جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ایک اور خط۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

قاضی صاحب کے چیف جسٹس کے نام خطوط ایک سلسلے کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ ان کی خطوط کو سنجیدہ نہیں لیا گیا وگرنہ ان کو یہ خط لکھنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی جو ہمارے نظام عدل اور اس سے جڑے دوسرے عوامل کی بے توجہی کی طرف اشارہ ہے۔ اس میں انہوں نے ججز کی ریٹائرمنٹ کے بعد مراعات کی مخالفت کی ہے جو سپریم کورٹ فل بنچ کے فیصلے سے حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ انہوں نے اسے جج کے عہدے کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنے اور انصاف کی فراہمی کے معاملات کی بجائے نظر عوامی وسائل پر رکھنے کی سوچ سے تشبیہ دیا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کا ایک جج اپنے ہی ادرارے کی سربراہ کے نام جو چند قدم کے فاصلے پر موجود ہو خط کے زریعے سے مخاطب ہو تو یہ کوئی عام یا معمولی واقعہ نہیں اور اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ کے اندر ہم آہنگی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے خطوط لکھنے کی نوبت آتی ہے اور یہ امر اس بات کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ ادارے کے انتظامی معاملات خراب صورتحال کا شکار ہیں جس سے وابسطہ انصاف کے پہلو مشکوک نظر آ رہے ہیں۔

اس سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ اگر اتنے اعلیٰ سطح کے ادارے، جس کا کام ہی انصاف، غیر جانبداری اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے، کے اندر اس طرح کے خدشات اور تحفظات پائے جاتے ہوں تو پھر باقی اداروں کا کیا حال ہو گا؟ اس سے قبل انہوں نے بنچز کی تشکیل بارے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا جس میں ججوں کے ضابطہ اخلاق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔

ان خطوط میں انہوں نے سپریم کورٹ کے انتظامی امور، ججز کی تعیناتی بارے اہلیت و تجربہ اور در پیش چیلنجز کے متعلق رولز میں ترامیم کا ذکر کیا ہے علاوہ ازیں بہتری کے بارے میں تجاویز بھی دی ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے واضح کیا کہ آئین میں ججز کی تعیناتی کی کاروائی کو خفیہ رکھنے کا کوئی جواز نہیں لہٰذا اس عمل کو شفاف بنانے کے لئے اجلاس کو لائیو سٹریم ہونا چاہیے تاکہ قوم دیکھ سکے۔

جوڈیشل کمیشن کا اجلاس پچھلے چھ ماہ سے تعطل کا شکار ہے جبکہ سپریم کورٹ میں اس وقت تین ججز کی آسامیاں خالی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ چونکہ جسٹس فائز عیسیٰ سینئر ترین جج ہیں لہٰذا رولز کمیٹی کی سربراہی ان کو سونپی جانی ہے اس لئے بھی اجلاس بلانے سے اجتناب کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جو ان کو بعض عدالتی امور سے دور رکھنے کی کوشش کی دلیل ہے۔ شائد اسی لئے جسٹس فائز عیسیٰ صاحب نے اپنی تجاویز تمام ممبران تک پہنچانے کا ذریعہ خط کو بنایا۔

ان خطوط کے اندر ججوں کی سپریم کورٹ میں ترقی کے بارے میں بھی ایسے انکشافات کئے گئے ہیں جن سے سپریم کورٹ میں تعیناتی کے عمل پر سوالات اٹھتے ہیں اور ان میں سے کئی ایک کا تعلق سابقہ سالوں کی کارکردگی سے بھی ہے۔ جس کی کاپیاں انہوں نے سابقہ دو چیف جسٹسز صاحبان کو بھی بھیجی تھیں تاکہ اگر وہ اس پر اپنا مؤقف رکھتے ہوں تو صفائی میں پیش کر سکیں۔

خاص کر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بارے ہوش ربا انکشافات کئے گئے تھے کہ کیسے غلط بیانیاں کی گئیں اور سب کچھ عوام سے خفیہ رکھا گیا جو موصوف کے نامہ اعمال میں ایک اور اضافہ ہے۔ الزامات پر تردید کا نہ آنا ان حقائق کی سچائی کی دلیل ہے جو کہ سبق آموز اور قدرت کے نظام احتساب کا مظہر ہے۔

ان خطوط میں قاضی فائز عیسیٰ کی نظام عدل کی بہتری بارے فکر مندی بھی ظاہر ہوتی ہے جس سے وہ ماضی کے اسباق کی روشنی میں موجودہ نظام میں نشاندہی کرتے ہوئے مستقبل کو محفوظ بنانے کی ایک جستجو کا اظہار کر رہے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے جسٹس نسیم حسن شاہ کا غلطیوں کے اعتراف کا بھی حوالہ دیا اور واضح کہا کہ کیا اس سے بھٹو کی زندگی واپس آ سکتی ہے؟ انہوں نے زور دیا ہے کہ ایسی غلطیوں کو دہرائے جانے کی ممکنات کا سد باب بے حد ضروری ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ اچھی سوچ، قابل اور تجربہ کار جج ہیں ان کے فیصلے، نظام عدل کے خلاف مزاحمت میں ڈھال کی علامت کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ ان کی پاداش میں ان کو ریفرنسز کا سامنا کرنا پڑا جو اپنی طبعی موت مر گئے جب کہ اس کے برعکس انصاف کو ڈاج دینے کے لئے کچھ فیصلوں کو تکنیکی طور پر ختم کیا گیا مگر ان کی مندرجات اب بھی اپنے اندر موجود انصاف کو محفوط رکھے ہوئے ہیں جو تاریخ کی امانت ہیں اور تاریخ حفاظت کرنا خوب جانتی ہے۔

اگر چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جج کے اپنے ہی ادرارے کے بارے اس طرح کے تحفظات ہوں تو پھر ادارے کی کارکردگی پر سوالات کا اٹھنا کوئی عجب بات نہیں اور اس سے آئینی ماہرین اور صحافی حضرات کی ان معلومات اور خدشات کو بھی تقویت ملتی ہے جن میں انہوں نے متعدد بار اعلیٰ عدلیہ میں صف بندی کا اظہار کیا ہے۔

اس صورتحال کے اسباب میں ایک وجہ سپریم کورٹ میں حکومت کے انتطامی امور بارے مقدمات بھی ہیں جو آج کل موضوع بحث بنے ہوئے ہیں اور آئینی ماہرین اس پر اشاروں کنائیوں میں اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ جس کا عدالت کو بھی اندازہ ہے جیسا کہ چند ہفتے قبل تحریک انصاف کے مارچ پر دائر درخواستوں کی کاروائی کے احکامات جاری کرتے ہوئے انہوں نے اس پر میڈیا میں تبصروں پر پابندی لگائی تھی۔ جس کا اظہار ان خطوط میں بھی ملتا ہے۔

خدشہ یہ بھی ہے کہ یہ تحفظات کہیں اشاروں کنائیوں کا سہارا چھوڑ کر عدالت کے سامنے آ کر کھڑے نہ ہو جائیں، اگر ایسا ہوا تو پھر ساکھ کو سنبھالنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ اپنے ایک خط میں انہوں نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ہونے والے سابقہ اجلاس میں انکی سوچ، معاملات کی سوجھ بوجھ اور سلجھانے کی اہلیت و قابلیت کی تعریف بھی کی ہے جو قاضی صاحب کی طرف سے ان پر پورے اعتماد کی دلیل ہے اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ وہ بحیثیت سربراہ عدالت عظمیٰ اینڈ جوڈیشل کمیشن ان معاملات کی درستگی میں اپنا کردار کریں گے۔

جوڈیشل کمیشن کو اس خط میں دی گئی تمام معلومات پر غیر جانبدار اور شفاف طریقے سے تحقیق کر کے مستقبل میں سدبات کے لئے اصلاحات لانی چاہیے تاکہ اداروں کے چیک اینڈ بیلنس سسٹم کو مضبوط بنا کر ہر طرح کے خدشات اور تحفظات کو ختم کیا جا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری تجویز ہے کہ عدالت عظمیٰ میں حکومتی یا انتظامی مقدمات بارے ایک سینئر ترین ججز پر مشتمل بنچ تشکیل دیا جانا چاہیے جس کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ہو۔ اس بارے کمیٹی رولز ترتیب دے سکتی ہے۔ ان مقدمات بارے عدالت عظمیٰ کی کاروائی کو لائیو سٹریم کر دیا جائے تاکہ اس کاروائی کو ہر کوئی دیکھ سکے جس سے مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کا خدشہ ختم ہو جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply