مقدمہ عامر لیاقت حسین رحمۃ اللہ علیہ۔۔نتاشا انور

نکاح کرنا جرمِ عظیم ٹھہرا؛ نکاح سنت مطہرہ ہی نہیں انسان اور انسانیت کی فلاح و بہبود کی بنیاد بھی ہے۔ اور ایک ایسا پاکیزہ تعلق جس کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔ اللہ پاک نے ہر شے کے جوڑے بنائے تو انسان کے بھی جوڑے پہلے سے ہی لوح محفوظ میں لکھ دیے گئے ہاں ان کا ملنا زمین پر ٹھہرا اور مقرر وقت پر ٹھہرا،مگر ہم ایسے پُر فتن دور میں زندہ ہیں کہ جہاں ان عقائد اور یقین کو بے ایمانی اور قلب کی سیاہی سے صرف ختم ہی نہیں کیا گیا بلکہ ایسی وبا کی صورت میں معاشرے میں پھیلا دیا گیا ہے کہ سمجھا جاتا ہے کسی سے نکاح ہم خود اپنی مرضی سے کرتے ہیں جبکہ یہ تو اللہ پاک نے لکھ دیا ہوا ہے اور اس کا لکھا نہ کوئی بدل سکتا ہے اور وقت مقررہ سے پہلے لا سکتا ہے۔ اور اس پر مزید ظلم یہ کہ بیوہ عورت نکاح کر لے تو وہ بھی لعن طعن کی مستحق ٹھہرتی ہے اور مرد کسی کنواری لڑکی سے شادی کر لے تو اسے بھی معاذ اللہ رکیک القابات سے نوازا جاتا ہے تو پھر جائیں تو کہاں جائیں؟ کیونکہ یہ رشتہ ہم نے نہیں ،اللہ پاک نے بنانے کا حکم دیا ہے بغیر عمر کی شرائط کے۔

تو جرم یہ تھا کہ “نکاح” کرتے ہیں۔ کوئی الزام ہو تو بندہ کہتا ہے کہ الزام ہے یہ کیسا الزام ہے کہ نکاح تھا۔عزت پیسہ  دولت طاقت اختیار ہونے کے باوجود عورت کو بستر کی زینت نہیں بنایا بلکہ جیسی بھی تھی نکاح کیا اپنی عزت بنایا، مگر اللہ کے قرب میں رہنے والوں کو ہمیشہ عورت سے آزمایا گیا۔عورت نعمت صرف دنیا پرست لوگوں کے لیے ہے مگر اللہ والوں کے لیے آزمائش کے سِوا کچھ نہیں۔

ابو الحسن حرقانی(بعیت کا سلسلہ بایزید بسطامی علیہ رحمہ سے ملتا ہے) کی بیوی انتہائی بدزبان تھی اور آپ شیر کی سواری کیا کرتے تھے، کسی نے پوچھا حضور آپ کی بیوی آپ کی تذلیل کرتی ہے اور آپ جنگل میں شیر کی سواری کرتے ہیں یہ مقام کیسے ملا؟ تو فرمایا اللہ نے اس کی بدزبانی پر صبر کا مجھے اجر ولایت کے اس مقام کی صورت میں عطا کیا ہے۔ مولا حسن علیہ السلام کے لیے ان کی بیوی اس قدر سخت آزمائش تھی کہ اس نے آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو عورت سے آزمایا گیا اور تمہتوں اور بہتان کی انتہا کی گئی۔ یہ تو تھا انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ۔۔ اولیاء کرام ان کی نعلین کے وہ روشن ذرے ہیں جنھیں احادیث مبارکہ میں “ان العلماء ورثۃ الانبیاء” کہہ کر مخاطب کیا گیا،تو کیسے ممکن ہے کہ ان وارثین یعنی غلاموں کی آزمائش مختلف ہو۔

اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کی خواہش پر عورت کو انہی کی پسلی سے نکالا یعنی تخلیق کیا۔ رب العالمین فرماتے  ہیں کہ کائنات کی ہر شے میں غور و فکر کرو کہ عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جب پسلی ایک نہیں بنائی اللہ نے تو پسلی سے نکلنے والی عورت کیسے ایک ہو سکتی ہے کسی مرد کے لیے، پسلیوں کی تعداد بھی بارہ ہے اور سب کی ہیت بھی مختلف۔ سرکارِ دو عالم ﷺ نے پھر 12 کی نسبت سے عملی طور پر صرف اپنی امت کی ترغیب کے لیے 12 ازواج مطہرات سے عقد کیا اور ہم بے علم اور شعور سے کوسوں دور شور کے اندھیروں میں خود ہی کی جہالت سے الجھتے ہوؤں کو بتایا کہ نکاح؛ عمر، دولت اور ہر طرح کی ظاہری جاہ و حشمت سے بہت پاک بہت معتبر تعلق ہے۔نکاح کرتے وقت مال، حسب و نصب ،خوبصورتی اور دین (علم و تربیت) کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا مگر کہا گیا کہ دین کو ترجیح دو۔
وَاِنْ خِفْتُـمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِى الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَاِنْ خِفْتُـمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۚ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا (3)

اللہ پاک بہترین انصاف فرمانے والا ہے اور اس آیت مبارکہ میں وہ مرد اور عورت دونوں کے لیے حکم بیان کر رہا ہے کہ مرد ایک وقت میں 4 سے زائد  شادیاں  کر سکتا ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ انصاف کرے۔ انصاف کی چیزوں میں معاشرتی حقوق ہیں جن کو احسن طریقے سے پورا کر سکے تو 4 منکوحہ ایک وقت میں رکھ سکتا ہے۔
شریعت مطہرہ کا علمبردار خود کو سمجھنے والی خواتین نے یہ شریعت نہیں پڑھی کہ نکاح جائز ہے؟ اخلاقی پستی کی “سوکن” دماغ پر ایسا راج کر رہی ہے کہ مرد کو معاشرے میں چند لمحوں میں گندہ کر دیا جاتا ہے!
انصاف؟۔

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین رحمۃ اللہ علیہ سے بڑھ کر انصاف کرنے والا کون ہوگا کہ پہلی بیوی میں دین و دنیا کے علم کی میراث منتقل کر دی، 5 حج اور عمرے کروائے، انھیں پڑھایا لکھایا اور خود نہ صرف بچوں کو سنبھالا بلکہ معاشی طور پر بھی اپنا ہر فرض پورا کیا اور علیحدگی کے باوجود بھی انھیں کبھی گھر سے جانے کو نہیں کہا وہ آج بھی انھی کے گھر میں رہ رہی ہیں۔ دوسری بیوی آئیں تو ان کو شہرت کی ان بلندیوں تک پہنچایا کہ آج پہلی بیوی رمضان ٹرانسمیشن اور دوسری ڈراموں میں اپنا الگ مقام بنا چکی ہے۔کبھی کسی نے ان عورتوں نے سوال کیا کہ آپ کی پہچان جس کی وجہ سے تھی وہ خود اتنا گمنام کیوں رہا؟ کیوں انھیں چھوڑ دیا گیا؟ عورت کو عزت تحفظ پیسے خوشیوں کے علاوہ اور تو کسی شئے کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ تو بیش بہا تھی پھر کیوں چھوڑا؟ کیونکہ عورت کے خودساختہ شک اور insecurity نے یقین سے بھرے رشتے کو کبھی پنپنے ہی نہیں دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے تو آخری دم تک کسی کو بھی تنہا نہیں چھوڑا ہر طرح کے اخراجات کا بوجھ اٹھائے رکھا، مگر انھیں سب تنہا چھوڑ گئے!
پھر یہ سوچ کر نکاح کیا کہ ایک سید زادی کو پناہ دوں گا مگر انھوں نے نہ صرف نصبی دھوکہ دیا بلکہ
ھُنَ لباسُ لَکُم وَانتُم لِباسُ لھُنّ کی حرمت کو اس طرح پامال کر دیا گیا ہے کہ مرد و عورت کی تخصیص کے بغیر کسی ایک سے منسلک ہونا عیب اور غیر اخلاقی تعلقات رکھنا فخر سمجھا جانے لگا۔
جنید بغدادی علیہ رحمہ نے ایک طوائف سے شادی کی اور اس کے بطن سے 7 اولیاء پیدا ہوئے۔ہاں ڈاکٹر صاحب کے اعلیٰ مقام میں شک نہیں مگر اُس دور کی طوائف فتنوں سے دور تھی اور آج کے دور کی طوائف بذات خود فتنہ ہے۔
نکاح ہی ان کے لیے جرم بنا دیا گیا اور نکاح جیسے پاکیزہ تعلق کو اپنی گندی سوچ کے تعفن سے ایسا ڈھکا گیا کہ یہ دلائل دینے  پڑے  کہ نکاح کرنا جرم نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں کتنی علما کرام ہیں، انڈسٹری کے کتنے لوگ ہیں جن کی ایک سے  زائد شادیاں ہیں مگر ہر حلال کام پر اس قوم نے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا جینا اس قدر حرام کیا کہ انھوں نے اپنا مقدمہ اللہ پاک کی عدالت میں پیش کر دیا۔اللہ کے بتائے ہوئے رستے کو ان کے لیے تہمت اور اس پر چلنا اس قدر اذیت ناک بنا دیا گیا کہ وہ رب کی بارگاہ میں اس آزمائش پر صبر کرتے رہے جب تک دنیا میں رہے۔

نکاح کرنا گناہ نہیں، مگر مخصوص قسم کے ذہنی بیمار لوگوں نے اسے مشکل اور پیچیدہ ضرور بنا دیا ہے کہ مرد یہ سوچتا ہے کہ زنا کرنا آسان اور نکاح بہت مشکل ہے!

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ انھیں ہر معاشرتی زیادتی سہنے پر اجر عظیم عطا فرمائیں اور ان پر لاکھوں سلام اور کروڑوں رحمتیں ہر لمحہ اور تاقیامت نازل فرمائیں الہی آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply