مصنوعی ذہانت کے عہد میں بنی نوع انسان/ میکس ٹیگ مارک(2،آخری حصّہ)- ترجمہ: عابد سیال

لیکن اگر یہ مطمحِ نظر حاصل ہو جائے تو کیا ہوگا؟

آغاز کرنے والوں کے لیے، AGI  کی تخلیق کا نتیجہ وہ ہو سکتا ہے جسے مصنوعی ذہانت کے محققین انٹیلی جنس دھماکے کا نام دیتے ہیں۔ انٹیلی جنس دھماکہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے ایک ذہین مشین ‘سپر انٹیلی جنس’ حاصل کر لیتی ہے، یعنی ذہانت کی ایسی سطح جو انسانی صلاحیت سے کہیں زیادہ ہے۔

یہ مشین سپر انٹیلی جنس کی صلاحیت، تیزرفتاری سے سیکھنے اور خود کو پہلے سے بہتر کرنے کی صلاحیت کی بنا پر حاصل کرے گی کیونکہ AGI کی بنا پر یہ مشین خود سے بہتر مشین ڈیزائن کرنے کی صلاحیت کی حامل ہو گی اور وہ مشین پھر خود سے بہتر مشین ڈیزائن کرے گی اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ اس سے وہ انٹیلی جنس دھماکہ پیدا ہو سکتا ہے جس سے مشین انسانی ذہانت سے بڑھ کر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہو سکتی ہے۔  مزید یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سپر انٹیلیجنٹ مشینیں دنیا پر قبضہ کر سکتی ہیں اور ہمیں نقصان پہنچا سکتی ہیں، چاہے ہمارے ارادے کتنے ہی اچھے ہوں۔

آئیے فرض کرتے ہیں، مثال کے طور پر، انسان ایک سپر انٹیلی جنس کی پروگرامنگ کرتے ہیں جس کا تعلق بنی نوع انسان کی فلاح سے ہے۔ سپر انٹیلی جنس کے نقطہ نظر سے، یہ شاید ان کی ذہانت کے درجے سے بہت نیچے بچوں جیسے ایک گروپ کے مترادف ہوگا جو اپنے فائدے کے لیے ان کو غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ کافی امکان ہے کہ ان کو یہ ایک افسردہ کن اور ناکارہ صورتحال لگے گی اور وہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ اور وہ نااہل، پریشان کن انسانی رکاوٹوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ ان کو کنٹرول کریں، یا اس سے بہتر ہے کہ انہیں تباہ کر دیں۔ لیکن شاید ہم اپنے آپ سے آگے بڑھ رہے ہیں؛ آئیے کچھ دوسرے کم خوفناک مناظر دیکھتے ہیں جن کا ہونا ممکن ہے۔

مصنوعی ذہانت کی آمد کے بعد کے مختلف منظرنامے ممکن ہیں جو سہولت بخشی سے خوفناکی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ چاہے ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں، AGI  کے حصول کی دوڑ جاری ہے۔ لیکن ہم اسے حاصل کرنے کے بعد کیسے حالات دیکھنا چاہیں گے؟

مثال کے طور پر، کیا مصنوعی ذہانت میں فکرمندی بھی شامل ہونی چاہیے؟ کیا انسانوں یا مشینوں کو کنٹرول میں ہونا چاہیے؟ ہمیں بنیادی سوالات کے جوابات دینے ہوں گے، کیونکہ ہم مصنوعی ذہانت کے ایسے مستقبل میں نہیں جانا چاہتے جس کے لیے ہم تیار نہیں ہیں، خاص طور پر ایک ایسا جو ہمارے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔اس کے بعد کے مختلف منظرنامے ہیں۔ یہ تنوع مصنوعی ذہانت کی مشینوں اور انسانوں کے پُرامن طور پر ساتھ رہنے سے شروع ہوتا ہے اور ان مشینوں کے مکمل قبضے تک جاتا ہے جس کے بعد کا راستہ انسانوں کی معدومیت یا انھیں قید کر دیے جانے کے ممکنات کی طرف جاتا ہے۔

پہلا ممکنہ منظر نامہ ایک مہربان آمر کا ہے۔ ایک ہی مہربان سپر انٹیلیجنٹ مشین دنیا پر حکمرانی کرے گی، انسانی خوشی کو زیادہ سے زیادہ درجے پر لے جائے گی۔ غربت، بیماری اور دیگر کم ٹیکنالوجی کی پریشانیوں کا خاتمہ ہو جائے گا، اور انسان عیش و آرام کی زندگی گزارنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ اسی انداز میں ایک محافظ دیوتا پر مشتمل ایک منظر نامہ ہے، جہاں انسان اب بھی اپنی قسمت کے ذمہ دار ہوں گے، لیکن ایک مصنوعی ذہانت کی مشین ہماری حفاظت اور دیکھ بھال کرے گی۔

ایک اور منظر نامہ ایک آزاد تصوراتی شہر کا ہے۔ انسان اور مشینیں پرامن طور پر ایک ساتھ رہیں گے جن کے رہائشی علاقے واضح طور پر الگ الگ کیے گئے ہوں گے۔ زمین کو تین زونوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ کوئی زون حیاتیاتی زندگی سے خالی ہوگا لیکن مصنوعی ذہانت کی مشینوں سے بھرا ہوا ہوگا۔ دوسرا صرف انسانوں پر مشتمل ہوگا۔ ایک حتمی مخلوط زون ہوگا، جہاں انسان اپنے جسم کو مشینوں سے اپ گریڈ کرکے ‘سائی بورگ’ بن سکیں گے۔ یہ منظر تھوڑا سا ماورائی ہے لیکن کوئی شے ایسی نہیں جو مصنوعی ذہانت کی ان مشینوں کو انسانی خواہشات کو نظرانداز کرنے سے روک سکے۔ پھر فاتحین کا منظر نامہ ہے، جسے ہم نے آخری ثانیے میں دیکھا۔ مصنوعی ذہانت کی یہ مشینیں بنی نوع انسان کو تباہ کرتے ہوئے دیکھی جائیں گی، کیونکہ ان کی طرف سے ہم انسانوں کو ایک خطرے، پریشانی یا محض وسائل کے ضیاع کے طور پر دیکھا جائے گا۔

آخر میں، چڑیا گھر کا منظر نامہ ہے۔ یہاں چند انسانوں کو مصنوعی ذہانت کی مشینیں اپنی تفریح ​​کے لیے چڑیا گھر میں چھوڑ دیں گی، جیسا کہ ہم معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار پانڈا کو چڑیا گھر میں رکھتے ہیں۔

اب جب کہ ہم نے ممکنہ مصنوعی ذہانت سے متعلقہ مستقبل کا جائزہ لیا ہے، آئیے مصنوعی ذہانت سے متعلق موجودہ تحقیق کی راہ میں حائل دو سب سے بڑی رکاوٹوں کو دیکھتے ہیں، یعنی ایسی مشینیں جو خاص مقصد کے لیے بنائی جائیں اور ایسی مشینیں جن کے اندر شعور بھی موجود ہو۔ فطرت، جو انسانوں میں موجود ہے، اس کے مقاصد ہیں، اور محققین مصنوعی ذہانت کے لیے اس طرز عمل کی تقلید کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم انسانوں کی زندگی کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہے۔ اس کے بارے میں سوچیں: ایک کپ میں کامیابی کے ساتھ کافی ڈالنے جیسی چھوٹی چیز میں بھی ایک مقصد کو پورا کرنا شامل ہے۔ لیکن اصل میں، فطرت اسی طرح کام کرتی ہے۔ وضاحت سے بات کریں تو اس کا ایک حتمی مقصد ہے: تباہی۔ تکنیکی طور پر، یہ زیادہ سے زیادہ ایک خلل (entropy) کے طور پر جانا جاتا ہے، جس کا مطلب عام آدمی کی اصطلاح میں پریشانی اور خرابی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب یہ خلل زیادہ ہوتا ہے تو فطرت “مطمئن” ہوتی ہے۔ آئیے کافی کے کپ کی مثال پر واپس آتے ہیں۔ تھوڑا سا دودھ ڈالیں، پھر تھوڑی دیر انتظار کریں۔ کیا دیکھتے ہیں؟ قدرت کی مہربانی سے اب آپ کے پاس ہلکا گرم، ہلکا بھورا، یکساں حل شدہ مرکب ہے۔ ابتدائی صورت حال کے مقابلے میں، جہاں مختلف درجہ حرارت کے دو مائع واضح طور پر الگ تھے، ذرات کی یہ نئی ترتیب کم منظم ہونے اور بڑھتے ہوئے خلل کی نشاندہی کرتی ہے۔ بڑے پیمانے پر، کائنات بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ ذرات کے ترتیبیں خلل کے بڑھتے ہوئے درجوں کی طرف پیش قدمی کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں ستارے ٹوٹ جاتے ہیں اور کائنات کی توسیع ہوتی ہے۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مقاصد اور اہداف کتنے اہم ہیں، اور فی الحال، مصنوعی ذہانت کے سائنسدان اس مسئلے سے دوچار ہیں کہ مصنوعی ذہانت کی مشینوں کو کن اہداف کو حاصل کرنا چاہیے۔ بہرحال، آج کی مشینوں کے بھی مقاصد ہیں۔ یا اس کے بجائے، وہ مقصد پر مبنی رویے ظاہر کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر حرارت کی تلاش کرتا ہوا میزائل کسی جہاز کے پیچھے لگا ہوا ہے، تو یہ مقصد پر مبنی طرز عمل کو ظاہر کر رہا ہے۔لیکن کیا ذہانت پر مبنی مشینوں کا بھی کوئی مقصد ہوتا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو، ان مقاصد کی وضاحت کون کرے؟ مثال کے طور پر، جب معیشت اور معاشرے کے مستقبل کی بات کی جائے تو مارکس اور ہائیک میں سے ہر ایک کا ایک الگ نظریہ تھا، اس لیے وہ بلاشبہ مصنوعی ذہانت کے لیے بہت مختلف اہداف طے کریں گے۔

بلاشبہ، ہم کسی آسان چیز سے شروع کر سکتے ہیں، جیسا کہ سنہری اصول جو ہمیں دوسروں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرنے کو کہتا ہے جیسا کہ ہم خود کرتے ہیں۔ لیکن یہاں تک کہ اگر تمام انسان ایک ذہانت پر مبنی مشین کے اہداف کی رہنمائی کے لیے چند اخلاقی اصولوں پر متفق ہو بھی جائیں، تب بھی انسان دوست اہداف کو نافذ کرنا زیادہ مشکل ہوگا۔ سب سے پہلے، ہمیں اپنے اہداف کو سیکھنے کے لیے مصنوعی ذہانت پر مبنی مشین بنانا ہو گی۔ یہ کہنا بہت آسان ہے لیکن کرنا مشکل کیونکہ مصنوعی ذہانت پر مبنی مشین آسانی سے ہمیں غلط سمجھ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ نے ازخود چلنے والی کار سے کہا کہ وہ آپ کو جتنی جلدی ممکن ہو ہوائی اڈے تک لے جائے، تو ممکن ہے آپ پہنچ تو وقت پر جائیں لیکن ایسی حالت میں کہ آپ قے سے لتھڑے ہوئے ہوں اور پولیس آپ کے پیچھے ہو۔ تکنیکی طور پر مصنوعی ذہانت کی مشین نے آپ کی بیان کردہ خواہش پر عمل کیا، لیکن یہ دراصل آپ کا بنیادی مقصد سمجھنے سے قاصر رہی۔ اگلا چیلنج مصنوعی ذہانت کی مشین کے لیے ہمارے اہداف کو اپنانا ہو گا، یعنی وہ ان کے حصول کی کوشش کرنے پر راضی ہو گی۔ ذرا ان سیاست دانوں کے بارے میں سوچیں جن کو آپ جانتے ہیں: اگرچہ ان کے مقاصد واضح ہو سکتے ہیں، پھر بھی وہ آبادی کے بڑے حصے کو انہی مقاصد کو اپنانے پر راضی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اور آخر میں، مصنوعی ذہانت کی مشین کو ہمارے اہداف کو برقرار رکھنا ہوگا، مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے اہداف تبدیل نہ کرے کیونکہ اس میں خود کو بہتر کرتے رہنے کا عمل ازخود اور مسلسل ہوتا ہے۔

سائنسی تحقیق کا ایک بڑا حصہ اس وقت صرف ان تصورات کے لیے وقف کیا جا رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے محققین شعور کے معنی اور مصنوعی ذہانت کے تجربے کی موضوعیت پر غور کر رہے ہیں۔ شعور کیا ہے اور اس کا زندگی سے کیا تعلق ہے یہ سوال شاید ہی نیا ہو۔ مصنوعی ذہانت کے محققین کو اسی دیرینہ مسئلے کا سامنا ہے۔ خاص طور پر، وہ حیران ہیں کہ بے جان مادہ کیسے شعور کا حامل ہو سکتا ہے۔

آئیے اس پر پہلے انسانی نقطہ نظر سے بات کرتے ہیں۔ مصنف نے اسے یوں سمجھا ہے کہ جیسے ایک طبیعیات دان نے کہا تھا کہ باشعور انسان محض “خوراک کی ترتیبِ نو” ہیں، مطلب یہ کہ خوراک کے ذریعے ہم جو ایٹم جسم میں لے کر جاتے ہیں، انھیں کی ترتیبِ نو سے ہمارے جسم تشکیل پاتے ہیں۔ نتیجتاً، مصنوعی ذہانت کے محققین کو جس چیز میں دلچسپی ہے، وہ یہی ترتیبِ نو ہے جس سے مصنوعی ذہانت کی مشینوں کو شعور کا حامل بنانے کے لیے گزرنا پڑے گا۔ یہ امر باعثِ حیرت نہیں ہونا چاہیے کہ تاحال کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔ لیکن جواب کے قریب پہنچنے کے لیے ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ شعور میں کیا کچھ شامل ہوتا ہے۔

یہ ذرا پیچیدہ معاملہ ہے۔ ہم شاید یہ تصور کرنا چاہیں کہ شعور آگاہی اور انسانی دماغی عمل سے متعلق ہے۔ لیکن پھر ہم دماغ کے ہر عمل سے فعال طور پر واقف نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ عام طور پر اپنی بصیرت کے شعبے میں ہر چیز سے کاملاً آگاہ نہیں ہوتے ہیں۔ یہ وضاحت سے معلوم نہیں ہے کہ مختلف چیزوں کی آگاہی میں درجہ بندی کیوں ہے اور بعض معلومات دوسری معلومات سے زیادہ اہم کیوں ہیں۔ نتیجتاً، شعور کی متعدد تعریفیں موجود ہیں۔ لیکن مصنف ایک وسیع تعریف کو ترجیح دیتا ہے جسے موضوعی تجربہ کہا جاتا ہے، یہی چیز ہے جو مصنوعی ذہانت کی ممکنہ مشین میں شعور کو شامل کرنے کی سبیل ہے۔ اس تعریف کا استعمال کرتے ہوئے، محققین کئی ذیلی سوالات کے ذریعے شعور کے تصور کی چھان بین کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، “دماغ معلومات کو کیسے پروسیس کرتا ہے؟” یا “کونسی جسمانی خصوصیات شعوری نظاموں کو لاشعور سے ممتاز کرتی ہیں؟”

مصنوعی ذہانت کے محققین نے یہ بھی سوچا ہے کہ مصنوعی شعور یا مصنوعی ذہانت کی مشین کا موضوعی تجربہ “محسوس” کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مشین کا موضوعی تجربہ انسانی تجربے سے زیادہ بھرپور ہو سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی مشینوں کی تیاری سینسروں کے وسیع تر نظام کے ساتھ کی جا سکتی ہے، جس سے ان کا حسی تجربہ ہمارے اپنے تجربے سے کہیں زیادہ بھرپور ہوتا ہے۔ مزید برآں، مصنوعی ذہانت کی مشین کا فی سیکنڈ تجربہ انسانوں سے زیادہ ہو سکتا ہے کیونکہ ایک مصنوعی “دماغ” روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے برقی مقناطیسی سگنلز پر چلتا ہے، جب کہ انسانی دماغ میں اعصابی سگنل بہت کم رفتار سے سفر کرتے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ معاملے کو سمجھنے کے لیے کافی ہو گیا ہے۔ تاہم ایک چیز واضح ہے کہ مصنوعی ذہانت پر تحقیق کے ممکنہ اثرات بہت وسیع ہیں۔ اس کا رخ مستقبل کی طرف ہے لیکن اس میں بنی نوع انسان کے کچھ قدیم ترین فلسفیانہ سوالات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کتاب کا کلیدی نکتہ یہ ہے:

انسانی سطح کے مساوی مصنوعی ذہانت کی مشین بنانے کی دوڑ زوروں پر ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ آیا AGI آئے گا یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کب تک آ جائے گا۔ ہم نہیں جانتے کہ ایسا ہونے پر کیا ہو گا، لیکن کئی طرح کے حالات ممکن ہیں: ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے “ہارڈ ویئر” کو اپ گریڈ کر کے مشینوں کے ساتھ مل جائیں، یا کوئی سپر انٹیلی جنس دنیا پر قبضہ کر لے۔ ایک بات یقینی ہے، بنی نوع انسان کو اپنے آپ سے کچھ گہرے فلسفیانہ سوالات پوچھنے ہوں گے کہ انسان ہونے کا کیا مطلب ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ تجزیات آن لائن

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply