پھر سے(دوم،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

کیوپڈ کے ساتھ ساتھ قسمت کی دیوی بھی مہربان تھی سو یہ سنجوگ ہو کر رہا۔ ممی میری فطرت سے واقف تھیں، انہیں علم تھا کہ مجھے دیوار سے لگانے کا انجام کورٹ میرج کی صورت میں سامنے آئے گا سو دونوں گھرانوں نے اوپری دل سے ہماری شادی کروا دی اور ساتھ ہی لاتعلقی کا کھلا سگنل بھی دے دیا۔

میں بختیار کو پا کر بے انتہا خوش تھی۔ مجھے تنگی ترشی کی بھی شکایت نہیں تھی۔ بختیار کا ساتھ میرے لیے حیات بخش جام تھا۔ دونوں بچوں کی پیدائش کے بعد میرے لیے کام جاری رکھنا ممکن نہ تھا کہ میں بچوں کے لیے کسی قیمت پر بھی آیا یا ڈے کیئر کے حق میں نہ تھی۔ وہ میری زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ مالی تنگی تو تھی ہی مگر اب بچوں کی مصروفیات نے میری معاشرتی زندگی کو بالکل جامد اور زنگ آلود کر دیا تھا۔ بڑھتے ہوئے اخراجات پہ دسترس کے لیے بختیار نے اپنے آپ کو کام کی مشین بنا لیا۔ ہم دونوں ہی اپنے اپنے محاذ پر ان تھک محنت کر رہے تھے مگر ساتھ ہی ساتھ غیر محسوس طریقے سےایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ ہفتے گزر جاتے ہم لوگوں کو ایک ساتھ معیاری وقت بتائے۔

عرصے بعد بختیار کی ان تھک محنت سوارت ہوئی اور ان پر ترقی کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ ہمارا معیار زندگی اب بہت بہتر تھا مگر میں اپنے بچوں کا سارا کام اب بھی خود ہی کرتی اور باز کی طرح ان کی نگرانی بھی۔ بچوں کا باقاعدہ اسکول اور ان کی اپنی روٹین تھی۔ اس سبب قدرے فرصت میسر آنے پر میرا پرانا لکھنے کا شوق پوری شدت سے عود آیا مگر لکھنے کے لیے جس یکسوئی اور وقت کی ضرورت تھی وہ تا حال مفقود ۔ اب میں تھکنے لگی تھی اور یہ تھکن میرے وجود اور رویے سے ہویدا تھی۔ بختیار ہمارے درمیان بڑھتے فاصلے کو ماپے بغیر ترقی کی منزل پر منزل مار رہے تھے، یہ جانے بنا کہ اس تیز تر سفر کے اڑتے بگولوں میں ان کے ہم سفر گرد میں اٹے کہیں پیچھے ہی نڈھال رک گئے ہیں۔

بختیار کے پاس بچوں کے لیے اور میرے لیے بالکل وقت نہیں تھا۔ مجھے تو اب یاد بھی نہیں کہ وہ کون سی آخری تقریب تھی جسے ہم چاروں نے اکٹھے منایا تھا۔ بچوں کی پیرنٹ ٹیچر میٹنگ ہو یا اسپورٹس ڈے یا بچوں کی کی کامیابیوں کا جشن یا ان کی سالگراہیں، بختیار کہیں موجود نہیں ہوتے۔ یہی حال شادی کی سالگرہ کا تھا، وہ تحفے میں مجھے چیک یا ATM کارڈ پکڑا دیتا اور میں اس حقیر کاغذ کے ٹکڑے کو ہاتھوں میں پکڑے پکڑے ٹکر ٹکر اسے دیکھتے ہوئے سوچتی رہ جاتی کہ بختیار یہ کیسے بھول گیا کہ میں تو اس کے ساتھ ڈھابے کی چائے پی کر ہی خوش ہو جاتی تھی۔ میں تو بچپن ہی سے معاشی آسودگی سے آسودہ تھی ، اگر وہی طرز زندگی میرا پسندیدہ ہوتا تو میں اپنے فارن آفس میں تعینات کزن پر اسے ترجیح کیوں دیتی؟

مجھے تو اس کی حس مزاح اور نچھاور ہو ہو جانے والی محبت نے اسیر کیا تھا۔ مجھے اس کا چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا ہی تو بھاتا تھا۔ رات میں میرے بیڈ سائڈ پر ڈھانپ کر پانی کا گلاس رکھنا۔ مجھے نیند مکمل اندھیرے میں آتی ہے، اس لیے میری نیند کے خیال سے بختیار رات میں باتھ روم کی لائٹ نہیں جلاتا تھا بلکہ اس نے غسل خانے کے پلگ میں نائٹ بلب لگایا ہوا تھا۔ برسات اور سردیوں میں میری پہلی چھنک کے ساتھ ہی ادرک کا قہوہ حاضر ہوتا۔ اسے بچوں اور میری سالگرہ ہمیشہ یاد رہتی تھی اور بختیار ہر خوشی کو دل سے اور بڑے اہتمام سے مناتا تھا۔ جب تو ہم لوگوں کے پاس گاڑی بھی نہیں ہوا کرتی تھی پر ہم ہر ہفتے بائیک پر ساحل سمندر کے مزے لیتے اور کراچی کی سڑکیں ناپا کرتے۔ گھر کے بنے بن کباب اور بھنے چنے من و سلویٰ سے بھی اعلیٰ لگتے تھے۔ زندگی تو وحید مراد اور زیبا کی فلم جیسی حسین اور رومانی تھی۔

میں، جس نے آسائشوں میں آنکھیں کھولی تھیں بالکل متوسط طبقے کی سگھڑ بیوی کے سانچے میں ڈھل چکی تھی۔ میرے لیے پالر، ہوٹلنگ اور بڑے برینڈ کے کپڑے اور میک کا سامان قصہ پارینہ تھے۔ میں نہایت لو مینٹیننس بیوی تھی جو اس کی ہمراہی میں ڈھابے کی چائے اور بہادرآباد کی چاٹ پہ خوش ہو جاتی تھی۔ اپنی بچت سے اپنے لیے کچھ لینے کے بجائے مجھے بختیار کے لیے ڈریس شرٹ یا اچھا جوتا لینا محبوب تھا۔ میں کم میں خوش اور آسودہ تھی، بس ضرورتیں پوری ہوتی رہیں اور کیا چاہیے مگر جانے کیوں بختیار اس دولت کی دوڑ میں شامل ہو گیا؟ پھر ہمارے گھر سب کچھ بدل گیا، نہ وہ قہقہے رہے اور نہ وہ رونقیں۔

مجھے آج بھی وہ دن اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ یاد ہے وہ بچوں کی دسویں سالگرہ تھی گو کہ تقریب بڑے پیمانے پر نہیں تھی مگر مہمان سارے موجود تھے اور بختیار کا ” آدھ گھنٹے میں پہنچ رہا ہوں ” ڈھائی پونے تین گھنٹے پر محیط ہو چکا تھا اور گہری شام کے سرمئی سائے تلے مہمانوں میں واضح اضطراب محسوس کرتے ہوئے میں نے ناچار کیک کٹوا دیا تھا۔ دونوں بچے باپ کی غیر موجودگی سے اس قدر دل شکستہ تھے کہ انہوں نے اپنے تحائف بھی کھولنے کی زحمت نہیں کی اور منہ بسورے بسورے سو گئے۔

اس دن میری بختیار سے شدید لڑائی ہوئی تھی اور میں نے اسے صاف صاف بتا دیا تھا کہ مجھے پر تعیش زندگی نہیں چاہیے کہ میرے لیے اس کا ساتھ ہی مقدم ہے۔ مگر بختیار کی سوئی اسی بات پر اٹکی رہی کہ میں جو کچھ بھی کر رہا ہو تم ہی لوگوں کے آرام و آسائش کے لیے تو کر رہا ہوں۔ جانے کیوں بختیار نے پیسے کو اپنا نعم البدل جانا جبکہ ہم تینوں کے لیے بختیار کا وجود اور اس کا دیا گیا ترجیحی وقت ہی اہم تھا۔ بچے تو پھر بھی کسی حد تک اس کی غیر حاضری کے عادی ہو گئے مگر میرا دل کسی بھی قیمت پر اس عدم توجہی کو سہار نہیں پا رہا تھا۔ نتیجتاً ہمارے درمیان سرد مہری کی دبیز چادر تن گئی تھی۔ میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ میسر مختصر ترین وقت خوشگوار ہی رہے مگر اکثر کوئی نہ کوئی بات بد مزگی اور تنازع کا باعث بن ہی جاتی۔ میرا دل تب بری طرح ٹوٹا جب بختیار میری پہلی کتاب کی تقریب رونمائی میں مہمانوں کے رخصت ہونے سمے پہنچنے والا میزبان تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس دن اتنی بڑی خوشی پا کر بھی میرا دل بجھا ہوا اور اداس تھا۔ گو کہ کتاب کا چھپنا میرا دیرینہ ارمان تھا پر اب ایسا لگ رہا تھا کہ کیوں؟ کس لیے؟

Advertisements
julia rana solicitors

سب کچھ ہی فضول اور بے معنی لگ رہا تھا اور دل ایک دم خالی خالی سا، تنہا اور اداس پھر اس دن کے بعد سب کچھ بدل گیا اور ایک چھت کے نیچے دو اجنبی رہنے لگے۔ میں چاہتی تو میکے لوٹ سکتی تھی مگر میں بچوں سے ان کی چھت اور ان کے پیروں تلے سے مضبوط زمین نہیں چھینا چاہتی تھی سو بختیار کے گھر ہی رہی۔ عجیب بات کہ چاہتوں اور محبتوں سے بنایا سجایا گھر اب مجھے کاٹنے دوڑتا تھا اور میں بچوں کے علاؤہ ہر چیز سے بے نیاز ہو چکی تھی۔ وہ گھر جو کبھی بہت مہربان اور گرم جوش لگتا تھا اب بالکل اداس اور ساکت محسوس ہوتا۔ ہم لوگوں کی زندگی بالکل روبوٹک تھی اور میرا اور بختیار کا تعلق صرف ضروری گفتگو تک محدود رہ گیا تھا۔
بے رنگ و سپاٹ دن یکسانیت سے گزرتے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج دونوں بچوں کے او لیول کے بہترین رزلٹ کے سلسلے سے مقامی کلب میں شاندار پارٹی ہے۔ بچوں نے دعوت نامہ بختیار کے آفس کے پتے پر پوسٹ کر دیا تھا۔ صبح اس کے دفتر نکلتے وقت نہ میں نے اس سے کچھ پوچھا اور نہ ہی پارٹی کے متعلق یاد دہانی کروائی۔ تقریب کی گہما گہمی اپنے عروج پہ تھی مگر بچوں کی باپ کے لیے بے چین اور منتظر نظریں میرے دل پر تازیانہ بن کر لگ رہی تھیں۔ یکایک بختیار تحائف سے لدے پھندے دروازے سے اندر داخل ہوتے نظر آئے۔ لپک کر بچوں کو لپٹا لیا۔ بچوں کی خوشی دیدنی تھی، ان کی بجھی آنکھوں میں خوشیوں کے دئیے روشن تھے۔
دونوں بچے بے ساختہ ہنستے ہوئے مجھ سے لپٹ گئے۔
رات دیر گئے کلب سے واپسی ہوئی اور میرے گھر نے عرصے بعد بڑی گرم جوشی سے ہمارا سواگت کیا۔
جانے بیوی کا دل نرم ہوتا ہے
یا ماں کے لیے بچوں کا تحفظ مقدم ؟
میں نہیں جانتی کہ یہ بیوی کی کمزوری تھی یا ممتا کی مجبوری؟
اس سوال کا جواب تو میرے پاس نہیں،
ہاں مگر اتنا ضرور ہے کہ بختیار کی خلوصِ  دل سے مانگی گئی معافی بشرط تلافی نے میرے دل کا سارا غبار صاف کر دیا اور زندگی ایک بار ” پھر سے” سبک رفتار ہو گئی کہ توازن ہی زندگی کا حسن و جوہر۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply