• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انسانی بیوپار جدید غلامی کی بدترین شکل ۔۔قادر خان یوسف زئی

انسانی بیوپار جدید غلامی کی بدترین شکل ۔۔قادر خان یوسف زئی

بہتر مستقبل کے لئے محفوظ ذرائع استعمال کرنا ایک قدرتی امر ہے، تاہم فوری اور دل فریب مستقبل کے لئے غیر محفوظ راستوں سے اپنی زندگیوں کو خطرات میں ڈال کر ترقی یافتہ ممالک جانا ایک مشکل انسانی ہدف ہے جسے جان جوکھم میں ڈال کر حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔با لخصوص نوجوانوں میں بہتر مستقبل کے لئے غیر قانونی طور پر پُر خطر راستوں سے سرحدیں پار کرنے کی کوششیں زیادہ تر جانی نقصان کا سبب بنتی ہیں تو دوسری طرف ہجرت میں پناہ حاصل کرنے کے لئے ایسے راستوں کا انتخاب کیاجاتا ہے جہاں انہیں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے کے بعد مخصوص مدت تک محفوظ پناہ گاہوں میں رکھاجاتا ہے اور وہ اس موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ جہاں وہ مائیگریشن کے قوانین میں سہولت کا فائدہ اٹھاسکیں اور اس ملک میں ٹھہر سکیں جو ان کی دانست میں انہیں ایک محفوظ اور بہتر مستقبل کی ضمانت دیتا ہے۔

غیر قانونی ہجرت کے لئے امریکہ اور میکسکو بارڈر، صحرا ئے صحارا، افغانستان سے ایران،ہارن افریقہ سے یمن، اٹلانٹک روٹ سے کینری آئی لینڈ اور بحیرہ روم کو خطرناک ترین روٹس قرار دیا جاتا ہے۔ میکسیکو کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وسطی امریکہ سے امریکہ کی طرف ہجرت کا سب سے زیادہ خطرناک راستہ کیا ہوگا۔ امریکہ میں داخلے کے لئے اس راستے کا انتخاب عمومی طور پر کیا جاتا ہے۔ جیسونٹس کے لاپتہ تارکین وطن کی  تلاش کے پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2021میں میکسیکو میں 349غیر ملکی غائب ہوئے۔ 2014سے15مئی2022میں بین الاقوامی تنظیم برائے مائیگریشن کے مطابق 24023افراد بحیرہ روم کو عبور کرنے کی کوشش میں ہلاک ہوئے، اس بڑی تعداد کو 2015-16میں نقل مکانی کی وسیع نقل و حرکت سے منسوب کیا جاسکتا ہے.2014اور2022کے درمیان اس راستے پر مہاجرین کی کل اموات کے 38فیصد ان دو برسوں میں ہوئے۔

2014اور2022کے درمیان امریکہ اور میکسیکو کے درمیان سرحدی گذرگاہوں سے منسلک اموات کی تعداد3761تھی، تاہم یہ اعداد و شمار قطعی قرار نہیں دیئے جاسکتے، تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ بین الاقوامی تنظیم برائے مائیگریشن (IOM) کے اعداد و شمار نقل وحرکت کے درمیان اموات، حادثات، جہاز سے گرنے، پرتشدد حملوں اور دوران سفر طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے مرنے کے حوالے سے ہیں، جب کہ ان میں سرحدی کراسنگ سے ملنے والے لاشوں کو بھی شمار کیا جاتا ہے جنہیں تارکین وطن کی درجہ بندیوں میں رکھا گیا ہے۔ ان میں نظر بندی، پناہ گزین کیمپوں یا رہائشیوں میں ہونے والی اموات ہیں، ان میں ملک بدر کے بعد اور آئی ڈی پیز ہونے والے افراد شامل نہیں۔غیر قانونی راستوں سے مائیگریشن کرنے والوں میں صحرا ئے صحارا کو عبور کرتے وقت 5323افراد، افغانستان سے ایران کے روٹ پر1107، ہارن افریقہ سے یمن کے لئے جانے کی کوشش میں 958اور اٹلانٹک روٹس سیکینری آئی لینڈ جانے کی کوشش میں 2752افراد کو اپنی جانوں سے اب تک ہاتھ دھونا پڑے۔

گمشدہ تارکین وطن پراجیکٹ کے مطابق دنیا کے دوسرے خطوں سے 2014کے بعد سے ہزاروں اموات ریکارڈ میں آئی، افریقی براعظم میں 11400سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی، جن میں اکثر صحرائیصحارا کے ٹرانزٹ راستوں اور مغربی افریقہ سے ہسپانوی تک کے سمندری راستے میں بھی ہوئیں۔ کینری جزائر میں 2014سے اب تک ایشیا میں ہجرت کے دوران 4680سے زیادہ افراد کی اموات باقاعدہ ریکارڈ ہوئیں، ان میں اکثریت کا تعلق میانمار سے تعلق رکھتے ہیں۔ امریکہ میں 2014سے اب تک ہجرت کے دوران 6200سے زیادہ افراد کے ہلاک یا لاپتہ ہونے کی اطلاع ریکارڈ ہوئی۔ان میں 60فیصد اموات صرف میکسیکو اور امریکہ کی سرحد پر ہوئیں۔

انسانی سمگلنگ اور تارکین وطن کی سمگلنگ میں بنیادی طور واضح فرق ہے، جسے سمجھنا ضروری ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق انسانی سمگلنگ کے شکار متاثرین کو جرم کا شکار ہونے والے افراد تصور کیا جاتا ہے، جس میں سمگلر انہیں ایک ملک سے دوسرے ملک لے جانے کے لئے رقم کے معاملات طے کرتے ہیں۔ اس میں طاقت کے استعمال کے تحت، دھوکے یا دباؤ کے ذریعے جبری مشقت یا جنسی سمگلنگ، بچوں کی جنسی تجارت، گھریلو غلامی،  بچوں سے جبری مشقت، واجب الادا قرض کے حصول کے لئے فرد کے استحصال سے ہے، سرحدوں کے آر پار منظم جرائم کے تحت افراد بالخصوص عورتو ں اور بچوں کی سمگلنگ کی روک تھام کو زیادہ یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جو کسی ایسے فرد کے ساتھ کیا جاسکتا ہے جو کبھی اپنے علاقے سے باہر نہ گیا ہو۔ اس میں جھانسا اور دھوکا دے کر استعمال کرنا عمومی رجحان ہے۔ جب کہ تارکین وطن میں بین الاقوامی سرحد پار کرنے کے لئے جعلی دستاویزات کے ساتھ ایسے ذرائع استعمال کرنا، جس میں خشکی، سمندر اور فضا کے راستے شامل ہیں، تارکین وطن کا مقصد ترقی یافتہ ملک میں داخل ہوکر مائیگریشن کے قوانین کے تحت رہائش اور کام حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔

بعض ممالک میں ٹرانسپورٹیشن اور دوسرے ملک میں اپنی منزل پر پہنچ جانے کے بعد ان افراد کو باہمی رضا مندی سے رقم کے عوض محفوظ ٹھکانے مہیا کرنا بھی شامل ہوتا ہے۔ دوسرے ملک کو بھیجے جانے پر تارکین وطن کی رضامندی اور ان کے اور سمگلروں کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے جب تارکین وطن اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں اور اور سمگلروں کو پوری ادائیگی کردی جاتی ہے۔اس کے باوجود جن لوگوں کو سمگل کیا جاتا ہے انہیں انسانوں کی خریدوفروخت، ناروا سلوک اور جرائم کے شدید خطرے کا سامنا رہتا ہے، اس لیے کہ وہ غیر قانونی طور پر کسی غیر ملک میں رہ رہے ہوتے ہیں اوراُن کے ذمے سمگلروں کے بھاری واجب الا دا قرض ہوتے ہیں۔ سمگل ہونے والے تارکین وطن بعض اوقات اپنے ملک میں خون ریزی سے بچنے کے لئے بھی فرار ہوتے ہیں، کچھ لوگ محض بہتر زندگی، اقتصادی مواقع، یا بیرون ملک اپنے خاندان میں شامل ہونے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ سمگل کیے جانیوالے بعض تارکین وطن افراد کو عبوری مرحلے کے دوران یا دوسرے ملک میں پہنچ جانے کے بعد، جسم فروشی یا محنت کشوں کی خرید وفرخت کانشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس طرح یہ افراد انسانی سمگلنگ کا شکار بن جاتے ہیں۔ تاہم، سمگلنگ کے تمام واقعات میں انسانوں کی خرید و فروخت نہیں ہوتی,اور نہ ہی انسانوں کی خرید و فروخت کے تمام واقعات، تارکین وطن کی سمگلنگ سے شروع ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

انسانی سمگلنگ اور تارکین وطن کی سمگلنگ کی حقیقت، اکثر گڈ مڈ ہو جاتی ہے، اسی وجہ سے خاص طور پر پالیسی سازوں، قانون کا نفاذ کرنے والوں،امیگریشن افسروں، اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے لیے ضروری ہے کہ انہیں دونوں کے درمیان فرق کا بخوبی ادراک ہو۔ جب انسانی سمگلنگ کے متاثرین کو غلط فہمی سے، سمگل کیے جانے والے تارکین وطن سمجھا جاتا ہے تو یہ امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ انسانی سمگلنگ سے متاثرہ اصل افراد، دوبارہ استحصال کا نشانہ بن سکتے ہیں۔لہذا وہ تحفظ سہولیات یا قانونی امداد حاصل نہیں کر پائیں گے جن کے وہ مستحق ہیں اور انہی وجوہات کی بنا پر امیگریشن اور انسانی سمگلنگ کیخلاف ملکی قوانین میں، تارکین وطن کی سمگلنگ اور انسانی سمگلنگ کی تعریف اور دونوں کے لیے الگ الگ سزاؤں کو واضح کیا جانا چاہیے۔ امیگریشن افسروں، قانون کا نفاذ کرنے والوں اور عدلیہ کے اراکین کو انسانی سمگلنگ کے بارے میں تربیت دینا بھی ضروری ہے۔ تارکین وطن کی سمگلنگ سے متعلق کار روائیوں کے دوران، نفاذ قانون کے ذمے دار حکام جب کبھی تارکین وطن کو شناخت کریں تو انسانی سمگلنگ کے اور تارکین وطن کی جانچ پڑتال میں فرق ضرور کرنا چاہیے۔نجی معیشت میں بالخصوص زراعت، ماہی گیری، مصنوعات سازی، تعمیرات اور گھریلو کام کاج میں جبری مشقت کے شکار انسانی بیوپار غلامی کی بدترین شکل کو سینکڑوں برسوں سے چلی آرہی ہے۔ جدید غلامی کے خاتمے کے لئے 175175 سے زائد ممالک انسانی سمگلنگ کو روکنے، ختم کرنے اور سزائیں دینے کے اقوام متحدہ کے پروٹوکول (یو این ٹی آئی پی پروٹوکول) کی یا تو توثیق کر چکے ہیں یا اس میں شامل ہونے کی منظوری دے چکے ہیں، جس پر سنجیدگی کے ساتھ مکمل عمل درآمد کی ضرورت ہے

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply