کتھا چار جنموں کی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

 ​ڈاکٹر گو پی چند نارنگ اب نہیں رہے لیکن ان کی یاداشتیں جا بجا مییرے فیس بک کے صفحات پر بکھری پڑی ہیں۔ یہ تحریر ایک تقریر کا متن ہے جو امریکا اور کینیڈا کے فاصلے کو عبور کرتی ہوئی حرف بحرف اور صدا بہ صدا ریکارڈ کی گئی اور ٹورونٹو سے نسرین سید  (جو ہمیں بیٹیوں کی طرح عزیز ہے ) نے صفحہ ء  قرطاس پر تحریر کی۔ یہ تحریر ہمارے لیئے تو ایک سند کی طرح ہے کہ اس میں ہماری ادبی یاداشتوں پر مشتمل صخیم کتاب “کتھا، چار جنموں کی” پر ڈاکٹر نارنگ کے رائے شامل ہے (ستیہ پال آنند)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 قند مکرر کے طور ہر ایک تحریر جسے یڈیو کی وساطت سے لفظ بلفظ تقریر سے تحریر میں منتقل کیا گیا

Dr. Gopi Chand Narang’s “taqreer ki lazzat” was again proven to the audience sitting 850 miles away from him in Charlotte, N.C. The USA, the audience in Athar Razvi’s Ghalib Akademi in Mississauga, Ont. Canada.
Dr. Narang spoke on the phone verbatim and extempore – without prior notice. The subject was my book KATHA CHAR JAN MON KI published from Karachi, an informal launch ceremony of which was to be done.
He spoke so eloquently, knitting up his thoughts point-by-point that the audience felt that there was a speaker whose thought and speech were interwoven in simultaneity.
Nasreen Syed, the indefatigable compere noted it down word-for-word and then reproduced it in writing. Here is what Dr. Narang said.
خواتین و حضرات ۔۔ اطہر رضوی صاحب کمال کے آدمی ہیں ۔ مجموعہ خوبی، یہ غالب اکیڈیمی چلاتے ہیں، ہر سال مشاعرہ کراتے ہیں، اہم سماجی اور تاریخی موضوعات پر یادگار کتابیں لکھتے ہیں، گویا ہتھیلی پر سرسوں جماتے ہیں۔

ہمارے دوست ستیہ پال آنند بھی ایک ہشت پہلو (Multi Dimensional) شخصیت کے مالک ہیں۔ یہ شاعر بھی ہیں، نثر نگار بھی ہیں، افسانہ نگار بھی ہیں، انہوں نے ناول بھی لکھے ہیں اور انہوں نے تنقید بھی لکھی ہے۔

اصل میں یہ کتاب جس کا اجرا ہو رہا ہے، عام کتابوں سے ہٹ کر ہے ۔ اگر کہا جائے کہ یہ ایک غیر معمولی کتاب ہے تو اس میں کچھ مبالغہ نہ سمجھیے۔ اس لیے کہ اس میں کتھا بیان کی گئی ہے ، چار جنموں کی، چار زندگیوں کی، یا چار شخصیات کی۔ کتھا کا لفظ کتھن سے نکلا ہے، کتھن اور کہنا یا کہانی، ان سب کا مادہ ایک ہے۔ کتھا وہی نہیں جو مندروں اور عبادت گاہوں میں کہی جاتی ہے، کتھا کے معنی بیان ہیں یا بیانیہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ آٹو بائیوگرافی، خود نوشت سوانح عمری ہے مگر اس میں ناول کا سا لطف ہے۔ اور آنند صاحب ہشت پہلو شخصیت کے مالک تو ہیں ہی ۔ سو، اس کتاب میں ہر باب کی اپنی ایک انفرادیت ہے اور اس میں جو کہانی بیان کی گئی ، چار زندگیوں کی، دراصل وہ ایک ایسے شخص کی لکھی ہوئی ہے جس کے چار رخ ہیں، گویا چار باب ہیں۔ باب کے معنی دروازہ بھی ہیں۔ آنند صاحب کی شخصیت میں داخل ہونے کے لیے، اس کتاب میں آپ کو چار بڑے باب ملیں گے، چار بڑے دروازے، آپ کسی دروازے سے داخل ہو سکتے ہیں اور ان کے دل پر دستک دے سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں انہوں نے اپنی داستان، اپنا encounter ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، صحافیوں اور رنگا رنگ مصوروں کے ساتھ بیان کیا ہے جن میں بہت سے لوگوں سے میری بھی تھوڑی بہت ناسائی ہے، ان کو میں نے بھی اندر باہر سے دیکھا ہے ، لیکن آدمی کو پہچاننا اور سمجھنا آسان چیز نہیں ہے۔ آج کا شاعر ندا فاضلی کہتا ہے :

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

آپ کسی کے بارے میں لکھیے، اطہر رضوی کے بارے میں یا ستیہ پال آنند کے بارے میں، آپ کے سامنے ہزاروں تصویریں آئیں گی۔ پہلی خوبی کی بات یہ ہے کہ آنند صاحب نے جن شخصیتوں کے بارے میں لکھا ہے، کہیں ایک پیراگراف میں، کہیں دو سطروں میں، کہیں ایک صفحے میں، کہیں دو میں ، کہیں چار میں، کہیں چھ میں شخصیت کو سمیٹ دیا ہے اور اگرچہ بقول غالب ہر شخص ورق ۔ نا خواندہ ہے اور کسی کے باطن تک رسائی حاصل کرنا اور آدمی کا جو Persona ہے، اس کے پیچھے اس کی سائیکی ہے جو آنکھوں سے چُھپی رہتی ہے، اس کو سمجھنا، پہچاننا، پرکھنا اور پھر لفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ میں نے سب سے پہلے معاصرین والا باب پڑھا یعنی آخری باب سے کتاب شروع کی۔ میں حیران ہو گیا کہ طرح طرح کے لوگوں سے جو ان کے تعلقات ہیں اور جس خوبی سے انہوں نے ان کا ذکر کیا ہے، ذوق کا شعر یاد آتا ہے

اے ذوق کسی ہمدم ِ  دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات ِ مسیحا و خضر سے

آپ بھی بہت سے ایسے لوگوں سے مل پائیں گے جن کو آپ نے چلتے پھرتےے، وہ آپ کے بھی دوست ہیں اور آنند صاحب کے بھی۔ آنند صاحب نے ان لوگوں کو جس طرح دیکھا ہے، اس کو آپ دیکھیں گے تو آپ کو اور بھی خوشی ہو گی۔ معاصرین کی یہ لفظی تصویریں ہیں۔ ان لفظی تصویروں کے کھینچنے میں اطہر رضوی صاحب کو بھی کمال حاصل ہے لیکن رضوی صاحب برابر ایک خاکہ لکھتے ہیں، ایک شخصیت پر بیس صفحے، پچیس صفحے، تیس صفحے۔ یا وہ خاکہ لکھیں گے یا اس کے بارے میں مضمون لکھیں گے۔

یہاں ایک ہی کتھا میں ہزاروں کتھائیں بیان کر دی گئی ہیں۔۔۔ گویا کہ بچپن سے آخری باب تک پڑھنے کے بعد، میں نے پھر پہلا باب پڑھاجو ان کی پیدائش، ان کے گاؤں، ان کے دیہات، کھیت کھلیان، پنجاب کی مٹی، پنجاب کی زندگی کے بارے میں  ہے ،خاص طور پر نوشہرہ، اس کے بعد ان کی تعلیم اور راولپنڈی میں قیام ، خاص طور پر وہ ان کا ان شخصیتوں کو دیکھنا  ، جیسے کہ تلوک چند محروم کا ذکر کیا، جگن ناتھ آزاد کا ذکر کیا ہے، پھر جو دوسری کتھا ہے، وہ ان کا تعلیمی میدان ہے۔ جس طرح انہوں نے زندگی کا سفر طے کیا ہے۔ ایک کتھا امریکہ میں سیٹل ہونے اور یہاں پر ملازمت کرنے کے بارے میں ہے۔ ایک کتھا چندی گڑھ یونورسٹی اور پنجاب میں جا کر پڑھانے کا آغاز کرنے کے بارے میں ہے، ان تمام کالج اور یونیورسٹیوں کا ذکر ہے۔۔۔

چوتھی کتھا میں، جیسا میں ابھی عرض کر رہا تھا، بہت سے دِلی کے ادیبوں کا اور بمبئی کے ادیبوں کا ذکر ہے، جدیدیت کے فروغ کا ذکر ہے، جدیدیت اور ترقی پسندی کے ٹکراؤ کا ذکر ہے، ادبی رجحانات کا ذکر ہے، جس طرح بڑی بڑی ادبی شخصیتوں کے بُت انہوں نے بنتے اور گرتے ہوئے دیکھے ہیں اور جس طرح سے انہوں نے محنت کی ہے۔ یہ چار علاقے، چار صوبے، چار مختلف پڑاؤ، ان کی زندگی کے۔۔۔ پاکستان میں نوشہرہ سے لے کر ہندوستان میں بمبئی، دہلی، چندی گڑھ اور دیگر مقامات کے بعد واشنگٹن ڈی سی، کینیڈا میں مسی ساگا، ٹورانٹو ، یہ سب تو ہے لیکن آخر میں جو میں کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ چار جنموں کی یہ کتھا در اصل چار ملتی جلتی زبانوں کی کہانی بھی ہے، اس کا بیانیہ بھی ہے۔ آنند صاحب ان چند شخصیات میں سے ہیں جنہیں کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ ساری زندگی یہ انگریزی کے پروفیسر رہے ہیں، انگریزی پڑھاتے رہے ہیں، لیکن آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ انہوں نے پنجابی میں کتابیں بھی لکھی ہیں۔ اس کتاب میں آپ کو دوسرے جنم کی کتھا میں بہت سے پنجابی ادیبوں کا ذکر بھی ملے گا، چوٹی کے پنجابی ادیبوں کا۔ یہ انگریزی کے پروفیسر رہے ہیں، انگریزی میں لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ ان کی کئی کتابیں انگریزی میں چھپ چکی ہیں۔ انگریزی میں اپنی نظموں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ پنجابی کے بھی ادیب رہے ہیں اور اتنے ہی بڑے ادیب ۔۔ پنجابی کی کہانیاں بھی لکھی ہیں۔۔۔۔ پھر ہندی ادیبوں کا ذکر ہے اور یہ ہندی کے ادیب بھی رہے ہیں اور ہندی میں بھی ان کی کئی کتابیں اور تصانیف شائع ہو چکی ہیں

چوتھا، انگریزی، پنجابی ہندی کے علاوہ اردو جو مرکزی زبان ہے اور جو اب ان کی خاص الخاص زبان ہے اور جس کے یہ خاص الخاص شاعر ہیں، معتبر اور انتہائی سینئر۔۔ اور میرا خیال ہے کہ انکے پندرہ سے زیادہ نظموں کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور اپنی انفرادی شناخت جو انہوں نے اردو نظم گوئی میں قائم کی ہے، گویا کہ یہ وہ علاقہ ہے جو نون میم راشد، میرا جی، اخترالایمان اور منیر نیازی اور خلیل الرحمان اور شہر یار ، (کسی حد تک) ، ندا فاضلی،( کسی حد تک)، جن کا نظم کے شعرا میں خاص مقام ہے،تو چار جنموں کی کتھا، صرف چار جنموں کی کتھا ہی نہیں، یہ چار زبانوں کی کتھا بھی ہے۔ یہ پنجابی کی کتھا بھی ہے، یہ ہندی کی کتھا بھی ہے، یہ انگریزی کی کتھا بھی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ اردو کی کتھا ہے۔ انگریزی میں اب بھی لکھتے ہیں لیکن کم کم ۔ یہ اب زیادہ تر نظم نہ پنجابی میں لکھتے ہیں، نہ ہندی میں لکھتے ہیں۔ اردو اب خاص الخاص ان کا میدان ہے اور ان کی زبان ہے اور ان کی نظم نگاری کی زبان ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو گویا کہ یہ چار جنموں کی کتھا چار الگ زبانوں، ادبیات کے مختلف پڑاؤ اور زبانوں کی شخصیات کے بارے میں اس میں ہند و پاک کے حوالے ہیں ، نہ صرف یہ خود نوشت سوانح ہے، اس میں کینیڈا کے ادیبوں کا ذکر ہے، جرمنی کے ادیبوں کا ذکر ہے، ناروے کے ادیبوں کا ذکر ے اور دیگر یورپی ملکوں کے ادیبوں کے بارے میں
دنیا کی کوئی دوسری کتاب آج تک نہیں لکھی گئی۔ میں اس کتاب کی جتنی بھی تعریف کروں، کم ہے۔ میں اسے مصحفی کے لفظوں میں
’’نگار خانہ   ِ  رقصاں‘‘ ۔۔۔ کہوں گا ۔۔۔ بہت بہت شکریہ

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply