آہ! قاری محمد علی مدنی ہم سے بچھڑ گئے۔۔محمداحمد

وادی مہران صدیوں سے علم وعرفان کا مرکز رہی ہے، یہاں کے علما  کرام نے جہاں دیگر علوم وفنون میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا، اسی طرح قرا ت کے فن میں سندھی علما  نے بڑی خدمات سرانجام دی ہیں. مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی رح نے فن قراءت میں “اللؤلؤ المکنون فی تحقیق مد السکون” اور “الشفاء فی مسئلۃ الرا” تحریر فرمائی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے قراءت کے استاد شیخ محمد فاضل سندھی بزرگ تھے. ماضی قریب میں قراءت کے بڑے نام مولانا قاری شیر محمد شاہ سندھی، حضرت قاری محمد، قاری عبد الکریم ڈیرو، مولانا عبد القادر لغاری گزرے ہیں، جن کی بڑی خدمات تھی.اس زمانے میں ڈاکٹر قاری عبد القیوم السندی المکی کی قراءت کے فن میں بڑی شاندار خدمات ہیں، دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں قاری کی کتب نصاب میں داخل ہیں. ان عبقری شخصیات میں قاری محمد علی مدنی کا نام بھی نمایاں تھا، جن کو آج رحمۃ اللہ علیہ لکھنا پڑھ رہا ہے، قاری صاحب سالہا سال سے علم القراءات اور علم التجويد کے شعبہ سے وابستہ رہے، قاری صاحب عاشق قرآن، فنا فی القرآن اور خادم قرآن تھے. ان کی عمر عزیز قرآن پاک پڑھنے اور پڑھانے میں صرف ہوئی.
قاری محمد علی مدنی کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے. آپ اصلا ضلع خیر پور کے تھے، پھر شکارپور میں آکر مقیم ہوئے.
ولادت: قصبہ پھلو تحصیل گمبٹ، ضلع خیرپور میں 1942 میں پیدا ہوئے،گاؤں میں ایک حافظ صاحب کے پاس قرآن مجید حفظ کیا، قاری رحیم بخش کے پاس دور کیا. مولانا عبدالعزیز فاضل دیوبند کے پاس فارسی اور مولانا عبدالغفار بھٹو کے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا. مزید علمی پیاس بجھانے قاری صاحب نے حجاز مقدس کا سفر کیا، آپ گوادر، مسقط یمن کے راستے سعودی عرب پہنچے، یہ سفر ایک مشکل اور کٹھن سفر تھا. پہلے فریضہ حج ادا کیا، پھر تعلیم کے حصول میں مصروف ہوگئے. قاری محمد عباس بخاری، شیخ حسن بن ابراہیم شاعر کے پاس طویل عرصے تک قراءت پڑھتے رہے، فن قراءت کی تمام کتب بڑی محنت اور مشقت سے ان بزرگوں سے پڑھی، شیخ حسن نے قاری صاحب کے اعزاز میں اپنے گھر میں شاندار تقریب منعقد کی. اس کے بعد قاری صاحب حرم مکی میں پڑھاتے رہے، دنیا بھر کے لوگ قاری صاحب تجوید پڑھتے رہے، پاکستان کے نامور علماء کرام شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان اور مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر بھی قاری کے شاگرد تھے. اس کے بعد رشتيداروں کے اصرار پر وطن واپس ہوئے، جامعہ اشرفیہ شکارپور میں پڑھاتے رہے،بعد ازاں اپنا ادارہ قائم فرمایا، پھر ضرورت بڑھنے پر ادارے کی توسیع کی،وسیع رقبے پر پھیلا ہوا جامعہ مدنیہ جس میں دو منزلہ شاندار عمارت اور عالیشان مسجد بھی ہے. قاری صاحب کے وطن واپس ہونے کے بعد سندھ میں قراءت کی بہاریں لوٹ آئیں، ملک بھر سے طلبا قاری صاحب کے پاس تجوید اور قراءت پڑھنے آتے تھے، آپ نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ فن قراءت کی آبیاری کی اور ہزاروں طلبا نے قاری صاحب سے کسب فیض کیا.
آپ نے فن تجوید کو عام کرنے کے لیے “اشاعت التجويد” فورم کی سرپرستی فرمائی اور اس کو پروان چڑھایا.
قاری عبدالمالک قاری امیر الدین قاری محمد عالم قاری جاوید احمد اور قاری بشیر احمد مالکی، قاری نذیر احمد مالکی آپ کے اجل تلامذہ میں سے ہیں. قاری محمد علی قراءت کے بڑے نام تھے، رہتی دنیا تک ان کی خدمات یاد رکھی جائیں گی، ائمہ حرم سمیت تمام عالم کے قراء حضرات قاری صاحب کے مداح اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے. شیخ حذیفی کا آپ سے محبت کا رشتہ تھا. روایت ہے کہ قاری صاحب جب جوانی میں قرآن پاک پڑھتے تھے تو مسحور کن آواز سن کر گلیوں ہندو رک جاتے تھے، آپ کا لہجہ نہایت شیریں اور چاشنی والا تھا. قاری صاحب متقی، بااخلاق، ملنسار اور با ذوق آدمی تھے. خوراک اور پوشاک شاہانہ رکھتے تھے، آپ جو لباس زیب فرماتے وہ عالیشان ہوتا تھا، آپ اعلی قسم کی مہنگی خوشبو استعمال فرماتے تھے. قاری صاحب جمعیت علماء اسلام سے وابستہ اور اکابرین جمعیت سے بے حد محبت رکھتے تھے. مفتی محمود اور دیگر قائدین سے آپ کے خوشگوار تعلقات رہے ہیں. آج ہم سب کے لیے دکھ کا موقع ہے کہ قاری صاحب جیسی باکمال شخصیت ہم سے رخصت ہوگئی، سندھ اور شکارپور بڑے خیر سے محروم ہوگیا، آپ ہم سے بچھڑ گئے ہیں لیکن آپ کی خدمات جلیلہ کو ہمیشہ یاد رکھا. اللہ تعالیٰ حضرت قاری صاحب کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے. آمین
#محمداحمد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply