تاریخِ تدوینِ قرآن:مختصر مطالعاتی جائزہ۔۔مشرف اسد

تعارف

قرآن کریم جہاں ہماری،ایمانی، دینی، مذہبی، علمی دنیاوی  اور اخروی کتاب ہے ،وہاں یہ پچھلی تمام آسمانی کتب  کی مصدق، مؤید اور مہیمن بھی ہے ،اس عظیم  کتاب کی تدوین کا انتظام ایام  نزول ہی میں اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کے ذریعے کیا،چونکہ یہ آخری اور ابدی کتاب تھی اس لیے اللہ تعالی نے خود اعلان  فرمایا:

إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحافِظونَ[1]

بے شک ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

مگر یہ امر قابل توجہ ہے کہ اس جمع ربانی کے تحت رسولﷺ نے حفاظت قرآن کا وہ بےمثل  انتظام فرمایا کہ عہد اکرام  ہی میں قرآن کریم  کی  تحریف وتبدیلی کا خوف جاتا رہا۔ایک طرف تو صحابہ کرام کو حفظ قرآن کی ترغیب دی دوسری طرف عرب کےبےنظیرقوت حافظہ کے باوجود  کتابت قرآن کا اہتمام فرمایا  یہی وہ دو اہم انتظام ہیں جنہیں باا عتبار  ظاہرحفاظتِ قرآن کی  “اساس”قرار دیا جاسکتا ہے۔[2]

تدوین ِقرآن عہد نبویﷺ میں

(دورِ اول)

قرآن نبی محمدﷺ پر  آپکی نبوت کے 23  سالوں میں حصوں کی شکل  میں نازل ہوتا رہا۔ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا یا جب بھی اللہ تعالیٰ نبیﷺ اور ان کے اصحاب  کو نصیحت کرنا چاہتا  تو اللہ  جبرائیلؑ  کو قرآن کا ایک حصہ دے کر بھیجتا ، جسے وہ نبی ﷺ  کو سناتے ۔ اس طرح قرآن مجید پہلی وحی کی کتابوں کی طرح اپنی مکمل شکل میں ایک ہی وقت میں نازل نہیں ہوا، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ حصہ در حصہ نازل ہوا۔

قرآن کریم کی حفاظت

جب جبرائیل علیہ السلام نے سب سے پہلے قرآن کا کچھ حصہ رسول اللہ ﷺ کو  پڑھ کر سنایا  تو رسول اللہ ﷺ  نے اسے لفظ با  لفظ دہرانے لگتے تھے جس میں آپﷺ کو دشواری کاسامنا بھی ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ نے بعد میں جبریل علیہ السلام سے کہا کہ آپ ﷺکو   ایسا  کرنےسےروک دیں۔ اس کے بجائے ان سےکہا گیا کہ قرآن کو غور سے سنو۔ جب رسول اللہ ﷺ  نے ایسا کیا تو اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو بغیر کسی مشقت  کے سب کچھ  آپ کے حافظہ  میں محفوظ کردیا۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا۔

لا تُحَرِّك بِهِ لِسانَكَ لِتَعجَلَ بِه (16)إِنَّ عَلَينا جَمعَهُ وَقُرآنَهُ (17) فَإِذا قَرَأناهُ فَاتَّبِع قُرآنَهُ(18)[3]

یہ بہت ضروری تھا کہ آپ ﷺ پر جو کچھ نازل ہووہ سب یاد رکھیں، کیونکہ آپ   پڑھ لکھ    نہیں سکتے تھے۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے پوراقرآن اپنے اصحاب تک پہنچا دیا تھا ۔آپ نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بہت سے مختلف طریقے اپنائے  کہ انھوں نے اسے بالکل اسی طرح یاد کیا اور ریکارڈ کیا جیسے آپ ﷺ نے سکھا  یاتھا۔

  1. رسول اللہ ﷺ نمازوں میں قرآن کے مختلف حصوں کو بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے۔ اس طرح آپ کے اصحاب روزانہ قرآن مجید کے بعض حصے سنتے تھے۔[4
  2. اسلام میں داخل ہونے والے ہر شخص کو قرآن کے وہ حصے یاد کرائے جاتے جو انہیں روزانہ   نمازوں میں پڑھنے ہوتے۔ اس طرح مسلمان ہمیشہ قرآن کریم کے مختلف حصوں کو پڑھتے  اور پڑھاتے رہتے ۔
  3. نبی ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایاکہ ان میں سب سے بہتر وہ ہیں جنہوں نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔ آپ نے انہیں قرآن حفظ کرنے اور دوسروں کو سکھانے کے لیے اور بھی زیادہ کوششیں کرنے کی ترغیب دی۔[5]
  4. وہ لوگ جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے، رسول ﷺ  نے ان سے فرمایا کہ قرآن کے مختلف حصوں کو جیسے ہی نازل ہوا کرے ، لکھ لیں۔ رسول اللہ ﷺ  انہیں بتاتے کہ وہ آیات کو کس ترتیب سے لکھیں۔ البراء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ “گھر میں بیٹھنے والے، جہاد کرنے والوں کے برابر نہیں ہیں” تو ﷺ  نے فرمایا: فلاں کو بلاؤ۔ وہ ایک دوات  اور لکڑی کا تختہ  لے کر آیا ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: “لکھو: ‘وہ مومن جو (گھر میں) بیٹھتے ہیں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے برابر نہیں ہیں…” [6]کیونکہ اس وقت عرب میں کاغذنہیں ہواکرتا  تھا۔ جو کچھ  ان وقتوں میں میسر ہوتااس پر لکھ لیا  جاتا تھا۔ صحابہ کرام نے قرآن مجید کی آیات کھجور کے پتوں، چپٹے پتھروں، درختوں کی چھال، لکڑی، جانوروں کی خشک کھالوں، حتیٰ کہ بھیڑ یا اونٹ کے کندھے   کی ہڈی پر لکھی تھیں۔ اس طرح قرآن کریم کی آیات رسول اللہ ﷺ  کی زندگی میں  ہی مسلمانوں کے دلوں میں محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ لکھی  بھی گئیں۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں لوگ مختلف مقامات پر اسلام میں داخل ہوئے، ان میں سے صرف چند ایک نے پورے قرآن کو براہ راست رسول ﷺ  سے سنا۔ بعض صحابہ دوسروں سے بہتر حفظ کرنے کے قابل تھے۔ لہٰذا، اگرچہ ان سب نے قرآن کے کچھ حصے حفظ کیے تھے، لیکن صرف چند ہی   تھے جنہوں نےپوراقرآن حفظ کیا ۔

جب رسول اللہ ﷺ  کی وفات 632 عیسوی میں ہوئی تو ابھی پورا قرآن ایک مکمل کتابی شکل  میں نہیں جمع ہوا تھا ۔ یہ تحریری مواد کے مختلف ٹکڑوں پر ریکارڈ کیا گیا تھا اور پیغمبر ﷺ کے مختلف اصحاب کی حفاظت  میں رکھا گیا تھا۔ ہر ایک کے پاس مختلف  حصے  موجودتھے، لیکن ان میں سے کسی کےپاس پورا  نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی  کہ آنحضرت ﷺ کی وفات سے چند ماہ قبل تک قرآن مجید کی آیات نازل ہوتی رہیں، صحابہ کرام ان سب کو ایک کتاب میں جمع کرنے کے بجائےتحریر  کرنے  اور حفظ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے دور حیات میں قرآن مجید   ایک  کتابی شکل  میں جمع نہیں  ہو پایا  ۔

تدوین قرآن دور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  میں

(دورِ  دوئم)

رسول  ﷺکی وفات کے بعد جزیرہ نما عرب میں اسلام کے مخالف تین بڑے گروہ پیدا ہوئے:

  1. پہلا گروہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ رسول ﷺ کے علاوہ کسی اور کو  زکوٰۃ ادا نہیں کرنا چاہتے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ زکوٰۃ اسلام کا ایک ستون ہے جیسا کہ صلاۃ، صوم اور حج۔ اس کے بجائے وہ زکوٰۃ کو خراج کے طور پر دیکھتے تھے۔ چنانچہ جب رسول اللہ ﷺکی وفات ہوئی تو انہوں نے محسوس کیا کہ اب انہیں اس کی ادائیگی کی ضرورت نہیں رہی۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ مسلم ریاست کے خلیفہ بنے تو اس گروہ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور مسلم ریاست کو گرانے کے لیے دارالحکومت مدینہ کی طرف فوجیں بھیجیں۔ انہوں نے  زکوۃ معاف  کرنے  کا مطالبہ کیا  ، ورنہ  اسلام کے مراکز پر حملہ کر کے تباہ کر دیں گے۔[7]

2۔پہلے گروہ میں وہ لوگ شامل ہوئے جو شکست سے بچنے کے لیے دائرہ  اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ساتھ ہی وہ لوگ جو صرف اس لئے اسلام  لائے کہ اب اسلام غلبہ پاچکا تھا ۔ یہ گروہ اللہ اور اس کے رسولﷺ  پر بالکل ایمان نہیں رکھتا تھا۔ یہ  اسلام کو تباہ کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ جو کچھ کرنا چاہیں کرنے کے لیے آزاد ہوں۔ چونکہ زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے والوں کی فوجیں مضبوط دکھائی دیتی تھیں، ان میں سے  کئی منافقین نے ان کا ساتھ دیا۔

3۔ تیسرا گروہ متعدد جھوٹے نبیوں   اور ان کے پیروکاروں پر مشتمل تھا۔ نجد میں یمامہ کے علاقے میں قبیلہ بنو حنیفہ کا ایک عرب   مسیلمہ نامی  نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ عرب کے جنوبی حصے میں قبیلہ انس سے تعلق رکھنے والے ایک اور عرب نے جسے اسود کہتے ہیں نبوت کا دعویٰ کیا اور نجران اور یمن پر قبضہ کر لیا۔ شمالی عرب میں بنو تمیم قبیلے کی سجاح نامی ایک عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا اور مسلم ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ [8] ان جھوٹے نبیوں نے یہ دعویٰ کر کے لوگوں کو اسلام چھوڑنے کی دعوت دی کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر نئے قوانین نازل کیے ہیں جن میں سے زیادہ تر چیزوں کی اجازت ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ  کے ذریعے حرام کیا تھا۔   ابو بکر رضی اللہ  عنہ  کی قیادت میں س  مسلمان جزیرہ نما عرب میں اسلام کی بحالی کے لیے ان تینوں گروہوں سے لڑنے پر مجبور ہوئے۔

ان جنگوں کے دوران، جنہیں ردّہ کے نام سے جانا جاتا ہے، بہت سے ایسے لوگ مارے گئے جنہوں نے قرآن مجید کا بڑا حصہ حفظ کیا تھا۔ [9]وہ مسلمان جن کے دلوں میں بہت زیادہ قرآن تھا وہ ان انعامات کو اچھی طرح جانتے تھے جن کا اللہ نے اسلام کے لیے لڑنے والوں سے وعدہ کیا ہے، اس لیے وہ ہمیشہ تمام جنگوں میں صف اول میں رہے۔ عمر بن الخطاب  رضی اللہ عنہ نے جو کچھ ہو رہا ہے اس کے خطرے کو بھانپ لیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ اگر فوری طور پر کچھ نہ کیا گیا تو مسلمانوں کی آنے والی نسلوں سے قرآن کریم ضائع ہو جائے گا۔ وہ ابوبکر رضی  اللہ عنہ   کے پاس گئے اور انہیں مشورہ دیا کہ پورا قرآن ایک کتابی   شکل میں لکھوائیں تاکہ اسے ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ ابوبکر رضی  اللہ عنہ   نے پہلے تو ایسا کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ  نے انہیں ایسا کرنے کو نہیں کہا تھا۔ وہ دین میں کوئی نئی چیز لانے سے ڈرتے تھے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں دین کی تبدیلی سے خبردار کیا تھا۔ وہ جانتے تھے  کہ عیسائی ان سے پہلے اپنے  دین کو بدل کر گمراہ ہو چکے ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام   لائے تھے، اس لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ اس دین میں کسی قسم کی تبدیلی کے سخت خلاف تھے جیسا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا تھا۔ تاہم صورت حال پر غور و فکر کرنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا مشورہ درست تھا اور یہ حقیقت میں دین  میں تبدیلی نہیں تھی۔ رسول اللہ ﷺ  نے ان کو حکم دیا تھا کہ وہ قرآن مجید کی مختلف آیات اور ابواب کو اس وقت لکھ لیں جب یہ نازل ہو رہا تھا تاکہ اسے محفوظ رکھا جا سکے ۔  ابوبکر رضی  اللہ عنہ   نے زید بن ثابت  رضی اللہ عنہ کو پورا قرآن جمع کرنے اور لکھنے کا حکم دیا ۔ زید  رضی اللہ عنہ نے پہلے تو انہی وجوہات کی بنا پر کرنے سے انکار کر دیا جو ابوبکر  رضی اللہ عنہ نے کی تھیں، لیکن کچھ عرصے بعد انہیں بھی اندازہ ہوگیا کہ اس سے دین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی   ۔[10] زید رضی اللہ عنہ کو اس کام کے لیے درج ذیل وجوہات کی بنا پر چنا گیا:

  1. وہ قرآن کے بہترین قاریوں میں سے تھے۔[11]
  2. وہ ان چنداصحاب میں سے تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں پورا قرآن حفظ کیا تھا۔[12]
  3. وہ ان ا صحاب میں سے تھے جنہیں رسول اللہﷺ نے قرآن لکھنے کے لیے کہا تھا۔[13]
  4. وہ ان چند اصحاب میں سے تھے جب رسول اللہ ﷺ  نے اپنی زندگی کے آخری رمضان میں پورا قرآن پڑھا تو وہاں موجود تھے۔[14]

زید رضی اللہ عنہ نے اس عمل کا آغاز ان تمام مواد کو جمع کرکے کیا جن پر قرآن لکھا گیا تھا۔ اس کے بعد آپ  نے اپنے گرد ان تمام لوگوں کو اکٹھا کیا جنہوں نے  پورا  قرآن یا اس کے بڑے حصے   حفظ کر لیے تھے۔ اس کے بعد آپ نے جو کچھ لکھا تھا اس کا موازنہ اس سے کیا ۔ اگر سب راضی ہو جاتے تو اسے چمڑے کے اوراق پر لکھ دیتے،[15] اس طرح پورا قرآن کریم  خلیفہ اول کے دور میں لکھا گیا۔ اس کی تکمیل پر زید  رضی اللہ عنہ نے اسے خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ  کے حوالے کر دیا، جنہوں  نے اسے خلیفہ بننے کے دو سال بعد اپنی وفات تک رکھا۔ اپنی وفات سے ٹھیک پہلے، ابوبکر  رضی  اللہ عنہ نے قرآن کو عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیا، جنہیں آپ  نے دوسرا خلیفہ منتخب کیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے  اپنی وفات تک قرآن کا نسخہ اپنے پاس رکھا [16] ۔ اس کے بعد قرآن کریم ان کی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا گیا جو رسول اللہ ﷺ  کی ازواج  میں سے تھیں۔ حفصہ رضی  اللہ عنہ  نے قرآن مجید کو مدینہ منورہ میں اپنے گھر میں رکھا ، لیکن انہوں نے اسے ہر اس شخص کے لیے مہیا کر دیا جو اس کی نقل بنانا چاہتا تھا یا اس کی درستی کی جانچ کرنا چاہتا تھا کہ اس  نے کیا حفظ کیا ۔[17]

تدوین قرآن عہد ِعثمانی میں

(تدوینِ سوم)

خلیفہ دوم   حضرت عمر بن الخطاب رضی  اللہ عنہ  کی وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ  کے چھ مشہور صحابہ پر مشتمل ایک کمیٹی نےحضرت  عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ کو تیسرا خلیفہ منتخب کیا۔  حضرت عمر رضی  اللہ عنہ  (634-644 ء) کے دور میں اسلامی ریاست جزیرہ نما عرب کی سرحدوں سے آگے مصر، شام اور عراق تک پھیل چکی تھی۔ عثمان رضی اللہ عنہ  کے بعد کے دور حکومت میں، توسیع فارس، ہندوستان، روس، چین، ترکی اور شمالی افریقہ تک جاری رہی۔ ان علاقوں کے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا اور ابتدائی مسلمانوں سے تلاوت قرآن  سیکھی۔ قرآن کریم   سات مختلف عربی لہجوں میں پڑھا جاتا ہے ۔[18]

مسلم صوبوں میں بعض عربوں نے  اس  بات پر  فخر کرنا شروع کر دیا کہ ان  کا  لہجہ  دوسروں سے برتر ہے۔ اس کے علاوہ جب نئے مسلمان قرآن مجید کی تلاوت میں غلطی کرتے  تو بعض اوقات یہ بتانا مشکل ہو جاتا تھا کہ آیا یہ واقعی غلطی تھی یا یہ ان سات قراءتوں میں سے ایک تھی جو رسول اللہ ﷺ  نے سکھائی تھیں۔ یہ مسائل آخر کار عرب سے باہر مسلم صوبے میں الجھن کا باعث بن گئے ۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ     جب وہ عراق میں تھے تو  آپ نے اس الجھن کو محسوس کیا اور اندیشہ ظاہر کیا کہ یہ امت مسلمہ کے ٹوٹنے اور قرآن کی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔ دارالحکومت واپسی پر آپ  نے  عثمان رضی اللہ عنہ  کو جو کچھ سنا اور دیکھا اس سے آگاہ کیا۔  عثمان  رضی اللہ عنہ نے حالات کی سنگینی کو بھانپ لیا۔ مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لیے اکابر  صحابہ کو بلایا۔ [19]انہوں نے فیصلہ کیا کہ خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ  کے زمانے میں مرتب شدہ  قرآن سے سرکاری نسخے بنائیں اور لوگوں کو اس کی تلاوت تک محدود رکھیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہ سے قرآن کا اصل نسخہ طلب کیا اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو چار  علما  کی ایک کمیٹی کی سربراہی کے لیے بلایا جو سرکاری نسخوں کی تیاری کا کام سنبھالے گی۔ جب نقلیں مکمل ہوئیں تو اصل  نسخہ حفصہ رضی  اللہ عنہ  کو واپس کر دیا  گیا۔ کل سات نسخے بنائے گئے اور ایک مکہ مکرمہ، دوسرا شام، ایک بصرہ، ایک کوفہ، ایک یمن، ایک بحرین اور ایک دارالحکومت مدینہ منورہ میں رکھا  گیا ۔[20] عثمان رضی اللہ عنہ نے ہر ایک نسخہ کے ساتھ قرآن کا ایک سرکاری قاری  بھی  بھیجا تاکہ بعد میں پیدا ہونے والی پریشانیوں کو دور کیا جا سکے۔ لوگوں نے اپنی ذاتی کاپیوں پر نوٹ بنوائے تھے اور کچھ کاپیاں نامکمل تھیں۔[21] اس کے بعد تمام نئی کاپیاں سرکاری کاپی سے بنوائی گئیں، جسے مصحف ِعثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ اس طرح قرآن کسی قسم کی تبدیلی اور نقصان سے محفوظ رہا۔ یہ عمل 646 عیسوی میں عثمان رضی اللہ عنہ کے   خلیفہ بننے کے دو سال بعد مکمل ہوا۔

حرف آخر

اہمیت حفاظت قرآن مجید یہ ہے کہ اس وجہ سے اسلام اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے ۔ انسانیت ہمیشہ مآخذ اسلام   کی طرف لوٹ سکتی ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ لوگ وقت کے ساتھ کیا تبدیلیاں کریں یا کیا بھول جائیں ۔ اسلام کے تمام اہم  اصول وقوائد  قرآن کریم میں موجود ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم کی حفاظت سے مراد اسلام کا  آخری شکل میں تحفظ ہے۔ عیسی ؑ کی انجیل کے ضائع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عیسائی کبھی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقی تعلیمات کی طرف واپس نہیں آسکتے سوائے اسلام کو قبول کرنے کے۔ [22]اسی طرح اصل تورات اس وقت ضائع ہو گئی تھی جب بیت المقدس   میں ہیکل سلیمانی کو بابلیوں نے تباہ کیا تھا۔[23]گویا  یہودی اسلام کو   مانے بغیر حضرت موسیٰؑ کی تعلیمات پر ایمان   نہیں لاسکتے ۔ یہ صرف اسلام ہے کہ  جس نے انبیاء کی خالص تعلیمات کو بغیر کسی تبدیلی کے محفوظ کیا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ    اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد  فرمایا:

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّـٰهِ الْاِسْلَامُ ۗ [24]

کتابیات

1۔ سورہ حجر:9

2۔ احمد، اعظمیٰ  ،موالانا ، مصباحی ،تدوین قرآن ،مکتبہ  اعلیٰ حضرت  ،لاہور پاکستان ،2008ء،ص 17

3۔ سورہ القیامۃ :16-18

4۔ مسلم  ،بن حجاج،امام ،صحیح مسلم ، مطبع جامع صدیقیہ ،گجرانوالہ ،س،ن،ج2 ،حدیث 1893

5۔ بخاری ،محمد بن اسمائیل ،امام ،صحیح بخاری ،دار الشاعت ،کراچی ،1985ء،ج6،حدیث 116

6۔ایضاً،ج6،حدیث 118

7۔ ابن   کثیر ،عمادالدین ،البدایہ والنہایہ ،دار الھیان ،دبئی،1996ء، ج 6 ص 380

8۔ایضاً ،376-379

9۔ بخاری ،محمد بن اسمائیل ،امام ،صحیح بخاری ،دار الشاعت ،کراچی ،1985ء،ج6،حدیث 509

10۔ایضاً

11۔ عبد الرحمن،سیوطی ،الاتقان فی علوم القرآن ، دار الطورات ،قاہرہ، حلبی پریس ،1978ء،ج1،ص 199

12۔ بخاری ،محمد بن اسمائیل ،امام ،صحیح بخاری ،دار الشاعت ،کراچی ،1985ء،ج6،حدیث 525

13۔ایضاً ،116-117

14۔ عبد الرحمن،سیوطی ،الاتقان فی علوم القرآن ، دار الطورات ،قاہرہ، حلبی پریس ،1978ء،ج1،ص 142

15۔ ترمذی،ابو عیسیٰ،محمد بن عیسیٰ ،جامع تر مذی ،اسلامی کتب خانہ ،لاہور ،س، ن،حدیث 2479

16۔ ابن   کثیر ،عمادالدین ،البدایہ والنہایہ ،دار الھیان ،دبئی،1996ء، ج 6 ص 166

17۔ بخاری ،محمد بن اسمائیل ،امام ،صحیح بخاری ،دار الشاعت ،کراچی ،1985ء،ج6،حدیث 201

18۔ احمد، اعظمیٰ  ،موالانا ، مصباحی ،تدوین قرآن ،مکتبہ  اعلیٰ حضرت  ،لاہور پاکستان ،2008ء،ص 79،81

19۔ بخاری ،محمد بن اسمائیل ،امام ،صحیح بخاری ،دار الشاعت ،کراچی ،1985ء،ج6،حدیث 201

20۔ عبد الرحمن،سیوطی ،الاتقان فی علوم القرآن ، دار الطورات ،قاہرہ، حلبی پریس ،1978ء،ج1،ص 172

21۔ بخاری ،محمد بن اسمائیل ،امام ،صحیح بخاری ،دار الشاعت ،کراچی ،1985ء،ج6،حدیث 501

Advertisements
julia rana solicitors
  1. The Five Gospels’ (34):28.
  2.  The New Encyclopedia Britannica. Chicago: Encyclopedia Britannica, 15th ed, 1991

24۔ سورۃ آلِ عمرآن:19

Facebook Comments

Musharaf asad
جامعہ کراچی,شعبہ علوم اسلامیہ کا ایک طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply