• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مرزا غالب اور عصمت چغتائی کا جنت سے فرار (پہلا حصّہ)۔۔زاہدہ حنا

مرزا غالب اور عصمت چغتائی کا جنت سے فرار (پہلا حصّہ)۔۔زاہدہ حنا

’’بانو… جلدی سے دروازہ کھول، ہم بھیگ رہے ہیں۔‘‘
’’جانے کون عورت ہے، آواز سنی ہوئی سی لگتی ہے۔‘‘
میں نے دروازہ کھول دیا۔
لمبی سی ٹوپی اوڑھے ایک اونچا پورا آدمی تھا اور ایک موٹی سے بوڑھی عورت۔ بالکل عصمت چغتائی جیسی لگ رہی تھی۔
’’بانو‘‘۔ انھوں نے مجھے دونوں ہاتھوں سے سمیٹ لیا اور پھر غصہ میں بولیں۔

’’تیرے ہاتھ ٹوٹ گئے ہیں کیا؟ اتنی دیر لگاتی ہے دروازہ کھولنے میں۔‘‘
اب میں نے غور سے دیکھا۔
’’آپ…؟آپ… عصمت آپا…؟ ‘‘ میں خوشی کے مارے ان سے لپٹ گئی۔
میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ اب عصمت چغتائی کو دیکھوں گی۔
’’آپ یہاں کیسے آگئیں…؟ اور آپ…؟ آداب…‘‘
’’معاف کیجیے… میں نے آپ کو نہیں پہچانا…بیٹھیے نا…‘‘
’’بی بی… بہت کم لوگوں نے پہچانا ہے…‘‘ انھوں نے لاپروائی سے کہا۔
’’بانو… یہ مرزا غالب ہیں… تو ان کے بہت گن گاتی ہے نا…‘‘
’’میرزا غالب… ہمارے گھر آئے ہیں…؟‘‘ میں لڑکھڑا گئی۔ عصمت آپاکی بات پر یقین نہیں آیا… غور سے ان کی طرف دیکھا۔ شاید اسٹیج کا کوئی ایکٹر ہے۔ میک اپ بہت اچھا کیا ہے۔ بالکل غالب ہی لگ رہا ہے۔
’’تو گھبرا گئی…؟ ‘‘ عصمت آپا ہنسنے لگیں۔’’سچ مچ کے میرزا غالب ہیں۔‘‘
’’سچ مچ کے؟‘‘ میرا سر چکرانے لگا۔’’پانی لاؤں آپ کے لیے…‘‘ میں خود پانی پی کر ہوش میں آنا چاہتی تھی۔
’’بانو کے گھر میں صرف پانی ملے گا…‘‘ عصمت آپا نے منہ بناکر میرزا غالب کو دیکھا۔ وہ گھبرا کے ادھر ادھر دیکھے جارہے تھے۔ جیسے یہاں سے جانا چاہتے ہوں۔

تو کیا یہ سچ مچ کے میرزا غالب ہیں؟ اور وہ عصمت چغتائی!
’’مگر بانو کھانا بڑے مزے کا بناتی ہے۔ آج تونے کیا بنایا تھا۔ کھٹی دال…چاول…؟‘‘
گلاس میرے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔ میں خود بھی کانپ رہی تھی۔
’’دروازہ بند کردو۔ کوئی ہمیں یہاں دیکھ نہ لے۔‘‘ عصمت آپا نے مجھ سے کہا۔
’’آپ دونوں کہاں تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہم دونوں جنت سے نکل بھاگے ہیں۔ اسد اللہ خان تو ایسی جگہ جانا چاہتے تھے جہاں کوئی نہ ہو۔ مگر بارش شروع ہوگئی۔ تیرا گھر نظر آیا تو یہاں آگئے۔‘‘
عصمت آپا ڈائننگ ٹیبل سے انگور کی پلیٹ اٹھا لائیں اور غالب کے آگے رکھ دی۔
’’جنت سے…؟ آپ دونوں جنت میں تھے…؟‘‘
میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’اور کیا…؟‘‘ عصمت آپا انگور کھانے لگیں۔‘‘ مزے کررہے ہیں وہاں اسد اللہ خان… 70 حوروں کو گھیرے رہتے ہیں۔ شراب طہور میں غرق اور خس اور عنبر کی نہروں میں نہاتے ہیں۔ ابھی تک ان کے کپڑوں سے وہی خوشبو آرہی ہے۔ میرا سر چکراتا ہے اس خوشبو سے۔‘‘ عصمت آپا نے ناک پر ہاتھ رکھ کر منہ پھیر لیا۔
’’اچھا…!‘‘ میں حیران ہوکر غالب کودیکھ رہی تھی۔ بہت اداس، سرجھکائے چپ چاپ بیٹھے تھے۔

’’مگر آپ دونوں جنت میں… میرا مطلب ہے… کیسے … کیسے…؟‘‘
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا… کیا کہوں؟
’’ہم بھی حیران تھے جب جنت کے دروازے ہمارے لیے کھول دیے گئے۔‘‘ عصمت آپا نے مجھے سمجھایا۔
’’ہم تو جنت کی حقیقت سے واقف تھے۔‘‘ میرزا غالب نے آہستہ سے کہا۔
’’اسی لیے زندگی میں وہ کام کیا جو ہمیں جنت کی طرف نہ لے جائے۔‘‘
غالب نے اداس ہوکر کہا۔
’’ان کے سب دوست دوزخ میں ڈالے گئے،مگر یہ بے چارے اکیلے جنت میں تڑپ رہے تھے۔‘‘
عصمت آپا نے بڑی ہمدردی سے غالب کی طرف دیکھا، جو پانی ایسے پی رہے تھے جیسے… رات کے وقت مئے پیے، ساتھ رقیب کو لیے…
مگر بے چارے کو ساتھ ملا عصمت چغتائی کا…
میں نے عصمت آپا سے کہا۔ ’’آپ نے تو جنت کے خواب بھی نہیں دیکھے ہوں گے۔‘‘
’’تو خواب کی بات کررہی ہے بانو… میں بھی جنت میں ہوں۔‘‘
’’کیا…؟ آپ جنت میں ہیں…؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں … وہیں سے تو اسد اللہ خاں کو ساتھ لے کر آرہی ہوں۔‘‘ عصمت آپا نے ہنس کر کہا۔
’’اچھا…؟ تو آج پھر۔ حوا کے بعد ایک مرد کو۔ میرا مطلب ہے میرزا غالب کو عصمت چغتائی جنت سے نکال کر زمین پر لے آئیں…؟‘‘ میں نے ہنس کر پوچھا۔
’’اے ہٹ… میں کیوں لاتی…! وہ جو راجہ مہدی علی خان ہیں۔ وہ مولوی ملاؤں کے ساتھ دوزخ کی دیوار وں پر چڑھ کر جنت کی حوروں کو تاکتے ہیں نا۔ ہم دونوں نے ان کی خوشامد کی تو انھوں نے ہمارا ہاتھ پکڑ کے اٹھایا اور جنت سے نکال کر زمین پر پٹک دیا۔‘‘
’’مگر آپ دونوں جنت میں کیسے پہنچ گئے…؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’میں تو چلاتا رہا کہ پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق۔‘‘ غالب نے بڑی اداسی سے کہا۔‘‘ مگر منکر نکیر نہ مانے… میرے اعمال میں لکھ دیا کہ غالب کا کلام سننے کے بعد بہت سے شاعروں نے شاعری کرنے سے توبہ کرلی۔
اس طرح ان شاعروں کا کلام مشاعروں میں سننے کے بعد عذاب سے غالب نے اتنے لوگوں کو بچایا ہے۔ اس لیے جنت کے دروازے اس پر کھول دیے جائیں۔‘‘ غالب نے بڑی شرمندگی کے ساتھ کہا۔
’’اورآپ…؟ آپ جنت میں پہنچ گئیں…؟‘‘ میں نے عصمت آپا کی طرف دیکھا۔
’’ارے مجھے تو اس کہانی ’’لحاف‘‘ نے جنت میں پہنچا دیا ہے۔‘‘ عصمت آپا نے بیزاری کے ساتھ کہا۔
’’لحاف نے…؟ ‘‘میں تعجب سے عصمت آپا کو دیکھنے لگی۔ بے چاری اب سٹھیا گئی ہیں۔
’’ہاں… اس کہانی پر دنیا میں بھی مجھے کورٹ کچہری میں گھسیٹا گیا تھا۔… مرنے کے بعد بھی جانے اور کتنے گناہ میرے سر منڈھ دیے گئے۔ مجھے دوزخ کی طرف لے جارہے تھے کہ اچانک ان کی نظر ’’لحاف‘‘ پر پڑی اور پھر فیصلہ ہوا کہ یہ تو جنت میں جائے گی۔‘‘ عصمت آپا بڑی اداسی کے ساتھ کہے جارہی تھیں۔
’’مگر کیوں…؟‘‘ میں نے تعجب سے کہا۔ ’لحاف‘‘ تو … ’’لحاف ‘‘ میں تو …’’آپ نے…‘‘ اب میں مرزا غالب کے سامنے کیا کہتی کہ اس کہانی کو پڑھنے کے بعد ملاؤں، مولویوں اور نقادوں نے کتنا شور مچایا تھا۔ عصمت چغتائی کو کورٹ تک جانا پڑا تھا۔
’’جو لحاف میں چھپے رہتے ہیں عصمت نے ان پر سے لحاف اٹھا دیا۔ یہ کام اور کوئی نہیں کرسکا۔ اس لیے جنت کے دروازے عصمت چغتائی کے لیے کھول دیے گئے۔‘‘ مرزا غالب نے مسکرا کر کہا۔ (جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

(بشکریہ ۔۔روزنامہ ایکسپریس )

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply