خود انحصاری اور سپر ٹیکس۔۔نصیر اللہ خان ایڈووکیٹ

ملکی معیشت میں بے یقینی اور بے چینی میں کمی کے بجائے مزید بے اعتباری بڑھنے کے اشارے مل رہے ہیں۔ حکومت کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے عوام پر قیمتوں کی مد میں اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں تمام اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوش اڑانے  والی اضافے کئے گئے ۔ پاکستان میں اسٹاک مارکیٹ اتار چڑھاؤ کا شکار ہے کیونکہ اسٹاک مارکیٹ قیمتوں میں غیر متوقع اضافوں کے حوالے سے انتہائی حساس ہوتا ہے۔ اور کسی بھی غیر متوقع اضافے کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ کسی بھی وقت بیٹھ سکتی  ہے۔حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر صنعتوں، کارپوریٹ اداروں اور سرمایہ داروں پر 10 فیصد ‘سپر ٹیکس’ لگانے کا فیصلہ مالیاتی محصولات کو بڑھانے کے لیے  کیا گیا ہے۔ لیکن مذکورہ ‘سپر ٹیکس’ پالیسی سے پاکستانی صنعتکار بھاگنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اگرچہ نئی حکومتی شرح کے مطابق آمدن پر ٹیکس سے پاکستانی معیشت کو فائدہ ہوگا لیکن اس کے اثرات یہ نکل رہے  ہیں  کہ صنعتکار اپنے بوریا بستر گول کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اس وقت صنعتکار زیادہ ٹیکس کسی بھی طرح دینے کیلئے تیار نہیں  ہے۔ جس سے ملکی معیشت کی رہی سہی کسر پوری ہوکر معیشت مزید زبوں حالی کا شکار ہوگی۔

سپر ٹیکس کیوجہ سے سرمایہ دار کسی ایک کاروبار میں پیسے لگانے کے بجائے مختلف بے نامی کاروبار بنائیں گے، ٹیکس کی چوری کی جائیگی۔ اور یہی ٹیکس کی وصولی بلواسطہ طور پر عوام سے پوری کی جائیگی۔
اس طرح پبلک سیکٹر اداروں کو پرائیویٹائزڈ کرنے کی وجہ سے پاکستانی حکومت انتہائی ابتری کا شکار ہوئی ہے۔ جس کا اندازہ اب حکومت پاکستان کوہوجانا چاہیے۔ ملکی اداروں کیساتھ کھلواڑ اب بند ہونا چاہیے۔ اگر ملکی اداروں کو ترقی نہیں دے سکتے تو گروی رکھ کر، لیز پر دینے اور مکمل طور  پر دوسری پارٹی کو حوالے  کرنے سے حکومت پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کا کاسہ لیس بن جائیگی ۔اور دوسری صورت میں ان پبلک سیکٹر اداروں کو بند نہیں کیا جانا چاہیے۔ ان اداروں کی وجہ سے پاکستانی حکومت اور اداروں پرعوام کا اعتماد بنا رہتا ہے۔

وقتی فائدوں کیلئے ملکی اداروں کو پرائیوٹائیزکرنا ملک کو کسی بھنور میں پھینکنے کے مترادف ہے۔ اپنے  ملکی اداروں کو مضبوط بنانے کیلئے قابل ٹیم اور استعداد کار درکار ہوتی ہے۔ نا کہ ان کے برعکس ملکی اداروں کو ختم اور بیچنے کا سوچا جائے۔ لیکن افسوس پبلک سیکٹر کی مزید پرائیویٹائز کی جانے کی حکمتِ  عملی بنائی جارہی ہے ۔

حالیہ رپورٹ کے مطابق انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ چار روپے کے حساب سے قدرے اضافے  سے مستحکم ہوا ہے۔

اپنے ملکی اداروں کو گروی رکھ کر آئی ایم ایف سے امدادی قرضوں اور ڈالروں کے عوض، پٹرول، ڈیزل، سیمنٹ، سریا، کوکنگ آئل، اور ادویات وغیرہ کو مہنگا کرتے ہوئے اس کے  بدلے عوام کو خواری پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی قدر مستحکم کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر ڈالروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو کہ وہی ڈالر پاکستانی سرمایہ دار طبقہ کے پاس موجود ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط ہی ایسی ہوتی ہیں  کہ اس سے چار وناچار عوام پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ملک کو ڈیفالٹ کا خطرہ ہے۔ اس وقت حکومت پاکستان کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا انتظام نہیں ہورہا۔ کیونکہ ریاستی ملازمین کا سائز جو بڑا ہے۔ تگڑے تنخواہیں اور مراعات جو لیتے ہیں۔ دوسری صورت میں ترقیاتی بجٹ سے بھی ناگزیر کاموں کیلئے خصوصی فنڈ نکالے جاتے ہیں جو  پاکستانی حکومت پر بوجھ بنتے ہیں۔بوجھ کس طرح بنتا ہے اور کس طرح ایک کمزور معیشت کو مزید کمزور بنانے کیلئے اضافی ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنا کیسی دانشمندی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جس طرح ایک بڑی کمپنی چھوٹی کمپنی کو کھا جاتی ہے اس طرح ترقی یافتہ معیشت چھوٹی معیشت کو کھاتی ہے۔ اگرچہ عالمی معاشی پالیسیوں کو سمجھنا آسان نہیں لیکن یہ سمجھ آتی ہے کہ کس طرح ٹیکنالوجیکل ترقی یافتہ ممالک کمزور اور پسماندہ ممالک کو اپنے  زیرِ اثر لاتے ہیں۔ کمزور ممالک کی اپنی ایکسپورٹ کم ہوتی ہے اور امپورٹ سے ڈالروں میں خرید وفروخت کی وجہ سے سارے ڈالر ملکی بینکوں سے نکل جاتے ہیں۔ ایک طرف ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو دوسری طرف خود کار طریقوں سے قیمتیں آسمان کو چھوتی ہیں۔اور اس طرح ملکی خود انحصاری عالمی اداروں کی کھڑی شرائط کی نذر ہوجاتی ہیں۔

عالمی سرمایہ دار ریاستیں جو کہ اپنے ملک کی مجموعی پبلک سیکٹر کو قابو کئے ہوئے ہوتے ہیں اور اس پر اپنی معیشت کو مضبوط بناتے ہیں۔ ٹیکنالوجیکل ترقی سے زیادہ پیداوار حاصل کرتے ہیں اور جو  ملکی ضرورت کے علاوہ دوسرے ممالک کو برآمد کرتے ہیں اور اپنے ملک کیلئے کثیر زر مبادلہ کماتے ہیں۔ اس کے علاوہ آٹو موبائل، بجلی، پٹرول، برقی آلات، اور دوسری بڑی ٹیکنالوجیز سے کسی بھی ملک کی کمزور اکانومی کو خریدا جاتا ہے۔

اس تناظر میں حالیہ حکومتی لیوی ٹیکس کا مطلب ہے عوام پر ایسا بوجھ ڈالنا جو کہ عوام سے اٹھائے نہ اٹھایا جائیگا۔

خود انحصاری کیلئے اس ملک کو جس چیز کی ضرورت ہے اس پر فوکس نہیں کیا جاتا بلکہ  وہ چیزیں، نجکاریاں اور ٹیکس  متعارف کرواتے ہیں جس سے پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کے بوجھ تلے دب جائے۔

میں کھلے دل سے سمجھتا ہوں کہ حکومت پاکستان کے بیوروکریسی، سروس کیڈر، آرمی اور دیگر اداروں میں جو سروس مین کام کرتے ہیں وہی پاکستان پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں  جن  سے ملک ٹھیک نہیں ہوتا۔ ان سے ادارے نہیں سنبھالے جاتے۔

میرا خیال ہے کہ ان اداروں کے ملازمین کےسائز میں آدھے تک کمی لانا پاکستان کیساتھ نیکی ہوگی۔ تمام سول سروسز کو ایک آزاد اور خود مختار ادارے کے   حوالے  کرکے ان کی کارکردگی کو جانچنے کا طریقہ کار وضع کرنا چاہیے۔ مستحکم چیک اینڈ بیلنس سے پاکستانی معیشت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ مناپلی، ٹاؤٹ ازم اور کرپشن کا سد باب کیا جانا چاہیے۔ اداروں کیلئے سادگی، سچائی، قناعت پسندی، کفایت شعاری اور اعتدال کا نظام لانا ہوگا۔ اس مد میں تمام مستقل ملازمین   کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جائے۔ کون کرے گا یہ سب کچھ؟ کوئی بھی نہیں! سروس مین کی  تنخواہوں اور مراعات میں کمی سے پاکستانی عوام پر لایعنی بوجھ کم ہوسکتا ہے۔ جس سے پاکستان ان سروس مین کے بلیک میلنگ، مفت خوری، ریڈ ٹیپ ازم، رشوت خوری، نااہلی اور سستی وغیرہ سے بچ جائیگا اور پاکستان صحیح معنوں میں ترقی یافتہ ممالک جیسی  معیشتوں میں شامل ہوگا۔ عوام سے ٹیکس وصولی ، قیمتوں کو بڑھانا، مشکل فیصلے صرف عوام کیلئے نہیں بلکہ  ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے لئے ہونے چاہئیں ،کیونکہ   انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے۔

پبلک سیکٹر کو مضبوط بنانے کیلئے کنٹریکٹ پر بھرتیاں کی جائیں اور ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی  طالبعلموں کی ریسرچ، کام اور ان کی کنٹریکٹ بھرتیوں سے استفادہ لینے سے ملک ایک اچھی  ڈگر پر چل سکتا ہے۔ ان کے لئے شیڈ و ادارے بنائے جائیں ۔ اس لئےان قابل باصلاحیت طلباء اور فارغ التحصیل طالبعلموں کیلئے وسیع پیمانے پر کم تنخواہوں اور کنٹریکٹ پر آسامیاں نکالی جائیں۔ ان کو قومی دھارے میں شامل کرکے ملک کو ترقی کی  راہ پر لگایا جاسکتا ہے۔

نیز ‏‎پیسے  والے کروڑ پتیوں ارب پتیوں سے ٹیکس کی وصولی اس وقت ممکن ہوسکتی ہے، جب حکومت ان کو مراعات بھی دے۔ان کیلئے حدِ آمدن مقرر کرے، بے حد و حساب دولت کے ارتکاز سے مالدار، مالدار تر اور غریب، غریب تر ہورہا ہے۔

حکومت کی طرف سے ان حالات میں پرائیویٹ سیکٹر ٹرانسپورٹ کو پبلک ٹرانسپورٹ میں تبدیل کرنا دانشمندی ہوگی۔ میرا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ نجی اداروں کو قومیایا جائے بلکہ  نجی اداروں کی حوالہ افزائی سے ایک مضبوط معیشت کی داغ بیل ڈالی جاسکتی ہے۔

دوسری طرف دفاعی بجٹ کو یکسر ختم کرنا اور آرمی کے زیر اثر تمام بزنس اداروں پر سبسڈی ختم کرتے ہوئے حکومت کو ان کو ملکی اکانومی کا حصہ بنانے پر غور کرنا   چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صرف ایک مضبوط اور مستحکم پارلیمنٹ ہی ان کاموں اور پالیسیوں کو سرانجام دے سکتی ہے ۔ فی الحال مجھے ایسا کوئی انتظام ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply