مصنوعی ذہانت کے عہد میں بنی نوع انسان/ میکس ٹیگ مارک(1)- ترجمہ: عابد سیال

ہزاروں برس سے زمین پر زندگی ترقی اور ارتقا کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ کوئی حیاتیاتی وجود انسانوں سے بڑھ کر اس کی مثال نہیں۔ میکس ٹیگ مارک تصور کرتا ہے کہ ہم اب آخری ارتقائی مرحلے کی طرف بڑھ رہے ہیں جسے وہ “لائف3.0” کا نام دیتا ہے۔ انسانیت کے اس دور میں، ٹیکنالوجی آزادانہ طور پر زندہ رہے گی، اپنے ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر دونوں کو ڈیزائن کرے گی، اور بنی نوع انسان کے وجود پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ایسی مصنوعی زندگی تاحال زمین پر موجود نہیں ہے۔ تاہم، ہمیں غیر حیاتیاتی ذہانت کے ظہور کا سامنا ہے، جسے عام طور پر مصنوعی ذہانت (AI) کہا جاتا ہے۔

ان کتابوں میں، آپ کو مستقبل کی ممکنہ صورتوں کی خاکہ کشی کے سفر پر لے جایا جائے گا۔ آپ یہ بھی سیکھیں گے کہ مصنوعی ذہانت کی تخلیق میں دراصل کیا کچھ شامل ہے اور مصنوعی ذہانت، انسانی ذہانت سے کیسے مختلف ہے۔ راستے میں، آپ کچھ ایسے بڑے فلسفیانہ سوالات سے دوچار ہوں گے کہ اصل میں انسان ہونے کا مطلب کیا ہے۔ کتاب کے اس خلاصے میں، آپ سیکھیں گے:

مصنوعی ذہانت کی تحقیق کا مطمحِ نظر کیا ہے؛
آپ کے کافی کپ میں کس قسم کی ابتری ہے؛ اور
کس طرح مصنوعی ذہانت ملازمت کے مواقع کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

مصنوعی ذہانت زندگی کے مستقبل کی نمائندگی کر سکتی ہے، لیکن یہ ایک متنازعہ فیہ موضوع ہے۔

زمین پر زندگی کیسے نمودار ہوئی، یہ ایک جانی پہچانی کہانی ہے۔ تقریباً 13.8 ارب سال پہلے، بگ بینگ ہماری کائنات کو وجود میں لایا۔ پھر، تقریباً چار ارب سال پہلے، زمین پر ایٹموں نے اپنے آپ کو یوں مرتب کیا کہ وہ خود کو برقرار بھی رکھ سکیں اور اپنے جیسے دیگر بھی پیدا کر سکیں۔ زندگی پیدا ہو چکی تھی۔

جیسا کہ مصنف کی رائے ہے، زندگی کو نفاست کی سطحوں کے مطابق تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ زندگی کا ابتدائی مرحلہ، لائف 1.0، محض حیاتیاتی ہے۔ ایک بیکٹیریا پر غور کریں۔ اس کے رویے کا ہر پہلو اس کے ڈی این اے میں کوڈ کیا گیا ہوتا ہے۔ اس کے لیے زندگی بھر اس کے لیے اپنا طرزِ عمل بدلنا یا اس بارے میں کچھ نیا سیکھنا ناممکن ہے۔ کچھ نیا سیکھنے یا خود کو بہتر کرنے کی قریب ترین صورت ارتقاء ہے، لیکن اس میں کئی نسلیں لگ جاتی ہیں۔ زندگی کا دوسرا مرحلہ، لائف 2.0، ثقافتی ہے۔ اس میں انسان شامل ہیں۔ بالکل بیکٹیریا کی طرح، ہمارے “ہارڈ ویئر” یا جسم تیار ہوئے ہیں۔ لیکن سادہ طرز زندگی کے برعکس، ہم اپنی زندگی کے دوران نیا علم حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک زبان سیکھنے کو ہی کو لیجیے۔ ہم ان افکار و خیالات کو بدلنے اور دوبارہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں جنہیں ہم اپنا “سافٹ ویئر” کہہ سکتے ہیں۔ اور ہم اسی علم کو استعمال کرتے ہوئے اپنے فیصلے کرتے ہیں۔ آخری مرحلہ ایک تصوراتی زندگی، لائف 3.0 ہے، جو تکنیکی زندگی کی ایک شکل ہے جو اپنے ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر دونوں کو ڈیزائن کرنے کے قابل ہے۔ اگرچہ ایسی زندگی تاحال زمین پر موجود نہیں ہے، لیکن مصنوعی ذہانت کی مختلف ٹیکنالوجی کی شکل میں غیر حیاتیاتی ذہانت کا ظہور جلد ہی اس کو وجود میں لا سکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے بارے میں مختلف آرا رکھنے والوں کی درجہ بندی اس حوالے سے کی جا سکتی ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں انسانیت پر ابھرتے ہوئے اس کے اثرات کے بارے میں ان کے احساسات کیا ہیں۔ سب سے پہلے ڈیجیٹل یوٹوپیا والے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مصنوعی زندگی ارتقاء کا ایک قدرتی اور مطلوبہ اگلا مرحلہ ہے۔دوسرے ٹیکنالوجی کو شک کی نظر سے دیکھنے والے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ مصنوعی زندگی جلد ہی کسی وقت کسی نوع کے اثرات کا باعث ہو گی۔ آخر میں مصنوعی ذہانت سے کو افادی زاویے سے دیکھنے والوں کی تحریک ہے۔ یہ لوگ اس بات پر قائل نہیں ہیں کہ مصنوعی ذہانت لازمی طو رپر انسانیت کے لیے فائدہ مند ہو گی۔ لہٰذا وہ اس بات کا پرچار کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت سے متعلق تحقیق کو عالمی سطح پر مثبت نتائج کی طرف لے جایا جانا چاہیے۔

یادداشت، حساب کرنا(کمپیوٹنگ)، سیکھنا اور ذہانت کی صلاحیتیں واضح طور پر ایسی صفات نہیں ہیں جو صرف انسانوں میں ہوں۔ کیا شے ہے جو ہمیں انسان بناتی ہے؟ کیا ہماری سوچنے اور سیکھنے کی صلاحیت؟ یہ کسی کا خیال ہو سکتا ہے۔ تاہم مصنوعی ذہانت کے محققین عام طور پر اس طرح کے تصور کے مخالف ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یادداشت، حساب، سیکھنے اور ذہانت کی صلاحیت کا کوئی لازمی تعلق گوشت پوست کے انسان سے نہیں۔

آئیے ذہانت  کے تصور سے شروع کرتے ہیں۔ اگرچہ اس کی کوئی آفاقی طور پر تسلیم شدہ واحد تعریف نہیں ہے، لیکن مصنف ذہانت کو “پیچیدہ اہداف کو پورا کرنے کی صلاحیت” کے طور پر دیکھتا ہے۔مشینیں شطرنج کھیلنے جیسے متعین ذہانت کے کاموں میں ہم سے بہتر کارکردگی کے قابل ہو سکتی ہیں، لیکن انسانی ذہانت منفرد طور پر وسیع ہے۔ یہ زبان سیکھنے سے لے کر گاڑی چلانے جیسی لاتعداد مہارتوں کا احاطہ کرتی ہے۔ تاہم، اگرچہ عمومی مصنوعی ذہانت (Artificial General Intelligence) تاحال وجود میں نہیں آ سکی، تاہم یہ واضح ہے کہ ذہانت صرف ایک حیاتیاتی صلاحیت نہیں ہے۔ مشینیں بھی پیچیدہ کام مکمل کر سکتی ہیں۔

ذہانت، بالکل اسی طرح جیسے یادداشت، کمپیوٹنگ اور سیکھنے کی صلاحیتیں ہیں،ایک زیریں سطح کی آزاد صلاحیت ہے۔ یعنی، ایک آزاد پرت جو کسی زیریں سطح پر موجود مادی ذخیرے کی عکاسی یا اس پر انحصار نہیں کرتی۔ لہٰذا مثال دی جا سکتی ہے کہ انسانی دماغ معلومات کو ذخیرہ کر سکتا ہے، لیکن اسی طرح فلاپی ڈرائیوز، سی ڈیز، ہارڈ ڈرائیوز، ایس ایس ڈیز اور فلیش میموری کارڈز بھی ایسا کر سکتے ہیں اگرچہ دماغ اور یہ اشیا ایک جیسے مواد سے بنے ہوئے نہیں ہیں۔

لیکن اس سے پہلے کہ ہم ‘کمپیوٹنگ’ کا معنی سمجھنے کی کوشش کریں، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کمپیوٹنگ دراصل ہے کیا۔  کمپیوٹنگ میں معلومات کی نئی تشکیل کی جاتی ہے۔ لہٰذا کمپیوٹر میں، مثال کے طور پر، لفظ “ہیلو” کو صفر اور ایک کی خاص ترتیب میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن وہ اصول یا سانچا جو اس تشکیل کا تعین کرتا ہے، اس ہارڈ ویئر سے آزاد ہے جو اسے انجام دیتا ہے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ اہم چیز کیا ہے، اصول یا سانچا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکھنے کا عمل صرف انسانوں سے خاص نہیں، وہی اصول اور سانچے انسانی دماغ سے باہر بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے محققین نے مشینوں کے سیکھنے کے میدان میں بہت بڑی پیش رفت کی ہے، ایسی مشینیں جو اپنے سافٹ ویئر کو خود بہتر بنا سکتی ہیں۔ لہٰذا، اگر یادداشت، سیکھنے، کمپیوٹنگ اور ذہانت واضح طور پر انسان نہیں ہیں، تو پھر کیا شے ہے جو ہمیں انسان بناتی ہے؟ چونکہ مصنوعی ذہانت کے میدان میں تحقیق تیزی سے جاری ہے، اس سوال کا جواب دینا مشکل ہی ثابت ہوگا۔

انسانی سطح کی مصنوعی ذہانت بنانے کے نتیجے میں ایک ایسی سپر انٹیلیجنٹ مشین وجود میں آسکتی ہے جو دنیا کا نظام اپنے ہاتھوں میں لے لے

مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور مستقبل قریب میں انسانی زندگی کو متاثر کرے گی۔ مشینیں انسانوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ ہم انہیں ہزاروں برس سے دستی کاموں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اگر آپ اپنی ادراک کی مہارتوں، جیسے ذہانت، زبان اور تخلیقی صلاحیتوں کو اپنی اہمیت اور پہچان بناتے ہیں تو ان مشینوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تاہم مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ہونے والی حالیہ پیش رفت آپ کو تشویش میں مبتلا کرنے کا باعث ہو سکتی ہے۔

مصنف کو 2014 میں ایک حیرت افزا لمحے کا سامنا ہوا جب اس نے مصنوعی ذہانت کے نظام کو بریک آؤٹ نامی ایک پرانی کمپیوٹر گیم کھیلتے ہوئے مشاہدہ کیا۔ یہ وہ کھیل جس میں آپ ایک پیڈل کی چال سے گیند کو دیوار سے ٹکراتے ہیں۔آغاز میں مصنوعی ذہانت کے نظام نے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اس نے جلد ہی سیکھ لیا اور آخر کار اسکور کو زیادہ سے زیادہ کرنے کی ایک ذہین حکمت عملی تیار کرلی جس کے بارے میں اس گیم کے ڈویلپرز نے بھی نہیں سوچا تھا جب وہ خود اسے کھیل رہے تھے۔

یہ مارچ 2016 میں دوبارہ ہوا، جب مصنوعی ذہانت کے نظام AlphaGo نے دنیا کے بہترین Go کھلاڑی لی سیڈل کو شکست دی۔ Goایک حکمت عملی کا کھیل ہے جس میں وجدان اور تخلیقی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ گیم میں اور بھی بہت سی ممکنہ پوزیشنیں ہیں،پھر کائنات میں ایٹم بھی ہیں، اس لیے محض طاقت کا تجزیہ کرنا عملی افادے کا باعث نہیں ہے۔ لیکن مصنوعی ذہانت کا نظام پھر بھی فتح کی راہ پر گامزن ہوا، جس سے ایسا لگتا ہے کہ اس نے بالکل اسی قسم کی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جو درکار تھیں۔

مصنوعی ذہانت کا نظام،فطری زبانوں کی آموزش کے میدان میں بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ذرا غور کریں کہ حال ہی میں ‘گوگل ٹرانسلیٹ’ کے فراہم کردہ تراجم کا معیار کتنا بہتر ہوا ہے۔یہ واضح ہے کہ مصنوعی ذہانت مستقبل قریب میں انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کرے گا۔ حساب کتاب پر مبنی تجارت مالیات کو متاثر کرے گی۔ خود مختار ڈرائیونگ نقل و حمل کو محفوظ تر بنائے گی، سمارٹ گرڈ توانائی کی تقسیم کو بہتر بنائیں گے اور مصنوعی ذہانت والے ڈاکٹر صحت کی دیکھ بھال کے طریقہ کار کو تبدیل کر دیں گے۔سب سے بڑا غورطلب مسئلہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کا ملازمتوں پر کیا اثر پڑے گا۔ بہر کیف جیسےجیسے مصنوعی ذہانت کا نظام زیادہ سے زیادہ شعبوں میں انسانوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے، ہم انسان بے روزگار بھی ہو سکتے ہیں۔

آئیے اب مصنوعی ذہانت کی ترقی کے دیگر ممکنہ اثرات کی طرف آتے ہیں۔انسانی سطح کی مصنوعی ذہانت بنانے کے نتیجے میں ایک ایسی سپر انٹیلیجنٹ مشین بن سکتی ہے جو دنیا کا نظام اپنے ہاتھوں میں لے لے۔ اب تک مصنوعی ذہانت کا اطلاق محدود شعبوں جیسے زبان کے ترجمہ یا حکمت عملی کے کھیلوں میں کافی حد تک ہوتا رہا ہے۔اس کے برعکس مصنوعی ذہانت کی تحقیق کا اصل مطمحِ نظر AGI  کی تخلیق ہے جو انسانی ذہانت کی سطح پر کام کرے گی۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ تجزیات آن لائن

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply