اسلام حقیقت کے آئینے میں۔۔زاہد سرفراز

ایک تعارف
میرے علمی سفر کے ابتدائی ادوار میں ہی مروجہ مذہبی افکار سے میرا اعتبار اٹھ چکا تھا ،پھر میں نے وہی کیا جو مجھ سے ماقبل کے بہت سے لوگوں نے کیا یعنی مروجہ فکر سے ہٹ کر غور و فکر کرنا، اسکے الٹ سوچنا،آؤٹ آف باکس حقیقت کو تلاش کرنا، اس سلسلے میں مَیں نے اقبال سمیت غلام احمد پرویز ،امین حسن اصلاحی، ڈاکٹر اسرار ،ذاکر نائیک اور تقریباً ہر مذہبی سکالر کے مضامین اور تشریحات کو پڑھا اور جانچا، مگر کسی ایک سے بھی مجھے علمی اطمینان حاصل نہ  ہو سکا، البتہ اقبال کی ری کنسٹرکشن آف ریلجس تھاٹس پر ایک لمحے کو میں رُکا ضرور، مگر اس سے بھی وہ حقیقت مجھ پر آشکار نہ ہو سکی جو میری اپنی ذاتی غور و فکر کے نتیجے میں واضح ہوئی، البتہ میں یہ ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ جدید مکتبہ فکر سے مجھے وہ اسلوب ملا جو بلآخر میری حتمی اور واضح فکر کی صورت میں منتج ہوا۔

فکری اسلوب اور مبادیات
اس سلسلے میں موجودہ مروجہ فکر کا فریم ورک آئیڈیل ازم ہے جسکی ابتدا ء غزالی کے گوشہ نشیں ہونے سے ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں ایک نیا دین جنم لیتا ہے، جسے دین ِ طریقت کہتے ہیں ،جو اپنے اسلوب میں خواص کا دین ہے، اور اسکا عام عوام سے کوئی تعلق نہیں ،ایک لمبے عرصے تک اسلام سے ماورا یہ خانقائی دین مساجد پر غالب رہتا ہے مگر سرمایہ داری کا عروج اسکی بنیادیں کھود ڈالتا ہے۔ جسکے نتیجے میں مدارس یتیم ہو جاتے ہیں کیونکہ اولیا اور پیرانِ  طریقت خود اپنی وقعت کھو چکے ہوتے ہیں ،جبکہ ایک وقت وہ بھی تھا جب کسی کو بے پیرا کہنا گالی تصور کی جاتی تھی ،زمانے کی اس تبدیلی کے نتیجے میں اب جو فکر سامنے آتی ہے، اسکی روح تو خانقائی ہی رہتی ہے، البتہ اسکا قالب بدل جاتا ہے، گویا موجودہ ملائیت خانقائیت کے ننگے بدن پر ایک بدبودار لبادے کے سِوا کچھ نہیں۔

میرے علم کے مطابق اسلام کی ایمانیات کا اسلوب بدل دیا گیا ہے، اگر فلسفے کی زبان میں کہا جائے تو میٹا فزکس بدل گئی ہے کیونکہ مبادیات فکر ہی اصل اہمیت کی حامل ہے اگر مبادیات درست ہوں گی تو پوری کی پوری عمارت درست ہوگی اور عمارت کو درست کرنے کے لیے مبادیات میں تبدیلی ایک ایسی ناگزیر حقیقت ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔

کیا مذہبی تشریحات خیالی یا آئیڈلسٹک ہونی چاہیے؟ میرا ماننا ہے کہ، نہیں۔۔ وہ اس لیے کہ دین ایک عملی فکر کا نام ہے، جسے  معاشرے میں رائج ہو کر عملی نتائج مرتب کرنے ہیں اگر یہ خیالی یا آئیڈلسٹک ہو گا تو کسی طرح کے عملی نتائج ممکن نہیں ،جیسا کہ یہ تاریخ نے ثابت بھی کیا ہے اور مسلم دنیا کی زبوں حالی اس پر شاہد بھی ہے، سب سے پہلے دین کا اپنا اسلوب دیکھنا بہت ضروری ہے، وہ ربّ  جو اپنے وجود کے ثبوت کے لیے مادی اشیاء کو ریفرینس بناتا ہے، سورج چاند ستاروں کی طرف توجہ دلاتا ہے، آسمانوں اور زمین کے قیام جیسی ٹھوس مادی حقیقت کو واضح کرتا ہے، وہ اپنے نظریہ علم کی بنیاد آئیڈیل ازم پر کیونکر رکھے گا؟ وہ تو واضح طور پر اپنے نظریہ علم کی بنیاد مادیت پر رکھتا ہے، تو پھر ہم کیوں آئیڈیل ا زم کی تاریک گلیوں میں بھٹکیں؟ جن تاریک گلیوں میں خود اپنے وجود کی حقیقت تک تحلیل ہو جاتی ہے وہ نظریہ ء علم بھلا رب جیسی کائنات کی عظیم حقیقت کو کیا بیان کرے گا جو خود اپنی حقیقت بیان کرنے سے قاصر ہے اگر آئیڈیل ازم کے کسی بھی نظریہ علم میں جان ہوتی تو ڈیکارٹ کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں ،یعنی میں اپنے جیتے جاگتے وجود کو تو ثابت نہیں کر سکتا البتہ کسی سوچنے والی چیز کا ادراک ضرور رکھتا ہوں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر موجودہ اسلامی مبادیات قائم ہیں۔

اسلامی فلسفہ تاریخ
اسلام کا فلسفہ تاریخ ڈائی الیکٹیل میٹریل ازم یعنی جدلیاتی مادیت پر قائم ہے جو خیر و شر کی جدلیاتی کشمکش کے نتیجے میں وجود پذیر ہوتا ہے جو ٹھوس مادی تاریخ کی جیتی جاگتی حقیقی انسانی کشمکش کو زیر بحث لاتا ہے۔
یہ کشمکش آدم کے دور سے شروع ہوتی ہے جو کہ جنت میں رہتا تھا مرنے کے بعد کی کسی جنت میں نہیں بلکہ اس جیتی جاگتی دنیا کی ٹھوس مادی جنت میں اس جنت میں جو اسی زمین پر رب نے اسے بنا کر دی تھی جہاں وہ مزے سے رہتا تھا جدھر جہاں سے دل چاہتا وہ با فراغت کھاتا پیتا اور عیش کرتا تھا البتہ آزمائش کے لیے محض ایک پابندی تھی اور وہ تھی جنسی تعلق قائم نہ کرنا ،کیونکہ شجر نسل انسانی کا موجودہ طریقہ کار اس وقت تقدیر کو ابھی منظور نہ تھا اور اسی شجر کی قربت سے اسے منع کیا گیا تھا لیکن شیطان نے اسے آ کر بہکایا کہ  دیکھو اس سے تمھیں ہمیشگی مل جائے گی اور تمھاری اولاد تمھاری صورت میں اپنے اس شجر کا تسلسل برقرار رکھے گی ۔قرآن کہتا ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں وہ ننگے ہو گئے اور جنت سے نکال دئیے گئے جو ظاہر ہے گندم کا دانہ کھانے سے ممکن نہیں ہے۔
اب انسان کی جدوجہد کا اصل دور شروع ہوتا ہے اور وہ جدوجہد ہے ،جنت کا حصول ۔۔اس جنت کا حصول جو اس نے رب کی رہنمائی میں اس زمین پر قائم کرنی ہے، جسکا تسلسل مرنے کے بعد جی اٹھنے پر بھی قائم رہے گا۔

اس لیے رب نے کہا تم نکل جا ؤ اس جنت سے ،البتہ میں اپنے پیغمبروں کے ذریعے تمھیں رہنمائی فراہم کرتا رہوں گا اور جو اس راہ راست پر چلے گا اسکے لیے جنت کا حصول ممکن ہو جائے گا اور جو اس سے بغاوت کرے گا اسکی یہ زندگی بھی جہنم کا شاخسانہ ہو گی اور مرنے کے بعد وہ سخت ترین جہنم میں داخل کر دیا جائے گا۔

خیر و شر  کی یہ تاریخی کشمکش جاری رہتی ہے اور پیغمبروں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے مگر زیادہ تر اقوام رب کی رہنمائی سے فرار اختیار کرتی ہیں اور رب کے قہر اور غضب کا شکار ہو جاتی ہیں درمیان میں بنی اسرائیل کو جنت کے مزے لوٹنے کا موقع تو ملا مگر انھوں نے بھی گنوا دیا ،پھر تاریخ داخل ہوتی ہے محمد ﷺ کے دور میں، جہاں وہ لوگوں کو اللہ کی جنت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور کہتے ہیں آؤ کہ میں تمھیں ایسی بات بتاتا ہوں جس کے مان لینے سے تم جو اسقدر لڑتے جھگڑتے ہو ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن جاؤ  گے ،قیصر و کسریٰ  تمہارے سامنے سر نگوں ہوں گے، امن کا یہ عالم ہو گا کہ حضرالموت سے ثناء  تک ایک عورت تن تنہا سفر کرے گی لیکن اسے درندے کے خوف کے علاوہ کسی انسان کا خوف نہیں ہو گا، مال و زر کا یہ  عالم ہو گا کہ مال بانٹنے والا باہر نکلے گا مگر لینے والا کوئی باقی نہ بچے گا، سب غنی ہوں گے ،تمھیں ایسی پاکیزہ عورتیں دستیاب ہوں گی جن کو کسی نے چھوا تک نہیں ہو گا، جن میں سے تین تین چار چار سے تم شادی کر سکو گے اور تاریخ شاہد ہے کہ عرب کے ریگستان سے اس قوم نے رب کی آواز پر لبیک کہا اور انھوں نے ریگستان کی اس خوف ناک جہنمی زندگی سے چھٹکارہ حاصل کر کے  اپنی زندگیوں کو جنت سے جلا بخشی، دنیا  پہ  حکمراں  ہو گئے اور تاریخ میں امر ہوئے ،مگر پھر وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی وہ جنت اس سے پھر کہیں کھو گئی وہ پھر جنت بدر ہو گیا۔ ٹھیک اپنے باپ آدم کی طرح۔ اب ہم ہیں اور یہ جہنم کی زندگی ہے جو اس فریب میں صبر سے ہم برداشت کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہمیں جنت ملے گی جو کہ رب کے نام پر اس مولوی نے ہمیں ورثے میں عنایت کی  ہے، کہ ہر کلمہ گو کو مرنے کے بعد بنا کسی تفریق کے مل جائے گی جبکہ رب نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا، ہم اس سے غافل ہیں کہ دنیا میں جنت کے حصول کی جدوجہد کے بغیر مرنے کے بعد کسی جنت میں جا داخل ہونا محض ایک دیوانے کا خواب ہے، جو دنیا میں رب کی جنت کے قیام کے بغیر ممکن ہی نہیں ،دنیا کو اپنے اعمال سے جہنم بنا کر بھلا کوئی کیونکر مرنے کے بعد کسی جنت میں داخل ہو گا ،حقیقت یہ ہے کہ تمھارا ٹھکانہ دنیا میں بھی جہنم ہے اور مرنے کے بعد تو تم اس سے بھی کہیں خوفناک جہنم میں داخل کر دیے جاؤ گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حرف آخر
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم مغرب میں کفار کے  ظلم پر قائم کردہ شدادی جنتوں کی طرف تو دوڑے چلے جاتے ہیں مگر ہم اپنی زمیں پر جنت کے قیام کا کبھی نہیں سوچتے وہ جنت جو عدل و انصاف اور رب کے معاشی، سیاسی اور سماجی نظام کے قیام سے ملے گی۔ یہ اس لیے ہے کہ خانقائیت نے ملائیت کا لباس پہن کر ہمارے اندرون کو تاریک سے تاریک تر کر دیا ہے، جھوٹ فریب اور قتل و غارت کا ایسا بازار گرم ہے کہ اسکے جہنم کی تپش نے ہماری روح تک کو جھلسا دیا ہے۔ فاقہ کشی اور تنگ دستی ہے، حتیٰ  کہ غلاظت بھرا گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں ہم، مولوی سے فقط اتنا پوچھ لو کہ کونسی جہنم سے ڈراتا ہے  وہ تمھیں ؟اس سے، جو اسکے نظریات کی بدولت دنیا میں قائم ہے ؟یا اس سے جو مرنے کے بعد ملے گی اور لازم ہے وہ یہی کہے گا کہ مرنے کے بعد ملے گی ،تو اس سے کہو ،اس جہنم کا کیا کریں جس سے ہم اس وقت دنیا میں نبرد آزما ہیں، مرنے کے بعد تو جس جہنم کا ڈر تم ہمارے دلوں میں بٹھاتے  ہو تمھارے بقول اس کا شکار تو ہم نہیں ہوں گے کیونکہ ہم کلمہ گو ہیں تو پھر اس سے کیا ڈرنا؟ آؤ ہم مل کر اس دنیا کو جنت بناتے ہیں ،مرنے کے بعد تو ہمیں جنت ویسے ہی مل جائے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply