ تو رہی متن، اسلوب اور استعارہ سازی کی سطحوں پر نظم کے قفل کو کھولنے کی کلید، لیکن یہ کلیدِ کل نہیں ہے۔ ہمیں یہ علم ہے کہ یہ نظم ستیہ پال آنند کی تحریر کردہ ہے اور ستیہ پال آنند صرف سطحی پیراک نہیں ہیں، گہرائیوں کے غواص ہیں۔ اگر ان کے اپنے فلسفۂ حیات سے تلاش کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ انہوں نے اپنے پہلے افسانوی مجموعے ’’جینے کے لیے‘ (مطبوعہ 1953ء)کے پیش لفظ کو اس سطر سے شروع کیا تھا۔

’’میں مارکسی نقطۂ نظر سے زندگی اور اس سے متعلقہ مسائل کو دیکھنے کا قائل ہوں ۔ زندگی کی مجموعی جد و جہد میں میَں نے ابھی تک کوئی کام نہیں کیا ، لیکن ۔۔‘‘

اور اس ’’لیکن‘‘ کے بعد اس امر کا اعادہ تھا کہ آنے والے دنوں میں اس جد و جہد میں اپنامقدور بھر حصہ ڈالنے والے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کی اس نظم سے وہ سوانحی عناصر تلاش کرنے ضروری ہیں جن کی بنا پر مارکسی نقطۂ نظر، اشتراکیت، ترقی پسند تحریک کی شکست و ریخت اور روس میں اسٹالین کی عامرانہ حکومت کا زوال، مشرقی یورپ میں کمیونزم کے نظام کا بیک وقت خاتمہ، وسط ایشیا کے ممالک کی روس سے آزادی اور غیر جانبداری یا عدم انسلاک کی تحریک کا عروج شامل ہے۔ یہ سطریں شاید اس سیاسی امرکو، جو ادبی تحریک کا محرک تھا، سمجھنے میں معاون و ممد ہوں۔

اور وہ پیغام جس کو
ہم نے دنیا بھر میں پہنچانے کا اپنا عہد
حتیٰ الوسع پورا کر دیا تھا
اب فقط اک کھوکھلا وعدہ سا لگتا ہے، جسے ہم
جتنی جلدی بھول جائیں، واجبی ہے۔

اس لیے یہ بعید از قیاس نہیں ہے کہ شاعر جوعہد حاضر میں صرف واحد متکلم نہ ہو کر اس قبیلے کا فرد ہے جو اردو ادب میں کمیونزم اور اس کی ذیلی تحریک یعنی ترقی پسندی سے بشارت پا کر منزل یعنی اشتراکیت کی طرف گامزن تھا، لیکن اس نظم کا تخاطب اس تحریک کے کسی ایک رہنما سے نہیں ہے، بلکہ اس فلسفۂ حیات سے ہے جس کی وجہ سے وہ سب جو سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، پسپائی اور ہزیمت کا شکار ہوئے۔ اشتراکی فلسۂ حیات سے روشنی پا کر اردو میں ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تو دیگر اہلِ قلم کی طرح ہی ستیہ پال آنند بھی اس کے رکن بنے، بعد میں عہدے دار بھی ہوئے۔ پنجاب سرکار کے غیض و غضب کا شکار ہوئے۔ ایک ناول ضبط کر لیا گیا اور پولیس ان کے پیچھے لگی تو کچھ عرصہ کے لیے پنجاب ہی چھوڑ گئے۔ وہی ستیہ پا ل آنند اب اس فلسفۂ حیات یعنی اشتراکیت کو کہتے ہیں، ’’آج بھی ہم سب تمہارے ساتھ ہیں، لیکن تھکے ہارے ہوئے، ٹوٹے ہوئے سے!‘‘ یہی حال کم و بیشتر ان سب اہلِ قلم کا ہے، جو آجکل بھی اس تحریک سے منسلک ہیں، لیکن ’’تھکے ہارے ہوئے، ٹوٹے ہوئے سے!‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں تک آ کر بھی ستیہ پال آنند رکتے نہیں ہیں۔ اب بھی تاریخ کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ شاید آنے والا کل یہ فیصلہ صادر کرے کہ تم یعنی اشتراکی فلسفۂ حیات درست تھا۔۔ایک نگاہ واپسیں یعنی hind sight کے طور پر مجھے یہ لکھنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ ان سطور میں جو بات بین السطور ہے اور unsaid ہے، وہ یہ ہے کہ شاید شاعر کو یہ فیصلہ سن کر خوشی ہوگی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply