بدن (53) ۔ انگلیاں اور پیر/وہاراامباکر

آپ سے کوئی پوچھے کہ ہاتھ میں کتنی انگلیاں ہوتی ہیں؟ تو شاید آپ “دس” کہیں گے۔ اگر کہا جائے کہ پہلی انگلی کونسی ہے تو شاید ہر کوئی اپنی شہادت والی انگلی بتائے۔ اپنے ہمسائے میں رہنے والا انگوٹھا چھوڑ دیا جائے گا۔ اور شہادت کی انگلی کے ساتھ والی انگلی کونسی ہے؟ درمیان والی انگلی؟ اور یہ دلچسپ بات ہے کیونکہ یہ درمیان صرف اس وقت ہو سکتی ہے اگر انگوٹھے کو پہلی انگلی تصور کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اکثر ڈکشنریاں اس پر اتفاق نہیں رکھتیں کہ ہماری انگلیاں دس ہیں یا پھر آٹھ۔ کیونکہ انگلی کی اکثر تعریفیں انگوٹھے کو شامل نہیں کرتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اناٹومی کے اعتبار سے انگوٹھا انگلی جیسا نہیں۔ یہ ہاتھ سے جس طریقے سے جڑا ہوا ہے، وہ مختلف ہے۔ اگرچہ ہم نوٹ نہیں کرتے لیکن یہ سیدھا نہیں، سائیڈ سے جڑتا ہے۔ اگر اپنے سامنے ہاتھ پھیلائیں تو تمام اس کا ناخن آپ کی طرف رخ نہیں کرے گا۔ کمپیوٹر کے کی بورڈ پر ٹائپ کرتے وقت آپ اس کے بٹن انگلیوں کے سِروں سے دباتے ہیں لیکن انگوٹھے سے ضرب سائیڈ سے لگاتے ہیں۔ اور اس کا یہ ڈیزائن ہے جس وجہ سے ہماری گرفت بہت اچھی ہے۔ انگوٹھا گھومتا بھی بہت اچھا ہے، اور بڑے وسیع زاویے پر ہے۔
اسی opposable thumb کہتے ہیں اور یہ وہ وجہ ہے جس باعث انسان اپنے ہاتھوں سے بہت سے ایسے کام کرنے کے قابل ہیں جو کوئی اور نوع نہیں کر پاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے جسم کے دوسرے کنارے پر ہمارے پاوں ہیں جنہیں اتنی توجہ اور تعریف نہیں ملتی۔ لیکن یہ بھی زبردست ہیں۔ پیر کو تین الگ کام کرنے ہیں۔ شاک آبزوربر کا، پلیٹ فارم کا اور دھکا دینے والے عضو کا۔ آپ شاید اپنی زندگی میں بیس کروڑ قدم لیں۔ اور ہر قدم میں یہ تینوں فنکشن اسی ترتیب سے ہوتے ہیں۔
پیر کی خمیدہ شکل کسی رومی محراب کی طرح ہے اور نہ صرف بہت مضبوط ہے بلکہ لچکدار بھی اور یہ ہر قدم پر ایک سپرنگ کی طرح دھکا دیتی ہے۔ اور اس کے کمبی نیشن کی وجہ سے دوسرے کسی پرائمیٹ کے مقابلے ہماری چال کا ردھم بہتر ہے اور ایفی شنسی زیادہ ہے۔ اوسط انسان چلتے وقت ایک منٹ میں 120 قدم لیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے جسم کو مضبوطی اور چابکدستی کے درمیان توازن رکھنا ہے۔ جانور اگر زیادہ بھاری ہو گا تو اسے زیادہ مضبوط ہڈیاں درکار ہے۔ اس وجہ سے ہاتھی کا 13 فیصد ہڈیاں ہیں جبکہ چھچھوندر کا 4 فیصد۔ انسان ان کے درمیان 8.5 فیصد پر ہیں۔ اور بھاگنے دوڑنے کی قیمت ہمیں کمردرد اور گھٹنوں کی درد کی صورت میں چکانا پڑتی ہے۔
اگر ہم چوپائے ہوتے تو ریڑھ کی ہڈی کو اتنا بوجھ نہ سہارنا پڑتا لیکن دو پیروں پر چلنے کا مطلب عمر کے ساتھ ہونے والی کمردرد میں نکلتا ہے۔ ایک سے تین فیصد بالغوں کو سلپ ڈسک کی تکلیف دہ شکایت ہو جاتی ہے۔
یہی ہمارے نچلے جوڑوں کے ساتھ ہے۔ کولہے اور گھٹنے کے جوڑوں کی نرم ہڈی عمر کے ساتھ گھس جاتی ہے۔ ان کے لئے امریکہ میں ہر سال ہونے والے آپریشن کی تعداد آٹھ لاکھ ہے۔ نرم ہڈی خود کو مرمت نہیں کرتی، اس لئے اس کا اتنا طویل عرصہ رہ جانا ہی بڑی بات ہے۔ ذرا تصور کریں کہ آپ اپنی زندگی میں اپنے بوجھ تلے کتنے جوتے گھسا چکے ہیں اور پھر آپ اس بائیولوجی کی قدر کر سکیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ نرم ہڈی کو خون کے ذریعے غذا نہیں ملتی، اس لئے اس کی صحت اچھی رکھنے کے لئے جو بہترین کام آپ کر سکتے ہیں، وہ حرکت میں رہنا ہے۔ اس وجہ سے یہ ہڈی اپنی synovial fluid میں ڈوبی رہے گی۔ اور اسے خراب کرنے کے لئے جو بدترین کام آپ کر سکتے ہیں، وہ اپنا وزن زیادہ کر لینا ہے۔ آپ ایک روز دس کلوگرام کا بستہ اٹھا کر چل کر دیکھیں کہ جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ اگر آپ نے اپنا وزن نارمل سے دس کلوگرام زیادہ کر لیا ہے تو یہ جسم کو روز برداشت کرنا پڑے گا۔ اور اس وجہ سے بڑھتی عمر کے ساتھ بہت سے لوگوں کو آپریشن تھیٹر جانا پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی لوگوں کے لئے سب سے زیادہ مسئلہ ان کے کولہوں کا ہے۔ کولہے اس لئے خراب ہو جاتے ہیں کہ انہیں دو الگ کام کرنے ہیں۔ انہیں جسم کا وزن سہارنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ٹانگوں کو حرکت دینے کے قابل بنانا ہے۔ اور اس وجہ سے ران کی ہڈی کے بالائی حصہ اور کولہے کی ساکٹ کے درمیان بہت سا فرکشنل پریشر آتا ہے۔ اگر یہ گھس جائے تو یہ حرکت سموتھ نہیں رہتی اور تکلیف دینے لگتی ہے۔ بیسویں صدی کے نصف تک میڈیکل سائنس اس بارے میں کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔ کولہے کے آپریشن سے ہونے والے مسائل بہت زیادہ تھے۔
سرجری سے ملنے والا آرام مختصر مدت کا ہوتا تھا کیونکہ ہر مصنوعی میٹیریل تھوڑا عرصہ ہی چل پاتا تھا۔ پھر مانچسٹر سے تعلق رکھنے والے سرجن جان چارنلے اس کا حل نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ اس میں ہڈی کو سٹین لیس سٹیل سے تبدیل کیا گیا اور ساکٹ کو acetabulum سے اور درمیان میں پلاسٹک کی لائننگ کی گئی۔
جان چارنلے کا نام اپنے شعبے سے باہر کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ (اپنے شعبے میں ان کی بڑی عزت کی جاتی ہے)۔ لیکن دنیا میں بہت سے لوگ اپنی تکلیف رفع ہونے پر ان کے شکرگزار ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھیڑ عمری کے بعد ہم ہر سال ہڈیوں کا ایک فیصد ماس کھو دیتے ہیں۔ اور یہ وجہ ہے کہ بڑھاپے میں ہڈی کا ٹوٹ جانا اتنا عام ہے۔ اگر 75 سال کے بعد کولہے کی ہڈی ٹوٹ جائے تو 40 فیصد لوگ چلنے پھرنے سے ہمیشہ کے لئے قاصر ہو جاتے ہیں۔ دس فیصد اس کے بعد ایک ماہ کے اندر وفات پا جاتے ہیں اور تیس فیصد ایک سال میں۔
۔۔۔۔۔۔۔
تین چوتھائی مرد اور نصف خواتین ایسی ہیں جنہیں بڑھاپے میں ہڈی کی کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ اور تین چوتھائی لوگ اپنے گھٹنے میں کسی سنجیدہ مسئلے کے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور یہ معمولی بات نہیں۔
اور خاص طور پر، جب ہم اپنے لاکھوں سال قبل کے اجداد کی زندگیوں سے اپنا موازنہ کریں تو ہمارے پاس اپنے بدن کے بارے میں شکایت کرنے کو کچھ بھی نہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply