عمران خان اصل کپتان یا پھر کچھ اور؟

عمران خان کی شخصیت ایک مضمون کی محتاج نہیں۔عمران خان کی زندگی کئی پہلوؤں اور واقعات پر محیط ہے۔عمران خان کے بارے میں تنقید نگار کہتے ہیں ہیں کہ خان بڑا ضدی ہے،حکومتی وزراء خان کو ضدی خان بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ نوجوان حمایتی عمران خان کے پاس ہیں۔چاہے وہ جلسہ ہو،دھرنا ہو یا پھر فنڈریزنگ، نوجوان طبقے نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جس سے بھی سوال کیا کہ آپ عمران خان کے متعلق اتنے جذباتی کیوں ہو، اتنے پختہ یقین کیوں ہو؟
جواباً یہی کہا گیا کہ ” خان ہمارا مستقبل ہے، یہ ایماندار ہے،ڈٹنے والا ہے وغیرہ وغیرہ۔مان لیا کہ عمران خان کی شخصیت نوجوان نسل کے نزدیک انقلابی ہوگی۔لیکن اندھی تقلید کی پٹی تو زرداری صاحب کو بھی ”امام سیاست” کہلوا رہی ہے۔ تو آئیے عمران خان کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں۔کیا خان واقعی ہی انقلابی لیڈر ہے؟ کیا خان واقعی ہی آخری امید ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

میں عمران خان کی شخصیت کو تین ادوار میں تقسیم کروں گا۔پہلا دور عمران خان کا بطور کرکٹر،دوسرا دور بطور سوشل ورکر اور تیسرا دور بطور سیاست دان شامل ہیں۔ عمران خان کو بطور کرکٹر اگر پرکھا جاۓ تو خان ایک لاجواب آل راؤنڈر،بہترین باؤلر اور ورلڈ کلاس کپتان تھے۔خان کی کھلاڑی پرکھنے کی آنکھ لاجواب تھی۔یہ وہی خان تھا جس نے وسیم اکرم کو کلب کرکٹ سے اٹھا کر ایک دم بین الاقوامی کرکٹ کھلا دی،یہ وہی خان تھا جس نے درست فیصلوں کی بدولت دنیائے کرکٹ میں اپنا مقام بنایا،یہ وہی خان تھا جس نے ۱۹۹۲ء کے ورلڈکپ کے فائنل میں مڈل اوورز کی باؤلنگ جوکہ سب سے بڑا رسک تھا،وسیم اکرم کو دی اور پھر انگلینڈ سے اس ایک اسپیل کی بدولت فائنل جیتا۔ عمران خان کی بہترین لیڈر شپ اور قوت فیصلہ نے اسے دوسرے کپتانوں سے ممتاز کردیا۔ عمران خان کی بطور کرکٹر خدمات کو پرکھا جاۓ تو اس وقت تک ان کے مدمقابل کا پیدا ہی نہیں ہوا۔
عمران خان کی شخصیت کا دوسرا دور بطور سوشل ورکر ایک نہ ممکن عمل کو ممکن لانے کے مترادف ہے۔ عمران خان نے جب شوکت خانم بنانے کا اعلان کیا تو تمام ماہرین نے اس پراجیکٹ کو ناکام اور ناممکن قرار دیا۔ اتنا بڑا فلاحی منصوبہ کس طرح چلے گا؟ لیکن عمران خان کی سچ بیانی اور لگن نے اسکو کامیابی سے ہمکنار کیا۔آج شوکت خانم کراچی زیر تعمیر ہے اور اس سے پہلے لاہور اور پشاور میں کینسر کے ہسپتال کام کررہے ہیں۔ اسی طرح نمل یونیورسٹی کی تکمیل بھی ایک بہت بڑا تعلیمی اور فلاحی اقدام تھا۔ نمل جیسا بین الاقوامی معیار کا ادارہ قائم کرنا کسی بھی سوشل ورکر اور اسکی ٹیم کے لئے نا ممکن ہوتا ہے لیکن خان کی ضد اور لگن نے اسکو کامیاب کیا۔لیکن ان تمام تر کاوشوں کے باوجود اگر اس وقت کی صوبائی حکومتوں کو کریڈٹ نہ دیا جاۓ تو زیادتی ہوگی۔کیونکہ صوبائی حکومتوں نے ہی زمین کی مفت فراہمی یقینی بنائی تھی۔ عمران خان کے بطور سوشل ورکر اس ملک کی عوام پر کثیر احسانات ہیں۔ اور بطور سوشل ورکر خان ایک انقلابی ورکر کے طور پر سامنے آۓ ہیں۔
عمران خان کی شخصیت کا تیسرا دور بطور سیاستدان جوکہ اب موضوع بحث ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد نظام کی تبدیلی،اقدار کا تحفظ اور احتساب پر مبنی تھی۔عمران خان کی سیاسی جدو جہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے،اگر کوئی اور سیاستدان ہوتا تو کب کا بھاگ چکا ہوتا۔عمران نے جتنی بار سیاست میں ناکامی لی ہے ،تحریک انصاف کی تاریخ پڑھنے والا بھی ہمت ہار جاتا ہے،لیکن اس بندےنےاپنے عزم سے سب کو جھٹلا دیا۔ کپتان کی بطور سیاست دان انٹری تو دبنگ تھی،نئے چہروں والی بات بھی عام بندے کو متاثر کرتی تھی،تبدیلی کا نعرہ بھی بہت پرکشش تھا لیکن آخر کیا ہوا کہ آج عوام خان کے بارے میں گومگو کا شکار ہے۔ عمران نے کرپشن کے خلاف جنگ کا اعلان کیا جس میں ابھی تک کپتان مشغول ہے۔ عمران خان نے نئے چہروں کی بات کی تو مردا سعید،علی محمد اور شہریار آفریدی شامل ہیں۔
لیکن آخر وہ کونسی منطق ہے،کونسی مجبوری ہے؟ جس نے الیکٹ ایبلز کے آگے جھکنے پر مجبور کردیا۔ وہ کونسا عمل تھا جس نے یوٹرن پے یوٹرن کروایا؟ آج عمران خان کے دائیں،بائیں جہانگیر ترین،شاہ محمود اور شیخ رشید ہیں۔ کیا خان کی سیاسی وراثت یہ لوگ ٹھہرے ہیں،جن کو ابھی تک وزارتوں کی گود میں رہنے کے باوجود سچا پیار نہیں ملا۔ عمران خان نے بطور کرکٹر،بطور سوشل ورکر تو اس قوم کو بہت کچھ دیا ہے،لیکن بطور سیاست دان جہاں نوجوان کو شعور دیا ہے وہیں شیخ رشید جیسے مطلبی لوگ بھی دئے ہیں۔یہ وہی شیخ رشید ہے جو ماضی میں بی بی کی کردار کشی کرتا تھا اور خان کامذاق کرتا تها.
میں عمران خان سے مایوس نہیں ہوں لیکن کیا خان کا سیاسی کردار ان لوگوں کے لئے ہے؟ کہاں ہیں مراد سعید ؟ کہاں ہیں نوجوان؟ آج تحریک انصاف کی مقامی تنظیم سے لیکر مرکزی سطح تک ہر جگہ فصلی بٹیرے ،مفاد پرست لوگ ہی نظر آئیں گے۔آج تحریک انصاف کا ”پوسٹر بواۓ” شاہ محمود نظر آتا ہے۔کیا کوئی نوجوان اس بابت اہل نہیں تھا؟ مجھے آج بھی خان کی سیاست سے امیدیں وابستہ ہیں،لیکن خان کی شخصیت کے پچھلے دو کرداروں سے کم ہیں۔ اگر عمران خان واقعی کپتان کہلوانا چاہتا ہے تو پرانے لوگوں سے جان چھڑواۓ، نئے ممبران سے مشاورت رکھے، احتجاج بھی کرے لیکن سیاسی ہوکر، سیاست میں ضد لازم نہیں ہوتی۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply