چند مسائل حل،خوشحالی شروع۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

میری خادم پاکستان سے گزارش ہے کہ اگر وہ قوم، ملک اور اپنی سیاست کو بچانا چاہتے ہیں، تو تین کام کردیجئے آپ پر شکوے ختم ہوجائیں گے اور ہم انتہائی سنگین مسائل سے نکل آئیں گے۔ پہلے تو یہ ہے کہ ملک کو سولر حب بنا دیا جائے۔ فوری اس کی مینوفیکچرنگ، انڈسٹری اور درآمد پر ٹیکسز کو مکمل چھوٹ دے دی جائے تاکہ جتنی جلد ہوسکے اس کی قلت کو ختم کرکے عوام کو زندگی کی بنیادی ضرورت انرجی سے جس قدر ہوسکے چھٹکارہ مل سکے۔

اس کے لئے سولر اپلی انسز پر بھی ہر طرح کا ممکن فائدہ دیا جائے تاکہ ہر گھر تک باآسانی رسائی کو ممکن بنایا جاسکے۔ اسی طرح الیکٹرک بائیک کو چائنا کی طرز پر تمام رجسٹریشن اور ٹیکسز سے مبرا کرار دے کر اسے عام کر دیا جائے۔ اس کی قیمت عام آدمی کی پہنچ میں ہونی چاہیے۔ اسے ٹیکسی کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور سرکاری ملازمین سے لے کر عام مزدور تک اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

شور پولیوشن سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ پٹرول کی کھپت ڈرامائی طور پر کم ہو جائے گی۔ ہوسکے تو بینکنگ کو بھی ان سمال لونز جس کی انتہائی کم قسطیں ہوں کی طرف راغب کیا جائے۔ جاپان کا ایک مقولہ ہے کائزن جس کا مفہوم ہے، چھوٹے چھوٹے کاموں سے آغاز کیا جائے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھا جائے۔ یہ ترتیب بہت بڑے تجارتی انقلاب کے دروازے کھول سکتی ہے۔ اس سے لوگوں کی نقل و حرکت تیز ہوگی۔

اور اس سے معیشت پر مثبت اثرت پڑیں گے اور اگر لوگوں کی نقل وحرکت کو اس پٹرول بم کی تباہی سے آزاد نہ کروایا گیا تو ان کی جام زندگی کے ساتھ ہی معیشت بھی جام ہوکر رہ جائے گی۔ اخراجات کی زیادتی اور آمدن کی کمی نے لوگوں کو اپنوں سے دور کر دیا ہے۔ شہروں میں رہنے والے اپنوں کو ملنے کے لئے ترس رہے ہیں۔ پٹرول کی مہنگائی نے تباہی مچا دی ہے۔

لوگوں کو اس سے آزادی حاصل کرنے کی آپشن دینی ہوگی، جو سولر اور الیکٹرک کے زریعے سے ہی ممکن ہے۔ وگرنہ اس ترقی کے دور میں لوگوں کو اسی حالت میں چھوڑ کر ان کو بڑے بڑے جرائم کی طرف راغب کرنے کے مترادف ہوگا۔ ان سے فائدہ یہ ہوگا کہ انرجی کرائسز ختم ہونگے اور حکومت پر کافی اضافی ذمہ داریوں سے لے کر اخراجات تک میں کمی آئے گی، اور عوامی غیظ و غصب سے بھی نجات ملے گی۔

آئل کی امپورٹ پر خرچ ہونے والا زرمبادلہ بچے گا، لوگوں کو روزگار ملے گا، کاروبار بہتر ہونگے، لوگوں کے ایسٹس بنیں گے اور وہ اپنے اخراجات کو کم کر سکیں گے۔ لوگوں کی جیبوں پر اضافی ڈاکے کی کوشش کو ناکام کرکے ان کو خوشحالی کی طرف گامزن کیا جاسکے گا۔ نفسیاتی ہیجان کی صورتحال خوفناک حد تک قوم و ملک کو جکڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ اس سے نجات ملے گی۔

دوسرا تمام سب سڈیز کو زراعت خوراک اور بنیادی ضروریات کی چیزوں کی طرف موڑ دیا جائے، اور اس پر ایمنسٹی سکیمز متعارف کروائی جائیں۔ اس سے ملک خود کفالت کی طرف بڑھے گا، زرمبادلہ کے زخائز پہتر ہونگے، آبادی کا رجحان دیہاتی علاقوں کی طرف ہوگا، مجموعی معاشی حالت بہتر ہوگی اور مہنگائی، غربت اور بیروزگاری جیسے مسائل سے نجات ملے گی۔ بہت فائدے ہونگے میں نے چند کی طرف اشارہ کیا ہے۔

تیسرا سب سے بڑا ہمارا زریعہ آبادی ہے۔ جسے مہم دہائیوں سے اپنے لئے خطرہ سمجھتے آرہے ہیں اور ہماری درآمدات سے لے کر معاشی بوجھ تک کی بنیادی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ اس چیلنج کو اپرچیونٹی میں بدلنا ہوگا۔ انسانی وسائل کو ایسٹ بنانا ہوگا۔ ہر شہری کو کم از کم ایک ڈیجیٹل سکل سکھانا ہو گی اور پھر ان کو فری یا کم قیمت موبائل دے کر انٹرنیٹ کے زریعے سے فوری انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا سے ہم آہنگ اور اس کا حصہ بنانا ہوگا۔

دنیا کی مارکیٹ تک ان کی رسائی کو ممکن بنانا ہوگا، چھوٹے بڑے ہر ایک کو دنیا جدید کا حصہ بنانا ہوگا۔ ایک دفعہ انکو انگلی پکڑ کر چلانا سیکھا دیا تو وہ خود ہی ہواؤں میں اڑنا شروع کر دیں گے اور قوم و ملک میٹا ورس، ہواؤں کی لہروں، وی آر، ویب تھری پوائنٹ او سے مریخ تو کیا آسمانوں پر ملک و قوم سمیت اڑان پکڑ چکے ہونگے اور اقبال کا خواب ستاروں پر ڈالتے ہیں کمند کو عملی تعبیر مل چکی ہوگی۔

آزادی دیجئے اپنے شہبازوں کو کریپٹو کی دنیا میں غوطے لگانے دیجئے، چھوڑیے دقیانوسی اور کھل کر کھیلنے دیجئے نوجوانوں کو اب پگوں والوں کو سیاست سے نکال کر ٹیکنالوجی کی دنیا کے گروؤں کے حوالے کرنے کا وقت ہے۔ پاکستان کو ڈیجیٹل بنا دیا جائے۔ سافٹ وئیر، ہارڈ وئیر کو عام کرکے عوام کو گلوکل بنا دیا جائے۔ جس میں ہر شہری عمل بنیادی اور مقامی سطح پر کر رہا ہو، مگر اس کی اڑان بین الاقوامی ہو۔

کھول دیجئے اپنے تمام بیرئیرز اور تمام حکومتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو ہنگامی بنیادوں پرسافٹ وئیر سکھانے کے لئے ماہرین کو ڈیجیٹل سکلز سکھانے پر دن رات ایک کر دیجئے، کیا ڈی وی، انٹر نیٹ، ریڈیو، سوشل میڈیا سب پر چلنے والی نشریات کے زریعے علم فراہم کرنے کو جنگی بنیادوں پر شروع کر دیجئے۔ لرننگ ایپس کو عام کر دیجئے۔

سازشیں پھیلانے اور اس کی حصہ بننے والی فارغ قوم کو مصروف کر دیجئے۔ وہ کیوں سارا اپنا وقت ہب گیم پر صرف کرتے ہیں، پرون وڈیوز پر اپنا وقت، توانائیاں اور صلاحیتیں ضائع کررہے ہیں۔ ان کو ہنر دیجئے اپنا ملکی ایسٹ بنائیے اور ملک کے زرمبادلہ کے زخائر اکٹھے کرنے پر لگا دیجئے انکو۔ انٹرنیٹ کے زریعے ماحول کو بدل دیجئے۔ کیا ہوا ترقی پزیر ہیں مگر ترقی یافتہ قوموں تک رسائی دے کر قوم کے اندر آگے بڑھنے کی جستجو کو جگا دیجئے۔

انکو انٹر نیٹ کا وہ استعمال متعارف کروائیے جو ترقی کا ضامن ہے۔ سیاسی عدم استحکام، بد اخلاقی، بیروزگاری، غربت اور مہنگائی سب کا سبب صرف ہمارا ماحول ہے۔ جس میں قوم کے لاشعور سے منفی سرگرمیوں کے زریعے سے انکے اندر نفرت، شدت، دہشت، سازشوں اور مایوسیوں کو اجاگر کرکے ان کے شعور کو دبا دیا جاتا ہے۔ ان کو مثبت سوچنے، دیکھنے اور کرنے کے لئے ماحول سے کچھ ملتا ہی نہیں تو ان کے اندر آگے بڑھنے کا شوق کیسے پیدا ہوگا۔

بس ایک چھوٹی سی مثال دے کر مضمون کو اختتام کرونگا۔ آج بھی اس ترقی کے دور میں کیوں میرے ملک کا مزدور روزگار کے لئے اپنے بدن کی بولی لگوانے چوکوں میں کھڑا ہوتا ہے اور اس کو ڈھونڈنے والا پٹرول، وقت اور انرجی صرف کرکے ان کو چوکوں سے اٹھانے جاتا ہے۔ ایک مزدور کے نام پر بننے والی موبائل ایپ ملک کے سارے قرضے اتارنے کی طاقت رکھتی ہے تو پھر کیوں نہ اپنے چیف سے لے کر مزدور تک کو اس سے بہرہ ورکرکے ان کو ترقی یافتہ دنیا کا حصہ بنا دیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب انتظار کا وقت نہیں۔ ایک قومی نمائندگی مگر کمزور وجود والی حکومت کو فقط عوام کے اعتماد سے ہی مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ وگرنہ کل کے اجلاس میں جس طرح آپ نے مایوسیوں اور محرومیوں کو انگڑائیاں لیتے دیکھا ہے۔ وہ زیادہ وقت دینے کی پوزیشن میں نہیں لگتیں۔ جلدی کر لیجئے اور قوم و ملک کو ایک مثبت سمت بڑھنے کے لئے راہ دکھا دیجئے۔ اندھیروں کے ذکر کو ہی معیوب بنا دیجئے انسان کے اندر باہر کو روشن کر دیجئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply