رجیم چینج اور غدار صحافی۔۔آغر ؔندیم سحر

تقسیم کے بعد سے آج تک’سیاست دان صرف مہرے رہے’حقیقت یہی ہے کہ اس ملک میں کبھی جمہوری حکومت نہیں آئی۔دشمن ممالک نے پاکستان کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی’اگر کچھ بچ گیا تھا تو پاکستان کے اندر موجود طاقتور طبقے نے عالمی طاقتوں اور استعمار کاروں کا حصّہ بن کر اس ملک کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا دی۔آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جس کے بارے غالب نے کہا تھا

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

آج جب عمران خان نے یہ کہا کہ‘یہ قوم برائے فروخت نہیں’تو مجھے شدید حیرانی ہوئی’سچ یہ ہے کہ یہ قوم ہمیشہ سے برائے فروخت رہی ہے۔غلامی کی زنجیریں پچھلے کئی سو سال سے اس خطے کا مقدر ہیں اور ہم نے ہمیشہ اپنی زنجیروں کی قدر کی۔ہماری تقدیر کے فیصلے کہیں اور ہوتے رہے اور ہمیں ہمیشہ یہی ‘لالی پاپ’ دیا گیا کہ ہم ایک غیرت مند قوم ہیں لہٰذا کوئی مسئلہ نہیں۔ہم آج تک اپنی قوم کویہ حقیقت نہیں بتا سکے کہ اب جنگیں بندوقوں سے نہیں ‘‘دانشوارانہ چالوں’’سے لڑی جاتی ہیں ۔ایسی قوم جس کو صدیوں سے جھوٹ پر جھوٹ سنایا گیا ہو ،جسے اپنی تاریخ بھی غلط بتائی گئی ہو اور جس سے ملکی حالات بھی ہمیشہ مخفی رکھے گئے ہوں،اس قوم کو نہ تو سچ بتایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے سچ ہضم ہوتا ہے۔

اگر ایاز میرکی باتیں اتنی تکلیف دہ ہیں تو ہمیں جبر کی سیاست کرنے کی بجائے اسے دلیل سے رد کرنا چاہیے تھا’اختلاف کا حق تو سب کو ہے مگر اس سے بڑا ظلم کیا ہوگاکہ ہم اپنے ملک کے طاقت ور طبقے سے سوال بھی نہیں کر سکتے کہ جناب آپ نے اس ملک کے آئینی بحران کو ختم کرنے کے لیے کتنا کردار ادا کیا؟۔

آج ہم آئینی بحران کا شور ڈال رہے ہیں،اداروں کی بلیک میلنگ کا نوحہ لکھ رہے ہیں،عالمی طاقتوں کی چال بازیوں سے پریشان ہیں،معاشی تنگ دستی کا رونا رو رہے ہیں،سیاسی ،لٹیروں،اور ملکی سرمایہ داروں کے ظلم پر چیخ و پکار کر رہے ہیں،آئی ایم ایف کے قرضوں کی دلدل سے خائف ہیں’ایسا کیوں ہے؟

حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ملک کو اس نہج پر کس نے پہنچایا’کیا ہم اپنی تاریخ سے واقف نہیں کہ تشکیل سے آج تک’اس ملک میں جمہوری حکومتیں کتنی آئیں ؟‘رجیم چینج ’کا شورتو کچھ ماہ پہلے شروع ہوا حالانکہ سچ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ سے ‘رجیم چینج ’کا حصہ رہے’الیکشن تو ہمیشہ برائے نام ہوتے رہے۔اس ملک پر ہمیشہ اندرونی و بیرونی طاقتوں نے مفاد کا کھیل کھیلا’کچھ لے دے کی پالیسی پر حکومتیں ہوتی رہیں اور ہم اس سب سے ناواقف رہے۔عمران خان کا بھلا ہو کہ اس نے رجیم چینج کی بات کی’قوم کو ووٹ اور الیکشن کی اہمیت کا احساس دلایا’ملکی اداروں میں موجود سازشی چہروں کو بے نقاب کیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہماری عدالتیں آدھی رات کے وقت صرف امیروں کے لیے کھل سکتی ہیں تو یہ پھر یہ تسلیم کرنے میں کیا برائی ہے کہ عدالتیں صرف امیروں کے لئے بنی ہیں’غریب کو انصاف صرف مرنے کے بعدملے گا۔اگر ایاز میرکی باتیں اتنی تکلیف دہ ہیں تو ہمیں جبر کی سیاست کرنے کی بجائے اسے دلیل سے رد کرنا چاہیے تھا’اختلاف کا حق تو سب کو ہے مگر اس سے بڑا ظلم کیا ہوگاکہ ہم اپنے ملک کے طاقت ور طبقے سے سوال بھی نہیں کر سکتے کہ جناب آپ نے اس ملک کے آئینی بحران کو ختم کرنے کے لیے کتنا کردار ادا کیا؟۔

کیسا عجیب اتفاق ہے کہ ہم پہلے اپنی قوم کو یہ سبق پڑھاتے ہیں کہ فلاں فلاں شخص غدار ہے’وہ پاکستان سے مخلص نہیں ہیں اور جب یہ قوم اس سبق کو یاد کر لیتی ہے تو ہمارانصاب تبدیل کر دیا جاتا ہے۔آج اگر ایک صحافی اور قلم کار اپنے اداروں اور طاقت ور حلقوں سے یہ سوال کر رہا ہے کہ آپ نے تشکیلِ پاکستان سے لے کر آج تک کتنا مثبت کردار ادا کیا؟تو طاقت ور حلقوں کو اس کا جواب دینا چاہیے۔

افسوس تو یہی ہے کہ صحافی سچ بولے تو بھی غدار’صحافی کسی جماعت کی حمایت کرے تو لفافہ لینے کا الزام’صحافی خاموش ہو جائے تو بھی بدکردار’ایسے میں قلم کار کہاں جائے؟یہ کیسا فرسودہ اور ظالم معاشرہ ہے جہاں ایک پڑھا لکھا طبقہ یا صحافی اس ڈر سے سوال نہیں اٹھا سکتا کہ اسے مار دیا جائے گا’اس کے بیوی بچوں کی لاشیں دور کہیں کھیتوں سے ملیں گی’اس پر درجنوں جھوٹی ایف آئی آر کٹوا جائیں گی’اس کے دوست احباب کو بھی زدوکوب کیا جائے گا’یاد رکھیں!ایسے بدبو دار معاشرے کا انجام بہت عبرت ناک ہوتا ہے۔

میں بطور پاکستانی شہری اور قلم کار یہ اعتراف کرتا ہوں کہ میں سچ اس لیے نہیں لکھ پاتا کہ مجھے زندگی بہت عزیز ہے’میں اس لیے بھی سچ نہیں لکھ پاتا کہ مجھے علم ہے کہ اس ملک میں پانی سے بھی سستاایک صحافی کا خون ہے۔میں اس لیے سوال نہیں اٹھا سکتا کہ مجھے علم ہے کہ میرے سوالوں کا جواب دلیل سے نہیں گالی اور گولی سے دیا جائے گا ’مجھے یہ اعتراف کرنے میں بالکل عار نہیں کہ یہ ملک اور معاشرہ صرف اور صرف طاقت ور طبقے کے لیے بنا ہے’اس ملک کے تمام اعلیٰ  افسران اور تمام بڑے اداروں کے سربراہان جب تک ملازمت میں ہوتے ہیں’عہدے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور جب ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں تو بیوی بچوں سمیت ملک سے باہر منتقل ہو جاتے ہیں اور باقی زندگی کسی ترقی یافتہ ملک میں بیٹھ کر پاکستان کی سیاسی و معاشی تباہی کا تماشہ دیکھتے’اس پر پھبتیاں کستے گزار دیتے ہیں۔لہٰذا یہ ملک صرف اور صرف غریب کا ہے’یہ ملک ہمارا ہے کیوں کہ ہم ٹیکس دیتے ہیں تاکہ ہمارا طاقت ور طبقہ اور ہمارے ادارے عزت کی روٹی کھا سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حضور! سچ تو یہ ہے کہ اب جبر کی سیاست نہیں چل سکے گی کیوں کہ اب اس ملک کا ہر ذی شعور ایاز میر کی طرح سوال اٹھا رہا ہے’اس ملک کا نوجوان طبقہ ملکی اداروں سے پوچھ رہا ہے کہ ‘جناب ہمارا کیا قصور ہے؟’اور ہمیں اپنی نئی نسل کو اس سوال کا جواب دینا ہو گا کہ آئین کیا ہے اور اس کا کام کیا ہوتا ہے؟’ ملکی اداروں نے موجودہ بحران کے خاتمے میں کیا کردار ادا کیا؟ہمیں اب سوال اٹھانے والوں کو گولی اور گالی سے جواب دینے کی بجائے یہ سوچنا ہو گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں کس طرف جانا ہے۔اگر ہم نے آج بھی اسی روش پر چلتے رہے جس پر پچھلے ستر سال سے چل رہے ہیں تو پھر غیرت کے نعرے کسی کام کے نہیں۔ادارے اور اداروں میں موجود لوگوں کی عزت ان کے کام کی وجہ سے کی جاتی ہے’جب ادارے بھی طاقت ور طبقوں کا ساتھ دینے لگ جائیں تو پھر اداروں پر سوال اٹھتے ہیں اور ہمیں اداروں کی ساکھ اور عزت بچانے کے لیے دلیل سے بات کرنی ہوگی’گالی اور گولی سے نہیں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply