آج جو ہم آپ قیمتیں بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور یہ قیمتیں اس خدشے پر بھی بڑھ رہی ہیں کہ حکومت کا خزانہ خالی ہے، حکومت کیساتھ ترقیاتی بجٹ موجود نہیں۔ سرکاری عمال کی تنخواہیں اور عیاشیوں کا سامان کم پڑ رہا ہے۔
حکومت یہ دلیل بھی دیتی ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ یعنی دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے۔ دراصل حکومت اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے ایسے نامعقول قسم کے دلیلیں دیتے نظر آتے ہیں۔ حقیقت کا اس کیساتھ دور کا واسطہ اور کوئی تعلق نہیں ہے۔ جبکہ سیاسی اور موروثی حکمران طبقات اور جماعتیں میدان میں موجود ہونے کیلئے اور سیاست و اقتدار میں اپنے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا راگ الاپتے رہتے ہے۔قانون اور ائین حکمرانوں کے لئے بے معنی چیز ہیں ۔ حکمران نان ایشوز کو ایشوز بناتے رہتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بے تکے بحثیں ، الزامات اور گای گلوچ ہی ان کا وطیرہ رہا ہے ۔ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ اس پر کوئی بات کرنے کا روادار نہیں ۔ مہنگائی پر با ت بھی اسو قت کرتے ہیں جب خود ان کو ضرورت ہوتی ہے ۔دراصل مہنگائی کم کرنا ان حکمرانوں کے جذباتی تقریروں کا حصہ ہوتا ہے لیکن جب اقتدار میں آتے ہیں تو مہنگائی کا پچھلا اگلا ریکارڈ توڑ دیتے ہیں۔ اب دو ہی باتیں باقی رہتی ہیں یا تو یہ حکمران استحصالی طبقات اور نااہل ہے اور یا سرے بے ایمان، خود غرض اور اولین درجے پر مفاد پرست ہیں۔ اول الذکر میں کسی کو کسی قسم کا کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہونا چاہئے۔ یہ نا اہل سے بھی دو درجے اوپر ہے اور موخر الذکر کے حوالے سے عرض ہے کہ جب مخالف پارٹی کو اقتدار ملتی ہے تو ان سے یہ برداشت نہیں ہوتا اور فوج کو اقتدار کیلئے بلانے سے نہیں چوکتے، تاکہ ان کو دوبارہ کسی نہ کسی شکل میں اقتدار حوالہ ہوسکے۔ ان کو عوامی خدمت، ملکی ترقی سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی ملک کی حقیقی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ان راس اتی ہے ۔ ان کو قانون کی کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی آئینی اصولوں کی پرواہ رکھتے ہیں۔ ان کو عدالت سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی دیگر اداروں کی کوئی پرواہ رکھتے ہیں۔ بلکے یہ اداروں کو اپنے مفادات کیلئے قربان کرتے رہےہیں۔ الغرض ان سیاستدانوں کو اپنے مفادات میں دلچسپی ہوتی ہے، ناں کہ قومی سلامتی اور قومی مفادات ۔ فوج آئے، ٹیکنو کریٹ حکومت آئے، صدارتی نظام لے کے آئے، ان کے محلات، کاروباروں اور کاروبار سیاست پر آنچ نہیں آئے، بس یہی وہ چاہتے ہیں۔ عوام کے غم میں سیاستدان چیختے ہیں، چلاتے ہیں، واویلا کرتے ہیں، روتے روتے ہلکان ہوجاتے ہیں، فریاد کرتے ہیں اور عوام کے غم میں نڈھال نظر آتے ہیں، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں، میں اس سے بہتر ہو،وہ اس سے بہتر ہے، اس نے وہ کیا میں نے یہ کیا۔ بس ٹرک کی بتی کے پیچھے چلانا چاہتے ہیں عوام کو، لیکن خدا گواہ ہے ان کو عوام، قانون و ائین اور ملک میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کو مہنگائی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کو فرق نہیں پڑتا مہنگائی آئے یا مہنگائی جائے ۔ ان کو ملکی ترقی سے کوئی دور کا واسطہ نہیں۔ اگر ان کو خوف خدا ہوتا تو مملکت کے عوام پر رحم کرتے ہوئے ملک کو مزید ابتری، بے چینی، بے یقینی اور ہوش ربا مہنگائی میں نہیں دکھیلتے۔ اداروں کو یرغمال نہیں بناتے۔ عدالت اور قانون کی حکمرانی پر یقین کرتے۔ ملکی مفاد اور ملکی تحفظ کو یقینی بناتے۔ عوام کو رعایا نہیں بلکے اپنے آل اولاد سے زیادہ عزت دیتے ۔یقین مانیئے ان حکمرانوں سے عوام کا کچھ بھلا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ افسر شاہی، سرکار شاہی اور حکومتی اشرافیہ کا مستقبل تابناک اور محفوظ ہے۔ ان کے بچوں کا مستقبل پر آسائش ہے۔ حکومت کیونکر عوام کا غم کھائے۔ بلاوجہ ذہنی دباؤ لیا جائے۔ پاکستان ایک ٹھیلا نما ہے جو آیا کھایا، پیا اور فروخت کرکے چلا گیا۔ یہ حکمران طبقات عام عوام کو کل کسی دہشت گردی اور جہاد کیلئے کارآمد بناسکتے ہیں۔ اسلئے کہ جو عام ہے ، ہم عوام ہے ۔ ان عوام کو ڈالروں کے عوض بیچا جاسکتا ہے۔ عوامی اداروں کو گروی رکھا جاسکتا ہے۔ قدرتی وسیلوں کو بیچ سکتے ہیں۔ کچھ بھی کرسکتے ہے یہ حکمران اور بیوروکریسی ۔ ان سے خیر کی کوئی توقع اورامید نہیں رکھی جا سکتی۔
اگر کوئی درد مند اور احساس کرنے والا حکمران ہوتا تو حکومت کی جاری ترقیاتی پراجیکٹ کے علاوہ نئے جتنے بھی پراجیکٹس ہے اس کو فی الفور بند کر دیا جاتا۔ لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں اور حکومت بیلین ڈالرز منصوبے اور پراجیکٹ بنا رہے ہیں۔ یہ ظلم ہے زیادتی ہے، بے انصافی ہے۔جو خوراک اور پیداوار زمینوں میں کسان پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور اس پیدوار سے جو فائدہ نکلتا ہے کسان اور مزدور اسکو اپنی خوراک اور روٹی پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے لئے پیداوار میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے۔ پیداوار پر جو خرچ کیا جاتا ہیں اس کا زیادہ تر حصہ مزدوری، ترسیل اور پروسیسنگ، کھانے اور اشتہارات وغیرہ پر خرچ ہوجاتے ہیں۔ پیداوار پر لاگت کے بعد کسان اور مزدور کو اصل میں بہت ہی کم معاوضہ ملتا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ ایسا معاوضہ جس سے وہی پیداوار دوبارہ نہیں خریدی جاسکتی ہے۔
تصویر کے دوسری طرف بیوروکریسی کو جو مفادات، تنخواہیں اور سہولیات وغیرہ حکومت پاکستان دیتی ہے۔ وہی سہولیات اور عیاشیاں پاکستان کے بجٹ کا آدھا حصہ بنتا ہے۔ لوگ رل رہے ہیں، مہنگائی سے ہلکان ہورہے ہیں اور صاحبان بیوروکریسی کی عیاشی کی موجھیں لگی ہوئی ہے۔ کوئی کام کرتا ہے، نہیں کرتا ہے یہ الگ باتیں ہے۔ اب لوگوں کو خوراک، دوائیوں کی ضرورت ہے۔ روزگار تو پہلے ہی نہیں تھا لیکن اب روزگار عنقاء ہوگیا ہے۔ عوام کی قوت خرید جواب دے گئی ہیں۔ اسطرح کے حالات میں انقلاب کے آثار نظر آرہے ہیں۔ انقلاب کے چنگاری سلگ رہی ہیں۔ جو کہ عوامی انقلاب سمندر کے مانند سارے نظام کو تلپٹ کر دے گی۔ ان حالات میں بچے بڑے، ضعیف، عورتیں دہائیاں دے رہے ہیں۔ لیکن بد دعاؤں سے سلسلہ آگے بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ہوش مند اور دانشور، خدا ترس انسانوں کو بھی اپنے حکمت عملی تبدیل کرنی ہوگی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں