الاؤ۔۔۔بنت الہدیٰ

(دعا زہرا کے بابا مہدی علی کاظمی کے نام)

“وجود مٹی مٹی ہوجائے تب جا کر بنیاد بنتی ہے. جان لو خاک میں مل کے ہی تعمیر ہوتی ہے ”

بوڑھے باپ نے مٹی بھرے ہاتھوں سے گارا اٹھایا.

بھٹے کے چاروں طرف زمین پہ مٹی کے ڈھیر تھے. کئی مزدور اپنے اپنے حصّے کی خاک سمیٹ رہے تھے،

مگر اس بوڑھے باپ کو دیکھتے ہی کسی داستان کا گمان ہوتا تھا اور مجھے کہانیوں سے عشق ہے۔۔

“وہ یاد آتی ہے ؟ ” میں نے پوچھا.

ان کے ہاتھ کانپنے لگے۔۔۔

“مٹی سے کھیلتی رہتی تھی

منع کرنے کے باوجود

نادان تھی نا اور کم عمر بھی

نہ جانے یہ راہ چلتی گرد کب آنکھوں میں دھول جھونک گئی اور وہ کہیں گم ہوگئی

جبکہ میرا گھر تو قریب ہی تھا۔۔۔ ”

آنکھیں بھیگ گئیں تو کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پھر گویا ہوئے

“اس کے دنیا میں آتے ہی میرے ہاتھوں کو دو ننھے ساتھی اور مل گئے تھے

بیٹیاں باپ کا کام تو نہیں بانٹتیں، مگر مزدوری کی تپش خاصی کم کردیتی ہیں

آگ پہ پانی ڈالو تو بجھ جاتی ہے نا ”

میں نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنی پیشانی کو رومال سے صاف کیا،

“باہر جیسا بھی موسم ہو

اس کے پاس ہونے سے یہاں تپش نہیں  تھی

” انہوں نے اپنا ہاتھ سینے پر مارتے ہوئے کہا۔۔۔

اور پھر وہیں بیٹھ گئے

دھول مٹی سے اَٹے اپنے کپڑوں اور بالوں کے ساتھ، ان کی پوری توجہ اپنے تیار کیے ہوئے گارے پہ تھی

جسے وہ بہت مہارت سے اب شکل میں بدل رہے تھے

“میں جانتی ہوں یہ سب آسان نہیں ہے،

ہرگز نہیں ہے،

مگر میں سننا چاہتی ہوں

سننے کے لیے ہی تو آئی ہوں ،

میں نے اپنا مدعا بیان کیا۔۔

“تم پہلی ہو جو سننا چاہتی ہو، باقی تو کریدنے کے لیے آتے ہیں

محبت کریدنے لگو تو زخم بن جاتی ہے۔۔۔ تمہیں تو علم ہو گا ”

میں انہیں کہنا چاہتی تھی کہ مجھے علم نہیں ہے، مگر میں انہیں سن رہی ہوں اور یقین کررہی ہوں،

“وہ خوبصورت تو تھی ہی، میری مکمل دنیا بھی تھی”

وہ رکے اور سوچ میں پڑ گئے۔۔۔

اس دوران انہوں نے ہاتھوں کو ذرا سا وقفہ نہیں دیا اور اپنا کام جاری رکھا۔۔

” میری ہر خوشی اُسی سے شروع ہوتی اور اُسی پر ختم، میں اس کی مسکراہٹ کے لیے کماتا اور اس کی خوشی میں لٹا دیتا۔۔

میری بچی بہت معصوم تھی

اسے اینٹوں کو شکل دینا نہیں آتا لیکن وہ مٹی کو ڈھالنا جانتی تھی تو صرف اپنے کھلونوں میں

“کیا تم میری طرح اینٹیں بنانا چاہو گی؟

میں نے ایک دن اس سے پوچھا تو وہ چمک کے بولی

“بابا اینٹ بنانے کے لیے آگ کی ضرورت پڑتی ہے۔۔

یہ جل جل کے پکتی ہیں۔ میرے کھلونے دھوپ میں ہی سوکھ جاتے ہیں، انہیں آگ نہیں چاہیے۔۔۔

” میں بھی تو یہی چاہتا تھا وہ آگ کے قریب نہ جائے وہ اسے راکھ کر دے گی۔۔ جیسے اب کر رہی ہے۔”

یہ کہتے ہوئے وہ بوجھل قدموں سے چند قدم آگے بڑھے اور ترتیب سے اینٹیں رکھیں۔۔ اور پھر کچھ دور پڑی سوکھی اینٹوں کو اٹھا اٹھا کے بھٹے کے پاس رکھنے لگے.

“آپ کے پاؤں نہیں جلتے؟ ” میں نے گرم زمین پہ پڑتے ان کے ننگے پاؤں کی طرف اشارہ کیا

“اب محسوس نہیں ہوتا ” وہ فورا بولے،

“آپ کو لگتا ہے وہ لوٹ آئے گی؟ ان کے اینٹوں کو پھینکتے ہاتھ ایک دم رکے، میری طرف دیکھا

“کیا تمہیں میری آنکھوں میں انتظار نظر نہیں آتا؟

میں ہر لحظہ منتظر ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ لوٹ آئے،

تمہیں پتا ہے، یہ اینٹیں پکنے کے بعد، چھاؤں مانگتی ہیں، چھاؤں مل جائے تو اسی پہ بس نہیں کرتیں،

کسی مکان کی دیواروں میں اپنا حصہ چاہتی ہیں،

بنیاد بنتی ہیں تب جاکر خوبصورت لگتی ہیں۔۔

وہ جب بھی لوٹ کر آئے گی اسے چھاؤں ملے گی، وہ میرے مکان کی بنیاد سے جڑ کر اسے خوبصورت گھر بنادے گی۔”

“مگر وہ کچی اینٹیں جو ٹوٹ پھوٹ جائیں ان بکھری ہوئی اینٹوں کی طرح الگ کردی جاتی ہیں پھر انہیں کسی مکان کی بنیاد میں شامل نہیں کیا جاتا ”

میں کچھ دور پڑی اینٹوں کا ذرہ ذرہ بکھرا ہوا دیکھ رہی تھی۔۔۔ یہ وہ تھیں جن کے کچے پن یا نادانی نے انہیں مکمل ہونے کے عمل سے دور کر دیا تھا،

“اسے کیا ہوا تھا؟ ” یہ میرا آخری سوال تھا.

“کسی نے جلتے بھٹے میں پکی اینٹ سمجھ کے جھونک دیا تھا۔۔۔ وہ اینٹ جس پہ محنت اک غریب مزدور کی ہوتی ہے،

جو اس کا عشق ہی نہیں اس کی ذات کا حصہ ہوتی ہے،

جسے تیار کرنے کے ہر عمل میں وہ اس کے ساتھ مٹی مٹی ہوتا ہے۔۔ مگر ابھی وہ بن بھی نہیں پائی۔۔ کہ اسے جھلسا کر اندر ہی کہیں راکھ کردیا گیا۔۔ اور اب نہیں معلوم ڈھیر کہاں ہے؟ ”

وہ وہیں بیٹھ گئے۔۔۔ تپتی زمین کا گرم فرش بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔

ان کی 14 سال کی بیٹی کو اغواء کیا گیا تھا۔۔

مگر کچھ گمراہ لوگوں کا گروہ اس جھوٹ پر بضد تھا کہ وہ خود گئی تھی۔۔ اسے کسی اور کے مکان کی بنیادوں میں لگنا تھا۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہاں باپ جیسا سائبان نہیں ہوگا اور بنا چھت کے مکان گھر نہیں زنداں کہلاتے ہیں۔

بوڑھے باپ کے گرد موجود مسلسل آگ کی تپش نے چہار جانب الاؤ روشن کر دیے تھے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے دیکھا، ان کے چاروں طرف صرف آگ ہی آگ تھی اور وہ ہر بار راکھ ہونے کے بعد اک اور وجود میں ڈھل جاتے صرف اس یقین کے ساتھ کہ وہ ان شعلوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے اسے بھی اپنے ساتھ راکھ کے ڈھیر سے نکال لائیں گے اور پھر سے ایک مکمل وجود میں ڈھال دینگے۔

Facebook Comments

بنت الہدی
کراچی سے تعلق ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply