کاش میں جون ایلیا جیسا فسادی ہوتا۔۔اعظم معراج

جو دیکھتا ہوں وہی کہنے کا عادی ہوں

میں اس شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
جون ایلیاجیسے فسادی جب معاشروں سے اٹھ جاتے ہیں تو پھر معاشروں کا وہی حال ہوتا ہے۔ جو آج ہمارا ہے یہ25دسمبر2016ءکی بات ہے جب ہم کرسمس کی عبادت کے لئے سینٹ پیٹرک کتھیڈرل چرچ پہنچے تو خلافِ توقع سیکورٹی کے انتظام غیر معمولی تھے ہم نے سوچا شائد کوئی سرکاری خط آیا ہو گا اور خلافِ توقع انتظامیہ نے اس کا نوٹس بھی لے لیا ہو گا خیر روٹین کی پاک ماس چل رہی تھی کی اچانک ہٹو بچو کا شور ہوا اور سینٹ پیٹرک چرچ کے سائیڈ والے دروازے سے الطار(الٹر) کے سامنے سے بلاول بھٹو زرداری اپنے مشیروں سندھ کے وڈے وزیر اور بہت سے صوبائی وزیروں مشیروں کے جلوس میں داخل ہوئے آگے آگے کاہن ماریو روڈرکس تھے پاک شراکت لینے والے لوگوں کو روک دیا گیا مجھ سے پہلے دو نوجوان کھڑے تھے اور وہ نوجوان جو عین پاک شراکت لینے والا تھا اس کے اور پاک شراکت دینے والے کے درمیان سے یہ سارا جلوس کاہن ماریو روڈرکس کی قیادت میں گزر کر بیٹھ گیا اس نوجوان نے ہلکا سا احتجاج بھی کیا جو عین پاک شراکت لینے کے لئے تیار کھڑا تھا لیکن شائد چرچ میں موجود لوگ ایک شاک میں تھے یا کاتھولک کلیسیاءکی راویتی فرمانبرداری کی وجہ سے ایک دو دبی دبی آوازیں اٹھی لیکن بات آئی گئی ہو گئی پاک شراکت لے کر جب ہم واپس مڑے تو گزرنے والی راہداریوں اور چرچ کے داخلی دروازوں پر سکیورٹی کے جوان تعینات ہو چکے تھے پاک شراکت کی پاک رسم کا ستیا ناس کروانے کے بعد کاہن ماریو روڈرکس کی ملی بھگت سے پاک ماس کے دوران جناب بلاول بھٹو زرداری صاحب سے تقریر کروائی گئی چرچ ختم ہوا تو چرچ کے احاطے میں لوگوں نے کچھ باتیں بنائیں اور اپنی اپنی راہ لی اور یقیناً بہت سوں کا کرسمس گھروں میں اپنے کاہنوں کی چغلیاں کرتے گزرا ہو گا میرا بھائی سردار معراج شدید غصے میں تھا جسے میں نے اپنی اس منفقانہ دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کی کہ ایک تو ہم کیا کر سکتے ہیں ؟یہ ان کا بزنس ہے ان کی مرضی جیسے چلائیں۔ ہمارا کیا لینا دینا ؟پھر ان کے پاس پلیٹ فارم ہے جیسے آج بلاول بھٹو کے مشیروں نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرلیا ہے اس طرح کبھی کبھی میںبھی اپنے مقاصد یعنی نوجوانوں کو ورغلانے کے لئے استعمال کر لیتا ہوں( یہ علیحدہ بات ہے آج تک بشپ کے دو تین دفعہ میرے سامنے کہنے کے باوجود کہ نوجوانوں سے معراج صاحب کی کوئی نشست رکھو۔ ان یوتھ کمیشن کے انچارج کاہن نے کبھی کسی نشست کا اہتمام نہیں کیا۔ پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ) لہٰذا چھوڑو اوراس بھولے بادشاہ نے چھوڑ دیا لیکن اپنے فیس بک پر ایک احتجاجی پیغام ضرور چھوڑ دیا لیکن میں جب بھی اس واقعے پر سوچتاہوں کہ میراصرف نوجوانوں سے مکالمے کا لالچ ہوتا ہے اور میں نے اس وقت احتجاج نہیں؟ جن لوگوں کی روزی روٹی یا روزگار ان سے وابستہ ہے تو وہ بیچارے کس طرح ان کو سمجھا سکتے ہیںپھرمجھے کاہن ماریو روڈرکس کا خیال آتا ہے جو شائد کراچی ڈاسیزن یوتھ کمیشن کا بھی انچارج ہے لیکن کتنا معصوم ہے ایک تجربہ کار کاہن ہونے کے باوجود بھی اس کی ذہنی حالت کیا ہے چرچ میں داخل ہوتے ہوئے کاہن ماریو رروڈرکس کی جو بدن بولی(Body Language) تھی وہ دیکھنے کے لائق تھی جس طرح وہ بلاول کے قافلے کو لیڈ کرتے ہوئے چرچ میںفخر سے داخل ہوا جس طرح اس نے ان مہمانوں کو بٹھایا اور پھر پاک ماس کے دوران جناب بلاول بھٹو زرداری صاحب کو تقریر کا موقع دیا وہ مہمان نوازی سے بڑھ کر کوئی جذبہ تھا جو یقینا غلامی کی ہزاروں سالہ مار کا نتیجہ ہی لگتاہے کیونکہ کاہن ماریو روڈرکس عام کا تھولک کلیسیاءکو تو چھوڑے وہ اچھے خاصے صاحبِ حیثیت مسیحیوں سے بھی سیدھے منہ بات نہیں کرتے جس کا ایک نمونہ میں بریگیڈیئرسیمسن سائمن شرف کی زبانی سن چکا ہوں جب وہ ڈاکٹر روتھ فاﺅ کی تدفین کے لئے خاص کر اسلام آباد سے کراچی آئے تھے اور انہوں نے بشپ صاحب سے ملنے کی کوشش کی بدقسمتی کہ ان کی ملاقات کاہن ماریوروڈرکس سے ہو گئی مسیحیوںکے اس فخر مسیحی فوجی افسر سے جو رویہ کاہن ماریو روڈرکس نے اپنایا اس سے وہ خاصے دل برداشتہ تھے اس کے علاوہ بھی ان کا جو رویہ اپنے ڈایوئسیس کے نوجوانوں سے ہوتا ہے وہ بھی قطعی کسی مذہبی رہنما کے شانِ شایان نہیں ہوتا اور یقینا 25دسمبر2016کے دن جو رویہ اس دن کاہن ماریو روڈرکس نے اپنایا اس میں اس بے چارے کا بھی کوئی قصور نہیں کیونکہ مجھے جب بھی سیمنری میں مستقبل کے کاہنوں سے مکالمے کا موقع ملتا ہے میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ جتنے بڑے بڑے ادارے انہوں نے جا کر سنبھالنے ہیں ان کی ذہنی استعداد اور تربیت اس طرح نہیں کی جا رہی۔میں ہمیشہ اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ہمیں اپنے کاہنوں کی تربیت ان خطوط پر کرنی ہے کہ وہ اپنی کلیسیاءکی مذہبی رہنمائی کے ساتھ ساتھ فکری، شعوری، تعلیمی، معاشی، سماجی ، معاشرتی ،علمی اورتہذیبی رہنمائی بھی کر سکیں۔ کیونکہ برصغیر اور خاص کر پاکستانی مسیحیوں کی تاریخی پسماندگی انہیں مجبور کرتی ہے۔ اُن میں سے اکثریت اپنی ہر طرح کی رہنمائی حتیٰ کہ سیاسی راہنمائی کیلئے بھی مذہبی راہنماﺅں کی طرف دیکھتے ہیںکیونکہ ایک تو مذہبی عقیدت دوسرا تعلیمی ادارے ان کے پاس اور کئی بے چاروں کا روزگار بھی چرچ سے وابستہ ہے گوکہ برصغیر کی تاریخ میں بھی مسیحی، مذہبی راہنماﺅں نے مذہب کے نام پر مسیحیوں کے لئے نہایت شاندار کارنامے انجام دیئے ہیں اور ایسے ادارے اور خاص کر تعلیمی ادارے بنائے ہیں جس سے آج بھی لوگ فیض یاب ہورہے ہیں جبکہ آج ہم ان اداروں کو مزید بہتر کرنے کی بجائے ان کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔اس خوفناک صورتحال اور ان دونوں مسائل سے نمٹنے کے لئے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کو استعمال کرکے اپنے نوجوان اور مستقبل کے مذہبی راہنماﺅں کی نہایت ہی اعلیٰ فکری اور تعلیمی تربیت کرنی پڑے گی چاہے اس پر جتنی مرضی سرمایہ کاری ہو اور پھر سے اپنے مذہبی تعلیمی اداروں کو دین کے ساتھ ساتھ دُنیاوی معاملات میں بھی متحرک کرنا پڑے گا اپنے مذہبی راہنماﺅں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے اور دورِحاضر سے ہم آہنگ بھی کرنا ہوگا۔ اور اِن دونوں مسائل سے نمٹنے کے لیے پھر سے اپنے اداروں کو متحرک کرنا پڑے گا اور اپنے نوجوان مذہبی راہنماﺅں کی فکری اور تعلےمی تربیت پر زےادہ سرماےہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ وہ آنے والے دنوں مےں اِن درپےش مسائل کا مقا بلہ کر سکےں اور اپنے اِن اداروں کی حفا ظت کر سکےں جسکی بدولت اِس خطے مےں پسے ہوئے انسانوں کو پستیوں سے نکا لا گےا ہے۔ کیایہ ایک تلخ حقیقت نہیں کہ ہمارے چرچز میں جو ٹوٹ پھوٹ اور لوٹ کھسوٹ کا عمل جاری ہے وہ ہمیں پھر ان پستیوں کی طرف دھکیل دے گا اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو جنہوں نے مستقبل میں ان اداروں کو سنبھالنا ہے ان کی ذہنی و فکری تربیت اس مقصد کو ذہن میں رکھ کر کی ہی نہیں اور نہ کررہے ہیں کہ ہمارے ان مذہبی رہنما¶ں کو مستقبل میں مالی اور تنظیمی سطح پر کتنے بڑے اداروں کو سنبھالنا ہے۔ لہٰذا جب ذہنی طور پر پست اہلیت کے لوگ ان اداروں کے سربراہ بنتے ہیں تو ان کی ذہنی بالیدگی اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ ان اداروں کو سنبھال سکیں۔ لہٰذا پھر ابن الوقت اور موقع پرست قسم کے لوگ ان کو اپنی انگلیوں پر نچاتے ہیں اور ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ اس خطے کے عام مسیحی اپنی ذہنی و مالی پسماندگی کی وجہ سے اپنی مذہبی تعلیمی غرض ہر طرح کی معاشرتی رہنمائی کے لیے مذہبی رہنما¶ں کی طرف دیکھتا ہے اس لیے پڑھا لکھا باشعور معاشرے سے ہم آہنگ مذہبی راہنما ہی اپنے لوگوں کی صحیح رہنمائی کر سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے مستقبل کے مذہبی رہنما¶ں کی تربیت کے بہت جامع اور دورِ حاضر سے ہم آہنگ پروگرام ترتیب دینے ہوں گے ورنہ اس خطے کے مسیحیوں کا انہی پستیوں میں گرنے کا قوی امکان ہے جن میں وہ ہزاروں سال سے تھے۔ لہٰذا اگر کاہن ماریو کی تربیت ان خطوط پر ہوئی ہوتی یقینا وہ ایسی حرکت نہ کرتا بلکہ اگر اس کی شعوری حالت ایسی ہوتی کہ اسے مسیحیت کی بنیادی فکر کا شعور ہوتا اور اسے سماجی معاشرتی معاملات کی تعلیمی آگاہی ایک عام سے سماجی معاشرتی کارکن جتنی بھی ہوتی تو کیا وہ صرف بلاول سے ملنے کے لئے تصویریں کھنچوانے یا کبھی کبھار جا کر اس کے مہنگے ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کے معمولی فائدے کے لئے اپنے مذہب کی ایک پاک رسم کا اس طرح مذاق اڑواتا یقینا نہیں لیکن کیونکہ اسے نہ تو فکری، نہ شعوری، نہ تعلیمی طور پر سماجی معاشرے کو اس طرح پر کھا کہ وہ بے چارہ اس قابل ہو سکے کہ وہ ان معصومیوں کے مذہبی، تہذیبی مفادات کا رکھوالا بن سکے لہٰذا اسے جو سمجھ آیا اس نے وہ کیا اور ہم معصوم بھیڑوں نے اپنے چھوٹے مقاصد یا ( کون ان چکروں میں پڑے) جیسے مشہور پاکستانی ڈاکٹرائن کی پیروی کرتے ہوئے کوئی احتجاج نہیں کیا اس طرح جب مریم نواز کے مشیروں نے بشپ سبسٹین شاءکو بہلایا پھسلایا ہو گا تو یقیناً اس بیچارے کو بھی ادراک نہیں ہو گا کہ وہ کیا کرنے جا رہا ہے ۔جب اکتیس اگست2017ءکو مریم صفدراپنے والد سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد قومی اسمبلی کے حلقہ این اے120 کی خالی ہونے والی نشست کے لئے اپنی والدہ کی انتخابی مہم کے لئے اپنے مسیحی مشیروں اور کاتھولک چرچ کی مذہبی قیادت کی ملی بھگت سے چرچ میں اپنی والدہ کی بیماری کے لئے دعا کے بہانے باقاعدہ انتخابی مہم چلانے کے لئے تشریف لائی۔ توبشپ اور اس کے ساتھیوں کا رویہ بھی ایسا نہیں تھا جیسا اس مذہبی حیثیت کے لوگوں کا ہونا چاہیے ہاں اگر کوئی اس رویے کومیزبانی، ملنساری، حلیمی اور خوش اخلاقی کے کھاتے میں ڈالنا چاہے تو ان خوبیوں کے حق دار زیادہ وہ ہیں یعنی عام کلیسیاءکے افراد جو ان کے لئے ہر وقت چشم براہ ہوتے ہیں اور ان سے ان کے مذہبی رہنماﺅں کا رویہ اکثر غیر مناسب ہوتا ہے ۔ لیکن سلام ہے ان مسیحیوں پر جنہوں نے لاہور میں عزت ماب بشپ سبیسٹین شاءکی کاہن ماریو روڈرکس جیسی حرکت پر آسمان سر پر اٹھا لیا اور سوشل میڈیا پر اتنی لے دے ہوئی کہ لاہور کے کاتھولک بشپ کو باقاعدہ اپنے نمائندے (وکر جنرل) کے ذریعے معافی مانگنی پڑی جو کہ اچھی بات ہے چلیے انہیں اپنی غلطی کا احساس تو ہوا لوگوں کا ردعمل چند ایک کو چھوڑ کر (جو بہت جارحانہ ہو گئے تھے) بڑا مناسب تھا بریگیڈر سیمسن شرف جیسے پڑھے لکھے لوگوں نے فوراً کاتھولک چرچ کی اعلیٰ ترین قیادت تک اپنا احتجاج پہنچا دیا اس سے فائدہ یہ ہو گیا کہ کچھ لوگ جو اس مقدس سیاسی گٹھ جوڑ کے ثمرات کا پھل کھانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے وہ کم از کم کاتھولک چرچ کی حد تک اب شائد حدود قیود میں رہیں گے( ویسے یہ میری خام خیالی ہے) کیونکہ مذہبی راہنماﺅں کے ارد گرد جس طرح کے کاریگر لوگوں نے گھیراﺅ کر رکھا ہے اور وہ خود بھی ان کاریگروں کو اپنے فرنٹ مین سمجھتے ہیں اور یہ فرنٹ مین انہیں اپنے پوسٹر بوائز اور پوسٹر بابے بنا کر بیچتے ہیں اس طرح یہ مقدس سیاسی مفاداتی الائنس خوب پنپ رہا ہے۔
اورتف ہے مجھ سمیت ان پر جو اس چرچ میں موجود تھے جو اسی طرح خاموش رہے جیسے 25دسمبر 2016ءکو میں خاموش رہا تھا لاہور میں جو کچھ ہوا کراچی میں اس سے بڑا ہوا تھا ۔ لاہور والا واقعہ تو ہائی لائٹ ہو گیا ورنہ سب کو پتہ ہے کہ ہر مسیحی وزیر مشیر نے بغل میں کئی کئی مذہبی رہنما دبائے ہوتے ہیں ( بلکہ ایسا بھی کہہ سکتے ہیں کہ اکثر مذہبی رہنماﺅں میں ایک دو مشیر، سفیر یا سیاسی اشرافیہ کے حواری رکھے ہوتے ہیں)دونوں فریقوں کے مفادات ہوتے ہیں سیاسی حواری اپنے بڑوںکو بتاتے ہیں کہ فلاں پادری کا سارا مجمع ہمارے ساتھ ہے اور پادری صاحب کو مجمع کی تعداد کے اعتبار سے محنتانہ مل جاتا ہے اس طرح چھوٹے پادریوں کی چمک دیکھ کر بڑے گرجے کے ذمہ داروں کو ہول اٹھتے ہیں کہ ہمارے پاس گرجا بھی بڑا ہے لوگ بھی زیادہ اکھٹے ہوتے ہیں لہٰذا ہمیں ہمارا حصہ بہ شکل نقد یا بہ صورت تصویر تقریر الیکٹرونکس میڈیا کوریج کیوں نہیں مل رہا لہٰذا اپنی اس معصوم ہوس کی بدولت وہ ان شکاریوں کا تر نوالہ بن جاتے ہیں جو ہر وقت اپنے آقاﺅں کو خوش کرنے کی تگ ودو میں لگے ہوتے ہیں اور ان کی خوشنودی کے لئے ہر کام کرنے کو تیار رہتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ جو مذہبی قیادت کے قریب رہنے والے، چرچ پاس لوگ یہ سیاسی لوگوں اور مذہبی راہنماﺅں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں اور اس پل بننے کے عمل میں خالص مذہبی اور روحانی تقریبات میں سیاسی لوگوں کو بلا کر ایسے ایسے مضحکہ خیز تماشے کئے جاتے ہیں کے جو پل بن رہا ہوتا ہے وہ تو اپنی حمیت ، غیرت عزت اور انا کو تو صاحب اختیار لوگوں کے پا¶ں تلے بچھا دیتا ہے لیکن ساتھ ہی اپنی کمیونٹی کی مجموعی شناخت کا بیڑا غرق کروا دیتا ہے۔ خود تووہ یہ سب اپنی کمزوریوں ، محرومیوں ہوس زر و اقتدر اور خود نمائی کے لالچ میں کر رہا ہوتا ہے لیکن اپنی خصلت کے بدولت وہ ساتھ پوری کمیونٹی کا بھی ستیا ناس کرتا ہے لیکن آفرین ہے ہمارے مذہبی راہنما¶ں پر جو اپنے اس بڑے لوگوں سے ملنے ملانے کے لالچ میں ذرہ بھر بھی اپنی عزت ، غیرت،حمیت اور انا کا خیال رکھتے ہوں۔جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مسیحیوں کی شناخت کی بدولت سینیٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے مسیحیوں کو سینیٹ، قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی میں بھیجنے کا صرف اور صرف یہ معیار ہے کہ کون اپنے اپنے آقا کو کتنا خوش رکھتا ہے لہٰذا یہ دیکھ کر پھر مذہبی پلیٹ فارم رکھنے والے مسیحی بھی اس دوڑ میں کود پڑتے ہیں اور مجموعی طور پر کیونکہ پاکستانی مسیحی کمیونٹی فکری، شعوری،تعلیمی ، معاشی، سماجی ، معاشرتی، علمی، مذہبی، تہذیبی و سیاسی طور پر پسماندہ ہے لہٰذا جس کے پاس جو کچھ ہے وہ بیچنے نکل پڑتا ہے اور حالت بقول شاعر کچھ یوں ہو گئی ہے۔
مفلس جو اگر تن کی قبا بیچ رہا ہے
واعظ بھی تو منبر پہ دعا بیچ رہا ہے
دونوں کو ہے درپیش سوال اپنے شکم کا
اک اپنی خودی اک خدا بیچ رہا ہے
”ہماری اس سیاسی پسماندگی کی ریاست بھی ذمہ دار ہے ریاست اس لئے کیونکہ 70 سالوںمیں ایسا انتخابی نظام نہیں دے سکی جس سے ہماری سیاسی تربیت ہوتی۔ریاست کی اس ذمہ داری کو پورا نہ کرنے کا اندازہ لگانے کے لئے آپ کو ریاست کے اپنے غیر مسلمان شہریوں پر پچھلے 70سالوں میں تھوپے گئے۔
انتخابی نظام کا بغور مطالعہ کریں تو جو نچوڑ نکلتا ہے وہ کچھ یوں ہے۔ کہ اس وقت ہماری شناخت پر سینیٹ، قومی وصوبائی اسمبلیوں میں اس وقت 37لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ان میں ہندو اورمسیحی سب سے زیادہ ہیں سکھ و دیگر برادریوں سے بھی چند ہیں لیکن اس کے باوجود مذہبی شناخت کی بدولت جب بھی کسی مذہبی گروہ کو کسی امتیازی رویے، امتیازی قوانین، سماجی ناانصافی ، معاشرتی، ظلم زیادتی یا جبری تبدیلی مذہب طرح کی کسی ظلم زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو متعلقہ برادری کی شناخت پر ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے شازو نادر ہی کوئی آواز سنائی دیتی ہے اس رویے کی بدولت غیر مسلم پاکستانی جو کہ 2017ءکی افراد شماری کے مطابق مسیحی3303615 ہندو جاتی3324392شیڈول کاسٹ 519436 ( اس کتابچے کے لئے تحقیق کے دوران میرے لئے یہ انکشاف حیران کن تھا کہ سندھ بھر اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں آباد ہندو شیڈول کاسٹ کے32 سب کاسٹ سے تعلق رکھنے والے ہر سماجی مذہبی و سیاسی کارکن کا یہ ہی کہنا ہے کہ شیڈول کاسٹ پاکستان بھر کی مجموعی ہندو آبادی کا 90سے 85فیصد ہیںجبکہ سرکاری اعدادو شمار انہیں مجموعی ہندو آبادی کا پونے16فیصد بتاتے ہیں یعنی سرکاری اعدادوشمار، زمینی حقائق اور عوامی بیانیہ ایک دوسرے کے انتہائی متضاد ہیں) احمدی457104 ہیںسکھ پارسی و دیگر 145442 ، غیر مسلم پاکستانی جو مجموعی طور پر 7749988 بنتے ہیں اوران 7749988 کے ووٹوں کی تعداد 29مارچ2018ءکے الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق ہندو ووٹرز1777289 مسیحی ووٹر 1638748 احمدی ووٹرز167505بہائی ووٹرز31543 سکھ ووٹرز8852 پارسی ووٹرز 4235 بدھست ووٹرز1884 ہیں۔ یہ سب ملا کر مجموعی طور پر 3630056ووٹ بنتے ہیں۔لیکن یہ سارے ووٹر اتنے نمائندے ہونے کے باوجود اپنے آپ کو لاوارث اور سیاسی یتیم سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ہمارا سماجی ناانصافی پر مبنی معاشرہ ہے جو کہ کمزور کیلئے بالکل غیر محفوظ ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب رنگ فرقے اور مسلک سے ہو۔ لیکن غیر مسلم پاکستانیوں کی بے چینی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے حلقے کے ایم این اے، ایم پی اے ایسی صورت میں جب ایسی کسی صورت حال کا سامنا عددی اعتبار سے کسی چھوٹے گروہ کو ہو تو عموماً ایسی صورت میں حلقے کا نمائندہ زیادہ ووٹوں والی برادری کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے ۔متعلقہ برادری کا نمائندہ کیونکہ اپنی برادری کے ووٹوں سے منتخب ہو کر نہیں آتا لہٰذا وہ ایسی صورت میں اپنی پارٹی مفادات کے ساتھ ہوتا ہے ناکہ متعلقہ برادری کے ساتھ اس میں اس بیچارے کا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا ۔کیونکہ وہ ہمیں جواب دے نہیں ہے لہٰذا اس کی ہمدردی اسی کے ساتھ ہو گی، جس نے اسے چاہے ہماری شناخت پر ہی لیکن جنبش قلم سے سینیٹر، ایم این اے یا ایم پی اے بنا دیا ہوتا ہے۔ اس کے لئے یقیناً وطن عزیز کی سیاسی اشرافیہ بھی ذمہ دار ہے اور ہم عام لوگ بھی اور ہمارے سماجی، مذہبی، سیاسی رہنما بھی۔ جو آج تک کوئی ایسا انتخابی نظام وضع ہی نہیں کروا سکے۔ جس سے اس ملک کے تقریباً اٹھتر لاکھ دھرتی کے بچوں جو کہ اس ملک میں آزادی ہند، قیام پاکستان، تعمیر پاکستان اور دفاع پاکستان میں بھی دھرتی کے دوسرے بچوں کے ساتھ پیش پیش رہے ہیں۔ وہ چاہے روپلوکولھی ہو جوگندر ناتھ منڈل ہوں جسٹس بھگوان داس ہوں، صوبوگیان چندانی ہوں یا دیگر ایسے ہزاروں پاکستان کے قیام تعمیر و تشکیل کے معمار ہوں۔ سردار ہری سنگھ ہو جنہوں نے قائد کی آواز پر اپنے خاندان کے 129 افراد کی قربانی دے کر امرتسر سے لاہور ہجرت کی ہو۔ یا راجہ تری دیو ہو جس سے اپنی راج دہانی (ریاست) چھوڑ کر سقوط ڈھاکہ کے بعد قائد کے وطن سے اپنی آخری سانسوں تک وفاداری نبھائی۔ اس میں وہ بے شمار پارسی جو جدید کراچی کے معمار ہیں ان کی خدمات بھی کسی سے کم نہیں اس طرح اس ملک کے مسیحی بچے بھی دوسرے پاکستانی مسلم و غیر مسلم پاکستانیوں کی طرح اس دھرتی کے بچے ہیں۔ آزادی ہند کے سپاہی بھی ہیں قوم و معاشرے کے معمار بھی ہیں اور محافظ، غازی اور شہید بھی ہیں غرض یہ اٹھتر لاکھ کے قریب غیر مسلم دھرتی کے بچے آج بھی دن رات اپنی اپنی بساط کے مطابق اس ملک قوم و معاشرے کی تشکیل میں مصروف عمل ہیں۔لیکن ان سب حقائق کے باوجود بھی یہ پاکستانی شہری اپنے بنیادی سیاسی حقوق سے کیوں محروم رہے اس کے لئے ہم غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے وضع کئے گئے اب تک انتخابی نظاموں کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں ستر سال میں ان دھرتی واسیوں کے لئے کون کون سے انتخابی نظام تھوپے گئے اس کے لئے یہاںمیں تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی اپنی کتب میں سے ایک کتاب” دھرتی جائے کیوں پرائے؟“ سے اقتباس پیش کرتا ہوں۔
”ہماری اس سیاسی پسماندگی کی ریاست بھی ذمہ دار ہے ریاست اس لئے کہ 73 سالوںمیں ایسا انتخابی نظام نہیں دے سکی جس سے ہماری سیاسی تربیت ہوتی۔ریاست کی اس ذمہ داری کو پورا نہ کرنے کا اندازہ لگانے کے لئے آپ کو ریاست کے اپنے غیر مسلم شہریوں پر پچھلے 73سالوں میں تھوپے گئے انتخابی نظام کا بغور مطالعہ کریں تو جو نچوڑ نکلتا ہے وہ کچھ یوں ہے۔ 1946 سے 1954ء1955 سے 1958ء1962ءسے 1964ء1965سے 1969 پہلے تئیس اور چوبیس سال میں بننے والی چاروں قومی اسمبلیوںکی تفصیل یہ ہے پہلی اسمبلی میں 69ممبران پر مشتمل تھی جس میں 14غیر مسلم تھے اور سب ہندو پاکستانی تھے، چودہ میں ایک مغربی پنجاب سے اور ایک کا پتہ قومی اسمبلی کے ریکارڈ کے مطابق کراچی کا ہے باقی سب مشرقی پاکستان موجودہ بنگلا دیش سے تھے دوسری اسمبلی کے 72ممبران میں سے 11غیر مسلم تھے جن میں سے 9ہندو پاکستانی تھے جن میں آٹھ مشرقی پاکستان سے تھے صرف ایک سندھ سے باقی دو مسیحی تھے جن میں سے ایک سی ای گبن پنجاب سے اور دوسرے گومز پال پیٹرمشرقی پاکستان سے تھے اس طرح گیارہ میںسے 9مشرقی پاکستان سے تھے تیسری اسمبلی الیکشن سے منتخب ہوئی جس میں کوئی غیر مسلم نہ مشرقی پاکستان نہ مغربی پاکستان سے منتخب ہوا چوتھی اسمبلی میں بھی کوئی غیر مسلم جگہ نہ بنا سکا۔ اس طرح پہلی چار اسمبلیوں میں سے دو میں نامزدگیاں ہوئیں اور یقینا یہ یہ نامزدگیاں سیاسی اشرافیہ خود ہی کرتی ہو گی۔ یہ پاکستان کی انتخابی تاریخ کا پاکستانی غیرمسلم شہریوں کے لئے پہلا دور تھا۔جس میں دو دفعہ الیکشن اور دو دفعہ سلیکشن کو آزمایا گیا۔
دوسرا دور 1970ءسے شروع ہوا۔ 1970ءمیں جب پہلی دفعہ جنرل الیکشن ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر الیکشن ہوئے تو ان مخلوط الیکشن میں مسیحیوں نے پاکستانی مسیحی لیگ کے پلیٹ فارم سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 33 نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیالیکن کہیں کوئی بھی امیدوار اپنا زرضمانت بھی نہ بچا سکا۔
الیکشن کے بعد دو سال جنگ کی تباہ کاریوں اور فوجی سول رسہ گیری اور بھٹو کے بطور چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر گزرے۔ ان الیکشنوں میں مغربی پاکستان سے کوئی غیر مسلم قومی اسمبلی کے الیکشن نہ جیت سکا۔ لیکن ایک ممبر قومی اسمبلی بنا جس کا حلقہ انتخاب مغربی پاکستان موجودہ بنگلا دیش میں رہ گیا اور ممبر اسمبلی راجہ تری دیو پاکستان کی قومی اسمبلی کا ممبر بنا اس مخلوط الیکشن میں صرف رانا چندر سنگھ الیکشن جیت سکے اور وہ بھی سندھ کی صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں پاکستان کی قومی اسمبلی میں کوئی غیر مسلم قومی اسمبلی کا ممبر منتخب نہ ہوا کیونکہ راجہ تری دیو جس اسمبلی میں تشریف فرما تھے۔ ان کا حلقہ انتخاب اس اسمبلی کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں نہیں آتا تھا۔ لیکن جب بھٹو نے بطور مارشل ایڈمنسٹریٹر مارشل ریگولیشن 118 کے تحت نجی ادارے قومیائے تو پاکستانی مسیحیوں کے تعلیمی ادارے بھی اس نیشنلائزیشن کی پالیسی کا شکار ہو گئے اور یوں مسیحیوں کو اپنی انتخابی محرومی کا غصہ نکالنے کا بھی موقع مل گیا کیونکہ مسیحی تعلیمی اداروں کے قومیائے (نیشنلائز) کئے جانے سے تقریباً ہر مسیحی مکتبہ فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا۔ سیاسی، مذہبی، سماجی راہنماوں کی قیادت میں جب مسیحی جلوس کے شرکاءنے وزیر اعظم ہاوس کو یاداشت پیش کرنے کے لئے وزیر اعظم ہاوس کی طرف پیش قدمی کی تو 30 اگست 1972ءکو اس پُرامن جلوس کے شرکاءپر پولیس نے فائرنگ کردی، دو پاکستانی مسیحی آر ایم جیمز اور نواز مسیح شہید ہوئے۔ تاریخ خاموش ہے کہ ان شہداءکے قتل کا مقدمہ کس پر قائم ہوا۔ہوا بھی یا نہیں؟ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس وقت کے مسیحی مذہبی، سیاسی وسماجی کارکنوں پر مقدمات بنائے گئے،کئی ایک کو صوبہ بدر کیا گیا۔جن میں راولپنڈی کے جلوس کی پاداش میں کرنل (ر)جارج ایبل اور پروفیسر سلامت اختر پر اردہ قتل و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے مقدمات بنائے اور پابند سلاسل کیا۔ جب کہ سیالکوٹ میںاوربہت سے دوسرے مسیحی کارکنوںپر نقص امن جن میں نمایاں عمانوئیل ظفر،گلزار چوہان،، چوہدری اے حمید،ڈاکٹر ار۔ایم حر و دیگر پر مقدمات بنا کر انھیں جیلوں میں ڈالا گیا۔اس سب کے باوجود حکومت کو پسپا ہونا پڑا۔ حکومت نے ادارے تو واپس نہیں کیے۔ لیکن 1973ءکے آئین میں نامزدگی کی بنیاد پر غیر مسلموں کو 6قومی اسمبلی سیٹیں دے دی گئی جن میں چار مسیحی ایک ہندو اور ایک احمدی نامزد ہوئے۔ یوں اس جمہوری دور میں بھی غیر مسلم کے ہاتھ صرف نامزدگیاں ہی آئیں اور نامزدگیوں کے انتخاب کے میرٹ کا اندازہ اس لئے لگا لیجیے۔ اسمبلی کی ٹرم کے دوران جب ایک نامزد ممبر کی موت ہوئی تو اس کی جگہ اس کی بیوی نجمہ اینڈریوز کو نامزد کر دیا گیا۔لیکن یہ مہربانی صرف قومی اسمبلی کے لئے تھی صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم ممبران کی نامزدگی کے لئے 1976ءمیں آئین میں چھٹی آئینی ترمیم کے ذریعے ان دھرتی کے بچوں کے لئے صوبائی اسمبلیوں میں جگہ بنائی گئی، یعنی1973ءکا متفقہ آئین بنانے والے اس بات سے بے خبر تھے کہ اس فیڈریشن کے وفاق کی اکائیوں میں بھی غیر مسلم دھرتی کے بچے بستے ہیں۔ اس طرح دو مسیحی شہداءکے خون کے بدلے سات لوگوں نے قومی اسمبلی میں بیٹھنے کا مزہ اس طرح لیا۔کہ (ایک بیگم نجمہ ریواز تھی جو اپنے خاوند کی موت کے بعد نامزد ہوئی)
اور اب تک انہی شہداءکے خون کے طفیل تقریباً تین سو کے قریب غیر مسلم ممبران سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلی بن چکے ہیں۔ لیکن شائد ہی کسی کو اس کے لئے جدوجہد کرنے والے اس وقت کے لوگوں اور ان دو شہداءکا نام بھی معلوم ہو۔ پھر 1979ءمیں جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاءکے ذریعے حکومت سنبھالی اوریہ طریقہ نامزدگی ضیاءالحق نے 1982ءکی اسمبلی میں بھی قائم رکھا۔جس کو مجلس شوریٰ کا نام دیا گیا اس کے بعد 1985ءسے ایک نئے انتخابی نظام کو غیر مسلم پاکستانیوں کا مقصد بنایا گیا یعنی جداگانہ انتخابی نظام جو1985ءسے 1997ءکے عام انتخابات تک جاری رہا جس کی کہانی کچھ یوں ہے۔
1985ءمیں پاکستان کے وجود میں آنے کے تقریباً 38 سال بعد پہلی دفعہ غیر مسلم پاکستانیوں کی نمائندگی بذریعہ انتخابات دینے کی منظوری دی گئی اس کے طریقہ انتخاب کو بغیر کسی منصوبہ بندی کے اقلیتوں(غیر مسلم پاکستانیوں) پر تھوپ دیا گیا۔ جداگانہ طریقہ انتخاب میں اقلیتی ممبران کو قومی اسمبلی کے لئے پورا پاکستان حلقہ بنا کر دیا گیا اور صوبائی نشست کے لئے پورا صوبہ حلقہ بنا دیا گیا۔ جو کہ نمائندگی دینے کے نام پر اقلیتوں کے ساتھ ایک سنگین مذاق تھا کہ وہ اچھوتوں کی طرح صرف اپنے ہم مذہب لوگوں سے پورے پاکستان سے ووٹ مانگیں۔ پاکستان کے غیر مسلم خاص کر مسیحی چند ایک کو چھوڑ کر مالی طور پر ویسے ہی بڑے کمزور ہیںاس انتخابی نظام میں قومی اسمبلی کے لئے حلقہ پورا پاکستان اور صوبائی انتخاب کے لئے حلقہ پورا صوبہ ٹھہرا۔ مسیحیوں کے لئے یہ کڑا امتحان تھا کیونکہ مسیحی تو آباد بھی پورے پاکستان کے ہر صوبے کے ہر شہر اور گاوں میں ہیں۔ لیکن ان بیچاروں نے 1985، 1988ئ، 1990ء، 1993ءاور 1997ءمیں جداگانہ طریقہ انتخاب میں پانچ بار حصہ لیا۔اس نظام کے ثمرات 1999ءتک حاصل ہوتے رہے۔ گوکہ سیاسی شعور رکھنے والے سیاسی ورکر اس پر آواز اٹھاتے رہےلیکن زیادہ ترغیر مسلم مسیحی نمائندے ذوق وشوق سے ان انتخابات میں حصہ لیتے رہے۔
اس نظام میں غیر مسلم پاکستانیوں کو اپنے نمائندے تو مل گئے اور غیر مسلم پاکستانیوں کی سیاسی تربیت بھی ہوئی لیکن اس نظام کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان کے غیر مسلم بچوں کو قومی دھارے سے ہی کاٹ دیا گیا۔ یہ اس نظام کی بہت بڑی خرابی تھی ۔ غیر مسلم ووٹر کے حلقے کا نمائندہ چاہے وہ کسی بھی ایوان کا رکن ہو یعنی پاکستان کے تینوں ایوانوں سینیٹ، قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا رکن ہو اور اس کا رشتہ غیر مسلم ووٹر سے محلے داری یا پڑوس کا بھی ہو لیکن اس طریقہ انتخاب میں ووٹر اور حلقے کے نمائندے کو ایک دوسرے کےلئے اچھوت بنا دیا گیا، غیر مسلم ووٹر اور مسلم امیدوار برائے ممبر قومی یا صوبائی اسمبلی کے درمیان ہزاروں سال پرانے برہمن اور شودر کا رشتہ قائم کردیا گیا۔لیکن آفرین ہے غیر مسلم پاکستانیوں کی راہنمائی کے دعوے داروں پر انہوں نے اس طریقہ انتخاب میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بڑے بڑے عزت دار اس نظام کی بدولت راضی خوشی شودر بننے پر تیار ہوئے۔ قومی دھارے سے کٹ کر بھی ایوانوں کے رکن بن کر خوش ہوئے۔ لیکن اس طریقہ انتخاب میں سب سے بڑا نقصان پاکستان کے عام غیر مسلم شہری کا ہوا۔ جس کا قومی اور صوبائی حکومتوں کے بنانے میں عمل دخل یک لخت ختم کر دیا گیا۔ اس طریقہ انتخاب سے منتخب ہونے والے اپنی اپنی برادریوں سے ووٹ لے کر منتخب ہونے کے بعد اپنی مرضی سے جس مرضی پارٹی میں شامل ہو جاتے اس طرح یہ جمہوریت کے ساتھ ایک بڑا ظلم تھا۔
اور پھر 1999ءمیں مشرف کی فوجی مداخلت ہوئی۔ اور 2002ئ میں جب الیکشن ہوئے اور کنٹرولڈ جمہوری نظام شروع ہوا تو ڈکٹیٹر نے شودر ووٹروں کے شودر ایم این اے ، ایم پی اے کو بھی برہمن شہریوں کے برابر کر دیا۔ یہ اس نظام کااور ڈکٹیٹر کا انتہائی مثبت قدم تھا۔ جس سے تقریباً78لاکھ غیر مسلم پاکستانیوں کو قومی شناخت مل گئی۔ اور آمر کے ذریعے پاکستان کے غیر مسلم پاکستانی جمہوری عمل کا حصہّ بن گئے،لیکن مذہبی شناخت پر مخصوص نشستوں پر نامزدگی کا استحقاق سیاسی اشرافیہ نے اپنے پاس رکھ لیا۔گوکہ اس نظام میں مخلوط انتخابات کی بدولت،ہر پاکستانی امیدوار ہر پاکستانی ووٹر سے مذہب مسلک رنگ نسل سے بالاتر ہو کر ووٹ مانگ سکتا ہے۔
لیکن پتہ نہیں ( چند ہندوپاکستانیوں کی ایک دو مثالوں کو چھوڑ کر) غیر مسلم پاکستانی شہریوں کی سیاسی پسماندگی ہے یا نالائقی یا غلامی کی خوبوہے، جو ہمارے لہو میں رچ بس گئی ہے، یا سیاسیی اشرافیہ کی ناکامی ہے کہ آج تک چند ہندو پاکستانیوں کی مثالوں کو چھوڑ کر ملک بھر میں کسی صوبائی یا قومی اسمبلی کے کسی حلقے میں کسی مسیحی یا دیگر غیر مسلم سیاسی شخص کو چاہیے وہ جتنا بھی بڑا سیاسی گرو اپنے آپ کو سمجھتا ہو کو ان کے سیاسی آقاوں نے میرٹ پر ٹکٹ نہیں دیا۔ اور اسے پاکستانی امیدوار بنا کر پاکستانی ووٹروں کے سامنے پیش نہیں کیا۔یہ پاکستانی سیاسی قائدین کی دیگر کمزوریوں میں سے ایک بڑی کمزروی ہے۔ اور مسیحی سیاسی کارکنوں کی سیاسی قابلیت کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔
پتہ نہیں آج تک ان میں سے کوئی اس میرٹ پر پورا کیوں نہیں ا±ترا؟ (گو کہ اس کی کئی تاریخی ،سیاسی ،مذہبی وسماجی وجوہات ہو سکتی ہیں) مثلاً ہماری سیاسی اشرافیہ آج تک اپنے سیاسی پیروکاروں کی تربیت نہیں کر سکی کہ وہ اپنے امیدوار کو سیاسی منشور پر ووٹ دیں، نہ کہ برادری مذہب رنگ اور نسل کی بنیاد پر ساتھ ہی اس نظام میں پھر سیاسی اشرافیہ نے غیرمسلمان پاکستانی شہریوں کے مذاہب کی بنیاد پر نمائندگی کرنے والوں کو چننے کا حق پھر متناسب نمائندگی کے نام پر اپنے پاس رکھ لیا ہے اور غیر مسلم پاکستانیوں کے نام پر اپنے ایسے ایسے من پسند غلاموں اور طفیلیوں کو غیر مسلم کا نمائندہ (حکمران) بنا کر بٹھایا بلکہ ان کے سروں پر مسلط کردیا جاتا ہے جن کا ان سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔اس لئے اگر کبھی جس مذہبی گروہ کی وہ نمائندگی کرتے ہیں اس برادری کے اور ان کے سیاسی آقاوں کے مفادات میں ٹکراو ہو تو وہ اپنے سیاسی آقاوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ناکہ ان بیچارے معصوم محرومیوں اور پسماندگیوں کے مارے ہووں کے ساتھ جن بیچاروں کی محرومیوں کے نام پر وہ اپنے تیس تیس سکے کھرے کر رہے ہوتے ہیں۔ اور وہ اس میں حق بجانب بھی ہیں۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے، انسان اسی کو جواب دہ ہوتا ہے جس نے اسے کسی منصب پر بٹھایا ہو۔ ناکہ اُسے جس کے نام پر بیٹھا ہو ( اس کی ایک مثال ہماری سیاسی اشرافیہ کا رویہ بھی ہے جو مبینہ طور پر بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ جواب دہ ہوتی ہے بہ نسبت عام پاکستانی کے) متناسب نمائندگی کے اس طریقہ انتخاب نے اور بھی بڑی سماجی برائیوں کو جنم دیا ہے مثلاً خوشامد، چاپلوسی، سیاسی پارٹیوں کے ورکروں کی ایک دوسرے سے حسد و نفرت اور دیگر اس طرح کی اور کئی قباحتیں اس نظام کی پیداوار ہیں۔ جس میں یقیناً سب سے بڑی غیر جمہوری روایات یہ ہے کہ 3626365ووٹروں کے 37نمائندے تین یا چار سیاسی لیڈر سلیکٹ کرتے ہیں۔
اب ان نام نہاد نمائندوں نے نمائندگی خاک کرنی ہوتی ہے وہ اپنے نامزد کرنے والے آقاوں کے مفادات کے ایوانوں میں رکھوالے ہوتے ہیں۔ناکہ اپنے ان ہم عقیدہ لوگوں کے جن کے نمائندہ ہونے کے وہ دعوے دار ہوتے ہیں۔ اور وہ یقینا اس میں حق بجانب ہوتے ہیں نام چاہے غیر مسلم پاکستانی شہریوں کا ہوتا ہے لیکن وہ عہدے تو کسی اور ہی کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔
اس نظام کے تحت2002ء،2008، 2013ء، اور2018ءکے انتخابات ہو چکے ہیں۔ ہر بار کم از کم 37غیر مسلم اور کئی بار چالیس بیالیس بھی(خواتین کی مخصوص نشستوں کی وجہ سے مخصوص 37 سیٹوں کے علاوہ بھی کچھ خواتین قومی و صوبائی ایوانوں میں جا بیٹھتی ہیں) اور ان جمہوری غلاموں کو نامزد کرنے کا ایک معیار ہوتا ہے ۔ کہ پارٹی کے کرتا دھرتا کس اُمیدوار سے کتنے خوش ہیں۔
اب اگر ہم اس ستر سالہ سیاسی المیے کو چند لفظوں میں بیان کریں۔تو وہ یوں ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کبھی سیاسی اشرافیہ نے متناسب نمائندگی کے ذریعے نامزدگی سے اپنی مرضی کے نمائندے ایوانوں میں اپنے ساتھ بٹھا لئے تو کبھی مخلوط انتخابی نظام کی بدولت انہیں ایوانوں سے دور رہنا پڑا پھر جداگانہ انتخابی نظام کی بدولت ان دھرتی واسیوں کو ان کی قومی شناخت سے ہاتھ دھونے پڑے اور اب مخلوط کی بدولت انہیں اپنی قومی شناخت تو مل گئی لیکن متناسب نمائندگی کے نام پر ان خاک نشینوں کے نام پر چند جمہوری غلاموں کو ایوانوں میں بٹھا لیا جاتا ہے۔
اس لئے غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے ایسا سیاسی نظام درکار ہے ،جس میں وہ اپنی پاکستانی قومی شناخت کے لیے اپنے حلقے کا نمائندہ منتخب کریں۔اپنے مذہبی حقوق کے مفادات کے لیے اپنے مذہبی نمائندے بھی اپنے ووٹ سے ہی منتخب کریں کیونکہ نہ تو ہماری سیاسی نشوونما کے لئے ایسا مخلوط طریقہ انتخاب بہتر ہے جس میں ہماری نمائندگی ہی نہ ہو اور متناسب نمائندگی والی جمہوریت کے ذریعے نامزدگی کے نام پر آمرانہ طور طریقوں سے سیاسی جماعتوں کے منظورِ نظرکارکنوں کو ہمارا رہنما چن لیا جائے اور نہ ہی جداگانہ طریقہ انتخاب ہمیں مکمل پاکستانی اور آزاد شہری ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ بلکہ معاشرے اور سماج میں اچھوت بنا کر رکھ دیتا ہے۔
لہٰذا پاکستان میں غیر مسلم پاکستانیوں کو مکمل پاکستانی اور اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے دوہرے ووٹ کا حق دیاجائے جس میں ان کی قومی شناخت بھی قائم رہے اور ان کی مذہبی شناخت کے نام پر جو لوگ ایوانوں میں پہنچے انہیں بھی منتخب کرنے کا اختیار ان کے پاس ہو۔ یعنی ایک ووٹ وہ اپنے حلقے میں اپنی قومی ، صوبائی ضلعی، تحصیل و یوسی میں دیں اور دوسرا ووٹ اپنی شناخت پر ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو اپنے ووٹ سے منتخب کرنے کے لئے دیں۔
اس طریقہ انتخاب میں وہ اپنی پاکستانی قومی شناخت کے لئے اپنے قومی اور صوبائی حلقے کا نمائندہ منتخب کریں اور اپنے مذہبی حقوق اور مفادات کے لئے اپنے مذہبی شناخت پر ایوانوں میں بیٹھنے والے نمائندے بھی اپنے ووٹ سے ہی منتخب کریں۔ اس نظام انتخاب کی تفصیلات مثلاً حلقہ بندیاںاور دیگر خدوخال آبادی کے اعدادو شمارو مختلف انتظامی اکائیوں کی جغرافیائی حدود سامنے رکھ کر اور معروضی حالات کے مطابق وضع کئے جا سکتے ہیں۔ اسی میں پاکستانی اقلیتوں کی سیاسی بقاءاور اسی میں پاکستان کے جمہوری نظام کی بقاءبھی ہے۔گوکہ یہ بھی کوئی بڑی آئیڈیل صورت حال نہیں ہو گی، کیونکہ اس آئینی ترمیم کے باوجودِ آئین پاکستان کی کئی شقیں پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کے بنیادی شہری وانسانی حقوق سے متصادم ہیں۔لیکن پاکستان کے یہ امن پسند شہری اپنے ریاستی اداروں کی مجبوریوں، کمزوریوں کی بدولت ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔اس لیے یہ بے ضرر سی آئینی ترمیم غیر مسلم شہریوں کے لئے بڑا ریلیف ہوسکتی ہے یہ بات قابل غور ہے کہ مختلف ادوار میں ریاستی اداروں اور حکومتوں نے مختلف طریقوں سے غیر مسلم پاکستانیوں کو انتخابی نظام سے مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے جس کی ایک مثال موجودہ نظام میں قومی شناخت کے ساتھ مذہبی شناخت پر مخصوص نشستوں کے ذریعے نمائندے دینے کی کوشش ہے۔ لیکن جامع منصوبہ بندی اور فکری بحث نہ ہونے کی وجہ سے غیر مسلم پاکستانی ان طریقوں سے مطمئن نہیں ہوئے بس اس نظام کو زمینی حقائق اور ملک کی انتظامی آکائیوں میں غیر مسلموں کی آبادی کے تناسب سے حلقہ بندیوں کے ساتھ ان مخصوص نشستوں کے لئے ہر مذہبی گروہ کے نمائندوں کو چننے کا حق اس مذہبی گروہ کو دے دیا جائے جن کی مذہبی شناخت کی نمائندگی وہ مختلف ایوانوں میں کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ان کی قومی، صوبائی ، ضلعی ، تحصیل اور یو سی سطح کی قومی نمائندگی کو بھی برقرار رکھا جائے اس تھوڑی سی کوشش سے غیر مسلم پاکستانی شہریوں کو سیاسی طور پر مطمئن کرکے ان کے دیگر فکری، شعوری، تعلیمی، معاشی، سماجی، معاشرتی، علمی مذہبی، تہذیبی اور سیاسی مسائل کا بھی سدباب کیا جاسکتا ہے ۔
کیونکہ اب تک غیر مسلم پاکستانی شہریوں پر تھوپے گئے طرزِ انتخابات سے ایک میں قومی شناخت کھو جاتی ہے اور دوسرے میں مذہبی شناخت اور حقوق کے نام پرمنتخب ہونے والے نمائندے تحفظ کسی اور کے مفادات کا کرتے ہیں اس جمہوری نظام کی بقا ،غیر مسلم پاکستانیوں کو مطمئن کرنے سے مشروط ہے۔ کیونکہ آج کے ترقی اور تہذیب یافتہ دور میں کسی بھی ملک کی سیاسی ،سماجی و مادی ترقی کا ایک معیاریہ بھی ہے کہ وہاں کے رنگ نسل مذہب مسلک کی بنیاد پر اقلیت قرار دیئے گئے شہری اپنے سیاسی و سماجی معاملات سے کتنے مطمئن ہیں اور وہاں کی اقلیتیں اپنے سماجی ، مذہبی اور سیاسی حقوق سے کتنی مطمئن ہیں۔ پاکستانی معاشرے اور سیاسی نظام میں غیر مسلم پاکستانیوں کی کیا اہمیت ہے یہ اس کے ایک پہلو کا جائزہ ہم ان دستیاب اعدادو شمار سے کرتے ہیں۔
پاکستان بھرمیں غیر مسلموں کے مجموعی ووٹ توصرف 3626365 ہیں لیکن یہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ کمیونٹی ورلڈ سروس ایشیا کے ایک سروے مطبوعہ اگست2012 ءکے مطابق 2008ءکے انتخاب میں پاکستان بھر کے59انتخابی حلقے ایسے تھے جن میں غیر مسلم پاکستانی ووٹروں کی تعداد ہارنے والے اور جیتنے والے امیدوار کے درمیان ووٹوں کی تعداد سے زیادہ تھی اسی طرح ایک اور تحقیق کے مطابق قومی اسمبلی کے 98 انتخابی حلقے ایسے ہیں جہاں غیر مسلم ووٹروں کی تعداد دس ہزار یا اس سے زیادہ ہے اسی طرح ایک اور تحقیق کے مطابق پاکستان بھر کے چودہ اضلاع میں مسیحی ووٹروں کی تعداد پچاس ہزار یا اس سے زیادہ ہے جن میں 13اضلاع پنجاب کے ہیں اور ایک ضلع کراچی کا ہے اسی تحقیق کے مطابق پاکستان بھر میں ہندو ووٹروں کی تعداد11اضلاع میں پچاس ہزار یا اس سے زیادہ ہے جن میں 10سندھ میں اور ایک پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں ہے۔ اس لئے جب مختلف پارٹیاں سیٹ حاصل کرنے کے لئے اپنے غیر مسلم امیدواروں کو غیر مسلم ووٹروں کے سامنے میدان میں اتاریں گی۔ تو یقیناً پھر اپنے اپنے امیدوار کو جتوانے کے لئے قومی سطح پرغیر مسلموں کے لئے اپنے اپنے منشور میں ان کے مسائل کوبھی جگہ دیں گی ۔ جس سے ملک بھر میں مذہبی اور سماجی ہم آہنگی کی فضا قائم ہو گی اور ملک میںایسے ناخوشگوارواقعات میں کمی آئے گی جن سے آئے دن وطن عزیز کو عالمی طاقتیں اور استعماری قوتیں مذہبی اقلیتوں سے ظلم زیادتی کے طعنے دیتی ہیں۔ پاکستانی قوم کا وقار اقوام عالم میں بلند ہو گا غیر مسلم پاکستانی اپنی قومی اور مذہبی شناخت ملنے پر مطمئن ہوں گے۔
اوپر بیان کئے گئے تاریخی شواہد ثابت کرتے ہیں کہ اس ساری صورت حال کے سیاسی اشرافیہ کے ساتھ ہم خود بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ مخلوط طریقہ انتخاب میں ہم میرٹ پر کچھ حاصل نہ کر سکے تو ہم نے جداگانہ طریقہ انتخاب کا نا نعرہ لگایا ، جدا گانہ طریقہ انتخاب میں ہم اچھوت بن گئے تو زیادہ تر اس اچھوت حیثیت میں بھی مفاد تلاش کرتے رہے لیکن چند سر پھروں نے پھر مخلوط کا نعرہ لگایا جب مخلوط ملا تو اب پھر ہم اچھوت بننے کے لئے جداگانہ مانگ رہے ہیں تاکہ اس اچھوت نظام میں سے بھی کچھ کے لئے زلت آمیز رفتیں نکل آئیں، یعنی ہم نے 73 سالوں میں کچھ سیکھا نہیں اور مسیحی جو برصغیر میں تعلیم کے بانیوں اورسیاسی ، سماجی شعور و آگاہی دینے والوں کے جانشین ہیں پورے ملک میں پھیلے تعلیمی اداروں کے مالک ہیں لیکن وہ اپنے لوگوں یعنی مسیحیوں کی فکری وشعوری تربیت نہ کر سکے اور ہندو جوسوبھوگیان چندانی جیسے سیاسی گروں کے جانشین ہیں۔ وہ بھی کوئی فکری چھوڑ کسی بھی قسم کی جدوجہد نہ کر سکے اور دیگر مذہبی اقلیتیں تعداد انتہائی کم ہونے کی وجہ سے اس طرح کی کسی جدوجہد کا حصہ ہی نہ بن سکی“۔
اس طرح قیام پاکستان سے لے کر اب تک بڑے جمہوریت پسند انصاف پسند ، مساوات پسند اور بکتر بند والے بھی آئے لیکن 15بارپاکستانی قومی اسمبلی اور لگ بھگ اتنی ہی بار صوبائی اسمبلیاں اور 1973ءکے آئین کے بعد سینیٹ بھی کئی بار بنتی دیکھی، اس ساری انتخابی تاریخ میں سوائے ان چند جو کہ(تقریباً تین سو بنتے ہیں) سینیٹر ممبران و قومی و صوبائی اسمبلی ہندو مسیحی، سکھ ، پارسی احمدی ملا کر تقریباً تین سو لوگوں کے بھی کوئی غیر مسلم پاکستانی مطمئن نہ تھا نہ ہے اور اگرکچھ کے لئے غیر سنجیدہ کھیل کچھ کے لئے المیہ اور کچھ کے لئے سنہری موقع فراہم کرتا طریقہ انتخاب ایسے ہی جاری رہا تو نہ تقریباً78 لاکھ غیرمسلم پاکستانی اس سے کبھی بھی خوش اور مطمئن نہ ہوں گے۔
حد تو یہ ہے کہ غیر مسلم پاکستانیوں کے ساتھ یہ اتنا گھناﺅنا مذاق ہے۔ ان300 میں سے آج کل والے 37 بھی کبھی کبھار کھلے عام اور زیادہ تر بند کمروں میں ا پنے ہم مذہبوں کی محفلوں میں ان انتخابی نظاموں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے اس نظام سے مفادات بھی وابستہ ہو جاتے ہیں باقی سارے غیر مسلم پاکستانی ان انتخابی نظاموں سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہوئے بلکہ بند کمروں میں اس نظام سے مستفید ہونے والے بھی ان نظاموں کی عیب جو یاں کرتے نظر آتے ہیں یقینا یہ 73سالہ غیر مسلم پاکستانی شہریوں کا یہ سیاسی،انتخابی المیہ ہماری ارسطو، سقراط کی سطح کی سیاسی بصریت کی حامل سیاسی و دانش ور اشرافیہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ جب کہ یہ المیہ غیر مسلم پاکستانی شہریوں کی بے چینی کا باعث ہے۔
سیاسی اشرافیہ جو غیر مسلم پاکستانیوں کے تہواروں پر انہیں اپنے بہن بھائی قرار دیتی ہے۔ لیکن ان کی اپنے ان بہن ،بھائیوں کی قومی، سیاسی و مذہبی شناخت و ضرورتوں کے لئے غیر سنجیدگی و لاپرواہی کی ایک مثال موجودہ 2018ءتا 2023ءکی پنجاب اسمبلی سے دی جا سکتی ہے۔ موجودہ انتخابی نظام کی بدولت 2017ءکی افراد شماری کے مطابق پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں آباد تقریباً پونے دو لاکھ ہندو آبادی کے لئے کوئی ایم پی اے موجود نہیں ہے۔
اسی طرح کی ایک اور مثال جو جمہوریت کے نام پر ایک سنگین مذاق ہے 2002ءکے سندھ اسمبلی کے ایک صوبائی حلقے میں ایک ہندو امیدوار نے جنرل الیکشن میں حصہ لیا اس نے اس حلقے سے صرف 34ووٹ لئے اور وہ امیدواروں میں ساتویں نمبر پر آیا لیکن وہ ا پنی پارٹی کی نسبت تناسب فارمولے سے نامزدگی کی بدولت کسی اسمبلی سے جیتنے والے ہندو امیدوار کے ساتھ بطور ممبر صوبائی اسمبلی 5سال ایم پی اے رہا اور 32ہزار 4سوچوبیس ووٹ لے کر جیتنے والے جیسی ہی مراعات اور حیثیت بھی انجوائے کرتا رہا۔
اس اہم انتخابی مسئلے سے سیاسی و ریاستی اشرافیہ کی عدم دلچسپی اور اسی طرح کے دیگر امتیازی قوانین کی ضمنی پیداوار امتیازی، سماجی و معاشرتی رویوں کی بدولت جنم لینے والے سانحات کے انسداد پیداواری(کاونٹر پروڈکٹیو) نتائج ہوتے ہیں جس کے بھیانک نتائج پاکستانی ریاست، حکومت اور قوم کو بھی بھگتنے پڑتے ہیں۔ لہٰذاایک اچھا انتخابی نظام غیر مسلم پاکستانیوں اورپاکستانی قوم کو ایسے نقصانات سے بچاسکتا ہے اور یہ اب تک کیوں نہیں ہو سکا؟ یہ ہمارے سیاسی دانشوروں اور سیاسی حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔”
کچھ لوگوں کو تودوہرے ووٹ کایہ مطالبہ اوریہ فارمولا شائد غیر جمہوری مطالبہ لگے لیکن جس قوم نے ایک طرح کے شناختی کارڈ اور ایک طرح کے پاسپورٹ رکھنے کے باوجود اور اپنے آپ کو فخر سے پاکستانی کہنے کے ساتھ ساتھ ضیائی ڈکٹیٹری جمہوریت کے زور پر ہندو ، ہندو کو ووٹ دے ۔ مسلمان، مسلمان کو ووٹ دے مسیحی، مسیحی کو ووٹ دے اور سکھ ،بہائی ،پارسی و دیگر چھوٹے مذہبی گروہ مل جل کر صرف اپنے میں سے کسی کو ووٹ دینے والا خوب صورت جمہوری نظام بھی دیکھا ہو اور 1985ءسے 1999ءتک اور مسلسل اٹھارہ سال پوری قوم نے اس جمہوری نظام کے ثمرات بھی چکھے ہوں اور عوامی نمائندوںنے اپنے اپنے جثے کے اعتبار سے اس سے مفادات بھی اٹھائیں ہوں وہ اگر اس نظام کو غیر جمہوری کہیں اور پھر اس خوفناک غیر جمہوری جداگانہ نظام کو آوازیں بھی دے رہے ہوں۔ تو ان کے سیاسی شعور پر کچھ تبصرہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد پھر دوسرے ڈکٹیٹر کو ترس آیا تو اس نے غیر مسلم پاکستانیوں کے مطالبے پر قومی شناخت دے دی۔
لیکن کیونکہ ان میں سے چند کے سوا کسی کے جیتنے کا امکان نہیں ہوتا لہٰذا ساتھ ہی بطور کوٹا دوہری نمائندگی مذہب کے نام پربھی دے دی گئی۔ لیکن کوٹے میںدی ہوئی دوہری نمائندگی والی سیٹوں کا نظام ایسا دیا جسے خوبصورت متناسب نمائندگی کا نام دیا گیا لیکن اس کی حقیقت یہ ہے کہ تقریبا ساڑھے36لاکھ غیر مسلم پاکستانی شہریوں کے ووٹوں کی مختلف مذہبی شناخت پر 37 لوگوں کو چار یا پانچ مسلم سیاسی رہنما منتخب کرتے ہیں۔
یقینا یہ ریاستی اداروں و سیاسی اشرافیہ کا غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے بہت بڑا سیاسی ریلیف تھا ۔ انہیں قومی ، صوبائی، ضلع، تحصیل و یونین کونسل سطح کی حکومت سازی میں موقع بھی مل گیا بس غیر مسلم شہریوں کو اس پر یہ اعتراض ہے کہ جب یہ ریلیف دیا ہی گیا ہے توہماری مذہبی شناخت پر نمائندوں کو منتخب کرنے کا اختیار بھی ہمیں دے دیا جائے۔( اور یہ بالکل جائز مطالبہ ہے) اور کچھ لوگ یقینا اپنے لوگوں کی مذہبی شناخت پر اپنے نمائندے چننے کے مطالبے کو نیک نیتی سے بھی کر رہے ہوں گے ۔ لیکن کچھ نہ سمجھ تو اس بغض ، کینہ اور حسد سلیکٹڈ ممبران میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ کہہ رہے ہیں چاہے ہماری قومی شناخت چھین لو چاہے غیر مسلم پاکستانیوں سے پاکستان بھر کے849حلقوں سے ووٹ کا حق چھین لو لیکن ہمارے نمائندے ہمیں خود چننے دو (اس مطالبے میں چند لوگوں کی بدنیتی اور زیادہ تر لوگوں کی لاعلمی اور اس لاعلمی کے پیچھے وہ لوگ زیادہ ہیں جو اپنے آپ کو سیاسی کہتے ہیں اور ان کے ہاں سیاسی ہونے کا معیار یہ ہے کہ کسی بھی حلقے سے 20سے 25ہزار روپے خرچ کرکے بطور امیدوار کاغذات داخل کر دیں اور پھر چند ووٹ لینے کے بعد اعلان کر دیںکہ میں سیاسی ہوں ۔ یقینا یہ ان کا جمہوری حق ہے لیکن اپنے اس جمہوری حق کی بنیاد پر80لاکھ غیر مسلموں کے لئے انتہائی بے دلیل ،غیر جمہوری، بنیادی شہری، انسانی و سیاسی حقوق کے متصادم مطالبہ کرنا کسی بھی طرح جائز نہیں۔ ان چند سیاسیوں میں سے ہر کوئی یہ بھی سمجھتا ہے کہ 37سیٹوںمیں سے ہر سیٹ کا حقدار دوسرے غیر مسلم نمائندوں سے زیادہ ہے)۔ دلچسپ بات یہ ہے یہ دونوں نظام ڈکٹیٹروں نے غیر مسلموں کے کہنے پر متعارف کروائے اور جمہوری حکومتوں نے ان نظاموں کو قائم بھی رکھا۔
ان دونوں انتخابی نظاموں کی خوبیوں، خامیوں کا اعداد و شمار کے ساتھ بغور مطالعہ کرنے اورمعروضی حالات کے مطابق فی الحال معاشرے کے رویے اور غیر مسلم پاکستانیوں کے سیاسی نمائندوں کے استعداد اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے دوہرے ووٹ سے بہتر کچھ سمجھ نہیں آتا۔اس نظام کے خدوخال اعداد و شمار معروضی حالات اور 73 سالہ اس سیاسی المیے کے ہر پہلو پر نظر رکھتے ہوئے واضح کئے گئے ہیں اور اس کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ عمرانی معاہدے میںیہ آئینی ترمیم پاکستان کے غیر مسلم شہریوں اور ریاست کے رشتے کو مضبوط کریں اس سے آئین پاکستان کی ان شقوں کے مضر اثرات بھی کم کئے جا سکتے ہیں جن کے انسداد پیداواری (کا¶نٹر پروڈکٹیو) اثرات پاکستانی معاشرے اور سماج میں کئی سماجی برائیوں کو جنم دیتے ہیں۔
اب آتے ہیں عملی طور پر یہ دوہرے ووٹ کا نظام کیسے نافذ العمل ہو گا ۔ اس کے لئے غیر مسلم پاکستانیوں کے مذہبی، سیاسی و سماجی حقوق کے لئے متحرک کارکنوں کو ریاستی اداروں اور سیاسی و دانشور اشرافیہ کو اپنا یہ مسئلہ حقائق، شواہد اور معروضی حالات کے مطابق بتا کر انہیں آئین میں ایک اور بے ضرر سی آئینی ترمیم کے لئے قائل کرنا پڑے گا اس کے لئے اعلیٰ عدلیہ کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے۔ پھر اس نظام کے خدو خال ان خطوط پر ترتیب دیئے جاسکتے ہیں۔
دوہرے ووٹ کے لئے حلقے کا ووٹ تو قومی ،صوبائی، ضلعی ،ٹا¶ن، تحصیل ،یوسی سطح پر بھی حلقے کے دوسرے پاکستانیوں کے ساتھ ہی ہو گا۔ ہر پاکستانی اپنے حلقے میں ہی ووٹ ڈالے گا۔
لیکن مذہبی شناخت کے لئے دوسرے جداگانہ ووٹ کے لئے ریاستی اداروں اور سیاسی اشرافیہ کو تھوڑا سا ہوم ورک کرنا ہو گا اس کے لئے ظاہر ہے مستند اور مکمل اعداد و شمار درکار ہیں اوریہ انہیں کی دسترس میں ہیں لیکن دستیاب اعداد و شمار سے ہم یہاں اس نظام کے بنیادی ڈھانچے پر بات کرتے ہیں جس کی بنیاد ان خطوط پرہو سکتی ہے مثلاً 2017ءکی افراد شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 207774520 ہے جب کہ پاکستان کے ووٹوں کی کل تعداد 2018ءکے الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق 105960000 ہے اس طرح آبادی اور ووٹوں میں تناسب49/51 فیصد کا ہے۔
ہندو آبادی 2017ءکی افراد شماری کے مطابق پاکستان کی ہندو جاتی3324392 شیڈول کاسٹ 519436اس طرح ہند¶ں کی مجموعی آبادی 3848828 ہے جس میں سے سندھ میں ہندو جاتی 3117382 اور شیڈول کاسٹ474072 ہے یعنی مجموعی طور پر سندھ میں 3591454 ہندو پاکستانی ہیں اب اگر ووٹ اور آبادی کا تناسب دیکھئے تو یہ49/51 فیصد ہے۔ یوں سندھ میں مجموعی ہند¶ں کے ووٹوں کی تعداد 1759012ووٹ ہونی چاہیے۔ گو کہ الیکشن کمیشن ہند¶ں کے پاکستان بھر میں کل ووٹوں کی تعداد1777289بتاتا ہے۔ اب اگر 272 نشستوں کو ٹوٹل ووٹروں پر تقسیم کیا جائے تو اوسط ایک ایم این اے 389558 ووٹوں کے حلقے سے منتخب ہوتا ہے اس طرح قومی اسمبلی کے لئے صوبہ سندھ سے ہند¶ں کے لئے تقریباً ساڑھے چار سیٹیںہونی چاہیے اور ان سیٹوں کی حلقہ بندیاں ووٹوں کے حساب سے ڈویژن، ضلع کے اعتبار سے حلقے بنائیں جا سکتے ہیں اور غیر مسلم پاکستانیوں کو اگر کسی حلقے میں کم ووٹ بھی ہوں تو وہاں بھی رعایت دی جا سکتی ہے اس طرح اس تعداد کو کھینچ تان کر پانچ، چھ سیٹوں تک لے جایا جا سکتا ہے۔یوں اسمبلی کی سیٹیں بڑھائی بھی جا سکتی ہیں۔ سندھ اسمبلی میں کل 130 جنرل سیٹیں ہیں۔سندھ میں ٹوٹل ووٹوں کی تعداد 20239000 ہے۔ اس طرح اوسطاًایک جنرل نشست 169530 ووٹوں سے منتخب ہوتی ہے۔ اس تناسب سے سندھ کے ہندو پاکستانیوں کے لئے11.29 حلقے یعنی تقریباً سوا گیارہ سیٹوں کی تعداد ہے جسے رعایت دے کر بارہ، تیرا سیٹوں کے لئے حلقے ترتیب دیے جا سکتے ہیں۔ ان دونوں اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر حلقہ بندی کی جا سکتی ہے۔ اور اگر کہیں رعائیت دینی پڑے۔ اس طرح سندھ میں ہندو¶ں کی گیارہ سے بارہ سیٹیں سندھ اسمبلی میں ہو سکتی ہیں۔
پنجاب میں مجموعی ہندو آبادی 176020ہے جس میں سے ہندو جاتی143016 اور شیڈول کاسٹ 33003ہے اب یہ ہندو سیاسی اثرو رسوخ رکھنے والے لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ سیاسی اشرافیہ سے پورے پنجاب کو حلقے بنا کرقومی اسمبلی کے86250 ووٹوں پر ایک سیٹ لیتے ہیں یا دو حلقے بنوا کر 42263ووٹوں پر فی سیٹ حاصل کرکے دو سیٹیں لیتے ہیں۔ پنجاب کے ٹوٹل ووٹر کی تعداد60670000ہے۔ جبکہ صوبائی اسمبلی کے براہ راست منتخب ہونے والے ممبران کی تعداد 297ہے ۔ اس طرح اوسطاً224579ووٹوں پر ایک ایم پی اے کے لئے مقابلہ ہوتا ہے۔ اسی تناسب سے ہندو ووٹروں کے لئے حلقہ بندی کی جا سکتی ہے۔ گو کہ اگر اسی اصول پر حلقہ بندی کی جائے تو ہند¶ں کے لئے ایک نشست نہیں بنتی لیکن جب غیر مسلم شہریوں کو سیاسی نظام سے مطمئن کرنا ہے تو پھر کچھ بے ضرر سی رعایت دینی پڑے گی جس کے لئے 26ویں آئینی ترمیم ہو سکتی ہے اور اگر غیر مسلم پاکستانیوں کے سیاسی نمائندہ عقل، دلیل اور اپنی اپنی برادریوں کے لئے خلوص سے اپنا کیس ریاستی اداروں اور سیاسی اشرافیہ کے سامنے پیش کریں اور ایسی آئینی ترمیم پر کسی بھی بڑی پاکستانی سیاسی جماعت کو اعتراض نہیں ہو گا۔
بلوچستان میںہندوآبادی 72832 ہے جس میں سے ہندو جاتی 60487 اور شیڈول کاسٹ5992ہیں۔اس طرح ووٹوں کی تعداد35688 ہو گی۔ اب یہ ہندو سیاسی اثرو رسوخ رکھنے والے نمائندوں پر ہے کہ وہ ان ووٹوں پر قومی اسمبلی کے کتنے حلقے بنواتے ہیں اور صوبائی اسمبلی کی کتنی سیٹیں کتنے حلقوں میں تقسیم کرواتے ہیں۔ جبکہ بلوچستان میں مجموعی ووٹوں کی تعداد 4300000ہے اور کل براہ راست منتخب ہونے والے ممبران صوبائی اسمبلی کی تعداد51ہے اس طرح ایک ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے لئے اوسط79020 ووٹوں کی تعداد ہے ۔
کے پی کے جس میں مجموعی ہندو آبادی بشمول فاٹا12,158 ہے جس سے10658 ہندو جاتی اور 1500شیڈول کاسٹ ہیں۔ اس طرح ووٹ تقریباً5957 ہوں گے جبکہ کے پی کے میں مجموعی پاکستانی ووٹروں کی تعداد 17083000ہے اور براہ راست منتخب ہونے والے صوبائی اسمبلی کے ممبران کی تعداد 99ہے اس طرح اوسطاً ایک ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے لئے اوسط ووٹوں کی تعداد 172555 ہے۔ یہ اب ہندوسیاسی نمائندوں کی قابلیت ذہانت اور اثرو رسوخ ہو گا کہ وہ کے پی کے قومی و صوبائی اسمبلی کے کتنے حلقے بنواکر5957ووٹوں پر کتنی سیٹ لیتے ہیں۔
اسلام آباد میں ہندو¶ں کی آبادی401ہے اور یہاں قومی اسمبلی کے لئے تین حلقے ہیں۔گو کہ پاکستان کی 272 جنرل نشستوں پر اوسطاً389558 ووٹوں پر ایک ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوتا ہے لیکن اگر اسلام آباد کی تین نشستوں کے اعداد و شمار دیکھیںتو اسلام آباد کی آبادی 2017کی افراد شماری کے مطابق 2001579ہے جبکہ تینوں نشستوں کے لئے ووٹوں کی مجموعی تعداد765446ہے اس طرح یہ اوسطاً فی نشست 255148بنتا ہے۔اسلام آباد میں آبادی اور ووٹوں کا نسبت تناسب 38/62ہے یعنی ووٹرز آبادی کے 38فیصد ہیں ۔ اسی تناسب سے ہندو ووٹ اسلام آباد میں 155ہونے چاہیے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے انتظامی یونٹ میں تمام اقلیتوں کو یکجا کر دیا جائے کیونکہ غیر مسلم نمائندے ایک دوسرے کی سیاسی و مذہبی ضرورتوں کا ادارک بہتر کر سکتے ہیں لیکن ان اعداد و شمار سے ایک بات ضرور سامنے آتی ہے قومی شناخت کیلئے حلقے کا ووٹ بہت ضروری ہے ۔
کیونکہ اگر ہند¶ںکو قومی اسمبلی کے لئے سندھ میں سے6 پنجاب، کے پی کے میں سے ایک ایک اور سندھ صوبائی اسمبلی کی 12، پنجاب، کے پی کے ، بلوچستان میں ایک ایک حلقہ بنا کر مجموعی طور پر24 حلقوں میں تقسیم کر دیا جائے تو 849 حلقوں میں پھیلے ہوئے ہند¶ں کو ووٹوں کی تعداد کے مطابق رعایتیں دینے کے باوجود حلقے بہت ہی بڑے بڑے ہو سکتے ہیں اور انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات اور روزہ مرہ کے مسائل کے لئے اٹک میں رہنے والے، پنجاب کے ہندو کا رحیم یار خان سے جیتنے والے ایم پی اے یا ایم این اے تک پہنچنا بہت دشوار ہے۔ یہ ایک مبہم سا خاکہ ہے ورنہ اس نظام کو واضع کرنے اور عملی جامہ پہنانے کے لئے ریاستی اداروں کے بالکل درست اعداد وشمار سامنے ہوں اور پھر ان پر سیر حاصل گفتگو ہو اور ہر پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نظام کو وضع کرنا چاہیے تاکہ نہ تو کسی کی حق تلفی ہو اور نہ کسی کو غیر ضروری مراعات حاصل ہوں کیونکہ نظام وہ ہی کامیاب ہوتا ہے جس میں ہر حصہ دار کو جائز حق ملے۔
پاکستانی مسیحیوں کی آبادی کا جائزہ لیں تو وہ 2017ءکی افراد شماری کے مطابق پاکستانی مسیحیوں کی مجموعی آبادی 3303615 ہے ۔ سب سے پہلے ہم اسلام آباد کا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان کی 272 جنرل نشستوں پر اوسطاً389558 ووٹوں پر ایک ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوتا ہے لیکن اگر اسلام آباد کی تین نشستوں کے اعداد و شمار دیکھیں اور اسلام آباد کا جائزہ ایک علیحدہ انتظامی یونٹ کے طور پر لیں تو اسلام آباد کی آبادی 2017کی افراد شماری کے مطابق 2001579ہے جبکہ تینوں نشستوں کے لئے ووٹوں کی مجموعی تعداد765446ہے اس طرح یہ اوسطاً فی نشست 255148بنتا ہے پاکستانی مسیحیوں کی آبادی پورے اسلام آباد میں 81667 ہے اس طرح آبادی اور ووٹ کا تناسب 38/62ہے تو اسلام آباد کے تینوں حلقوں میں مسیحی ووٹ31033 ہوں گے اب پاکستانی مسیحیوںکے سیاسی نمائندوں کی ذہانت اور قوم سے محبت کا امتحان ہو گا ان اعداد و شمار کی مدد سے وہ اتنے ووٹوں پر وفاقی حدود جوکہ3 ایم این اے کا حلقہ بنتی ہیں۔ اس میں ایک سیٹ منظور کروائیں اور یہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ اس سے کہیں چھوٹی اقلیتوں کے بھی نمائندے ایوانوں میں ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پاکستان کے وفاق کی تمام اکائیوں میں نسبت تناسب کے اعتبار سے اسلام آباد میں مسیحیوں کی آبادی چاروں صوبوں سے زیادہ ہے۔
پنجاب میں مسیحیوں کی آبادی 2541287 ہے ۔ووٹ اورآبادی کا تناسب 49/51 ہے۔ اس حساب سے ووٹ1245231 ہوں گے اور اگر وہ ہی فارمولا جو اوسطاً 389558 ووٹوں پر ایک قومی اسمبلی کا نمائندہ منتخب ہوتا ہے اگر اسی فارمولے پر حلقہ بندی کی جائے تو یہ تعدادتقریباً سوا تین سیٹوں کی بنتی ہے۔ جسے سیاسی اشرافیہ اور ریاستی اداروں کو قائل کرکے پنجاب کوچار یا پانچ قومی اسمبلی کے حلقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یاد رہے کہ اوسطاً ایک ایم این اے 389558 ووٹوں کے حلقے سے منتخب ہوتا ہے۔ پنجاب میں کل ووٹوں کی تعداد60670000 ہے اور کل براہ راست منتخب ہونے والے ممبران صوبائی اسمبلی کی تعداد 297ہے۔پنجاب کے صوبائی اسمبلی کا ایک ممبر اوسطاً224579 ووٹوں پر منتخب ہوتا ہے اس حساب سے مسیحیوں کے ووٹوں کی تعداد کے مطابق پنجاب اسمبلی کے لئے ساڑھے 5نشستوں کے ووٹ ہیں جس کو کھینچ تان کرچھ، سات یا آٹھ سیٹوں تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
سندھ میں پاکستانی مسیحوں کی آبادی 464494 ہے تو ووٹ 232247 ہوں گے۔ جب کہ پاکستان بھر میں اوسط ایک براہ راست ایم این اے389558 ووٹوں پر منتخب ہوتا ہے۔ اب یہ 232247 ووٹوں کے لئے قومی اسمبلی کے لئے حلقہ پورا سندھ بھی حلقہ نہیں بنتا ہے لہٰذا رعایت لے کر پورے سندھ سے قومی اسمبلی کے لئے ایک سیٹ حاصل کی جا سکتی ہے صوبائی اسمبلی کے لئے بھی رعایت لے کر شہری اور دیہی سندھ کے حلقے بنا کر ایک سیٹ سے دو کروائی جائیں باقی صوبائی اسمبلی کے لئے دیہی سندھ اور شہری بلکہ کراچی کی ایک سیٹ اور باقی سندھ کی ایک سٹیٹ ہو سکتی ہے لیکن یاد رہے یہ رعایت ہی ہو گی۔ سندھ میں کل ووٹ 22039000ہیں اور جنرل سیٹوں پر کل ممبران صوبائی اسمبلی کی تعداد130ہے اس طرح سندھ کی جنرل سیٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی 169530 ووٹوں پر منتخب ہوتا ہے اسی طرح سندھ میں مسیحیوں کی مجموعی ووٹوں کی تعداد کے حساب سے ووٹوں کی تعداد اس رعایت سے اندرون سندھ اور کراچی کی سوا سیٹ کی ہے۔ لیکن یہاں بھی کراچی اور باقی سندھ پر مشتمل دو حلقے بنائے جا سکتے ہیں کیونکہ سندھ کی مسیحی آبادی کا75فیصد آبادی کراچی میں رہائش پذیر ہے۔
بلوچستان میں مسیحیوں کی آبادی49379 اور ووٹ 24196ہوں گے اب اوسط 389558 ووٹوں پر قومی اسمبلی کا حلقہ ہے ۔جبکہ بلوچستان میں مجموعی ووٹوں کی تعداد 4300000ہے اور کل براہ راست منتخب ہونے والے ممبران صوبائی اسمبلی کی تعداد51ہے اس طرح ایک ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے لئے اوسط79020 ووٹوں کی تعداد ہے ۔اب 24196 ووٹوں پر پورا بلوچستان حلقہ بنا کر اگر قومی اسمبلی کی سیٹ حاصل کی جائے تو بہت ہی آئیڈیل صورت ہو گی ورنہ تعداد تو یہ صوبائی اسمبلی کے لئے بھی کم ہی لگتی ہے۔
کے پی کے میںکل ووٹ 17083000(ایک کروڑ ستر لاکھ تیراسی ہزار) ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے براہ راست منتخب ہونے والے ممبران کی تعداد99ہے ۔ کے پی کے میں بشمول فاٹا 99011مسیحی آبادی ہے اور 49505 ووٹ ہوں گے۔ جب کہ پاکستان بھر میں اوسط ایک براہ راست ایم این اے389558 ووٹوں پر منتخب ہوتا ہے۔اب ووٹوں کی اس تعداد پر پورے کے پی کے کو اگر ایم این کا ایک حلقہ بھی بنا دیا جائے تو یہ بہت ہی بڑا انتخابی ریلیف ہو گا کیونکہ ویسے تو کے پی کے اور بلوچستان اسمبلی کے مجموعی ووٹوں سے بھی ایک قومی اسمبلی کےلئے درکار تعداد پوری نہیں ہوتی ۔ یہ ریاستی اشرافیہ اور سیاسی اشرافیہ کی رحم دلی پر منحصر ہے ۔ کیونکہ کے پی کے میں اوسطاً ایک ایم پی اے جنرل نشست پر 194125 ووٹوں پر منتخب ہوتا ہے جب کہ مسیحی ووٹر اس وقت زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار ہوں گے۔
بلوچستان اور کے پی کے میں پاکستان کی دونوں بڑی اقلیتوں کی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1981ءکی افراد شماری کی بنیاد پر 1985ءمیں ضیائی جمہوریت کے شہکار جداگانہ کی حلقہ بندیاں اعداد و شمار کے مطابق ایسی کچھ ناجائز بھی نہ تھیں۔آج اگر حلقہ بندیاں اعداد وشمار کے میرٹ پر کی جائیں تو سندھ میں ہند¶ں ، پنجاب میں مسیحیوں کے علاوہ باقی تمام وفاقی اکائیوں میں آج بھی حلقوں کا حال و ہی ہو گا۔
آزاد کشمیر میں اندازہ 4500 مسیحی آبادی میں اب 2250 ووٹوں پر مسیحی سیاسی نمائندے سیٹ لے سکے تو بہت اچھا گلگت بلتستان میں بھی محتاط اندازے کے مطابق ہزار بارہ سو کی آبادی ہے اس لئے وہاں بھی چھ سو ووٹوں پر مسیحی ممبر اسمبلی ہونا چاہیے پاکستان بھر کے انتظامی یونٹوں کی حلقہ بندیوں کے خدو خال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صرف غیر جمہوری جداگانہ سے تمام غیر مسلم پاکستانیوں کو کم و بیش انہی حالات کا سامنا ہو گا جو پرانے ضیائی جداگانہ میں تھا۔ اس لئے غیر مسلم پاکستانیوں کو کسی بھی طرح اپنے حلقے کے ووٹ سے دست بردار نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر مسیحیوں کے لئے پاکستان بھر میں قومی اسمبلی کو9حلقوں میں سندھ کو دو پنجاب کوآٹھ کے پی کے، بلوچستان کو ایک ایک حلقوں میں بانٹ بھی دیا اور مجموعی طور پر صوبائی اسمبلیوں کے 12حلقوں اس طرح کُل ملا کر مسیحیوں کو21حلقوں میں بھی بانٹ دیا جائے۔ تو یہ حلقے اتنے چھوٹے نہیں ہو سکتے کہ 849 حلقوں میں پھیلے ہوئے مسیحی ان سے اپنے روز مرہ کے مسائل کی صورت میں رابطہ کر سکیں۔
یوں دوہرے ووٹ کا نظام ناگزیر ہے اصولی طور پر سیاسی اشرافیہ غیر مسلموں کو دوہرا ووٹ دے چکی ہے کیونکہ پاکستان کے849 قومی و صوبائی اسمبلیوںکا ہر نمائندہ غیر مسلم پاکستانیوں کا بھی نمائندہ ہوتا ہے اور وہ اسے ووٹ بھی ڈالتے ہیں جو کہ یقیناً ایک جمہوری طریقہ ہے اعتراض اس بات پر ہے ان کی مذہبی شناختوں پر جو بھی نمائندے موجود ہیں ان کو اسمبلیوں میں لانے کا فیصلہ متناسب نمائندگی کے فارمولے سے نہ کیا جائے بلکہ اس انتخابی نظام کو تھوڑا سا بہتر کرکے مذہبی شناخت پر نمائندے منتخب کرنے کا حق متعلقہ مذہبی گروہوں کو دے دیا جائے۔کیونکہ جب 37نمائندوں کو 80لاکھ لوگوں کی شناخت پر 4سے5لوگ منتخب کرتے ہیں تو اس دوہری نمائندگی کی رعایت کا سارا مزا خراب ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں ایک قومی اسمبلی کی جنرل سیٹ اوسطاً389558 ووٹوںسے منتخب ہوتی ہے اسلام آباد کی قومی اسمبلی کی ایک سیٹ اوسطاً225149 ووٹوں سے منتخب ہوتی ہے اسی طرح پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی جنرل نشست اوسطاً 224579 ووٹوں پر سندھ میں 169530 ووٹوں پر کے پی کے میں 194125 ووٹوں پر بلوچستان میں 79020 ووٹوں پرمنتخب ہوتی۔ لہٰذا اگر ان اعداد کو معیار بنایا جائے تو کئی صوبوں سے قومی اور صوبائی اسمبلی سے ہند¶ں کئی سے مسیحیوں کو نہ قومی نہ صوبائی اسمبلی میں نمائندگی ملے گی۔ لہٰذا حلقہ بندی کرتے ہوئے خاصی رعایتوں سے کام لے کر ریاستی اداروں اور سیاسی اشرافیہ کو کوشش کرنی چاہیے کہ چاروں صوبوں اور وفاق میں سے غیر مسلم پاکستانیوں کی نمائندگی ضرور ہو۔ اس ضمن میں ہمارے پاس کیلاش اور سکھوں کی نہایت ہی قلیل تعداد ہونے کے باوجود انہیں متعلقہ اسمبلیوں میں نمائندگی دینے کی ریاستی اداروں اور سیاسی اشرافیہ کی رحم دلی کی ایک بڑی روشن مثال موجود ہے۔ گوکہ یہ سارا ہوم ورک غیر مسلم پاکستانیوں کے ان سیاسی نمائندوں کاکام ہے جن کے مفادات ان نظاموں سے ماضی میں وابستہ رہے ہیں حال میں ہیں اور مستقبل میں ہوں گے۔ لیکن وہ کیونکہ اس طرح کے فضول کاموں سے بالاتر ہو کر اپنی اپنی کمیونٹیوں کے وسیع تر مفادات کے لئے اعلیٰ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے دن رات کام کر رہے ہوتے ہیں لہٰذا ریاست پاکستان کے تینوں ستونوں اور سیاسی و دانشور مسلمان اشرافیہ سے یہ دست بدستہ گزار ش ہے کہ وہ استحکام پاکستان اور عام غیر پاکستانیوں کے مفادات کے لئے یہ کام سرانجام دیں۔
اس طرح ہند¶ں کے کل24 مسیحیوں کے21 اور احمدیوں کی قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں ایک ایک سیٹ بامشکل ہی بنتی ہے اور باقی دوسرے چھوٹے غیر مسلم پاکستانی مذہبی گروہوں مثلاً سکھ، بہائی، پارسی، بدھسٹ کو ملا کر قومی اسمبلی میں ایک سیٹ ہی بنتی ہے یوں مجموعی طور پر یہ کھینچ تان کر یہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے50 حلقوں سے زیادہ نہیں بنتے تو حلقے کا ووٹ چھوڑنے کا مطلب ہے 849 حلقوں میں آباد غیر مسلم پاکستانیوںکو 50حلقوں میں مقید کرکے انہیں ان کے آباءکے دیس میں معاشرے سماج سیاسی انتخابی نظام سے کاٹ کر اجنبی اور سیاسی شودر بنا کر محرومیوں کے سمندر میں دھکیل دیا جائے۔
آخر میں اس نقطے کو اُجاگر کرنا بہت ضروری ہے کہ اگر ریاستی ادارے اور سیاسی اشرافیہ ترس کھا کر غیر مسلم پاکستانی نمائندوں کی تعداد 33سے بڑھا کر50 اور50نمائندوں کے لئے 50انتخابی حلقہ بندیاں بھی کر دیتی ہے۔ لیکن غیر مسلم پاکستانی تو پاکستان کے چپے چپے پر آباد ہیں۔ اور پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے سارے مجموعی طور پر849حلقوں میں موجود ہیں لہٰذا ان پسے ہوئے طبقات کو پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے 849حلقوں سے نکال کر33یا50 حلقوں تک محدود کرنے کا مطالبہ کرنا انتہائی غیر جمہوری اورسیاسی لاعلمی کا ثبوت ہے۔ جس کی بھد 1985ءسے 1999ءتک سیاسی شعور رکھنے والے سیاسی ورکر و روشن خیال دانشور اُڑاتے رہے ہیں۔ لہٰذا دوہرے ووٹ سے کم کا کوئی مطالبہ ایک نئے سیاسی المیہ کو جنم دے گا۔ اس لئے دوہرے ووٹ کا مطالبہ ہی کیا جائے جس میں دوہرے جداگانہ ووٹ کے لئے50یا اعداد و شمار کی بنیاد پر اس سے کم یا زیادہ حلقوں کا مطالبہ بھی شامل ہو لیکن خداراہ کسی بھی مثبت یا منفی جذبے کی بنیاد پر 849 حلقوں سے ان غیر مسلم پسے ہوئے معصوم پاکستانیوں کو دست بردار مت کیجئے گا۔کیونکہ یہ روپلو کولھی، سردار ہری سنگھ،یعقوب پرویز کھوکھر، آر ایم جیمز اور نواز مسیح شہید و دیگر سینکڑوں ایسے اس سرزمین کے حصول اوراسے بنانے سنوارنے اور بچانے کے لئے رنگ و نسل مذہب سے بالاتر ہو کر قربانیاں دینے والوں کے لہو اور ان کے ورثا کی اجتماعی توہین ہو گی۔
اوپر بیان کئے گئے تاریخی شواہد ثابت کرتے ہیں کہ اس ساری صورت احوال کے سیاسی اشرافیہ کے ساتھ ہم خود بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ مخلوط طریقہ انتخاب میں ہم میرٹ پر کچھ حاصل نہ کر سکے تو ہم نے جداگانہ طریقہ انتخاب کا نا نعرہ لگایا ، جدا گانہ طریقہ انتخاب میں ہم چھوت بن گئے تو چند سر پھروں نے پھر مخلوط کا نعرہ لگایا پھر مخلوط ملا تو اب پھر ہم چھوت بننے کے لئے جداگانہ مانگ رہے ہیں یعنی ہم نے ستر سالوں میں کچھ سیکھا نہیں ہم جو برصغیر میں تعلیم کے بانیوں اورسیاسی ، سماجی شعور و آگاہی دینے والے کے جانشین ہیں پورے ملک میں پھیلے تعلیمی اداروں کے مالک ہیں لیکن ہم اپنے لوگوں یعنی مسیحیوں کی فکری وشعوری تربیت نہ کر سکے۔ اور خاص اپنے سیاسی سماجی مذہبی ورکروں پادریوں اور کاہنوں کی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام نہیں کر سکے بلکہ ہم نے کبھی اس پر سوچا ہی نہیں ہم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ ہماری ان ساری پسماندگیوں سے نکلنے کی ترجیحات کیا ہونی چاہیے اور یہ ترجیحات کس بنیاد پر ہونی چاہیے اس معاشرے میں مقابلے کے لئے ہماری طاقت کمزوریاں مواقع اور خطرات کیا ہیں ، فزیکل، ریاستی، نظریاتی، عددی ، مالی روایات ،طاقت کے ان چھ عناصرکے بارے میں سیاسی پنڈتوں اور سیاسی و سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاشرے ملک وقوم میں آپ طاقت کا تعین بحیثیت کمیونٹی کرتے ہیں کہ آپ ان عناصر کی بدولت ریاستی ، سیاسی و سماجی معاملات میں اپنے شہری حقوق و ریاستی طاقت حاصل کر سکتے ہیں ہم نے کبھی اپنی اس تعداد کا جائزہ ہی نہیں لیا کہ ہم کس طرح اپنی استعداد کے مطابق طاقت کے ان عناصر کا صحیح تخمینہ لگا کر اپنی ترجیحات اور اہداف مقرر کریں اور پھر ان کے حصول کیلئے کوشش کریں اگر ہم یہ کر لیں تو یقینا لاہور کے کتھیڈرل چرچ اور سینٹ پیٹرک چرچ کراچی جیسے واقعات بھی نہ ہوں اور رہ گئے جون ایلیا جیسے فسادی تو وہ تو پاکستانی معاشرے سے اٹھ گئے ہیں تو پاکستانی معاشرے کا جو حال ہے وہ ہمارے سامنے ہے اور ایسی سیاسی غرض ہر طرح کی اشرافیہ بلکہ مشہور کالم نگار عبدالقادر حسن کے مطابق بدمعاشیہ ہم پر مسلط کر دی گئی ہے جس کی نظیر دنیا میں شازونادر ہی ملتی ہے بلکہ آج کے جدید دور میں کہیں بھی نہیں ملتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

“دھرتی جائے کیوں پرائے”سے اقتباس

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply