مصر میں فوجی بغاوت کے 9 سال۔۔رسول شریفی

3 جولائی 2013ء کا دن تھا جب مصر میں جنرال عبدالفتاح السیسی نے تقریر کرتے ہوئے صدر محمد مرسی کے معزول ہونے کا اعلان کر دیا۔ ابھی ان کی تقریر جاری تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے محمد مرسی کے حامی ذرائع ابلاغ بند ہونا شروع ہو گئے اور فوجی بغاوت کے حامی ذرائع ابلاغ نے کام کرنا شروع کر دیا۔ اخوان المسلمین کے ٹھکانوں پر سکیورٹی فورسز کے حملے ٹی وی پر لائیو چلنا شروع ہو گئے اور بعض صحافیوں اور رپورٹرز کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اس فوجی بغاوت کے نتیجے میں وہ آزادی اظہار بھی ختم ہو گیا جو مارچ 2011ء میں رونما ہونے والے انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ ذرائع ابلاغ کی محدودیت اس سوچ کا نتیجہ تھا جو عبدالفتاح السیسی میڈیا کے بارے میں رکھتے تھے۔ ان کی نظر میں 25 مارچ کا انقلاب اسی آزادی کا نتیجہ تھا جو صحافیوں اور میڈیا کو دی گئی تھی۔

جنرل السیسی میڈیا کو عوام کی آگاہی کا سبب قرار دیتے تھے اور یوں مصر میں رونما ہونے والے عوامی انقلاب کی اصل وجہ گردانتے تھے۔ انہوں نے ایک نئے طرز کا میڈیا متعارف کروانے کی کوشش کی جو مکمل طور پر حکومت کے زیر اثر ہو اور حکومتی پالیسیوں کے تحت سرگرم عمل ہو۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے پہلے قدم کے طور پر تمام ذرائع ابلاغ کو ایک جیسا کر دیا۔ اسی طرح بعض اہم اخبار جیسے ڈیلی آزادی اور اخوان المسلمین کا ڈیلی عدالت نیز الجزیرہ نیٹ اور المصر العربیہ جیسی ویب سائٹس کو بند کر دیا۔ جنرل عبدالفتاح السیسی نے دوسرے قدم کے طور پر میڈیا کو خریدنا شروع کر دیا۔ یوں مصر حکومت نے آن ٹی وی چینل، سی بی سی چینل، اخبار صوت الامہ، اخبار الیوم السابع، ڈاٹ مصر، مصر میگزین اور بزنس ٹو ڈے جیسے اہم ذرائع ابلاغ کو خرید لیا۔

جنرل السیسی نے احمد ابوہشیمہ اور بریگیڈیئر محمود حجازی جیسے اعلی سطحی فوجی اور سکیورٹی عہدیداروں کو بھی ملک کے میڈیا سسٹم میں گھسا دیا۔ یوں انہوں نے اپنی حکومت کے دوران مخالف ذرائع ابلاغ کو مکمل طور پر ختم یا انتہائی محدود کر دینے کے بعد ملک بھر میں ایک میڈیا ڈکٹیٹرشپ قائم کر دی جس کا مقصد ملک کی پوری میڈیا فضا پر ایک ڈائیلاگ حکمفرما کرنا تھا۔ ایسا ڈائیلاگ جو تین بنیادی خصوصیات کا حامل ہو۔ ایک حکومتی اقدامات کی تائید، دوسری حکومت مخالف عناصر کو غدار کے طور پر متعارف کروانا اور تیسری حکومت کے حق میں رائے عامہ قائم کرنا۔ لہذا جنرل السیسی کے برسراقتدار آنے کے بعد ملک میں صرف ایسے ذرائع ابلاغ باقی رہ گئے جو دن رات حکومت کے گیت گاتے تھے اور تمام ایسے صحافیوں کو معزول کر دیا گیا جو حکومت کے مخالف تھے یا بڑھ چڑھ کر حمایت نہیں کرتے تھے۔

میڈیا ڈکٹیٹرشپ میں شامل ذرائع ابلاغ کی دوسری بڑی خصوصیت حکومت مخالف عناصر کے خلاف میڈیا جنگ اور پروپیگنڈہ انجام دینا تھا۔ جو بھی حکومت کی مخالفت کا اظہار کرتا تھا فوراً اس پر غدار ہونے کا الزام عائد کر دیا جاتا تھا۔ جنرل عبدالفتاح السیسی نے واضح طور پر ذرائع ابلاغ کو خبردار کیا کہ وہ “فوج اور سکیورٹی اداروں” کے خلاف تنقید سے مکمل گریز کریں کیونکہ ایسی صورت میں انہیں سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فوجی آمریت کے زیر سایہ میڈیا کی تیسری خصوصیت حکومت کے حق میں رائے عامہ قائم کرنا تھا۔ اس مقصد کیلئے ذرائع ابلاغ کو حکم دیا گیا کہ وہ مصری عوام کے ذہن میں یہ بات ڈالتے رہیں کہ موجودہ حکومت انتہائی کارآمد اور مفید واقع ہو رہی ہے۔ “مصر اٹھ کھڑا ہوا” یا “فوج خطے میں طاقت کا مرکز” جیسی سرخیاں دکھائی دینے لگیں۔

ابتدا سے ہی معلوم تھا کہ اگر مصر کے ذرائع ابلاغ مکمل طور پر حکومت کے زیر سایہ ہوں گے تو ان میں دیگر علاقائی اور عالمی سطح کے عرب ذرائع ابلاغ سے مقابلے کی صلاحیت ختم ہو جائے گی۔ جنرل السیسی نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے ذریعے مصر کے ڈی ام سی چینل کو قطر کے الجزیرہ چینل کے مقابلے میں لانے کی بھرپور کوشش کی لیکن انہیں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل عبدالفتاح السیسی کی پالیسیوں کی شکست اس وقت مزید واضح ہو گئی جب اسپین میں مقیم مصری فنکار محمد علی نے اپنی ایک ویڈیو جاری کی۔ 7 ستمبر 2019ء کے دن شائع ہونے والی اس ویڈیو میں السیسی کے خلاف حقائق فاش کئے گئے اور قاہرہ کے مشرق میں موجود ان کے عالی شان محلوں سے پردہ ہٹایا گیا۔ جنرل السیسی بھی ان محلوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

محمد علی کی اس ویڈیو کے بعد سوشل میڈیا جنرل السیسی کے مخالفین سے پُر ہو گیا۔ ٹویٹر اور فیس بک پر ان کے خلاف شدید مخالفت کا آغاز ہو گیا۔ اس کے بعد مصر کے مختلف صوبوں جیسے قاہرہ، الجیزہ، اسکندریہ، سویز، مغربی صوبے، دقہلیہ، القلیوبیہ، بنی سویف اور مشرقی صوبے میں شدید مظاہرے شروع ہو گئے۔ اسی طرح 25 جنوری 2011ء میں رونما ہونے والے انقلاب کے بعد قاہرہ کے التحریر اسکوائر میں سب سے بڑے مظاہرے بھی منعقد ہوئے۔ یہ عوامی احتجاج جنرل السیسی کی میڈیا پالیسی کی واضح ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مصر کے صدر اس نتیجے پر پہنچے کے میڈیا کے بارے میں ان کی موجودہ حکمت عملی عدم افادیت کا شکار ہے۔ لہذا حکومت کی جانب سے میڈیا کیلئے مخصوص کئے گئے 380 ملین ڈالر بجٹ میں کمی واقع ہوئی۔ اسی طرح اہم میڈیا عہدیداروں کو بھی برطرف کر دیا گیا۔بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply