مسالہ/کمرشل فلمیں اور عوام۔۔عامر کاکازئی

برصغیر میں ہمیشہ دوسری دنیا سے مختلف فلمیں بنتی رہی ہیں۔ ان فلموں کا محور ہمیشہ غریب ہیرو اور مالدار ہیروئن یا پھر امیر ہیرو اور غریب ہیروئن اور ساتھ میں ظالم سماج کبھی باپ ،ماں کے روپ میں، کبھی کوئی ولن کبھی ظالم پولیس کبھی ظالم جاگیردار یا سرمایہ دار۔ ساتھ میں سات یا آٹھ خوبصورت دھنوں پر مبنی گانے ڈانس  کے ساتھ۔ ان کو کمرشل فلمیں یا مسالہ فلمیں بھی کہا جاتا ہے۔

مسالہ فلمیں یا کمرشل فلموں کا مطلب ہے کہ ایک ہی فلم میں سارا مسالہ موجود ہو یعنی کہ رومانس، مزاح، میوزک، ڈانس، ایکشن اور میلوڈرامہ  کی کھچڑی وغیرہ۔ عموما ً گانے اور ڈانس خوبصورت ملکی یا غیر ملکی جگہوں پر فلمائے جاتے ہیں۔ زیادہ تر فلموں کی کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں جن کو بدل بدل کر پیش کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سلطان راہی کی تمام فلموں کی کہانیاں ایک دوسرے سے ملتی جلتی تھیں۔ ایک مثال نذرلاسلام صاحب کی فلم “آئینہ”  ہے، جو کہ غریب ہیرو، مالدار ہیروئن اور ظالم سماج پر مبنی کہانی تھی۔ یہ ایک سُپر ہٹ فلم تھی۔ اس کے بعد انڈیا اور پاکستان میں اس موضوع پر لاتعداد فلمیں بنیں اور تقریباً سب کی سب سُپر ڈوپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ جن میں پیار جھکتا نہیں، راجہ ہندوستانی، قیامت سے قیامت تک، میں نے پیار کیا وغیرہ شامل ہیں۔ انڈیا میں تو کوئی بھی سٹار اپنے بچے کو جب بھی فلم انڈسٹری میں لانچ کرتا ہے تو اسی ٹرائی اینگل کا سہارا لیتا ہے۔

مسالہ فلموں میں سب سے تازہ مثال راجہ مولی کی تامل فلم آر آر آر ہے جس میں ہر قسم کا مسالہ موجود تھا جس نے اس فلم کو سپر ہٹ کیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری برصغیر کی عوام آخر یہ سب فلموں میں کیوں پسند کرتی ہے؟ برصغیر کی عوام آخر فلموں میں کیا تلاش کرتی ہے اور کیوں ؟
اس کاجواب ہے غربت اور ظلم و ستم  ۔۔بے چاری عوام سارا سارا دن محنت مزدوری کرتی ہے درست معاوضہ نہیں ملتا۔ اتنا بھی نہیں ملتا کہ تین وقت کی روٹی ، چھت اور دوا دارو مل سکے۔ اوپر سے کبھی سیٹھ کے ظلم و ستم ، کبھی جاگیردار کا غصہ اور کبھی باہر پولیس ٹھڈے مارتی ہے۔
اور جب دن بھر کی تھکن کے بعد وہ تفریح کے لیے پیسے خرچ کر کے سینما داخل ہوتے ہیں تو ہماری برصغیر کی فلموں میں اپنے سہانے سپنے تلاش کرتے ہیں۔ جو زندگی وہ جینا چاہتے ہیں وہ فلم دیکھ کر جی لیتے ہیں۔ جب وہ سمجھتے ہیں کہ کچھ نہیں بچا، سب کچھ ختم ہو گیا تو یہ فلمی ستارے ان کو ایک الگ ہی دنیا میں لے جاتے ہیں اس دنیا میں جس کی امید پر دن بھر محنت کرتے ہیں۔
چلو لے چلیں تمہیں تاروں کے اُس شہر میں
یہ دنیا ہمیں پیار نہ کرنے دے گی

یہ فلمیں ان کے لیے ایک ذہنی دارو کا کام دیتی ہیں، ان کو دیکھ کر وہ زندگی کی پریشانیوں کو بھول جاتے ہیں اور تین گھنٹے کے لیے اس انجانی دنیا کی طرف رواں  دواں ہو جاتے ہیں، جو ان کو سپنے دکھاتی ہے، اور ان کو ان سپنوں میں جینے کا موقع دیتی ہے۔

جب ان کا ہیرو ظالم تھانیدار یا ظالم جاگیردار یا سیٹھ کو مارتا ہے تو ان کو ذہنی سکون ملتا ہے کہ جو کام وہ نہیں کرسکتے ، وہ ان کا ہیرو کرتا ہے۔ وہ امیر لڑکی سے پیار نہیں کر سکتے مگر ان کا فلمی ہیرو کر سکتا ہے، وہ گانے نہیں گا سکتے اور ڈانس نہیں کر سکتے مگر ان کا ہیرو گانے بھی گاتا ہے اور ہیروئین ڈانس بھی کرتی ہے۔ غرض کہ ان کاذہنی کتھارسس ان (گھسی پٹی فلمی کہانیوں) سے پورا  ہوتا  ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ برصغیر میں آرٹ فلم یا پیریلیل فلم نہیں بنیں۔ مسالہ فلم کے ساتھ ساتھ متوازی سنیما نے بھی اپنا وجود برقرار رکھا۔ مگر زیادہ تر فلمیں یا تو ناکام رہیں یا پھر بہت کم بزنس کیا۔ ان کی ناکامی کا سبب یہ ہے کہ متوازی فلمیں حد سے زیادہ حقیقت پسند ہوتی  ہیں۔ اب ایک غریب بندہ اپنے پلے سے پیسہ خرچ کر کے وہ فلم کیوں دیکھے جو اس کو وہ ہی کہانی اور ماحول دکھاۓ جو وہ سنیما کے باہر چھوڑ کر آیا ہے۔ وہ سکون کی تلاش میں سنیما میں گھستا ہے، پیسے خرچ کرتا ہے۔ اسے فینٹسی کی دنیا میں جانا ہوتا ہے۔ جو کہ کمرشل فلمیں اسے لے کر جاتی ہیں۔

بقول مشہور کامیڈین عمر شریف کے ،لوگ پی آئی اے میں سفر اس لیے نہیں کرتے کہ اس کی ائیر ہوسٹس ویسی ہی ہوتی ہیں جیسی  وہ گھر چھوڑ کر آۓ ہوتے ہیں۔
آرٹ فلم بنگالی سنیما نے شروع کی، آرٹ کم کمرشل پر مبنی فلمیں بنائی گئیں۔ اس کی ایک بہترین مثال بمل رائے کی دو بیگہ زمین (1953) تھی، یہ ایک کمرشل اور اَرٹ فلم کا بلینڈ تھا۔ اس فلم نے 1954 کے کان فلمی میلے میں بین الاقوامی فلم کا ایوارڈ جیتا تھا۔ آرٹ فلمیں عموماً ایوارڈ جیتں ہیں۔ مگر پیسہ بنانے میں ناکام رہتی ہیں۔

ہمارے آجکل کے، موبائل پر مفت فلمیں دیکھنے والے نوجوانوں کو دلیپ کمار، امیتابھ، سلمان خان، شاہ رخ خان اور دوسرے کمرشل اداکار پسند نہیں، حتی کہ دلیپ کمار کی وفات پر ایک فلمی کرٹک نے یہ تک لکھ دیا کہ دلیپ صاحب کے پلے ایک بھی کمال کی فلم نہیں تھی۔ دلیپ صاحب اس ریجن کے پہلے چاکلیٹی ہیرو تھے جن کی فلمیں دیکھ دیکھ کر عوام اپنے ارمان پورے کرتی تھی۔ دلیپ کمار کے بعد یہ ٹائٹل راجیش کھنہ، امیتابھ، شاہ رخ خان، عامر خان اور سلمان خان کے حصے میں آیا۔ دوسری طرف پاکستان میں وہ ہی کام وحید مراد، محمد علی سنتوش کمار درپن شاید اور ندیم نے کیے۔ اسی طرح پنجابی اور پشتو فلموں میں یہ کام ایک جیسی کہانیوں میں سلطان راہی اور بدر منیر نے کیے۔ یہ دونوں جب پولیس یا کسی امیر ظالم جاگیردار کو مارتے تھے تو پورا ہال تالیوں سے اس لیے گونج اُٹھتا تھا کہ ان سینز کی وجہ سے غریب عوام کاذہنی کتھارسس  ہوتا  تھا۔

فلم بین ہمیشہ مسالہ فلمیں سنیما سے دیکھ کر یہ گاتے ہوئے نکلتے ہیں کہ

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر، کہ   دل  ابھی بھرا نہیں

Advertisements
julia rana solicitors london
یہ سب سپر سٹار اس لیے آرٹ فلم نہیں کرتے تھے یا ہیں کہ ان کی کامیابی کا تناسب کم ہو جاتا ہے اور سپر سٹار کو پوزیشن میں رہنے کے لیے ایک کے بعد ایک ہٹ فلم چاہیے ہوتی ہے۔
بقول ریمبو جب تک ہال میں تماش بین گانوں اور ہیرو کے آنے پر سیٹیاں نہ ماریں، یا ہال میں پیسے نہ اچھالیں اور بار بار فلم دیکھنے نہ  آئیں تو مطلب کہ فلم ناکام ہے۔
ایک انڈین ڈائریکٹر نے ایک بار کپل شرما شو میں کہا تھا کہ ہم فلمیں عوام کے لیے بناتے ہیں نہ کہ اپنے لیے۔ جس دن اپنے لیے بنائی تو دیکھنے والوں میں صرف ہم ہی ہوں گے۔ نوازالدین صدیقی کا کہنا ہے کہ ہم کمرشل فلمیں پیسوں کے لیے کرتے ہیں اور کبھی کبھی اپنے  کتھارسس کے لیے ایک آدھ آرٹ فلم بھی کم پیسوں یا فری میں کر لیتے ہیں کیونکہ ہم نے پہلے ہی کمرشل فلموں سے کما لیا ہوتا ہے۔

ہماری کمرشل فلموں کی کامیابی کا راز اسی غربت اور ظلم میں پوشیدہ ہے۔ جبکہ آجکل کے انٹرنیٹ پر فری میں فلمیں دیکھنے والے نوجوان زیادہ تر آسودہ حال ہوتے ہیں تو ان کے لیے ایسی فلموں میں کوئی کشش نہیں ہوتی۔ یہ مختلف کہانیوں کی طرف لپکتے ہیں جیسے کہ سپینش، فرنچ، ہالی وڈ یا پھر کورین۔تو یاد رکھیے کہ ان کمرشل فلموں پر بجائے طنز کرنے کے یا مذاق اُڑانے کے، ان کو اس غریب عوام کے لیے چھوڑ دیں۔ جوں جوں غربت کم ہوتی جائے گی ، ظلم بند ہو جائے گا، انصاف ملنے لگے گا تب تب ان ملکوں کی کہانیاں بھی بدلتی جائیں گی ۔

یہ تحریر مادھوری کی او ٹی ٹی فلم “فیم گیم” کے چند ڈائیلاگ اور زلفی کی ایک تحریر سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply