رودادِ سفر (35) ۔۔شاکر ظہیر

تائیوان بھی کبھی چائنا کا حصہ تھا اور اب بھی دونوں ایک دوسرے پر ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ میرے سفر تائیوان کے دوران شاید توجہ اس حد تک نہ تھی کہ تفصیل سے تائیوان میں مسلمانوں کے بارے میں جان سکوں ۔ تائپے شہر کی بڑی مسجد میں تین چار دفعہ جانا ہوا لیکن اس وقت کسی لوکل چائنیز مسلمان سے ملاقات نہ ہو سکی ۔ صرف ایک جمعہ والے دن ایک لوکل چائنیز مسلمان کو دیکھا جو اپنی ٹیکسی میں مسجد نماز پڑھنے آئے اور نماز ادا کرے اپنی ٹیکسی میں بیٹھ کر چلے گئے ۔ وہ اور ان کی ٹیکسی کا تصور آج تک میرے ذہن میں ہے ۔
بعض دوستوں سے سنا کہ تائپے شہر ہی میں ایک دوسری مسجد بھی ہے لیکن وہاں کا امام عجیب و غریب نیچر کا ہے اور مسلمان لگتا نہیں ہے ۔ لیکن اس مسجد میں جانے کا اتفاق نہیں ہو سکا ۔ کچھ اور دوستوں سے معلوم ہوا کہ کچھ لوکل چائنیز مسلمان بھی ہیں لیکن کہاں ، کس حال میں کچھ پتہ نہ چل سکا ۔
پھر تائیوان کے چائنیز کا رویہ اور سوچ اس چائنا کے چائنیز سے ایک سو اسی درجے مختلف تھی ۔ وہ لوگ انتہائی مہذب ، سلیقہ شعار ، محبت کرنے والے ، انسانیت کی قدر کرنے والے ، سیاسی شعور رکھنے والے تھے ۔ جبکہ یہ تمام باتیں یہاں کے چائینز میں مجھے گنتی کے چند افراد میں نظر آئیں ۔ میرے دو عزیز دوستوں نے وہاں مقامی خواتین سے شادی کی ہوئی ہے اور ماشاء اللہ اب تو ان کے بچے بھی جوان ہو گئے ۔ اس دفعہ وہ پاکستان آئے تو ان سے ملاقات ہوئی اور تفصیل سے تائیوان کے چائنیز مسلمانوں کے بارے میں ان سے پوچھا ۔ وہ کیونکہ عرصہ دراز سے وہاں رہے ہیں اس لیے وہ اس کمیونٹی کا حصہ ہیں ۔ ان سے ماضی میں ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی حالت کے بارے میں جاننا اس لیے بھی ضروری تھا کہ مستقبل کی کچھ دھندلی تصویر سامنے آ جائے ۔
ایک اور بات جو میرے لیے اہم تھی کہ پچھلی اقساط میں نے چائنا میں بغاوتوں کے بارے میں تفصیل سے سمجھا تھا کہ وہ کس نوعیت کی تھیں ۔ لیکن اس کا ایک پہلو تشنہ رہ گیا تھا کہ جو مسلمان نیشنلسٹ حکومت کے ساتھ تائیوان گئے وہ کس حال میں ہیں ۔ فاروقی صاحب سے لی گئی معلومات کا خلاصہ اور کچھ میری اپنی تحقیق کا خلاصہ ہے ۔ ہو سکتا ہے کچھ باتیں بے ربط ہوں لیکن یہ ایک مجموعی تصویر سامنے رکھ دے گی اور دوسرے چائنیز مسلمانوں پر جو کچھ گزری اور جو گزر رہی ہے اس کو واضح کر دے گی ۔
ہجرت کی پہلی لہر
سترھویں صدی میں چھن ( Qing ) خاندان نے منگ ( Ming ) خاندان سے چائنا کی حکومت چھن لی تو مسلمان جو منگ دربار سے منسلک تھے زیر عتاب آ گئے ۔ انہی میں دربار سے منسلک کچھ مسلمان خاندان چائنا کے فوجیاں (Fijian ) کے صوبے سے ہجرت کر کے تائیوان آ گئے ۔ اس پہلے بھی ایڈمرل چنگ ہی ( Admiral Zheng he ) مسلمان نیوی ایڈمرل اپنے ساتھ پندرویں صدی میں کچھ مسلمان خاندانوں کو اپنے ساتھ لائے اور انہیں یہاں تائیوان میں Lukang , Tamsui کے علاقوں میں آباد کیا ۔ ان لوگوں نے تائیوان میں چھنزو ( Quanzhou ) طرز تعمیر کی مسجد تعمیر کی ۔ اس مسجد کی عمارت اب موجود تو نہیں لیکن اس کے آثار اب بھی باقی ہیں ۔ یہ لوگ تائیوان میں پہلے مسلمان کہلاتے ہیں ۔ لیکن ان کی ال اولاد تائیوانی سوسائٹی مقامی اقدار اور مذہب کو اپناتے ہوئے گم ہو گئی ۔
ان گم ہو جانے والوں کے اخری آثار تائیوان پر جاپان کے قبضے کے دور 1895–1945 کے ملتے ہیں ۔ جب جاپان کی حکومت نے کسی بھی غیر ملکی مذہب کی رسومات پر پابندی لگا دی ۔ اس کے نتیجہ میں بہت سے مقامی لوگ اپنی عبادت خفیہ طور پر کرتے تھے ۔ امام جو اس مسلمان ابادی کےلیے چائنا سے تائیوان جاتے تھے ان میں آخری امام 1922 میں گئے ۔ 1945 میں جب جاپان نے تائیوان کا قبضہ چائنا کی نیشلسٹ حکومت کے حوالے کیا تو اس کے بعد مذاہب پر پابندیاں ہٹائی گئیں اور 1948 میں امام بھیجنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ۔
چائنیز مسلم ایسوسی ایشن (سی ایم اے) نے مسلمانوں کی ہجرت کی پہلی لہر سے آنے والے تمام لوگوں کی تعداد 20,000 کے لگ بھگ بتائی ہے ۔ ان لوگوں میں اسلام کی بحالی کی کوششوں کے باوجود بنیادی طور پر وہ اب اپنی روزمرہ کی زندگی میں اسلام پر عمل نہیں کرتے ۔
ان تائیوانی مسلمان خاندانوں میں سے تھنگ ( ting ) خاندان کی ایک شاخ تھنشی ( Taixi Township ) ٹاؤن شب میں رہتی ہے ۔ اس خاندان کے ایک فرد مسٹر تھنگ ( ting) نے بتایا کہ ہمارا تعلق شمس الدین کی آل سے ہے ۔ شمس الدین وسطی ایشیاء کے ایک سید خاندان سے تعلق رکھتے تھےجو حکمران یان خاندان ( yuan dynasty ) کے دور میں چائنا ہجرت کرکے اس وقت چائنا آئے جب چائنا چنگیز خان کی سلطنت کے تحت تھا ۔
شمس الدین جو منگول حکومت ( yuan dynasty ) دربار سے خصوصی تعلق رکھتے تھے اور چائنا کے صوبے یونان ( Yunan ) کے 1211 سے 1278 تک گورنر رہے ۔ انہیں چنگیز خان اپنی بخارا کی فتح کے بعد اپنے ساتھ لے کر آئے تھے ۔ اور مونکی خان ( Mongke Khan’s ) خان کے ساتھ چائنا کے شہر سچوان ( Sichuan ) پر حملے کی مہم میں شریک تھے ۔ چائنا پر منگول حکومت بننے کے بعد شاہی دربار بیجنگ میں بطور وزیر مالیت خدمات انجام دیتے رہے ۔ 1274 میں قبلائی خان کے دور میں یونان ( Yunnan ) صوبے میں تالی کی سلطنت ( kingdom of Dali ) کی فتح کے بعد اس صوبے کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دیں ۔
ان کی آل اولاد نے اپنا خاندانی نام باقی چائنیز کی طرح تھنگ ( ting ) رکھا اور بعد میں فیوجیان صوبے کے قصبے چھن زو ( quanzhou ) میں رہائش اختیار کر لی ۔ جب چائنا کی حکومت منگول خاندان ( yuan dynasty) سے چھن خاندان ( Qing dynasty ) کو منتقل ہوئی تو یہ مسلم تھنگ ( Muslim ting ) کہلانے والے لوگ دوسرے ہوکو ( Hoklo ) نسل کے فیوجیان ( Fijian ) صوبے میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ تائیوان ہجرت کر آئے ۔ 200 سال پہلے جب وہ یہاں تائیوان آئے تو انہوں نے عبادت گاہ کر طور پر ایک مسجد کی تعمیر کی ۔جو اب ان کے اپنے خاندان کے ایک تاؤ ازم کا مندر میں بدل چکی ہے ۔
بالکل یہی صورتحال تھنگ ( ting ) خاندان کی دوسری شاخ کے افراد کی بھی ہے جو چالیس کلومیٹر دور لونگانگ ( lugang ) قصبے کے چھنگ ہوا ( Changhua ) گاؤں میں آباد ہیں جو ایک مصروف تاریخی بندرگاہ ہے ۔ یہ لوگ اپنے آباء کی تاریخ اپنے خاندانی کتاب سے تلاش کرتے ہیں ۔ یہ بھی چائنا کے فوجیاں ( Fijian ) صوبے کے چھنزو ( quanzhou ) کے علاقے سے یہاں آئے ۔ 1725 تک کاؤ ( Kuo ) خاندان کی ایک مسجد اور حمام موجود تھا ۔ ان کے آباء نے تائیوان پہنچنے کے بعد مقامی افراد کے دباؤ کی وجہ سے آہستہ آہستہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور حمام بھی دوسری جنگ عظیم کے بعد ختم ہو گیا ۔ یہ مسلم تھنگ ( Muslim ting ) لوگ پہلے ہی فوجیاں صوبے میں ( Qing ) کی حکومت آ جانے کے بعد حکومت کی انتقامی کاروائی کے خوف سے اپنی اصل شناخت بطور مسلمان چھپاتے تھے ۔ کیونکہ یہ منگول خاندان کی حکومت سے منسلک رہے تھے ۔ اس لیے یہ یہاں تائیوان منتقل ہوتے وقت اپنی اسلامی شناخت اور اپنے اقدار میں سے بہت کچھ پیچھے چھوڑ آئے اور اب تھائسی ( taisi ) میں ان کے پاس بطور مسلمان کوئی نشانی باقی نہیں ۔
مسٹر تھنگ ( ting ) نے بتایا کہ ہم میں سے اکثر لوگ یہ کہتے لیکن سارے نہیں کہ ہمارے آباء و اجداد مسلمان تھے ۔
اگر آپ تائسی ( taisi ) کے علاقے میں کسی سے کہیں کہ کوئی تھنگ ( ting ) خاندان کا فرد مسلمان ہے تو ضرور یہی سمجھا جائے گا کہ تبدیلی مذہب سے مسلمان ہوا ہے ( converted Muslim ) . یہ ایسے ہی ہے کہ اسلام ان کےلیے ایک اجنبی غیر ملکی مذہب ہے ۔ بہت سوں نے مقامی تاؤ ازم ، بدھ ازم اور مسیحیت کو اختیار کر لیا ہے ۔
تھنگ حسانگ ( Chen-hsiang ) جو کہ ایک ریٹائرڈ سکول ٹیچر اور لونگانگ ( lungang ) میں تھنگ ( ting ) خاندان کی تاریخی حویلی جسے میوزیم قرار دیا گیا ہے کے ڈائریکٹر ہیں ، نے بتایا کہ ہم جانتے ہیں اور ہماری خاندانی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ ہمارے آباء و اجداد مسلمان تھے ۔
مسٹر تھنگ ( ting ) نے بتایا کہ تھنگ چھن حسان ( Ting Chen-hsiang’s ) کا خاندان دو سو سال پہلے چائنا کے صوبے فوجیاں کے اس گاؤں سے ہجرت کرکے یہاں آئے جہاں آج بھی مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جن کا خاندانی نام تھنگ ( ting ) ہے ۔
مسٹر تھنگ حسانگ نے اپنی خاندانی حویلی کے صحن میں کھڑے ہو کر ضرب المثال کہی ” جب آپ جب روم میں ہوں تو آپ بھی ویسا ہی کریں جیسا رومی کرتے ہیں “۔ ہمارے آباء و اجداد نے تائیوان پہنچ کر عوام کے دباؤ میں آ کر اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا ۔
ان سب باتوں کے باوجود مسٹر تھنگ حسانگ کے آباء کچھ نہ کچھ نشانیاں چھوڑ گئے ۔ انہوں نے بتایا کہ تائیوان میں اس دور میں گھر کا ڈیزائن تکونی ہوتا تھا ۔ لیکن ہماری خاندانی حویلی ہمارے آباء و اجداد نے چار کونوں مربع شکل میں تعمیر کی ۔ یہ ہماری روایات اور اقدار کو محفوظ کرنے کا ایک خفیہ اشارہ تھا ۔
تکونی شکل ایک یو ” u ” ٹائپ شکل کا گھر ہوتا ہے جس کے درمیان میں صحن ہوتا ہے اور دوسری طرف مربع شکل کا گھر ایسے ہوتا ہے کہ جس کے درمیان میں صحن ہوتا ہے ۔
ہمارے آباء نے تکونی کی بجائے چوکور یعنی مربع شکل اس لیے تعمیر کہ یہ مربع شکل اوپر سے دیکھنے پر چائنیز حرف Hui 回 سے مشابہ ہے ۔ اور ہوئی Hui نارتھ ویسٹ چائنا کے مسلمانوں کی اقلیت کو کہا جاتا ہے ۔ اس لیے نارتھ ویسٹ چائنا میں اسلام کو ہوئی ( Hui ) لوگوں کا مذہب کہا جاتا ہے ۔
اگر عمارت کی یہ شکل ایک خفیہ کوڈ ہے جو مسلم تھنگ حسانگ کے آباء و اجداد لنگانگ ( lugang ) گاؤں میں چھوڑ کر گئے تھے تو پھر قصبے میں موجود دوسری مسلم فیملی ( kous ) کے آباء و اجداد بھی پچھے لازماً کوئی نشانی چھوڑ گئے ہوں گے ۔ یہ لوگ بھی ہوئی ( Hui ) مسلمانوں کی نسل ہیں جو چائنا کے منگ خاندان ( منگول ) کے شہزادے ( Koxinga ) کے ساتھ اس وقت تائیوان آئے جب چھن خاندان کی چائنا پر حکومت قائم ہو گئی ۔ وہ بھی مسلمان نہیں رہے اور چائنیز کلچر اور روایات پر عمل کرتے ہیں ۔ لیکن ان میں کچھ آثار ایسے باقی ہیں کہ وہ جمعہ والے دن سور کا گوشت پیش نہیں کرتے اور اپنے آباء کے مقبروں پر سور کی قربانی نہیں کرتے اور ان رسومات کے دوران اپنے سر پر سکاف رکھتے ہیں ۔
مسٹر چن شی چن ( Kuo Hsien-chin ) جو کہ لوکل لونگانگ قصبے کے مورخ ہیں نے بتایا کہ یہ زبانی کہانی بھی ہے اور ہسٹری کے ریکارڈ میں بھی ہے کہ لونگانگ ( lugang) کے علاقے بیتو ( beitou ) میں ایک مسجد بھی موجود تھی ۔ سٹڈی کے مطابق وہ مسجد کئی سو سال پہلے ” کاؤ ” ( kuo ) خاندان کے آباء کے مندر ( temple ) کی جگہ پر تھی ۔
یہ دو منزلہ عمارت شکل و شبہات میں تاؤ ازم کے مندر سے کسی طرح مختلف نہیں جس میں خطاطی اور مرکزی میز پر دیوتاؤں کے بت رکھے ہیں ۔ چائنیز مسلم ایسوسیشن کے اپنے تاریخی ریکارڈ کے مطابق یہ لوگ مسلمان تھے ۔ اور لونگ گانگ کے علاقے بنتو ( Beitou ) میں چند سو سال پہلے ایک مسجد بھی موجود تھی جو اب اس کاؤ ( kuo ) خاندان کا آبائی مندر ہے ۔ لوکل ڈسٹرکٹ کے چیف نے کو حسین چن ( Kuo Hsien-chin ) نے بتایا کہ ہم خود سور کھاتے ہیں ، لیکن یہ روایت نسل در نسل چلی آ رہی ہے کہ آباء کی بوجا کےلیے سور قربانی میں پیش ( sacrifice ) نہیں کیا جاتا ۔ اس کے علاؤہ ” کاؤ “خاندان میں کسی کی وفات کے دوران اس کے خاندان کے افراد سور نہیں کھاتے ۔ مسٹر ” ما ” نے بتایا کہ تین سو سال پہلے لونگانگ میں سمندر کے خدا ” Matsu ” کے مندر سے صرف چند سو میٹر دور ایک مسجد کو دیکھنے کےلیے آنا بہت دلچسپ ہوتا ۔
چیلنگ ( Keelung ) کے علاقے میں بھی دو خاندان آباد ہیں جن کے آبائی مندر میں قرآن کا نسخہ اور کچھ عربی خطاطی موجود ہے ۔ تائیوان میں حال میں آنے والے مسلمانوں سے پہلے تک وہ اس نسخے اور خطاطی کی اہمیت کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتے تھے ، وہ اسے پڑھے نہیں سکتے تھے لیکن ان نسخوں کو مقدس سمجھتے تھے اور ان پر ماتھا ٹیکتے تھے ۔
اسی طرح تھائی نان ( Tainan ) کے علاقے کے دو خاندانوں میں بھی وفات کے موقع پر کچھ رسومات موجود ہیں جن کا تعلق تاؤ ازم یا بدھ ازم کی بجائے اسلام سے ہے ، جیسے وہ میت کو نہلاتے ہیں اور سفید کفن جیسا لباس پہنتے ہیں ۔ جبکہ زندگی کے معاملات میں وہ عام تائیوانیوں جیسے ہیں ۔
ہمارے فاروقی صاحب کی ٹریڈنگ کمپنی ایک پاکستانی گارمنٹس برانڈ کےلیے چائنا کے فوجیاں ( Fijian ) صوبے کے علاقے چھنزو ( changzhou ) کی ایک گارمنٹس کمپنی ریڈ کڈز گارمنٹس ( Red Kidd’s garment ) سے خریداری کرتے تھے ۔ فاروقی صاحب کے بھانجے شہریار بھائی ایک مرتبہ فیکٹری وزٹ پر ان کے پاس گئے تو فیکٹری کی سیکرٹری نے بتایا کہ ان کے فیکٹری مالک تھنگ ( ting ) فیملی سے تعلق رکھتے ہیں اور اس علاقے کے تھنگ ( ting ) فیملی والے سب کے آباء و اجداد مسلمان تھے لیکن یہ لوگ اب مقامی روایات اپنائے ہوئے ہیں ۔
ہجرت کی دوسری لہر
تائیوان میں مسلمانوں کی آمد کی دوسری لہر چائنا کی سول وار کے بعد بیسویں صدی میں ہوئی ۔ اس لہر میں تقریبآ 20000 مسلمانوں نے نیشنلسٹ حکومت کے مسلمان جنرل بائی چھونگ شی ( General Bai Chongxi ) جو ریپبلک آف چائنا کے 1946 سے 1948 تک کے ڈیفینس مسٹر رہے کے ساتھ ہجرت کی ۔ ان میں سے بہت سے گورنمنٹ سرونٹ اور سپاہی تھے جو چائنا کے مسلم آبادی والے علاقوں جیسے یونان ( Yunnan ) , نن شاہ ( ning xi ) انگوے ( Anhui ) اور کانسو ( Gansu ) سے تعلق رکھنے والے تھے ۔
ان مسلمان مہاجرین آبادکاروں نے 1947 میں تائپے کی مرکزی مسجد تعمیر کی ۔ یہ مسجد تائیوان کی حکومت کے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ رویہ کی نشانی ہے ۔ اور اس سے تائیوان کے باقی مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کا آغاز ہوا جس سے تائیوان اور ان ممالک سے تجارتی تعلقات میں بھی اضافہ ہوا ۔
اسی دوسری لہر کے مسلمانوں نے اور شہروں میں بھی مساجد کی تعمیر کیں ۔ ان میں 1949میں کاؤ شنگ شہر کی مسجد ( Kaohsiung mosque )
1950 میں تائپے شہر میں تائپے کلچر مسجد ( Taipei Cultural Mosque )
1951 میں تھائی چنگ ( Taichung ) شہر میں تھائی چنگ مسجد ( Taichung Mosque ) شامل ہیں ۔
1950 تک ہان ( Han ) چائنیز اور مسلمانوں کے درمیان میل ملاپ مختلف روایات کے حامل ہونے کی وجہ سے محدود تھا ۔ مسلمان کیمونٹی تائپے شہر کے ” دا ان ڈسٹرک ” ( Da’an District ) لی سوئے سٹریٹ ( Lishui Street ) کے ایک گھر میں اجتماع کےلیے باقاعدگی سے جمع ہوتے تھے ۔ یہی تائپے کی مسجد کی اصل جگہ تھی ۔ 1960 میں اسے شنگ سنگ ساؤتھ روڈ ( Xing Sheng South Road ) کی موجودہ مسجد والی جگہ پر منتقل کر دیا گیا ۔ پھر جب 1960 میں مسلمانوں نے محسوس کیا کہ اب واپس چائنا جانا کاروباری ضرورت کے لحاظ سے بھی اور ویسے بھی ناپسندیدہ ہے تو ان کے ہان چائنیز ( Han ) کے ساتھ رابطے زیادہ ہوتے گئے حالانکہ ان مسلمانوں کے ایک دوسرے کے اندر اب بھی کافی حد تک باہمی انحصار باقی ہے ۔
1953 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تائیوان کے خلاف برما کے اندر اس کے چائنا کے خلاف گوریلا کاروائیاں کے خلاف قرارداد پاس کی ۔ آخر کار برما ، تائیوان اور بنکاک کے درمیان جنرل لی من ( General Li Mi ) کے تحت جو نیشلسٹ فوج کے دستے وہاں چائنا کی کیمونسٹ حکومت کے خلاف کاروائیاں کر دیے تھے ، انہی وہاں سے نکال کر تائیوان کے جانے کا معائدہ ہو گیا ۔ جہازوں کے ذریعے 5683 نیشلسٹ فوجی اور ان کے خاندان کے 1040 لوگوں کو برما سے نکال کر تائیوان پہنچایا گیا ۔ ان میں اکثریت مسلمان تھی اور ان مہاجرین کو جن علاقوں میں آباد کیا گیا ان علاقوں میں عبادت کےلیے کوئی جگہ موجود نہیں تھی ۔ اس لیے انہوں نے 1964 زونگی ( zongli) میں لونگانگ مسجد ( longgang ) کی تعمیر شروع کی جو 1967 میں مکمل ہوئی ۔ اب اس مسجد کے اردگرد کے علاقے میں دو سو مسلمان خاندان رہتے ہیں جو ما ( ma ) خاندانی نام سے جانے جاتے ہیں ۔ اس علاقے میں کئی یونان ( Yunan ) برمی ( burmese ) اور تھائی ( Thai ) حلال فوڈ کی دکانیں موجود ہیں ۔ اس عرصے کے دوران کچھ مسلمان یوآن ( yuan ) کی لوکل گورنمنٹ اور تائیوان کی مرکزی اسمبلی کے بھی ممبر رہے ۔ مسلمان تائیوان کی مسلح افواج میں بھی رہنک افسر رہے ۔ ان میں مشہور لیفٹینٹ جنرل ما چن چانگ ( Ma Ching-chiang ) تھے جو تائیوان کے پہلے صدر چن کائی شیک ( Chiang Kai-shek ) کے ملٹری ایڈوائزر رہے ۔ مسلمان دوسرے ممالک میں سفارتی مشن سے بھی منسلک رہے جیسے کویت میں تائیوان کے سفیر وانگ شی منگ ( Wang Shi-ming ) .
1945 سے 1955 کے عرصے میں ایک اندازے کے مطابق نو لاکھ سے گیارہ لاکھ افراد چائنا سے تائیوان شفٹ ہوئے ۔ جاپانی قبضہ کے آخر تک تائیوان کی آبادی ایک اندازے کے مطابق پینسٹھ لاکھ تھی ۔ ان میں تارکین وطن کی تعداد یقیناً معلوم نہیں کیونکہ جاپانی قبضے کے دوران یا اس سے پہلے ان کی حکومت کی طرف سے کوئی باقاعدہ مردم شماری نہیں کی گئی 1964 کی مردم شماری میں ان مہاجرین کی تعداد چھ لاکھ چالیس ہزار تھی ۔ اس تعداد میں فوج کی تعداد خفیہ ہے ۔ بہت بعد میں تائیوان کی دستاویزات سے فوجیوں کی تعداد 580000 معلوم ہوئی تاہم امریکی ادارے یہ تعداد چار لاکھ پچاس ہزار بتاتے ہیں ۔ تاہم ان میں سے کئی فوجی 1956؛میں ریٹائر ہو گئے اور لوکل ابادی کی فوج کی تعداد کو گنا نہیں گیا ۔
ہجرت کی تیسری لہر
1980 سے برما اور تھائی لینڈ سے ہزاروں کی تعداد میں مسلم مہاجرین بہتر زندگی کی تلاش میں تائیوان آئے ۔ یہ چائنا کی نیشلسٹ آرمی کے ان فوجیوں کی اولاد میں سے تھے جو کیمونسٹ فوجوں کے چائنا پر قبضے کے بعد یونان ( Yunnan ) صوبے سے برما اور تھائی لینڈ منتقل ہوئے تھے ۔ یہ تائیوان میں مسلمانوں کی آمد کی تیسری لہر تھی ۔ ان میں سے اکثر نیو تائپے شہر کے زونگ ( Zhonghe ) ڈسٹرکٹ کی ہوا شن شارع ( Huaxin Street ) ، تھاؤ ین ( Taoyuan ) شہر کے زونگ لی ( Zhongli District ) ڈسٹرکٹ اور کچھ دوسرے شہروں میں آباد ہوئے ۔
1989 میں تائیوان نے بلیو کالر جابز کےلیے غیر ملکی ورکرز کےلیے ایک پالیسی بنائی جو وہاں کی انڈسٹری کی ضرورت تھی ۔ ان غیر ملکی ورکرز میں بہت سے ساوتھ اور ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک سے آئے ۔
آج تائیوان کے مسلمانوں کی اکثریت نسبتاً حالیہ مذہب تبدیل کرنے والوں کی ہے ، جن میں زیادہ تر خواتین ہیں ، جنہوں نے مین لینڈ چائنا کے مسلمانوں سے شادی کی ہے ۔ اس طرح تائیوان میں حالیہ مقامی مسلمانوں کی تعداد 60000 ہے ۔ اس کے علاؤہ ملائشیا ، فلپائن ، پاکستان ، انڈیا اور دوسری جگہوں سے آنے والے مسلمان ورکز کی تعداد کو اگر جمع کر لیا جائے تو یہ تین لاکھ دس ہزار بنتی ہے ۔
انڈونیشیا کے مسلمان ورکز جن کی بہت بڑی تعداد جو تھاؤ ین ( Taoyuan ) کے انڈسٹریل ایریا دوان ( Dayuan District ) ڈسٹرکٹ موجود ہے ، کےلیے ایک انڈونیشین ورکر جنہوں نے مقامی تائیوانی خاتون سے شادی کی ہے تائیوان کی ساتوں مسجد التقوی (At-Taqwa Mosque ) اس انڈسٹریل ایریا میں تعمیر کی جو 9 جون 2013 کو کھول دی گئی ۔ انڈونیشیا کے مسلمان ورکرز ایک اور بہت بڑی تعداد جو نزدیک ہی سو آو ( Su’ao ) ٹاؤن شیپ یی لن ( yilan ) قصبے میں فشنگ پورٹ پر کام کرتی ہے ، انہوں نے بیت المسلیمین کے نام سے 2014 میں تائیوان کی آٹھویں مسجد بنائی ۔ النور تنگ گانگ مسجد تائیوان کی نویں مسجد پنگ تانگ ( Pingtung County ) قصبے میں تعمیر کی گئی جسے 18 فروری 2018 کو کھول دیا گیا ۔ تائیوان کی دسیوں مسجد ہاولین ( Hualien ) شہر میں تعمیر کی گئی اور اس کا افتتاح انڈونیشیا کے سابق وزیر قانون اور انسانی حقوق محمود ایم ڈی نے 18 مارچ 2018 کو کیا ۔
تائیوان کی مقامی زبان مینڈریں چائینز ہے اس لیے ” ما جن ” اور ” ” چن کیلی ” ( Ma Jun and Chen Ke-li ) نے قرآن اور حدیث کو عربی سے چائینز میں ترجمہ کیا ہے ۔ مارچ 1959 میں قرآن مجید کا پہلا چائینز ترجم شائع ہوا جس میں چار لاکھ الفاظ ہیں اور بک سٹور پر دستیاب ہے ۔ یہ ترجمہ سپیشل ٹراسلیشن بورڈ کے تحت سات سال کی محنت سے کیا گیا ۔ چائنیز مسلم ایسوسیشن چائنا براڈ کاسٹنگ کے تحت ہفتہ وار ریڈیو پروگرام براڈ کاسٹ کرتی ہے جو چائنا کے مسلمانوں اور باقی دنیا کے مسلمانوں کو تائیوانی مسلمان کے مذہبی سرگرمیوں سے آگاہی دیتی ہے ۔ اس کے علاؤہ یہ باقی مسلم ملکوں کےلیے عربی زبان میں بھی پروگرام نشر کرتے ہیں ۔
اس وقت بہت سے تائیوانی مسلمان سول سروس ، فوج ، انجینئرنگ ڈاکٹر اور پروفیسر کے طور اعلی اداروں انڈسٹری اور تجارت میں پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ لیکن ریاستی اسمبلی میں کوئی بھی مسلمان نمائندہ موجود نہیں ۔
. کچھ لوگ نے مسلمانوں سے شادی سے اسلام قبول کیا ہے اور کچھ مسلمان لیڈروں اور مسلم چائنیز ایسوسیشن کے ساتھ رابطے اور کچھ خود مطالعہ کرکے مسلمان ہوئے ہیں ۔ چائنیز مسلم یوتھ ایسوسیشن ان لوگ کو خوش آمدید کہتی ہے جو اسلام کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ۔چائنیز مسلم ایسوسیشن تائیوانی مسلم سٹوڈنٹس کو اسلامی تعلیم کےلیے بیرون ملک بھی بھیجتی ہے ۔ تائپے سٹی گورنمنٹ کے ایجوکیشن بیورو نے پرائمری سکینڈری سکول ٹیچر کےلیے گرمیوں کی چھٹیوں میں اسلام کے کورس کی تجویز کی منظوری دی ہے ۔ اور اسلام کے بارے میں پبلک سکول ٹیچرز کو صحیح معلومات فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
تائیوان میں اسلام کا پھیلاؤ تائیوانی مسلمانوں کی تبلیغ میں زیادہ دلچسپی نہ لینے کی وجہ سے بہت سست ہے ۔ لوکل مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ صرف قدرتی پیدائش کے عمل سے جاری ہے ۔ تائپے کی مرکزی مسجد کی رپورٹ کے مطابق سالانہ صرف سو لوگ اسلام قبول کرتے ہیں ۔ اور تائپے کلچر مسجد کے مطابق صرف پچاس لوگ ان کی مسجد میں سالانہ اسلام قبول کرتے ہیں ۔
سیاحوں کے محفوظ ماحول ، ائیرپورٹ سروس اور مسلمان سیاحوں کی ضروریات کی سہولیات کی وجہ سے ہے
گوبل ٹریول انڈکس کے مطابق تائیوان نان مسلم ممالک کے رینک میں مسلمان سیاحوں کے سیاحی مقام کے لحاظ سے پہلے دس میں شمار ہوتا ہے ۔
2019 کی تائیوان کو اسلامی ممالک تعاون کارپوریشن OIC نے مسلمانوں سیاحوں کےلیے دوسرے نمبر پر برطانیہ کے بعد انتہائی دوستانہ ماحول کا ملک قرار دیا ہے ۔
ویسے ایک بات میرے ذہن میں ا رہی ہے ۔ خدا کی ذات بھی آزمائشیں دے کر اپنی پسند کے لوگ چھانٹی ہے ۔ اور اپنی حاکمیت کے دعوی کو قبول کرنے والوں میں کھوٹے کھرے الگ کرتا رہتا ہے ۔ اس امتحان میں کچھ کامیاب ہو جاتے ہیں اور کچھ ناکام ہو کر راستے ہی بدل لیتے ہیں ۔ اس کے باوجود نشانیاں اور تذکیر کسی نہ کسی صورت ہوتی رہتی ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply