ان دنوں سوشل میڈیا پر چائے کی پیالی موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں مسلم لیگ ن کے رہنماء وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے میڈیا پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ” ملک کی معیشت کی بحالی کے لیے چائے کی ایک ایک پیالی کم پینی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کیوں کہ ہم چائے درآمد کرتے ہیں جس پر بہت سا زر مبادلہ خرچ ہوجاتا ہے۔ اور یہ ہم قرض کے پیسوں سے در آمد کرتے ہیں۔ جبکہ آج ملک جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے اس سے نکلنے کے لیے قوم کو چائے کی ایک ایک پیالی کم پینی چاہیے۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور جب حکومت میں ہوتے ہیں تو بڑے بڑے مشورے دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سیاستدان نہ تو اپنے دعوؤں پر پورے اترتے ہیں اور نہ ہی اپنے مشوروں پر خود عمل کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے مسلسل کفایت شعاری ، سادگی اور بچت کے راگ الاپ رہی ہے۔ مگر عملی طور پر کوئی ایک اقدام ایسا نہیں جسے دیکھ کر کہا جا سکے کہ حکومت واقعی کفایت شعاری کی راہ پر چل پڑی ہے۔ البتہ عوام کے لیے روز کوئی نہ کوئی مشورہ ضرور آجاتا ہے۔ احسن اقبال والے چائے کے مشورے سے پہلے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی مشورہ دے چکے ہیں، کہ اگر چار بھائی مل کر ایک روٹی کھائیں تو بچت ہوسکتی ہے۔ جبکہ خواجہ آصف نے بچت کے لیے ایک سالن پکانے کا مشورہ دیا ہے۔ اب بھلا منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے، اور ملازموں کی فوج میں رہنے والے سیاستدانوں کو یہ بات کیسے معلوم ہوسکتی ہے، کہ چولہے کیسے جلتے ہیں، روٹی کیسے پکتی ہے اور سالن کیسے بنتے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے تو گھر کا چولہا جلانا مشکل ہے، اور یہ کہتے ہیں چائے کم کرو، سالن کم کرو۔ ایک سالن کم کرنا تو در کنار عام لوگ بیچارے تو سالن پکانے سے بھی قاصر ہیں۔ بلکہ اکثریت تو ایسے لوگوں کی بھی ہے،جو چائے کے ساتھ روٹی کھا لیتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ہمارے ایسے عام لوگوں کی سب سے بڑی عیاشی چائے کی ایک پیالی ہے۔ اور ہمارے سیاستدان اس عیاشی سے بھی محروم کرنا چاہتے ہیں۔
عدم اعتماد کی کوکھ سے جنم لینے والی حکومت میں سب سے بڑھ کر اعتماد کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی لوگ ہیں۔ جو سابقہ دور میں پیٹرول چار روپے لیٹر مہنگا ہونے پر سڑکوں پر آجاتے تھے۔ ملین مارچ کرتے تھے ۔ مہنگائی مارچ کرتے تھے ۔ اپنی تقریروں اور بیانات میں کہا کرتے تھے کہ عمران خان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کا جینا محال ہو چکا ہے ۔ معیشت تباہ ہوچکی ہے۔ برسر اقتدار اتحادی جماعتوں کے مختلف رہنماؤں کے بیانات آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں کہ ہمارے پاس تجربہ ہے ، معاشی ماہرین کی ٹیم ہے۔ اگر ہمیں اقتدار مل جائے تو ہم ملک کی معیشت کو درست راہ پر گامزن کریں گے اور عام لوگوں کی حالت زار میں بہتری لائیں گے۔ مگر آج ان کے تمام تر تجربہ کاری اور معیشت دانی کی تان چائے کی پیالی پر آ کر ٹوٹ رہی ہے۔
مان لیتے ہیں سابقہ حکومت کی معاشی پالیسیاں غلط تھیں، مگر سوال یہ ہے موجودہ حکومت نے آکر کون سا تیر چلایا ہے کون سی مختلف معاشی پالیسی دے دی ہے جس سے یہ امید رکھی جا سکے کہ عام آدمی کی حالت زار میں بہتری آئے گی۔ بلکہ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے ملک کو مزید سنگین صورتحال سے دو چار کر دیا ہے ۔ پاکستانی كرنسی زمین بوس اور ڈالر آسمان کو چھو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے حکم پر موجودہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 84 سے 100 روپے تک اضافہ کر چکی ہے۔ ابھی 50 روپے مزید لیوی لگانے کی یقین دہانی کرا چکی ہے۔ بجلی کی فی یونٹ قیمت اور گیس کی قیمتیں مسلسل اوپر جا رہی ہیں۔ کھاد ، بیج زرعی ادویات ، زرعی آلات کسان کی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں۔ انسانی جان بچانے والی ادويات ، اشیاء ضروریہ اور اشیاء خوردنوش سمیت ضرورت زندگی کی کوئی چیز ایسی نہیں جس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ نہ ہو چکا ہو۔ پاکستان آج جس سنگین صورتحال سے گزر رہا ہے۔ ایسی صورتحال کبھی دیکھی نہ سنی ۔ غیر یقینی ایسی ہے کہ ہر گزرتے لمحے ایک انجانا خوف طاری رہتا ہے کہ نہ جانے آگے کیا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ معاشی بحران تو پچھلے کئی ماہ سے سر اٹھا رہا تھا۔ تو ایسی کیا مجبوری تھی کہ ملک کو سیاسی بحران سے بھی دوچار کر دیا گیا ۔ تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کے بعد موجودہ حکمران حکومت بنانے میں تو کامیاب ہوگئے مگر تلخ حقیقت یہ ہے پاکستان کی تاریخ کے یہ دن ناکام ترین دن ہیں ۔ اور آج یہ حکمران کہہ رہے ہیں کہ ہم سابقہ حکومت کی پالیسیوں اور معاہدوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ سابقہ حکومت ہمارے لیے سرنگیں بچھا گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان کی پالیسیوں اور معاہدوں کو ہی آگے بڑهانا تھا تو عمران خان کو ہٹانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ کام تو عمران خان بھی کر سکتا تھا۔ اگر معیشت کی بحالی کے نام پر مہنگائی کا تمام بوجھ عوام نے ہی اٹھانا تھا تو یہ بوجھ عوام عمران خان کی حکومت میں بھی اٹھا سکتی تھی۔
ہاں اگر موجودہ حکمران ملک کو معاشی بدحالی سے بچانا چاہتے ہیں تو عوام کو چائے کم کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے پہلے اپنے کھابے بند کریں ۔ اپنی مفت بجلی اور مفت پیٹرول بند کریں۔ کیونکہ یہ پیٹرول نہیں جلتا عوام کا خون جلتا ہے ۔ سکیورٹی کے نام پر اپنا ناجائز پروٹوکول ختم کریں۔ اپنی تنخواہیں رضا کارانہ طور پر کم کریں۔ اپنے ٹی اے ڈی اے اور الاؤنسز ختم کریں۔ کیونکہ اگر عوام چائے کم کر بھی دیں تو اس وقت تک معاشی بدحالی خوشحالی میں نہیں بدل سکتی جب تک حکمران اپنی شاہانہ طرز زندگی نہیں بدلیں گے۔ اپنی بادشاہانہ سوچ نہیں بدلیں گے۔ کیونکہ اب تک سادگی اور کفایت شعاری کےا علان کردہ اقدامات کے اثرات حکمرانوں میں تو دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے البتہ حکمران جس سادگی اور معصومیت کے ساتھ مہنگائی میں جو اضافہ کر رہے ہیں عوام اس کے بوجھ تلے ضرور سسک رہے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں