بدن (56) ۔ ورزش/وہاراامباکر

جیریمی مورس برطانوی میڈیکل ریسرچ کونسل میں ڈاکٹر تھے۔ 1940 کی دہائی کے آخر میں وہ اس بات پر قائل تھے کہ ہارٹ اٹیک اور دل کی بیماریوں کا تعلق اس سے ہے کہ ہم جسمانی طور پر کتنے چست رہتے ہیں۔ انہیں اس کے لئے ایک دلچسپ تجربہ گاہ مل گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لندن میں ڈبل ڈیکر بسوں میں دو ملازمین کام کرتے تھے۔ ڈرائیور اور کنڈکٹر۔ ڈرائیور کا تمام کام اپنی جگہ پر بیٹھ کر ہوتا تھا اور کنڈکٹر کو چلتے پھرتے رہنا تھا اور سیڑھیاں بھی چڑھنا تھیں۔ مورس نے دو سال تک پیتیس ہزار ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں کو سٹڈی کیا۔ انہوں نے معلوم کیا کہ ڈرائیوروں کو ہارٹ اٹیک ہونے کا امکان دگنا ہے۔ یہ پہلی بار تھی جب کسی نے ورزش اور صحت کے درمیان براہِ راست اور قابلِ پیمائش تعلق نکالا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تب سے ایک کے بعد ایک تحقیت ورزش کے غیرمعمولی فوائد کی تصدیق کرتی رہی ہے۔ باقاعدگی سے سیر کرنے سے ہارٹ اٹیک اور سٹروک کا امکان 31 فیصد کم ہو جاتا ہے۔ چالیس سال کی عمر کے بعد صرف گیارہ منٹ روزانہ کی ہلکی ورزش سے متوقع زندگی میں 1.8 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ جبکہ ایک گھنٹے سے زائد ایکٹو رہنے سے 4.2 سال کا۔
ورزش نہ صرف ہڈیاں مضبوط کرتی ہے بلکہ امیون سسٹم کو بہتر بناتی ہے۔ ہارمونز کا توازن درست کرتی ہے۔ ذیابیطس کے علاوہ کئی اقسام کے کینسر (چھاتی اور بڑی آنت سمیت) کے امکان میں کمی لاتی ہے۔ موڈ خوشگوار بناتی ہے۔ جسم کا شاید ہی کوئی عضو یا نظام ایسا ہو جو ورزش سے مستفید نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ایسی دوا ایجاد کر لے جو وہ کام کرتی ہے جو معمول کی ورزش سے حاصل ہوتا ہے تو یہ تاریخ کی سب سے کامیاب دوا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں کتنی ورزش کرنی چاہیے؟ یہ آسان سوال نہیں۔ سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول کی گائیڈلائن ہفتے میں اڑھائی گھنٹے ورزش کرنے کی ہے، لیکن یہ کوئی خاص مقدار نہیں۔
ایک بات کہی جا سکتی ہے کہ ہم میں سے اکثر اتنی نہیں کرتے جتنی کرنی چاہیے۔ صرف بیس فیصد ایسے ہیں جو باقاعدگی سے کوئی متعدل ایکٹویٹی کرتے ہیں۔ زیادہ تر کچھ بھی نہیں کرتے۔ آج کی دنیا میں جو لوگ قدیم طرزِ زندگی بسر کرتے ہیں، ان کا اوسطاً روزانہ کا چلنا انیس میل کا ہے۔ جبکہ ایک اوسط امریکی کا روزانہ کا چلنا آدھا میل سے کم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورزش ضروری ہے اور آرام بھی۔ دورانِ ورزش کھانا ہضم نہیں ہوتا کیونکہ جسم خون کو نظامِ انہضام کے بجائے پٹھوں کی طرف زیادہ لے جاتا ہے۔
تاریخِ انسانی میں خوراک کی فراوانی آج کی طرح نہیں رہی۔ ہمارے اجداد کو اچھے اور برے وقتوں سے سامنا کرنا تھا۔ اور جسم کے ڈیزائن میں اس کا طریقہ چربی کو ایندھن کے ذخیرے کے طور پر استعمال کرنے کا ہے۔ قدرتی طور پر، ہم اس سے زیادہ کھاتے ہیں جتنی ضرورت ہو اور یہ اضافی خوراک سٹور ہو جاتی ہے تا کہ بوقتِ ضرورت فاقے کے وقتوں میں کام آ سکے۔ اور ہمارا ایسا کرنا اب ہمیں مار رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق، اس وقت امریکہ میں 80 فیصد لوگ زیادہ وزن کے ہیں جبکہ 35 فیصد بیماری کی حد سے زیادہ موٹے ہیں۔ اور یہ تعداد صرف چالیس سال میں دگنی ہوئی ہے۔ 1960 میں اوسط خاتون کا وزن 140 پاونڈ تھا جو بڑھ کر 166 پاونڈ ہو چکا ہے جبکہ اوسط مرد کا وزن 166 پاونڈ سے بڑھ کر 196 پاونڈ تک پہنچ گیا ہے۔ اور یہ اضافہ جاری ہے۔ توقع ہے کہ اگلی نسل وہ پہلی نسل ہو گی جب اوسط متوقع عمر گرنا شروع ہو جائے گی اور اس کی وجہ موٹاپا ہو گی۔
اور یہ ایک آدھ ملک کا نہیں، عالمی مسئلہ ہے۔ موٹاپے کی بیماری کے شکار لوگ اب عالمی آبادی کا تیرہ فیصد ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزن کم کرنا ٓاسان نہیں۔ لیکن ایک کام جو ہم سب کو ضرور بالضرور کرنا چاہیے، وہ حرکت میں رہنا ہے۔ اگر آپ دن میں چھ گھنٹے بیٹھ کر گزارتے ہیں تو اپنی موت کے خطرے میں بیس فیصد اضافہ کر رہے ہیں اور یہ خواتین کے لئے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ (خواتین کے لئے کیوں؟ اس سوال کا جواب ہمارے پاس نہیں)۔ ذیابیطس اور جان لیوا ہارٹ اٹیک کا امکان دگنا اور دل کی کسی بھی بیماری کا ڈھائی گنا ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ورزش زندگی اور صحت کو بہتر بناتی ہے۔ کتنا؟ یہ بتانا آسان نہیں۔ لیکن ایک بات ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ چند دہائیوں بعد ہم میں سے زیادہ تر اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند کر چکے ہوں گے اور ہلنے جلنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
تو جب تک دم میں دم ہے اور ہم ایسا کر سکتے ہیں تو کیوں نہ اس وقت سے پہلے تک متحرک زندگی گزاریں؟ اس سے ملنے والے صحت اور خوشی کے فوائد تو اس کے علاوہ ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply