• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • برطانیہ میں عورتوں پر تشدد کے جرائم میں اضافہ۔۔فرزانہ افضل

برطانیہ میں عورتوں پر تشدد کے جرائم میں اضافہ۔۔فرزانہ افضل

قریباً دس روز قبل 26 جون 2022 اتوار کی صبح دو بج کر 17 منٹ پر ایک 35 سالہ خاتون زارا علینہ  کو قتل کر دیا گیا۔ اس ہولناک واقعے کی تفصیلات یوں ہیں کہ یہ بدقسمت خاتون   ایک پارٹی سے واپس آتے ہوئے پیدل چل کر ایسٹ لندن کے علاقہ الفرڈ میں اپنے گھر کی طرف جا رہی تھی اور تقریباً دس منٹ کے فاصلے سے گھر پہنچنے ہی والی تھی کہ اچانک کسی اجنبی نے اس پر حملہ کیا ، اس کا پرس ، فون اور گھر کی چابیاں چھین لیں اور اسے گھسیٹ کر کسی گھر کے ڈرائیور وے پر پھینک کر جنسی تشدد کرنے کی کوشش کی ، اس کو شدید مارا پیٹا، اس کے نتیجے میں زارا  علینہ  کے سر پر گہری چوٹیں آئیں، اس کے چیخنے چلانے کی آواز سن کر لوگ گھروں سے باہر نکل آئے، جبکہ اسی  اثناء میں یہ اجنبی فرار ہوگیا، لوگوں نے ایمرجنسی سروسز بلائیں، ایمبولینس کے  سٹاف نے زارا  علینہ کو شدید زخمی حالت میں اکھڑتی سانسوں کے ساتھ پایا اور فوری طبی امداد دینے کی کوشش کی اور ہسپتال لے کر گئے مگر وہ کچھ دیر بعد ہی دم توڑ گئی۔

سی سی ٹی وی کی مدد اور پولیس کی چھان بین سے ایک 29 سالہ شخص، جس کا نام جارڈن میک سوینی ہے کو چارج کر کے گرفتار کر لیا گیا، چند روز قبل اس کو لندن کی اولڈ بیلی عدالت میں بھی پیش کیا گیا، جہاں پر اس نے اپنا نام اور تاریخ پیدائش کی تصدیق کے بعد کوئی بات نہیں کی اور خاموش کھڑا رہا۔ زارا  علینہ  ایک نہایت محنتی لاء گریجویٹ تھی اس کا خواب تھا کہ وہ بیرسٹر بنے۔ اس نے ایل ایل بی کیا اور گزشتہ برس قانون میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ حاصل کیا ۔ اور چند ماہ قبل ہی ‏لندن کی رائل ‏کورٹس آف جسٹس میں ایڈ منسٹریشن آفیسر کے طور پر جاب شروع کی تھی۔

زارا  کی اس دل دہلا دینے والی حادثاتی موت سے نا  صرف اس کے خاندان کے افراد، دوست احباب، ہمسائے ، اساتذہ بلکہ پورے ملک  کے عوام کو شدید دکھ پہنچا ہے، چند روز قبل 2 جولائی کو لندن میں زارا  علینہ  کے سوگ میں بہت بڑی ریلی نکالی گئی جس میں لوگوں نے زارا   کی تصویر کی ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں، اور   سلوگنز اٹھا رکھے تھے۔ زارا    کی آنٹی نے فیملی کی طرف سے اپنے دکھ بھرے جذبات کا اظہار کیا اور کہا کہ زارا   نے کوئی غلط کام نہیں کیا وہ ایک سمجھ دار اور محنتی اور نہایت نیک دل لڑکی تھی ، جو سب کی مدد کرنے اور کام آنے میں خوشی محسوس کرتی تھی وہ خاموشی سے اپنے گھر واپس آ رہی تھی کہ اس کو جان سے مار دیا گیا۔

زارا   اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ ہر عورت کو اس قابل ہونا چاہیےکہ وہ پیدل چل کر اپنے گھر واپس جا سکے۔ مگر افسوس کہ وہ خود  اپنے گھر واپس نہ پہنچ پائی ۔ لندن بلیک وومنز پراجیکٹ کی کو چیئر انجم موج نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “آج 2 جولائی ہے اور برطانیہ میں اس سال تقریباً 60 عورتیں قتل ہو چکی ہیں۔ یہ شرم کا مقام ہے ہمارے معاشرے کے لیے ، شرم ہے ہمارے سیاسی لیڈران پر ، کہ انہوں نے ایک لمحے کو بھی اس کے بارے میں   نہیں سوچا”۔

برطانیہ میں مردوں کے عورتوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، گزشتہ برس ستمبر 2021 میں ایک اٹھائیس سالہ خاتون سبینہ نیسا کو ساؤتھ ایسٹ لندن میں اپنے گھر جاتے ہوئے راستے میں قتل کر دیا گیا۔ اور پھر اس کے چند ماہ بعد ہی مارچ 2022 میں ایک 33 سالہ خاتون سارہ ایوراڈ کو ایک پولیس آفیسر نے اغوا ء کر کے زیادتی کے بعد قتل کردیا۔

برطانیہ کے ادارہ شماریات یعنی آفس آف نیشنل سٹیٹسٹکس او این ایس کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2021 کو ختم ہونے والے سال میں اجنبی کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد میں 6 فیصد خواتین تھیں جب کہ 18 فیصد مرد تھے ۔ لندن میٹروپولیٹن پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق 2022 میں اب تک قتل ہونے والے 44 افراد میں سے 14 خواتین تھیں جن میں زارا  علینہ  شامل نہیں ہے۔ جبکہ ایک اور اعداد و شمار کے مطابق زارا  علینہ  یوکے میں 2022 میں قتل ہونے والی عورتوں میں 52  ویں نمبر پر اور لندن میں 16 ویں نمبر پر ہے۔

ان تمام یکے بعد دیگرے واقعات سے برطانیہ بھر کی خواتین میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے ۔وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ پولیس نظام بھی بہت سست ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق یوکے میں رپورٹ شدہ زیادتی کے واقعات میں سے صرف ایک فیصد ملزمان پر مقدمہ چارج کیا جاتا ہے۔ جبکہ باقی کیسز نظر انداز ہو جاتے ہیں یا پولیس کی سست اور غیر مؤثر کارروائی میں دب جاتے ہیں۔ مارچ 2022 میں پولیس افسر کے ہاتھوں زیادتی کا شکار اور قتل ہونے والی خاتون سارہ ایوراڈ کے واقعہ کے بعد عورتوں کا پولیس پر سے بھی اعتبار اٹھ گیا ہے۔ زارا   کیس کے بارے میں قدامت پرست افراد ضرور اعتراض اٹھائیں گے کہ وہ پارٹی کے بعد رات گئے کیوں پیدل واپس آ رہی تھی، یا سب سے پہلے تو وہ پارٹی پر گئی ہی کیوں اور یہ کہ عورتوں کو خود اپنی عزت کا خیال ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ تو ایسی سوچ رکھنے والوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ دنیا، یہ شہر یہ معاشرہ جس قدر مردوں کا ہے اتنا ہی عورتوں کا بھی ہے ۔ اگر مردوں کو دن کے 24 گھنٹے میں، رات ہو یا دن ، کسی بھی پہر کہیں بھی آنے جانے میں ڈر محسوس نہ ہو تو عورتوں کو بھی اتنا ہی حق حاصل ہے کہ وہ بھی کسی بھی وقت بلا خوف و خطر کہیں بھی آ جا سکیں۔ اور ایک مہذب معاشرے میں عورتوں اور مردوں کو تمام حقوق بشمول ان کی عصمت اور زندگی کی حفاظت ، برابری میں حاصل ہوں۔

اس کے علاوہ کم عمر سے ہی لڑکوں کی گھر اور اسکول دونوں میں تربیت کرنا ضروری ہے کہ عورتوں کے ساتھ عزت سے پیش آنا چاہیے ان کو خواتین کے حقوق بارے میں شروع سے ہی آگاہی دینا چاہیے اور دماغ میں مثبت باتیں بٹھانی چاہئیں ۔ اس بارے میں محکمہ تعلیم آفس فار اسٹوڈنٹس کے ساتھ مل کر کالج اور یونیورسٹی میں جنسی ہراسگی کے واقعات پر قابو پانے کے اقدامات کرے گی ان واقعات کے بعد عورتیں نہ صرف اپنے لئے خطرہ سے  الرٹ ہو گئی ہیں بلکہ اپنے بچوں اور بچیوں کی حفاظت کے لیے فکر مند ہیں۔ لہٰذا پبلک ٹرانسپورٹ یعنی بس ، ٹرین اور ٹرام کو محفوظ بنانے کی شدید ضرورت ہے ، گلیوں، سڑکوں اور بند تاریک گلیوں کو روشن اور محفوظ بنایا جائے ۔ حکومت کو چاہیے کہ پولیس افسران کی تعداد میں اضافہ کرے۔ تشدد اور زیادتی کے واقعات پر فوراً ایکشن لیا جائے۔ ملزمان کو فوری گرفتار کرکے تیز ترین کارروائی کی جائے۔ مجرمان کو سخت اور کڑی سزائیں دیں جائیں ، یہ سزائیں اپیلوں کی نذر نہ ہو جائیں بلکہ ان پر عمل درآمد بھی ہو۔

بہت سے زیادتی کے واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور ان کو خاندان کی عزت کی چادر تلے ڈھک دیا جاتا ہے۔ حکومت کا کام ہے کہ پولیس پر لوگوں کا اعتماد قائم کرے، رپورٹ شدہ جرائم کی فوری تحقیقات ہوں تاکہ لوگوں کی واقعات رپورٹ کرنے میں حوصلہ افزائی ہو ۔ برطانیہ کی ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل نے گزشتہ برس جولائی 2021 میں وائلنس اگینسٹ وومن اینڈ گرلز یعنی عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد کے خلاف ایک لائحہ عمل ترتیب دیا تھا جس میں ایک پولیسنگ بورڈ بنایا گیا جو تمام معاملات کی فوری جانچ پڑتال کرے گا، سیفٹی آف وومن ایٹ نائٹ فنڈ کے پچیس ملین پاؤنڈ میں پانچ ملین اور ڈالے گئے تاکہ بچیوں اور عورتوں کی حفاظت کے لیے نائٹ کلب اور ریسٹورنٹ کے گرد ایریا اور گھروں کو پیدل جانے والے راستوں کو زیادہ لائٹ اور کیمرے لگا کر محفوظ بنایا جائے۔ حادثات اور زیادتی کا شکار ہو کر بچ جانے والی بچیوں اور عورتوں کیلئے سپورٹ کو بہتر بنایا جائے۔ مگر ابھی اس پر بہت محنت اور کام کی ضرورت ہے۔ جنسی تشدد اور قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات سے ثابت ہے کہ حکومت کے یہ اقدامات ناکافی ہیں ۔ خواتین کی حفاظت کے لیے حکومت کو اپنی اصلاحات میں مزید بہتری لانی ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors

بحیثیت معاشرہ ہمیں اپنی سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی۔ اور زیادتی کی شکار افراد پر الزام دھرنے کی بجائے ان مجرموں اور شکاری افراد کا محاسبہ کرنا ہوگا۔ جنسی ہراسگی، گھریلو تشدد اور زیادتی کے واقعات کی پردہ پوشی کی بجائے پولیس اور متعلقہ اداروں میں رپورٹ کر کے روکنا ہوگا ، گھروں اور تعلیمی اداروں میں بچوں کی تربیت اس طرح کرنی ہوگی کہ جنسی مذاق ، عورتوں کے حوالے سے گالیاں اور گندی زبان کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے ۔ ہم سب کو مل کر اس ریپ کلچر کا خاتمہ کرنا ہوگا تاکہ ہر عورت اور لڑکی اپنے گھر بنا کسی خوف و خطر باحفاظت پیدل چل کے جا سکے، اور کسی خاتون کا اپنے گھر کا سفر زارا  علینہ  کی طرح ادھورا نہ رہ جائے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply